Please Wait
7326
سوال کا هم دو حصوں میں جواب دیتے هیں :
١- قیامت کے دوران موت کی ماهیت اور اس کی وسعت ـ
٢ـ جو اس (موت) سے مستثنی قرار پائے هیں ـ
پهلا حصه:
قرآن مجید کےمطابق،هر چیز کی موت اس وقت آتی وقت هے جب اس چیز کی "اجل" پهنچتی هےـ چونکه تمام موجودات حامل " اجل " هیں، اس لئے سب کو، خواه انسان هوں یا غیر انسان، موت سے ضرور دوچار هونا هے-
هر چیز کی معین شده " اجل" ایک ایسے خدا کے پاس هے، جو باقی اور لافانی هےـ اورموت" ایک فانی زندگی سے ایک باقی رهنے والی اور لافانی زندگی میں خدا کے پاس منتقل هونا هے-" تمام موجودات کو اپنی لپیٹ میں لینے والی موت، قیامت کے دن آئے گی اور حقیقت میں قیامت تمام موجودات کا خدا کے سامنے حاضر هونے کا میدان هے-
قرآن مجید اس حادثه کا منشا ایک صور (بگل) کا بجنا بیان کرتا هے جو پهلی بار موت کا سبب اور دوسری بار زنده کرنے کا سبب هوگا- اس لئے بعض آیات و روایات تمام آسمانوں اور زمین کے نابود هونے کی حکایت کرتی هیں اور بعض ان میں موجود تمام مخلوقات کے فنا هونے کو بیان کرتی هیں اور بعض دوسری آیات و روایات فنا هوئی تمام مخلوقات کے قیامت میں، یعنی حیات ابدی کی جلوه گاه میںداخل هونے کی حکایت کرتی هیں-
ان آیات و روایات کے مطالعه سے معلوم هوتاهے که آسمان، زمین، عالم برزخ اور جو بھی وهاں پر موجود هیں حتی کھ حاملان عرش اور پروردگار عالم کے مقرب ملائکه ( جبرئیل، میکائیل اور ملک الموت واسرافیل) بھی دو" نفخه صور" سے پیدا هونےوالے هولناک اور عظیم حوادث، یعنی تمام موجودات کو اپنی لیپٹ میں لینے والی موت اور پھر سب کے محشور هوجانے سے، بچ نهیں سکتے هیں-
دوسرا حصه:
اشاره شده آیات و روایات جو ایک عظیم حادثه کی حکایت کرتی هیں، مذکوره مطالب کے علاوه ان افراد کی خصوصیات کو واضح کرتی هیں، جو بیان شده دو نفخه صور کے خوف اور ناقابل برداشت رنج و الم سے مستثنی قرار پائے هیں اور ان حوادث سے بچ کر امن و امان کی حالت میں اپنی حیات کو جاری رکھے هوئے هیں- قرآن مجید کے بیان کے مطابق یه افراد کلی طور پر دو خصوصیتوں کے مالک هیں یه دو خصوصیت حقیقت میں ایک هی چیز هیں جس کی دوتعبیریں هیں:
١- محض و مطلق " حسنه" کا حامل هونا اور هر قسم کے گناه اور آلودگی سے پاک و منزه هونا-
٢- خالص هونا اور خدا کا " مخلص "بنده بن جانا-
یه وه انسان هیں، جو دنیا میں، خدا کی راه میں مجاهدے اور ریاضتوں کے سبب، دنیا کے تعلقات، مثالی صورتوں اور برزخی قالبوں سے رهائی پاکر اپنے مقصد تک پهنچے هیں اور براه راست اپنے پروردگار کی بهشت میں داخل هوچکے هیں- اس لئے ان کے لئے نه برزخ میں کوئی توقف هے اور نه قیامت کے رنج و الم سے دوچار هوتے هیں- حقیقت میں وه " موتوا قبل ان تموتوا" کے مظهر هیں-
ان افراد کے مکمل اور حقیقی مصداق وهی چوده معصومین علیهم السلام هیں- اگر چه انبیا و اولیائے الهی اور وه انسان جو دشمنیوں سے منزه و پاک هوکر ان چوده مقدس و نورانی شخصیتوں کے مقام ولایت کے عارف و دوستدار هیں، بھی مذکوره دو نفخوں کے هولناک حوادث سے مستثنی هیں اور هوں گے-
اس سوال کا ایک مناسب اور شائسته جواب دینے کے لئے هم پهلے قیامت کے آغاز پر آنے والی موت کی ماهیت اور اس کی وسعت کے بارے میں وضاحت کریں گے اور اس کے بعد اس سوال کا جواب دیں گے که کیا ایسے افراد بھی هیں جو اس عالم گیر موت کے چنگل میں نه پهنس جاسکیں گے؟ اور ایسے افراد کے موجودهونے کی صورت میں ان کے نام ونشان اور صفات کیا هیں؟ اور ان کے مصداق یا مصادیق کون هیں؟
