اعلی درجے کی تلاش
کا
8106
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2012/04/05
سوال کا خلاصہ
کیا قرآن مجید کی یہ آیتیں:"عَفَا اللَّهُ عَنْكَ لِمَ أَذِنْتَ لَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذينَ صَدَقُوا وَ تَعْلَمَ الْكاذِبينَ"اور «يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّهُلَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ" پیغمبراکرم{ص} کی عدم عصمت کی دلیل پیش کرتی ہیں؟
سوال
سورہ توبہ کی آیت نمبر۴۳ میں ارشاد ہوا ہے:"عَفَا اللّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَلَهُمْ حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُواْ وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ" اور سورہ تحریم کی آیت نمبر ۱ میں ارشاد ہوا ہے:"يا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ ما أَحَلَّ اللَّهُ لَكَ تَبْتَغي‏ مَرْضاتَ أَزْواجِكَ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحيمٌ"۔ مہربانی کر کے مذکورہ دو آیتوں کی تفسیر بیان فرمائیے، کیونکہ ان دو آیتوں کے پیش نظر وہابی کہتے ہیں کہ پیغمبراکرم{ص} معصوم نہیں ہیں اور صرف تبلیغ و رسالت میں معصوم ہیں، ان کے بقول پہلی آیت دلالت کرتی ہے کہ پیغمبراکرم{ص} گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں اور دوسری آیت دلالت کرتی ہے کہ پیغمبراکرم{ص} اپنی بیویوں کی اطاعت کرتے تھے اور اسی وجہ سے آپ{ص} نے خدا کے حلال کو حرام قرار دیا۔
ایک مختصر

سورہ توبہ کی آیت نمبر۴۳ کے بارے میں ، تفصیلی جواب میں بیان کے گیے عناوین کا مطالعہ فرمائیے:

سورہ تحریم کی پہلی آیت میں، تحریم سے مراد، شرعی تحریم نہیں ہے، کیونکہ جملہ "لِمَ تُحَرِّمُ" {اپنے آپ پر کیوں حرام کرتے ہو؟} عتاب اور سرزنش کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ یہ پیغمبراکرم{ص} کے بارے میں ایک قسم کی ہمدردی اور شفقت ہے کہ آپ{ص} اپنی قسم کی پابندی کر کے کیوں اپنے آپ کو نعمت اور امر حلال سے محروم کرتے ہیں اور اپنی بیوی کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ{ص} اپنے آپ کو بعض حلال و جائز چیزوں سے محروم کر دیں گے اور اس سلسلہ مِں سخت برتاو کریں گے۔ بالکل اس مثال کے مانند کہ کوئی شخص اپنی درآمد بڑھانے میں کافی محنت کرتا ہے اور خود اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھاتا ہے اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں کہ آپ کیوں اپنے آپ کو اس قدر تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اس تکلیف کے نتیجہ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ؟

تفصیلی جوابات

سورہ تحریم کی شان نزول اور تفسیر:

"پیغمبر؛ آپ اس شئے کو کیوں ترک کر رہے ہیں، جس کو خدا نے آپ کے لیے حلال کیا ہے، کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ [1] "

