Please Wait
6618
١- پهلا سوال"میں" کے معنی کے بارے میں هے- بهت سے مذاهب میں "میں" ایک مخلوق هے جس کانام "روح "هے، جو مر نے کے بعد باقی رهتی هے – لیکن فزیکس میں یه ایک "حافظه " هے جو ایٹموں سے تشکیل پایا هے اور مر نے کے بعد یه ایٹم نابود هو تے هیں – پس باقی بچی روح میں حافظه کے ایٹم نهیں هو ں گے اور اس قضیه کے لئے بهت سے دلائل پیش کئے گئے هیں – اس سلسله میں اسلام کا نظریه کیا هے؟ البته یه قبول کر تا هوں که جسے هم روح کے نام سے یاد کرتے هیں ، وه ایک مجرد مخلوق هے!اس لئے حافظه کے ایٹم کی محتاج نهیں هے – حافظه کے ایٹم اوردوسرے اجزا روح کی خد مت میں صرف اعدادی عوامل شمار هو تے هیں-
٢) آپ کی نظر میں، کیا انسانی علم کے متعلقات اس کے جزو هیں؟ پس اگر دو شخص ایک هی چیز کے بارے میں معلومات حاصل کریں، تو کیا وه چیز ان دونوں کے اندر موجود هے؟ اس صورت میں مثال کے طور پر ایک جرم کے لئے ان دونوں میں سے کس شخص کوسزا ملے گی؟
٣) فزیکس میں هر مخلوق کے " خط سیر" یا" خط فضا" کو اس مخلوق کا "ردکیهانی" ( خط کائنات) یا world line کودکها یا جاسکتا هے... شاید بهتر هوگا که هم"میں" کو ایک نمونه یا ایک خاص قالب جان لین جو" میں" نامی بدن میں داخل هونے والے ایٹموں کو منظم هونے کا ذمه دار هے.اس تعبیر کے مطابق هر انسان کو مینکوفسکی ڈیاگرام (خاکه) میں موجود کائنات کالچھا سمجھا جاسکتا هے. کیا آپ اس سے اتفاق کرتے هیں؟ کیا ماده هے؟ کهاں پر هے؟ کهاں سے هدایت هوتا هے؟ کیا شعور رکهتا هے؟ یا تصادفااور اتفاقی طور پر منظم هے؟ اس قسم کے خاکه سے چند حیرت انگیز نکات کا استنباط کیا جاسکتا هے. پهلا نکته یه که کسی بھی مخلوق کا ایک مستقل بدن نهیں هے، کیونکه هر بدن کے اجزا دوسرے بدن میں منتقل هوتے رهتے هیں. دوسرا نکته یه هے که اس کائنات کی تمام مخلوقات ایک دوسرے سے وابسته هیں اور کسی بھی مخلوق کا الگ سے کوئی معنی نهیں هے، کیونکه وجود نهیں رکھـ سکتے هیں. هر رو داد( حتی سانس لینا اور غذا کهانا) تمام مخلوقات کو ایک عظیم لچھے کے تانے بانے میں پیوند دیتی هے. یه ایک ناقابل اجتناب حقیقت کی حکایت هے اور وه یه که عالم ایک مخلوق ، متحد اور فضائے عظیم کائنات کے ایک زمان پر مشتمل هے که اس میں سب ایک دوسرے کے مقدر پر موثر هیں. ایک مخلوق جس قدر بهی اپنے آپ کو تنها اور دوسرے سے جدا احساس کرے پھر بھی هرگز اس آپس میں پیچیده مجموعه سے جدا نهیں هے. دوسرا نکته یه که ضروری نهیں هے که هم خود کو ایسی خلیوں کا مجموعه جان لیں جو سرانجام موت سے دوچارهوتی هیں. بهتر هے که هم خود کو کائنات کا لچها جان لیں جس کی عمر کائنات کی عمر کے برابر هے. اس بنا پر مرگ کا کوئی خاص معنی نهیں هوگا اور کوئی وجه نهیں هے که هم اسے ایک خوفناک مظهر تصویر کریں. اگر اس بدن کے اجزا دائما کائنات کے لچھے کے طور پر باقی رهیں، پهر موت کیا هے؟ بهتر هے که هم اپنے مقدر کو تمام کائنات کے مقدر سے پیوست کریں که بهت سے لوگوں کے اعتقاد کے مطابق ایک عالم ازلی هے اورهم خود کو ازلی جان لین.