پهلا حصه:
پهلے حصه میں کهنا چاهئے که : قرآن مجید کےمطابق هر چیز کی موت اس وقت آتی هے جب اس چیز کی "اجل" پهنچ جائے تمام موجودات، من جمله انسان و غیر انسان اس" اجل " کے حامل هیں[1]- تمام موجودات اپنی حرکت اور سفر میں ایک ایسے نقطه پر پهنچ جائیں گے جهاں پر رکنے کے بعد ختم هوکر استقرار پا جائیں گے- قرآن مجید کے ارشادات کے مطابق یه استقرار اور ثبات کا نقطه، خداوند متعال کے پاس هے- (اجل مسمی عنده)[2] اور جو خداوند متعال کے پاس هے وه لافانی اور باقی رهنے والا هے-( و ما عند الله باق )[3] – اس لئے، جب موجودات برگاه الهی میں پهنچتے هیں اور اس کے حضور میں حاضر هوتے هیں تو وه ایک ابدی اور لافانی حیات پاتے هیں- تمام موجودات خواه انسان هوں یا غیر انسان، خدا کی طرف لوٹ کے جانے والے هیں اور سرانجام اس کی طرف پلٹ کر اس کی بارگاه میں حاضر و محشور هوتے هیںـ یه خدا کی طرف عام طور پر لوٹ کر جانا وهی موت هے، یعنی، ایک ایسی زندگی سے نکل جانا جس میں، تحرک، فساد، تبدیلی، زمان، تنگی، تاریکی، کثرت وپراکندگی و... موجود هیںـ اور خدا کے پاس زندگی میں داخل هونا، جس میں حیات، بقائے محض، ھمیشگی ، وسعت، نور اور وحدت اور... مذکوره نقائص سے پاک ومنزه هو کر تجلی پانا هے ـ لهذا یه نتیجه اخذ کیا جاسکتا هے که تمام موجودات ، انسان سے لے کر آسمانوں اور زمین اور جو چیز ان کے اندر موجودهے ،سب اسی طرح مرنے والے هیں ، اگر چه یه مطلب مختلف الفاظ میں بیان هوا هے ـ مثال کے طور پر انسان کا مر نا، اس کے بدن سے روح کا نکل جانا هے جس کو " موت" کے لفظ سے یاد کیا گیا هے ـ اور غیر انسان کے مر نے کو دوسری تعبیروں سے یاد کیا گیا هے ـ هم اس پر روشنی ڈالیں گے ـ
اس قسم کی اجل اور موت ، جس سے تمام موجودات دو چار هوں گے اور پوری کائنات کو اپنی لپیٹ میں لے گی ، قیامت کبری کے دن محقق هو گی اور اس کی وسعت خداوند متعال کے علاوه تمام مخلوقات کو اپنی لپیٹ میں لے گی ـ اور حقیقت میں قیامت کے دن سب کی اجل پهنچ جائے گی اور تمام مخلوقات قیامت ، یعنی بارگاه الهی ، میں قدم رکھیں گی ـ
دوسرے الفاظ میں قیامت کبری کے دن دنیا، بر زخ ، آسمانوں اور زمین کی بساط سمیٹ لی جائے گی اور عام اهل دنیا ، اهل برزخ اور اهل آسمان (ملائکه و...) نابود هوجائیں گے اور اس کے بعد قیامت بر پا هوگی اور سب خدا کے حضور محشور هوں گے اور ایک ابدی زندگی اور بقائے محض پائیں گے ـ اس قسم کی حالت (قیامت کی زندگی اور خدا کے نزدیک حیات) کا بیان اور اس کی خصو صیات کی شناخت ، جس کی جلوه گاه قیامت کا میدان هے ، قرآن مجید اور روایات میں قیامت کے سلسله میں بیان کئے گئے اوصاف و تفصیلات کا مطالعه اور تحقیق کر کے حاصل کر نا ممکن هے ـ لیکن اس موضوع پر ایک مستقل کتاب تالیف کر نے کی ضرورت هےـ
قرآن مجید میں اس قسم کے حادثه کا منشا " نفخه صور"[4] تعبیر کیا گیا هے ـ اور صور کو پھونکنے میں قیامت کے دن مارنے اور زنده کر کے محشور کر نے کے دونوں سبب پائے جاتے هیں ـ اس کے علاوه اس حادثه کے بارے میں " صیحه"[5] (چیخ پکار)، " زجره"[6] (چیخ) ، " صاخه"[7] (شدید چیخ) اور " نقر فی الناقری" [8] (ایک ایسی چیز میں پھونک مارنا جس سے آواز نکل آ ئے) جیسی تعبیریں کی گئی هیں ـ ان الفاظ کے مجموعه سے ، جو ایک حقیقت بیان کرتے هیں ، معلوم هوتا هے –