مذکورہ آیہ شریفہ کی شان نزول کے بارے میں مشہور اور مناسب نقل یہ ہے کہ پیغمبراکرم{ص} کبھی اپنی بیوی "زینب بنت جحش" کے ہاں جاتے تھے، زینب آپ{ص} کو روکتی تھیں اور آپ{ص} کے لیے تیار کیا ہوا شہد آپ{ص} کی خدمت میں پیش کرتی تھیں۔ یہ بات عائشہ تک پہنچی اور وہ ناراض ہو گئیں۔ عائشہ کہتی ہیں: میں نے حفصہ {پیغمبر{ص} کی ایک اور بیوی  کے ساتھ طے کیا، کہ جب بھی پیغمبر{ص} ہمارے نزدیک تشریف لائیں، تو ہم فوراً کہیں کہ کیا آپ{ص} نے "صمغ [2] " {گوند} "مغافیر" کھایا ہے؟؛ {"مغافیر" ایک مایع تھا جو حجاز کے "عرفط" نامی ایک درخت سے نکلتا تھا اور اس سے ایک نامناسب بو آتی تھی} اور پیغمبراکرم{ص} کے لباس اور دہان مبارک سے کبھی نامناسب بو نہیں آتی تھی بلکہ اس کے برعکس آپ{ص} ہمیشہ خوشبو اور عطر استعمال کرتے تھے۔ اس طرح ایک دن پیغمبراکرم{ص} حفصہ کے پاس گیے، حفصہ نے پیغمبر{ص} سے یہ بات کہہ دی، آنحضرت{ص} نے فرمایا: میں نے "مغافیر" نہیں کھایا ہے، بلکہ میں نے زینب کے پاس شہد پی لیا ہے اور میں قسم کھاتا ہوں کہ اب اس شہد کو کبھی نہیں پیوں گا {کیونکہ ممکن تھا شہد کی مکھی کسی نامناسب گھاس کھا کر "مغافیر" پر بیٹھی ہو} لیکن یہ بات کسی کو نہ کہنا تاکہ ایسا نہ ہو کہ یہ بات لوگوں تک پہنچے اور لوگ یہ کہیں کہ پیغمبر{ص} نے کیوں حلال غذا کو اپنے لیے حرام قرار دیا ہے؟ یا اس سلسلہ میں  اس کے مشابہ امور میں پیغمبر{ص} کی متابعت کریں، یا یہ بات زینب تک پہنچ جائے اور وہ ناراض ہو جائے}۔

لیکن سرانجام اس نے اس راز کو فاش کیا اور بعد میں معلوم ہوا کہ درحقیقت یہ قضیہ ایک سازش تھی۔ پیغمبراکرم{ص} سخت ناراض ہوگیے اور مذکوہ آیتیں نازل ہوئیں اور اس مسئلہ کو ایسے خاتمہ بخشا کہ آنحضرت{ص} کے گھر کے اندر ایسا مسئلہ دہرایا نہ جائے [3] ۔

 

بیشک پیغمبراسلام {ص} جیسی عظیم شخصیت، صرف اپنی ذات تک سے متعلق نہیں ہوتی ہے، بلکہ تمام اسلامی معاشرہ بلکہ عالم انسانیت سے متعلق ہوتی ہے، اس لیے اگر گھر کے اندر آپ{ص} کے خلاف کوئی سازش کی جائے اور وہ سازش بظاہر معمولی اور چھوٹی ہی کیوں نہ ہو تو اس کے بارے میں آسانی کے ساتھ چشم پوشی نہیں کی جانی چاہئیے، اور ان کی حیثیت کو کھلونا نہیں بنانا چاہئیے اور اگر اس قسم کا کوئی پروگرام پیش آئے تو اس کے ساتھ ڈٹ کر مقابلہ کیا جانا چاہئیے۔

