Please Wait
19162
لفظ "سلیم"، "سلم" و "سلامت" سے ہے اور اس کے معنی ظاہری و باطنی آفتوں سے دور رہنا ہے۔
امام صادق{ع} نے اس لفظ سےمراد کے بارے میں فرمایا ہے کہ: " قلب سلیم، ایک ایسا دل ہے جو اپنے پروردگار سے اس حالت میں ملاقات کرتا ہے کہ اس کے سوا اس میں کوئی اور نہ ہو۔"
قرآن مجید کے مفسرین نے بھی قلب سلیم کے لیے متعدد تفسیریں کی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں اس مسئلہ کے ایک پہلو کی طرف اشارہ ہے، مثال کے طور پر، قلب سلیم وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو یا وہ دل جو گناہ، کینہ و نفاق سے پاک ہو یا وہ دل جو دنیوی عشق سے عاری ہو، کیونکہ دنیا کی محبت تمام خطاوں کا سرچشمہ ہے۔ اور سرانجام وہ دل جس میں خدا کے سوا کوئی اور نہ ہو۔
قرآن مجید کے الفاظ میں سے ایک لفظ "قلب سلیم" ہے ، یہ ایک انتہائی خوبصورت اور بامعنی لفظ ہے۔ لفظ "سلیم" ، "سلم" و "سلامت" سے ہے اور اس کے معنی ظاہری و باطنی آفتوں سے دور رہنا ہے[1]۔
قلب سلیم کی دلچسپ اور بہترین تعریف حضرت امام صادق{ع} نے کی ہے کہ فرماتے ہیں: "الْقَلْبُ السَّلِیمُ الَّذِی یلْقَىرَبَّهُ وَ لَیسَ فِیهِ أَحَدٌ سِوَاهُ[2]" یعنی، قلب سلیم، ایک ایسا دل ہے جو اپنے پروردگار سے اس حالت میں ملاقات کرتا ہے کہ اس کے سوا اس میں کوئی اور نہ ہو۔"
ایک دوسری روایت میں امام صادق{ع} فرماتے ہیں: " صاحِبُ النِّیةِ الصّادِقَةِ صاحِبُ الْقَلْبِالسَّلِیمِ، لِأَنَّ سَلامَةُ الْقَلْبِ مِنْ هَواجِسِ الْمَحْذُوراتِبِتَخْلِیصِ النِّیةَ لِلّهِ فِى الاُمُورِ كُلِّها"[3] " جس کی نیت صادق ہو، وہ قلب سلیم کا مالک ہے، کیونکہ دل کا شرک و شک سے پاک ہونا ، تمام چیزوں میں نیت کو خالص بناتا ہے۔" اس بنا پر امام صادق{ع} پاک اور خالص نیت رکھنے والوں کو قلب سلیم کے مالک جانتے ہیں۔
قلب سلیم کے بارے مِں اتنا ہی کافی ہے کہ قرآن مجید نے اسے قیامت میں نجات پانے کا تنہا سرمایہ شمار کیا ہے۔ چنانچہ سورہ "شعراء" میں ارشاد ہوا ہے: "یوْمَ لا ینْفَعُ مالٌ وَ لا بَنُونَ* إِلاَّ مَنْ أَتَى اللَّهَ بِقَلْبٍ سَلیمٍ"،[4] " جس دن مال اور اولاد کوئی کام نہ آئے گا، مگر وہ جو قلب سلیم کے ساتھ اللہ کی بارگاہ میں حاضر ہو۔"
قرآن مجید کے مفسرین نے بھی قلب سلیم کے لیے متعدد تفسیریں کی ہیں کہ ان میں سے ہر ایک میں اس مسئلہ کے ایک پہلو کی طرف اشارہ ہے:
۱۔ قلب سلیم، وہ دل ہے جو شرک سے پاک ہو۔
۲۔ قلب سلیم، وہ دل ہے جو گناہ ، کینہ اور نفاق سے پاک ہو۔
۳۔ قلب سلیم، وہ دل ہے جو دنیوی عشق سے عاری ہو، کیونکہ دنیا کی محبت تمام خطاوں کا سرچشمہ ہے۔
۴۔ سرانجام، قلب سلیم، وہ دل ہے، جس میں خداوندمتعال کے سوا کوئی اور نہ ہو؛
جیسا کہ بیان کیا گیا، "سلیم"، مادہ "سلامت" سے ہے اور جب مطلق سلامت کی بات کی جاتی ہے تو سلامتی ہر قسم کی اخلاقی و اعتقادی بیماری سے سلامتی پر مشتمل ہوتی ہے۔
اس بنا پر قلب سلیم رکھنے والے کا دل اس دنیا میں بھی غیر خدائی امور سے خالی ہوتا ہے، کیونکہ نفسانی خواہشات، اقتدار کی پیاس، زیادہ خواہی، اخلاقی برائیاں وغیرہ جیسے امور قلب سلیم سے کوئی مناسبت نہیں رکھتے ہیں۔
مختصر یہ کہ قلب سلیم، ایک ایسا دل ہے، جس میں کسی قسم کی غیر خدائی وابستگی نہ پائی جاتی ہو اور وہ دل خداوندمتعال کی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہو۔ جیسا کہ ہم دعا میں پڑھتے ہیں: " الهی هب لی كمال الانقطاع الیك" " خداوندا؛ مجھے تمام چیزوں سے رابطہ منقطع کر کے اپنی طرف پلٹنے کی سعادت عطا فرما۔"
اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لیے آیت اللہ شہید دستغیب کی کتاب "قلب سلیم" کا مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔
[1]راغب اصفهانی، مفردات الفاظ قرآن کریم، ماده "سلم".
[2]کلینی، کافی، ج 2، ص 16، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1368ھ ش.
[3]مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 67، ص 210، موسسه الوفاء، بیروت، 2404 ھ.
[4]شعراء، 88، 89.