٤) آخر پر یه که کیا کائنات ازلی هے یا نهیں؟ کیا بهت سے لوگوں کا اس پر اعتقاد رکھنا اس مطلب کے لئے برهان یقین کا سبب بن سکتا هے؟
١- اسلام کے مطابق "میں" ایک ایسی حقیقت هے جو بدن کے منافی هے – قرآن مجید کی چندآیات ،جیسے سوره حجر کی آیت ٢٩ ،سوره مومنوں کی آیت ١٤،سوره انعام کی آیت ٩٣، سوره حشر کی آیت ١٩اور سوره شمس کی آیت ٧و٨اس معنی وحقیقت کی تائید کرتی هیں- ٢- فلسفه ارسطوکے مانند، انسان جسم و روح کا مرکب نهیں هے بلکه وهی روح هے جو ماده کے ساتھـ هے-
٣- قرآن مجید جب موت کی بات کرتا هے تو لفظ "توفی" سے استفاده کر تا هے ، جس کے معنی کسی کمی بیشی کے بغیر کسی چیز کو حاصل کر ناهیں – اس قسم کی آیات یه نکته بیان کر تی هیں که انسان کی حقیقت اس کا وهی غیر مادی پهلو هے اور اسی پهلو کی روشنی میں نابود نهیں هوتا هے بلکه کسی کمی بیشی کے بغیر خداوند متعال کے غیبی مامورین کے اختیار میں قرار پاتا هے-
٤- روح جسمانیه الحوادث هے- یعنی ماده کے تکامل کی پیداوار هے لیکن ایک مجرد مخلوق هے-
٥- خط سیریا فضا- زمانه کی لائن کے مفروضه کو قبول کر نا اور اسے مینکو فسکی کے ڈایا گرام (خاکه)کے ذریعه بیان کر نا اس امر کو ثابت نهیں کرتا هے که روح، بدن میں داخل هو نے والے اٹیموں کو نظم بخشنے کا ایک قا لب هے – اگر چه علمی اور تجرباتی مطالب"اصل موضوعه" کے عنوان سے هیں ان کا باطل یا ثابت هو نا فلسفه کے اجمالی قواعد میں کسی قسم کا خلل پیدا نهیں کر تا هے-
٦-اس دنیا کی مخلوقات کی آپس میں وابستگی اور ایک دوسرے پر اثر ڈالنا ایک قابل قبول امر هے اور نظام هستی ،نظام علت و معلول هے، لیکن اس کے یه معنی نهیں هیں که هر چیز ، هر ایک چیز میں اثر ڈالتی هے-
٧- اگر عالم ازلی هو نے سے مراد، مادی عالم هے ، تو اس کے ازلی هو نے کی کوئی دلیل موجودنهیں هے ،لیکن اگر مراد فیض الهی هے ،تو یقیناً فیض الهی ازلی هے لیکن اس کا لازمه عالم فطرت کا دائمی هو نا نهیں هے-
٨- کسی ایک موضوع پر بهت سے لوگوں کا اعتقاد ،اس کے یقینی اور حقیقی هو نے کی دلیل نهیں بن سکتی هے – ممکن هے یه موضوع کسی فرد کے لئے ظن یا نفسیاتی اطمینان پیدا هو نے کا سبب بنے، لیکن هرگز منطقی و استدلالی قطع و یقین کا سبب نهیں بن سکتا هے جو هر قسم کے احتمال خلاف کی نفی کرتا هے-
آپ کا سوال چند موضوعات پر مشتمل هے ،اور هم مسائل کو الگ الگ کر کے هر ایک کے بارے میں اپنانظریه پیش کریں گے:
١-دینی کتابوں کا گهرا مطالعه کر نے کے بعد همیں"میں" کے بارے میں بعض حقائق معلوم هوتے هیں ، جن کے نتیجه میں هم حسب ذیل موارد کے بارے میں اسلامی نظریه کو خلاصه کے طور پر پیش کر سکتے هیں:
الف) اسلام کے مطابق"میں" ایک حقیقت هے جو بدن کے منافی هے اور ان فلاسفه کے نظریه کی تائید کر تی هے ،جو یه کهتے هیں که: حقیقت"میں" ایک جوهر هے ، جو ماده سے منزه اور مجرد هے اور حر کت،احساس، تدبر اور تفکر کا سر چشمه هے٠ [1]
قرآن مجید کی بعض آیات، جیسے: سوره حجر کی آیت ٢٩،سوره مومنوں کی آیت ١٤، سوره انعام کی آیت ٩٣، سوری حشر کی آیت ١٩، اور سور شمس کی آیت ٧ اور ٨ اس حقیقت کو بیان کر تی هیں-