حقیقت میں، مذکورہ آیت اس قسم کے حادثہ کے مقابلے میں پیغمبراکرم{ص} کی حیثیت کے تحفظ کے لیے قطعی اقدام ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آیہ شریفہ میں تحریم ، شرعی تحریم نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ بعد والی آیتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ پیغمبراکرم{ص} کی طرف سے کھائی گئی قسم ایک ایسی قسم ہے کہ بعض مباحات کو ترک کرنے کے لیے قسم کھانا گناہ نہیں ہے۔ اس بنا پر جملہ "لِمَ تُحَرِّمُ" {اپنے آپ پر کیوں حرام کرتے ہو؟} عتاب اور سرزنش کے عنوان سے نہیں ہے، بلکہ یہ پیغمبراکرم{ص} کے بارے میں ایک قسم کی ہمدردی اور شفقت ہے کہ آپ{ص} اپنی قسم کی پابندی کر کے کیوں اپنے آپ کو نعمت اور امر حلال سے محروم کرتے ہیں اور اپنی بیوی کی رضامندی حاصل کرنے کے لیے ضروری نہیں ہے کہ آپ{ص} اپنے آپ کو بعض حلال و جائز چیزوں سے محروم کر دیں گے اور اس سلسلہ مِں سخت برتاو کریں گے۔ بالکل اس مثال کے مانند کہ کوئی شخص اپنی درآمد بڑھانے میں کافی محنت کرتا ہے اور خود اس سے کوئی خاص فائدہ نہیں اٹھاتا ہے اور ہم اس شخص سے کہتے ہیں کہ آپ کیوں اپنے آپ کو اس قدر تکلیف میں ڈالتے ہیں اور اس تکلیف کے نتیجہ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں؟

اس کے بعد آیہ شریفہ کے آخر میں پیغمبراکرم{ص} کی ان بیویوں کے بارے میں عفو و رحمت ہے، جنہوں نے اس حادثہ کے اسباب فراہم کیے تھے، کہ اگر حقیقی معنوں میں توبہ کریں، تو اس میں شامل ہوں گی یا اس کی طرف اشارہ ہے کہ اولیٰ یہ تھا کہ پیغمبراکرم{ص} ایسی قسم نہ کھاتے ، جس کی وجہ سے آنحضرت{ص} کی بعض بیویوں میں اس قسم کی جرائت اور جسارت پیدا ہونے کا سبب بن جاتا [4] ۔

سورہ توبہ کی آیت نمبر ۴۳ کے بارے میں مندرجہ ذیل عناوین کا مطالعہ کریں، جن میں اس آیہ شریفہ اور اس کی مشابہ دوسری آیات پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے:

۱۔ «عصمت انبيا (ع) در قرآن»، سؤال 2719 (سایت: ur3005)

۲۔ "عصمت انبیا از دیدگاه قرآن"، سؤال 4798 (سایت: ur5403)

۳۔ «عصمت پیامبر (ص) و ترک اولی»، سؤال 4721 (سایت: ur5059)

۴۔ «عصمت انبیاء»، سؤال 7564 (سایت: 8522)

 


. تحریم، 1.[1]

[2] . وہ مایع جو درخت سے بہتا ہے اور اس کی شاخوں پر خشک  ہوتا ہے (ملاحظہ ہو: ابن منظور، محمد بن مكرم، ‏لسان العرب، ج 8، ص 441، دار صادر، بیروت، طبع سوم، 1414ھ؛ مهیار، رضا، فرهنگ ابجدی فارسی – عربی، ص 559، بی تا، بی جا).

[3] . البغوی (محيی السنة)، أبو محمد الحسين بن مسعود، معالم التنزيل فی تفسير القرآن (تفسير البغوی)، ج 5، ص 116،دار طيبة للنشر والتوزيع، طبع چهارم، 1417ق؛ الأنصاري الخزرجي (شمس الدین قرطبی)، أبو عبد الله محمد بن أحمد ،الجامع لأحكام القرآن (تفسیر القرطبی)، ج 18، ص 177،دار الكتب المصرية، القاهرة، طبع دوم، 1384ق؛فخرالدين رازى، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتیح الغیب، ج 30، ص 568،دار احياء التراث العربى‏، بیروت، طبع سوم،1420ق؛ صحیح بخاری، ج 6، ص 194 به نقل از: مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 24، ص 271 و 272،دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع اول، 1374 ھ ش. ضمناً جو وضاحتیں قوسین کے انر ذکر کی گئی ہیں، ان کے بارے میں دوسری کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے۔.

[4] . تفسیر نمونه، ج 24، ص 272 و 273؛ طباطبایی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 19، ص 330، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع پنجم، 1417ھ.

 

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

زمرہ جات

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا