Please Wait
7973
قرآن مجید و روایات میں " دارالحسرۃ " کا لفظ استعمال نهیں هوا ، صرف لفظ "یوم الحسرۃ " (یعنی روز حسرت و افسوس ان چیزوں پر جو هاتھ سے کھو بیٹھے هیں ) ۔ قرآن مجید میں ایک مرتبه اور روایات میں اکثر استعمال هوا هے ۔ " یوم الحسرۃ " کا مطلب قرآن و حدیث میں روز قیامت هے ، اس لئے که روز قیامت اهل جنت په حسرت کریں گے که هم اس سے بهتر بن کر اس سے بلند درجه پا سکتے تھے اور دوزخ والے افسوس کریں گے که اے کاش هم گنهگار نه هوتے اور جهنمی نه بنتے ۔
قرآن مجید میں انسان کی اصلی منزل اور قیامت کو مختلف ناموں سے یاد کیا گیا هے : الواقعه ، الراجفه ، الطامه ، الصاخه ، الحاقه، یوم الفصل ، یوم النّدم ، یوم النشور ، یوم الحق ، یوم المسئله ، یوم الحساب ، یوم المحاسبه ، یوم التلاق اور یوم الحسرۃ و غیره ۔ وه نام هیں جو قرآن مجید میں قیامت کے بارے میں ذکر هوئے هیں ۔
حسرت کے معنی : حسرت کے اصلی معنی ، آشکار و واضح هونا هے [1] ۔
کها گیا هے که چوں که روز قیامت میں اسرار و حقائق واضح هوجائیں گے (وه دن کے جب انسان کے باطنی راز آشکار هوں گے) [2] اس لئے اسے روز حسرت کهتے هیں [3] ۔
حسرت دوسرے معنی میں بھی استعمال هوا هے منجمله : " پشیمان هونا "(اس چیز پر جو پاتھ سے کھو بیٹے ) چوں که انسان حقائق کے واضح هونے سے نادم و پشیمان هوتا هے اس لئے اس دن کو روز حسرت کهتے هیں ۔ یه استعمال حقیقت میں مجاز اور لازم معنی هے اسی طرح کها گیا هے که حسرت (( ٹھهرنے اور رک جانے )) کے معنی میں بھی استعمال هواهے ۔ اس بیان کے مطابق چونکه انسان روز قیامت کوئی عمل انجام نهیں دے سکتا اور اس کا کام ختم هوجائے گا اور قرآن کے لفظوں میں (( اس دن هر چیز کا خاتمه هوجائے گا )) [4] اور ماضی کا جبران نهیں کیا جا سکتا لهذا قیامت کو روزحسرت کها گیا هے ؛ اسی طرح ((تحیّر)) "تعجب اور حیرت میں پڑجانا " کے معنی میں بھی استعمال هوا هے اور قیامت کو اس لئے روز حسرت کها گیا هے که اس دن انسان نئے نئے اور عجیب و غریب مراحل دیکھ کر حیران و پریشان هوگا ۔
لفظ ((دارالحسرۃ)) اصلی دینی متون ، یعنی قرآن و روایات میں استعمال نهیں هوا هے لیکن لفظ ((یوم الحسرۃ )) قرآن مجید اور روایات دونوں میں استعمال هوا هے ۔
هم قرآم مجید میں پڑھتے هیں :" اور اے میرے رسول اپنی امت کو روز غم و حسرت سے ڈراؤ که جس دن بھی چیزوں کا خاتمه هوگا اور لوگ اس دن سے بالکل هی غافل هیں اور اس پر ایمان نهیں لاتے "[5]
علامه طباطبائی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے هیں : ((سیاق آیت سے سمجھ میں آتا هے که لوگوں کی حسرت کرنے کا سبب یه هے که کام اپنے اختتام کو هوگا اور لوگ اپنے نتیجه عمل سے دنیا میں واقف نهیں هوں گے اور وهاں متوجه هوں گے که نقصان هوا[6] اور جو کچھ حاصل کر سکتے تھے وه اپنی کوتا هی کی وجه سے جو انھوں نے طاعت الٰهی کے سلسله میں کی هے حسرت کریں گے )) [7] ۔
حضرت امیر المؤمنینؑ فرماتے هیں: (( واے هو اس غافل و بے خبر انسان پر جس کی عمر اس کے خلاف دلیل هے اور زمانه نے اس کو بدبخت و شقی بنادیا ))[8] ۔
آیت کی تفسیر میں شیعه و سنی منابع میں تھوڑے سے اختلاف کے ساتھ بهت هی پیاری حدیثیں نقل هوئی هیں ، معصوم ؑ سے حدیث منقول هے که جو بهت خوبصورت تمثیل کے ساتھ آیت کی تفسیر کر رهی هے ، امام صادق ؑ سے اس آیت کے بارے میں سوال کیا گیا ؛ آپ ؑ نے فرمایا: (( جب جنتی جنت میں اور دوزخی جهنم میں چلے جایئں گے تو خدا کی طرف سے منادی ندا دے گا ؛ اے جنت والو! اور اے جهنم والو! کیا تمھیں معلوم هے که موت کس شکل کی هوتی هے ۔ جواب دیں گے : نهیں ، موت کی مثال خاکی رنگ شاخدار جنگلی مینڈھے کی طرح هے جو جنت اور جهنم کے درمیان کھڑا هوکر سب کو آواز دے گا نزدیک آؤ اور موت کا نظاره کرو تو لوگ نزدیک آئیں گے پھر خدا کے حکم سے حیوان کو ذبح کرکے کهیں گے : جنت والو همیشه جنت میں رهوگے اور تمهیں موت نهیں آئے گی اور اے جهنمیوں همیشه جهنم میں رهوگے اور تمهیں موت نه آئے گی )) امام نے مزید فرمایا: (( یه خداوند عالم کے اس قول کے معنی میں هے که اس نے فرمایا هے : ((انھیں روز حسرت سے ڈراؤ جب تمام چیزیں ختم هو جائیں گی جب که لوگ غفلت میں هیں اور ایمان نهیں لارهے هیں )) یعنی جنتیوں کا کام همیشه جنت میں رهنے اور دوزخیوں کا کام همیشه جهنم میں رهنے کی صورت میں ختم هوجائے گا ۔[9]
بعض منابع میں اسی حدیث کو جاری رکھتے هوئے نقل هوا هے که : اهل بهشت اس قدر خوش هوں گے که اگر وهاں کوئی مرنے والا هوتا تو خوشی سے مرجاتا اور اهل دوزخ اس طرح فریاد کریں گے که اگر کوئی مرنے والا هوتا تو غم سے جان دے دیتا[10] ۔
جی هاں ! اس عالم میں گنهگار بھی حسرت و افسوس کریں گے که کیوں نیک اعمال انجام نهیں دیئے ؛ اور نیک افراد بھی حسرت کریں گے که اے کاش ! زیاده سے زیاده نیک اعمال انجام دیئے هوتے ، جنتی اس لحظه افسوس کریں که جس میں وه یاد خدا سے غافل تھے اور اپنے کو سرزنش کریں گے [11] ۔
رسول خدا صل الله علیه وآله وسلم فرماتے هیں : دو افراد روز قیامت دوسروں سے زیاده حسرت کریں گے ۔ ایک وه شخص جو دنیا میں علم حاصل کر سکتا تھا مگر اس نے حاصل نه کیا دوسرے وه عالم جس نے علم حاصل کیا اور اس کے طالبعلموں نے اس علم سے فائده اٹھا لیکن خود وه معلم بے بهره رها اور اس نے اپنے علم سے فائده نه اٹھایا [12] ۔
بهرحال دنیا میں سستی کا نتیجه آخرت میں حسرت اور افسوس کرنا هے [13] ۔
[1] العین ، ج 3 ، ص 134 و لسان العرب ، ج 4 ، ص 189
[2] الطارق / 9
[3] روض الجنان و روح الجنان ، ج 13 ، ص 83
[4] مریم / 39
[5] مریم ، 39 وَ أَنْذِرْهُمْ یَوْمَ الْحَسْرَةِ إِذْ قُضِیَ الْأَمْرُ وَ هُمْ فی غَفْلَةٍ وَ هُمْ لا یُؤْمِنُون.
[6] المیزان، ج 14، ص 51.
[7] التبیان، ج 7، ص 127.
[8] نهج البلاغه فیض الاسلام، خطبه 63، ص 153.
[9] بحار الانوار ، ج 8 ، ص 346 ۔ اسی سے مشابه به روایت صحیح بخاری ، ج 5 ، ص 236 میں اور دوسرے شیعه و سنی منابع میں موجود هیں ۔
[10] بحار الانوار ج 8، ص 345.
[11] کنز العمال، ج 1، ح 1806.
[12] نهج الفصاحة، ج 1، ص 245.
[13] غررالحکم، ح 10626.