Please Wait
7131
اس توهم کا سرچشمه ، ممکن هے درج ذیل تین امرهوں:
١- ائمه اطهار(ع) کے در میان فرق کا قائل هو نا –
٢-آغاز امامت کے وقت امام مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف کا کم سن هو نا –
٣-امام مهدی (عج)کی طولانی عمر-
اگر مذکوره سوال کا سبب پهلا امر هو تو کهنا چاهئے که: شیعوں کے اعتقاد کے مطابق باره کے باره امام ایک هی نور سے تعلق رکهتےهیں اور امامت کی شرائط کی رو سے ان کے در میان کسی قسم کا فرق نهیں هے – پس ان سب کا منبع ،پاک و مطهر اصلاب و ارحام هیں اور وه طفولیت کے سن سے لے کر زندگی کے آخری لمحه تک پاک و مطهر اور هر قسم کے سهو و خطا سے محفوظ هیں –
اگر سوال کا سر چشمه دوسرا امر هو ، تو بھی قابل توجه بات هے که حضرت مهدی(عج) کا کم سن هو نا، دوسرے لوگوں کی کم سنی کے مانند نهیں هے بلکه کم عمری سے هی عصمت الهی کے قلعه میں آپ (ع) کی حفاظت هو رهی هےاور آپ (ع) اس زمانه سے با لغ هو نے تک بھی هر قسم کے سهو و خطا اور گناه سے محفوظ تھے – آپ(ع) کی طولانی عمر ،کی وجه سے آپ (ع) پر کهولت اور جسمانی ، ذهنی اور روحانی فرسودگی طاری نهیں هوتی هے، که کمزوری اور پیری کی وجه سے آپ(ع) سهو و خطا اور عصیاں سے دو چار هو جائیں-
اس لئے آپ (ع) کے بارے میں گناه اور بهول چوک فرض کر نا، ایک غلط مفروضه هے اور تاریخ وسیرت کے منابع میں اس قسم کا کوئی واقعه نقل نهیں کیا گیا هے جو ان امور کے بارے میں شک وشبهه پیدا کر نے کا سبب بن جائے! لهذا ائمه اطهار علهیم السلام کا دوسرے لوگوں کے ساتھـ موازنه اور قیاس کر کے دوسروں کے احکام کو ان پر منطبق نهیں کیا جاسکتا هےـ
دوسرے ادیان اور فرقوں کے برخلاف ،شیعوں کا اعتقاد هے که انبیاء اور ائمه اطهار علیهم السلام اپنی پوری زندگی میں ، یعنی بچپن سے لے کر زندگی کے آخری لمحه تک معصوم هیں –
عصمت سے مراد، ایک خدا داد ملکه هے ،جوعلم غیب ، غیبی شهود اور قوی اراده کا نتیجه هو تا هے – عصمت کے سبب معصوم وحی کو سمجھنے ،پهنچانے اور نفاذ کر نے کے تمام مراحل میں هرقسم کی خطا ،بهول چوک اور گناه سے محفوظ هو تا هے ،خواه یه وحی انبیاء (ع) کے مانند بلاواسطه حاصل هو جائے یا ائمه اطهار (ع) کے مانند بالواسطه طور پر وصول هو جائے ، اس کامقصد ، کسی دخل وتصرف کے بغیر انسان کے اختیار میں قرار پاکر ھدایت الھی کا نافذ هو ناهے، جس کے نتیجه میں عام انسان کو انسانیت کی بلند یوں تک پرواز کر نا ممکن بن جاتاهے – عصمت کا یه مقصد اس وقت پورا هو سکتا هے جب زندگی کے تمام مراحل میں عصمت کا سلسله جاری هو ورنه نبی یا امام کے ولایی اور هدایتی منصب میں خلل پیدا هو کر لوگوں کے دلوں میں ان کی حیثیت گر جانے کا خدشه هو تا هے اوراس طرح صحیح وسالم اور بے لاگ وحی لوگوں تک نهیں پهنچ پائے گی یا غلط صورت میں بیان اور تفسیر هونے کے سبب هدایت کا اثر زائل هوجائے گا –
امام مهدی (عج) ، جن کی امامت مختلف راهوں سے ثابت هوچکی هے ، بهی اس قانون سے مستثنی نهیں هیں ، لهذا ان کی امامت کے لئے بھی ضروری هے که ولادت سے زندگی کے آخری لمحه تک هر دور میں وه عصمت کے حامل هوں اور ان کے فکر وعمل میں خطا واشتباه واقع هو نے کا مفرضه تک بھی نه گمان کیا جائے۔