ب)فلسفه ارسطو کے مانند، انسان ،جسم و روح کا مر کب نهیں هے [2]، بلکه وهی روح هے جو ماده کے همراه هے-
قرآن مجید جب موت کی بات کرتا هے تو لفظ "توفی"[3] سے استفاده کرتا هے –اور "توفی" ماده"وفی"سے هے اور اس کے معنی کسی چیز کو کمی بیشی کے بغیر حاصل کر نا هیں-" توفیت المال" یعنی میں نے مال کو کمی بیشی کے بغیر حاصل کیا اس قسم کی آیات اس مطلب کو بیان کر تی هیں که انسانیت کی حقیقت کا وهی غیر مادی پهلو هے اور اسی پهلو کی روشنی میں وه نابود نهیں هوتا هے اور کسی کمی بیشی کے بغیر خداوند متعال کے غیبی ما مورین کے اختیار میں قرار پاتا هے-
سوره سجده کی آیت ١١ میں آیا هے:" قل یتوفکم ملک الموت الذی وکل بکم ثم الی ربکم تر جعون-" آپ کهدیجئے که تم کو وه ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پهنچائے گا جو تم پر تعینات کیا گیا هے اس کے بعد تم سب پروردگار کی بار گاه میں پیش کئے جاٶ گے –" چونکه اس آیت میں دو جملوں میں "کم" آیا هے نه که "بعضکم" اس لئے اس سے یه مطلب سمجھا جاسکتا هے که انسانوں کی حقیقت (کم) وهی هے جسے روح کو قبض کر نے والافرشته اخذ کر تا هے ورنه بدن اور اس کے اعضاء رفته رفته ختم ھوتے هوتے هیں اور انهیں کهیں کسی کے حواله نهیں کیا جاتا هے-[4]
ج)روح جسمانیه الحودث هے، یعنی ماده کے تکامل کی پیداوار هے،یه مطلب، انسان کی خلقت کے مراحل بیان کر نے والی قرآن مجید کے سوره مٶمنون کی آیت ١٤ سے قابل استنباط هے،[5] یعنی انسان ابتدائی دن سے مادی و جسمانی تھا اور ماده کے تحول کے نتیجه میں مجرد بن کر ایک دوسری خلقت پاچکا هے جو اس کے گزشته تکامل کے مشابه نهیں هے ، بلکه بے روح ماده مدرک قادرموجود کی صورت اختیار کر تا هے-
د) اسلام کے مطابق روح ایک مجرد امر هے-
البته یه نکته قابل قبول هے که موت سے اور مغز واعصاب کے نابود هو نے سے دنیوی شعور خلل هو تا هے ، لیکن اس کے یه معنی نهیں هیں که اس کی روح کے،خیالی اور وهمی ادراکات بھی نابود هو تے هیں، کیو نکه جو هری حر کت سے ، روح تجرد مثالی کے درجه پر پهنچ کر مر نے کے بعد باقی رهتی هے اور اس دنیا کی نسبت ایک قوی تر وجود کی مالک بنتی هے –بلکه یه اس مطلب کا ثبوت هے که مغز وغیره روح کے اوزار اور وسائل محسوب هو تےهیں اور اس مادی دنیا میں روح کی فعالیت ان وسائل کے بغیر ممکن نهیں هے- فلاسفه نے تجرد روح کے سلسله میں متعدد دلائل پیش کئے هیں، هم اختصار کے پیش نظر ان کو بیان کر نے سے صرف نظر کر تے هیں ، لیکن اس سلسله میں اسلام کے نظریه کے بارے میں ایک اشاره کر تے هیں:
سوره سجده کی آیت نمبر١٠ اور١١ کے یه معنی هیں که اگرچه مر نے کے بعد آپ کا بدن زمین میں نابود اور پراکنده هو تا هے، لیکن آپ کی ایک چیز هر گز نابود نهیں هوتی هے اور همیشه محفوظ هے اور وه آپ کی روح هے، جسے اخذ کر نے کی ماموریت ملک الموت کو هے –یا سوره زمر کی آیت ٤٢ میں آیا هے :" الله یتوفی الانفس..."
اب یه کهنا چاهئے که کیا مادی مخلوق ایسی هے که موت کے بعد محفوظ رهے اور پراکنده نه هو جائے اور...؟ قطعاً ایک مادی مخلوق ایسی نهیں هے اور اگر مر نے کے بعد انسان کے بدن سے کوئی چیز باقی رهتی هے ، وه اس کے بدن کے اجزا هیں اور روح کو کیسے وهی پراکنده اجزا مانا جاسکتا هے، جبکه دوسری آیات میں انسان کے مر نے کے بعد ایک قسم کی زندگی کے اعمال ، جیسے فرشتوں سے گفتگو اور آرزو و تقاضا [6]وغیره کی انسان سے نسبت دی گئی هے- کیا فطرت میں پر اکنده هوئے اجزا اس قسم کا کام انجام دے سکتے هیں ؟ اس لئے کهنا چاهئے که انسان کی پوری حقیقت اس کی روح هے جو مر نے کے بعد ملک الموت کے اختیار میں قرار پاتی هے ، اور اس کے محفوظ رهنے کی سند اور... اس کے تجرد کی دلیل هے-[7] روح کو اس دنیا میں آماده کر نے کی علت (یعنی حافظه) کے نابود هو نے سے ،روح اور اس کی یاد دهانی اور حافظه پر کوئی خلل نهیں پڑتا هے-
٢- اگر متعالی فلسفه میں کها جاتا هے که عالم، معلوم اور علم ایک جیسے هیں ، یه معلوم بالذات (جو حقیقت میں انسان کے لئے حاضر هے)، یعنی ممکن هے معلوم بالفرض اور شے خارجی کا وجود عینی واحد هوں،لیکن معلوم بالذات اور معلوم ذهنی کا ادراک کر نے والے (مدرک) افراد کے تعدد کے لحاظ سے متعدد هوں-[8]
٣- خط سیر یا فضا- زمان کی لائن کے مفروضه کو قبول کرنا اور اس کو مینکو فسکی کے ڈایا گرام (خاکه)کے ذریعه بیان کر نا اس امر کو ثابت نهیں کرتا هے که روح، بدن میں داخل هو نے والے ایٹموں کو نظم بخشنے کا ایک قالب هے، اس کے علاوه مینکو فسکی کے خاکه (ڈایا گرام)اور انسان کے کائنات کا لچھا هو نے کے سلسله میں مزید تفصیلات بیان کر نے کی ضرورت هے- اگر چه مطالب علمی وتجرباتی اصول موضوعه کے عنوان سے هیں- اور ان کا باطل یا ثابت هو نا فلسفه کے کلی قواعد میں کوئی خلل نهیں ڈال سکتا هے-
٤- اس سے مراد یه هے که جس بدن سے روح خارج هو چکی هے اور وه بدن دوسرے ابدان کے لئے غذا بن جاتا هے ،اس کو قبول کرنا آپ کی مدنظر چیز کو ثابت نهیں کرتا هے – اور اگر آپ کی مراد تناسخ هے، یعنی اس دنیا میں روح ایک بدن سے دوسرے بدن، جو پهلے بدن کا مباین هے ، منتقل هو تی هے ،مثلاً ایک حیوان مر جاتا هے اور اس کی روح دوسرے حیوان یا غیر حیوان میں منتقل هو تی هے ، تو یه اپنی جگه پر ثابت هو چکا هے که تناسخ کی تمام اقسام باطل هیں-[9]
٥-اس دنیا کی مخلوقات کی آپس میں وابستگی اور ان کا ایک دوسرے پر اثر اندازهو نا ایک قابل قبول امر هے اور فلسفی مباحث میں کها جاتا هے که: نظام هستی ایک علی و معلولی نظام هے اور کوئی معلول اپنی علت سے پهلے اور کوئی علت اپنے معلول کے بعد پائی نهیں جاتی هے اور اگر چه وه آپس میں ایک ساتھـ هیں، لیکن علت کے در جه پر تقدم محفوظ هے –اور یه هر چیز کے هرچیز پر اثر انداز هو نے کے معنی میں نهیں هے –
بهر حال هستی کے مراتب تسبیح کے دانوں کے مانند قابل تقدم و تاخیر نهیں هیں، بلکه سلسله اعداد کے مانند هیں که ان کے اجزا میں سے کوئی جزو اس کے مقام کی نسبت قابل تقدیم یا تاخیر نهیں هے-
عر فان میں بھی کها جاتا هے که تجافی محال هے اور اسمائے الهی میں سے هر ایک اپنے خاص مقام پر اعتبار رکھتے هے اور اسے تو قیفیت اسمائے الهی کے نام سے یاد کیا جاتا هے اور تمام موجودات ،آیات الهی اور مظهر اسمی میں سے هر ایک اسمائے الهی میں سے هیں-[10]
٦- کائنات کی فضا- زمانه کے ایک حصه کو شمار کر نے سے کیسے ثابت کیا جاسکتا هے که هم موت سے دوچار هو نے والے نهیں هیں؟ انسان کے اجزا وغیره کا باقی رهنا انسان کی بقا کی دلیل نهیں هو سکتی هے ، مگر یه که کها جائے که انسان کی شخصیت اس کی روح سے مر بوط هے اور روح مجرد هے اور مادی بدن میں تغیر و تبدل اور بدن کے اجزا کا بکھر جانا روح کی بقا پر کوئی اثر نهیں ڈالتا اور اس لحاظ سے انسان نهیں مرتا هے بلکه ایک جگه سے دوسری جگه منتقل هو تا هے-
٧- اس فرضیه کوقبول کر نے سے که هماری تقدیر پورے عالم کی تقدیر سے جڑی هوئ هے، موت کے وحشتناک نه هو نے کو ثابت نهیں کیا جاسکتا هے- موت کے بارے میں وحشت نه هو نے کا انحصار اس پر هے که انسان جان لے که مر نے کے بعد اس کی شخصیت باقی رهتی هےنه یه که اس کے بدن کے اجزا میں سے هر ایک ،ایک جگه پر باقی رهے...