" صور" اور اس کے " دو نفخه" اسی بگل کی حکایت کرتے هیں جو فوج میں جنگ کے آغاز پر استعمال هو تا هے ـ پهلی بار صور پھونکا جاتا هے که خاموش هو جایئے اور روانه هو نے کے لئے آماده هو جا ئیے اور پھر دوسری بار صور پھونکا جاتا هے که اٹھیئے اور …[9]
اس عظیم حادثه کی تشریح اور وضاحت کے بارے میں قرآن مجید کی آیات اور روایتیں چند قسم کی هیں:
١ـ وه آیات جو مرگ و خاموشی کا بگل بجنے سے آسمانوں اور زمین کی بساط کولپیٹے جانے کی حکایت کرتی هیں، جیسے : " پھر جب صور میں پهلی مرتبه پهو نکا جائے گا ـ اور زمین اور پهاڑوں کو اکھاڑ کر ٹکرا کر ریزه ریزه کر دیا جائے گا تو اس دن قیامت واقع هو جائے گی "[10]، " اس دن هم تمام آسمانوں کو اس طرح لپیٹ دیں گے جس طرح خطوں کا طو مار لپٹیا جاتا هے"[11] اور " قیامت کے دن سارے آسمان اس کے هاتھـ میں لپیٹے هو ئے هوں گے ـ[12] اسی طرح دوسری آیات [13]جو سب کی سب اس حادثه کی خبر دیتی هیں جو قیامت بر پا هو نے کے آغاز میں ، نفخه صور کے سبب پوری کا ئنات کو تحت الشعاع میں قرار دے گاـ
ان آیات کا مطالعه اور ان پر غور کر نے سے آسمانوں اور زمین کی موت کی کیفیت کو معلوم کیا جاسکتا هے ، یعنی ان کی بساط کو لپیٹنا اور ان میں قیامت کے متناسب تغیر وتبدل پیدا کر نا-
٢ـ آیات کی ایک قسم اس امر کی دلالت کرتی هیں که جو بھی آسمانوں اور زمین میں هیں ، موت کے بگل بجنے سے فنا هو جائیں گے: " یوم ینفخ فی الصور ففزع من فی السموات ومن فی الارض ..."[14]
اور " ونفخ فی الصور فصعق من فی السموات ومن فی الارض ..."[15]
" نزع " خوف وحشت کے معنی میں هے اور" صعق" یعنی بیهوشی اور مدهوشی ـ حقیقت میں یه دو الفاظ اس موت کی حالت کو بیان کرتے هیں جن کی تشریح اس تحریر کی ابتداء میں کی گئی ، یعنی وه موت جو خوف و مرگبار بیهوشی سے ، جو بھی آسمانوں اورز مین میں موجوادات هیں انھیں اپنی لپیٹ میں لےلےـ
اس لئے اولا بر زخ ، دنیا کا تتمه اور ضمیمه هے اسے عالم قبر [16] اور اس کی بهشت کو " جنه الدنیا"[17] کهاگیا هے ـ اور ثانیا، تمام اهل دنیا کو ضرور برزخ سے گزر نا هے [18] ،خواه طو لانی یا مختصر، " من فی الاض" سے مراد زمین کے وه باشندے هیں جو برزخ میں داخل هو ئے هیں ، نه وه لوگ جو بر زخ سے پهلے زمین پر زندگی بسر کر رهے هیں ـ " من فی السموات " سے مراد " ارواح سعدا و ملا ئکه" [19] هیں یه وه موجودات هیں جو مثالی صورتوں اور برزخی قالبوں سے رهائی پاکر عالم برزخ کے اوپر ایک عالم (آسمانوں) میں رهائش پذیر هیں ـ
نفخه صور کے سبب ان دو گروهوں (اهل زمین اور اهل آسمان) کی موت، اس معنی میں هے که وه نه صرف دنیا اور خاکی بدن سے رهائی پا چکے هیں ، بلکه وه مثالی صورتوں اور بر زخی قالبوں سے بھی رهائی پا کر اور آسمانوں کی طرف پرواز کرتے ھوئے بار گاه الهی میں پهنچ کر ذات احدیت میں فنا ، یعنی فنا فی الله هو چکے هیں ـ
٣ـ آیات کی ایک اور قسم ، نفخه حیات[20] اور ان سب کی بقا کی وضاحت کرتی هے جو پهلے نفخه میں موت سے دو چار هوئے هیں – هم اس تحریر کے خلاصه کے پیش نظر اور طولانی هو نے سے اجتناب کرتے هوئے ان آیات کا ذکر کر نے سے صرف نظر کرتے هیں –