حضرت مهدی(عج) کے مقام ومنزلت کو، خاص کر آپ(ع) کی عصمت و علم کا ادراک کر نا ممکن نهیں هے – اس لئے همیں اپنی بے بسی کا اعتراف کرتے هوئے ان کا عام لوگوں سے موازنه و مقائسه کر نے سے اجتناب کر نا چاهئے – امام علی (ع) فر ماتے هیں : " یقینا همارا امرمشکل اور سخت هے ، اسے کوئی برداشت نهیں کر سکتا هے ، مگر وه مومن جس کے دل کو خدا وند متعال نے غیب پر ایمان کے لئے آزمایا هو- اور همارے فر مودات کو کوئی قبول نهیں کرتا هے ، مگر امانتدار سینے اور برد بار عقلیں - " [1]اس سلسله میں حضرت(ع) مزید فر ماتے هیں :" اس امت میں سے کسی بھی شخص کا پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے خاندان کے ساتھـ موازنه نهیں کیا جاسکتا هے، وه اهل بیت پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی هدایت کی نعمت کے پرورده هیں، اس لئے دوسروں کے ساتھـ مساوی نهیں هو سکتے هیں ، کیونکه وه دین کی بنیاد اور یقین کے استوار اورمستحکم ستون هیں..." [2]
اسی سلسله میں حضرت امام رضا علیه السلام ایک طولانی حد یث میں فر ماتے هیں: "... امامت کی قدر بلند تر، منزلت عالی تر، مقام رفیع تر اور گهرائی اس سے عمیق تر هے که لوگ اپنی عقل سے اس تک پهنچ جائیں یا اپنی رائے سے اس کی حقیقت کو پاسکیں یا اپنے انتخاب سے کسی امام کو منصوب کر سکیں ... کیا تم لوگ خیال کرتے هو که امام کو خاندان رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے علاوه کهیں اور پایا جاسکتا هے ؟! ...یهاں پر امام کے فضائل وشان میں سے کسی ایک کی توصیف کر نے میں عقلیں متحیر ...فکریں بیکار، شعرا بے بس ، ادیب ناتوان اور اهل سخن مجبور اور ناچار هیں اور سب اپنی بے بسی اور ناتوانی کا اعتراف کرتے هیں -"[3] بھول چوک ، فراموشی اور گناه کے واقع هونے کا مفروضه یا انسان کے بچپن کے دور سے متعلق هے که بچه کم سنی کی وجه سے ابھی علم واراده میں ترقی نهیں کر پایا هے اور اپنی جهالت اور کمزوری کی وجه سے لغزشوں کا مرتکب هو تاهے ، یا عقل و اراده پر خواھشات اور حیوانی رجحانات کے غلبه پانے کی وجه سے ادهیڑ عمر کے دور سے متعلق هے اور یا روحانی و جسمانی ضعف و کمزوری کے نتیجه میں بوڑها پے سے متعلق هے – جبکه امام مدد الھی کے سبب ان تینوں مر احل میں امداد الهی سے محفوظ هو تا هے تاکه امت کی امامت ، رهبری اور زعامت کی ذمه داری کو احسن طریقه پر انجام دے سکے اور بچپن سے زندگی کے آخری حد در جه علم غیب اور اراده الهی کا حامل هو- اس لئے امام مهدی عجل الله تعالی فرجه الشریف کی امامت کا کم سنی (پنج سالگی) میں شروع هو نے کی وجه سے وه نابالغی کے زمانه کی ممکنه لغزشوں سے دو چار نهیں هو سکتے هیں-[4] آپ(ع) ،بلوغ کے دوران اور بوڑهاپے میں بھی، مبدا و معاد اور قوی اراده پر علم و یقین کی وجه سے خداوند متعال کی حمایت کے حامل هیں – اس لئے آپ (ع) اپنے اختیار سے کسی بھی قسم کے اشتباه اور گناه کے عمدا یاسهوا مرتکب نهیں هوتے هیں – آپ(ع) کی عمر مبارک ایک هزار سال سے زائد هونے کے بعد بھی آپ (ع)کی عقل و ایمان اور جسم پر کسی قسم کی سستی اور کهالت طاری نهیں هوسکتی هے – کیونکه ،جیسا که بیان کیاگیا ، آپ (ع) کا دوسروں کے ساتھـ موازنه نهیں کیا جاسکتا هے – اس کے علاوه بهت سی ایسی احادیث موجود هیں جو اس امر کی دلالت کرتی هیں که آپ(ع) ظهور کے وقت بھی (اگر چه مزید سیکڑوں سال تاخیر هو) ٤٠ سال کی عمر میں اور ایک شاداب وزنده دل جوان کے مانند هوں گے-" [5]
سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں اور غیبت کبری میں بعض انسانوں کو آپ(ع) کی شرف بار یابی حاصل هو نے کے دوران بھی کوئی ایسا واقعه رو نما نهیں هوا هے که، جو آپ(ع) کے عمدا یا سهوا اشتباه کی دلیل پیش کرے – تاکه هم اس کا جواب د یں ، بلکه مذکوره مطالب کے پیش نظر اس قسم کی رپورٹ کا ملنا مستقبل میں بھی محال هے-
امام رضا علیه السلام سے نقل کی گئی ایک دعا میں هم پڑھتے هیں: " اللهم ادفع عن ولیک ..." بیشک وه ( امام زمانه عجل الله تعالی فرجه الشریف) تیرا بنده هے که تو نے اسے اپنے لئے اور اپنے غیب سے مطلع کر نے کے لئے منتخب کیا هے ، اسے گناهوں سے محفوظ رکھا هے، اسے عیب و نقص سے منزه کیا هے ، اسے هر قسم کی لغزش سے محفوظ رکها هے اور هر ناپاکی سے پاک و پاکیز ه کیا هے – پروردگارا ! قیامت کے دن هم ان کے لئے شهادت دیں گے که بیشک وه کسی گناه کے مرتکب نهین هوئے هیں ، کسی بھی قسم کے حرام کے لئے اقدام نهیں کیا هے، کسی معصیت کے مرتکب نهیں هو ئے هیں ، کسی اطاعت کو ضائع نهیں کیا هے، کسی کی هتک حر مت نهیں کی هے ، کسی فریضه میں تبدیلی نهیں لائی هے اور تیری شریعت میں تبدیلی پیدا نهیں کی هے اور بیشک وه ایک ایسے هدایت کر نے والے ھیں جنھوں نے (تیرے هاتھوں) هدایت پائی هے ، وه پاک طینت، پرهیز گار ، عیب و نقص سے منزه، کمالات سے آراسته هیں، تو ان سے راضی هے اور وه پاک و پاکیزه هیں..."
چنانچه هم کلی طور پر تمام ائمه اطهار علیهم السلام کی نسبت، توحید و نبوت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد اس قسم کی شهادت دیتے هیں : " اور شهادت دیتا هوں که آپ امام ،رهنما، هادی، معصوم، محترم، بار گاه الهی کے مقرب، پرهیز گار، سچے ، منتخب، خدا کے مطیع ، خدا کے امر پر عمل کر نے والے ، اس کے اراده کے مطابق عمل کر نے والے اور نجات یافته هیں – خداوند متعال نے آپ(ع) کو اپنے علم کے لئے منتخب کیا هے اور غیب سے مطلع هو نے کے سلسله میں آپ سے راضی هوا هے، اپنے اسرار سے واقف کر نے کے لئے آپ کو منتخب کیا هے اور آپ کو اپنی قدرت سے بر تری بخشی هے اور هدایت کر کے آپ کو محبوب بنایا هے ... اور اس پر راضی هوا هے که آپ روئے زمیں پر اس کے جانشین هوں... خدا نے آپ کو لغزشوں سے محفوظ رکھا هے ، اور آپ اهل بیت (ع) سے عیب ونقص کو دور کیا هے اور آپ کو خاص تطهیر سے پاک و منزه بنایا هے-"[6]
پرور دگارا ! صرف توهی غموں اور مصیبتوں کو دور کر نے والاهے اور اگر کوئی مضطرب تجھـ سے دعا مانگے تو اس کی دعا توهی قبول کرتا هے اور اسے گر فتوں اور مشکلات سے نجات دلانے والا بھی توهی هے- پس اپنے ولی کی مشکلات کو دور فرما اور اسے اپنے وعده کے مطابق زمین پر اپناخلیفه قرار دے اور همیں اپنے پیغمبر کے اهل بیت (ع) کے دشمنوں،اور ان سے بغض و عناد رکھنے والوں میں قرار نه دے ، اس سلسله میں هم تجھـ سے پناه چاهتے هیں ، پس همیں نجات بخشدے – پروردگارا ! محمد اور آل محمد پر درود وسلام هو اور همیں د نیا وآخرت میں نجات یافته اور اپنی بار گاه کے مقرب بندے قرار دے - آمین یا رب العالمین-"
منابع وماخذ:
١- حرانی، حره بن علی، ترجمه، احمد حبشی، تحف العقول-
٢- سید رضی، ترجمه، محمد دشتی، نھج البلاغه-
٣- صافی، لطف الله، منتخب الاثر-
٤- قمی ، شیخ عباس، مفاتیح الجنان-
٥- کیا شمشکی ، ابوالفضل، ولایت در عرفان ـ
٦- مختاری مازندرانی، محمد حسین، امامت و رهبری-