٨- یه که آپ نے پوچھا هے که کیا عالم ازلی هے؟ اگر آپ کی مراد مادی دنیا هے تو اس کے ازلی هو نے کی همارے پاس کوئی دلیل موجود نهیں هے اور چونکه اس عالم کا مجموعه ماورائے اجزا کوئی چیز نهیں هے اور دوسری طرف سے هر جز و حادث و معدوم هو نے والا هے ، اس لئے اس کا مجموعه بھی حا دث هے – لیکن اگر آپ کی مراد فیض الهی هے، تو کهنا چاهئے که فیض الهی اور اس کا عطیه ازلی هے، لیکن اس کا لازمه مادی عالم کا دائمی هونا نهیں هے-[11]
٩- لیکن یه که کیا بهت سے لوگوں کا اعتقاد یقین کرنے کے لئے بر هان بن سکتا هے؟ اس کا جواب یه هے که، نهیں ، کیونکه صرف یه که لوگوں کی ایک بڑی تعداد ایک موضوع کے بارے میں اتفاق رکھتی هو ، ممکن هے ایک شخص کے لئے ظن یا نفسیاتی اطمینان پیدا هو نے کا سبب بن جائے ، لیکن اس قسم کا امر کسی بھی صورت میں منطقی اور بر هانی قطع و یقین کا سبب نهیں بن سکتا هے جو هر قسم کے مخالف احتمال کی نفی کر سکے- خاص کر جبکه اصل مفرو ضه یا نظریه رد کیهانی (wbrld line)کے بارے میں بحث کر نے کی کافی گنجائش هے-
[1]- ملاحظه هو: شرح الاشارات ،ابن سینا،ج٢،ص ٢٨٩- ٣٠٨-
[2] - روح روان کے بارے میں افلاطون کے نظریه کے سلسله میں ملاحظه هو:تاریخ فلسفه ی یونان و روم،ج١،کاپلستون ،ص٢٣٩- ٢٤٨،نظریه ارسطو کے سلسله میں ملاحظه هو: شرح الاشارات ابن سینا ،ج ٢،ص٢٨٩-٣٠٨- ایضاً ،ص٣٧٣-٢٧٨--
[3] - یه تعبیر قرآن مجید میں چوده بار آئی هے -
[4] - سوره زمر کی آیت ٤٢ میں آیا هے:" الله یتوفی الانفس حین موتها..." اور سوره انعام کی آیت ٦٠ میں آیا هے :" هوالذی یتوفاکم ..." البته یه که انسان وهی روح هے، قرآن مجید کی دوسری آیات سے بھی قابل استفاده هے – مثال کے طور پر سوره انسان کی آیت ١ میں آیا هے: " هل اتی علی الانسان حین من الدهر لم یکن شیئا مذکورا"اور اس کے پیش نظر که کها جاسکتا هے اگر چه روح پهونکی جانے سے پهلے انسان نے کچھـ مراحل ،جیسے،نطفه،علقه وغیره کزارے هیں لیکن ان کی کوئی خاص اهمیت نهیں تھی -
[5] - فلاسفه کے در میان ملاصدرا نے اس آیت اور دوسری آیت سے الهام حاصل کر کے نفس (روح) کے بارے میں اس قسم کا نظریه پیش کیا هے-ملا حظه هو: ج٨،اسفار،ص٣٣٠، شواهد الر بوبیه ،ص٢٢١- ٢٢٣-
[6] - سوره نسا ،٩٧،سوره سجده،١٠و١١ -
[7] - مزید مطالعه کے لئے ملاحظه هو: کتاب اصالت روح از نظر قرآن ،جعفر سبحانی،ص١٦-٤٦-
[8] - مزید مطالعه کے لئے ملاحظه هو: آموزش فلسفه ،ج٢،نصباح یزدی ، ص٢٣٠- ٢٤٠، شرح منظومه ،شهید مطهری ،ج٢،ص٩-٥٨-
[9] - البته تناسخ دو دو اور قسموں میں بھی فرض کیا جاسکتا هے جو باطل نهیں هیں اور قرآن مجید کی آیات ان کی تائید کر تی هیں: الف: روح کا اس بدن سے اخروی بدن میں منتقل هو نا که یه بدن اخروی ان صفات و اخلاق کے متناسب هے که روح نے دنیا میں حاصل کیا تھا-ب: باطن کا مسخ هو نا اور ظاهری صورت کا باطنی صورت میں تبدیل هونا-
[10] - ملاحظه هو: تحریر تمهید القواعد، آیت الله جوادی آملی،ص٤١٦- ٢٣٤-
[11] - ملاحظه هو: قبسات ،ص٣٢، تعلیقه بر نهایه الحکمه، ج٢،مصباح یزدی ،ص٤٠٤- ٤٠٥، نهایه الحکمه، علامه طباطبائی ،ص٣٢٣-٣٢٦-