روایات بھی مذکوره تین قسم کی آیات کی حکایت کرتی هیں ، هم ان میں سے بعض کے مضا مین کا خلاصه بیان کر نے پر اکتفا کرتے هیں:
" اسرافیل" نام کا یک فرشته خدا وند متعال کی اجازت سے موت کا بگل بجاتا هے اور اس کے نتیجه میں زمین و سمان میں رهنے والے ، حتی که حاملان عرش (حضرت جبرئیل و میکائیل )بھی مر جاتے هیں اور خوداسرافیل بھی اس کے بعد خدا کے حکم سے مر جاتا هے ـ [21] اور تمام چیزیں باطل هو جاتی هیںـ[22] دنیا کے فنا هو نے کے بعد زمان و مکان کا وجود باقی نهیں رهتا هے ـ اجل و زمان معدوم هو تے هیں اور سال اور لمحات نابود هو تے هیں[23] اور خداوند و احد قهار کے علاوه کوئی چیز باقی نهیں رهتی هے ـ
ایک بار پھر بگل بچ جائے گا اور تمام اهل آسمان اهل زمین زنده هوں گے[24] اور تمام اشیاء پھر سےاپنے وجود میں پلٹ کر آئیں گی ، اسی طرح، جیسے ان کے خالق نے انھیں خلق کیا تھا ـ[25]
ان آیات و روایات کے مجموعه سے معلوم هو تا هے که آسمان ، زمین اور برزخ اور جو بھی ان میں موجود هے ، حتی کھ پروردگار عالم کے مقرب فرشتے بھی دو نفخه کے هو لناک اور خوفناک حوادث ، یعنی وسیع اور عالم گیر موت اور حضور وحشر یعنی سب کے پھر سے زنده هو نے سے بچ نهیں سکتے هیں اور یه حادثه ان سب کو اپنی لپیٹ میں لے گا ـ
لیکن اس عظیم اور هولناک حادثه کے بارے میں بیان شده آیات و روایات کے علاوه اور بھی کئی آیات وروایات پائی جاتی هیں جومذکوره مطالب کے علاوه ، بعض ایسے بندوں کے اوصاف اور تفصیلات بیان کرتی هیں جو دو نفخه کے نتیجه میں رونما هونے والے خوفناک، سخت اور نا قابل برداشت رنج و الم سے بھرے حوادث سے مستثنی قرار پائے هیں اور ان حوادث سے محفوظ امن و امان میں اپنی زندگی بسر کر رهے هیں ـ
دوسراحصه:
قرآن مجید اور روایات میں مذکوره اشخاص کی تشریح و توصیف یوں کی گئی هے:
١لف) نفخه اول( مارنے) سے متعلق دو آیتوں میں (یعنی سوره زمر کی آیت نمبر ٦٧اور سوره نمل کی آیت نمبر ٨٧) یه بیان کر نے کے بعد که صور پھونکے جانے کے سبب جو بھی آسمانوں اور زمین میں هیں ، " فزع " اور "صعق" سے دو چار هوں گے، عبارت " الامن شاء الله" مگر وه لوگ جنھیں خدا نے چاها هے ـ " کے ذریعه بعض لوگوں کو اس نفخه سے مستثنی قرار دیا گیاهے اور اس استثناء کی سوره نمل کی آیت نمبر ٨٩ اور٩٠ تفسیر کر تے هوئے فر ماتی هیں: " وه صاحب "حسنه "(نیکی) هیں"
ب) اسی طرح، جوآیات "نفخه حیات " کو بیان کرتی هیں، مثال کے طور پر ،سوره زمر کی آیت نمبر ٦٨ اور سوره یسن کی آیت نمبر ٥٣، سے معلوم هوتا هے که جو لوگ نفخه موت کے سبب مرگئے ، اور وه جو دوسرے نفخه کے سبب زنده هوکر خدا کے حضور محشور هوں گے ، لیکن اس کے باوجود خداوند متعال سوره صافات کی آیت نمبر ١٢٧ اور ١٢٨ میں اپنے " مخلص بندوں" کو ان محشور هو نے والوں سے مستثنی قرار دیتا هےـ
اس لئے جو افراد صاحب "حسنه " (نیکی) اور خداوند متعال کے "مخلص بندے" هیں ، وه مذکوره دو نفخه کے نتیجه میں رونما هو نے والے حوادث سے مستثنی اور محفوظ هیں ـ ان دو الفاظ (حسنه و مخلصین)کے معنی معلوم هو نے کے بعد هم ان افراد کو واضح طور پر پهچان سکتے هیں ـ اس لئے هم ان آیات و روایات پر تحقیق کرتے هیں تاکه مذکوره دو الفاظ کے معنی کی تفسیر کی جائےـ
١ـ "حسنه" سے مراد "حسنه مطلق" هے، یعنی وه حسنه (نیکی) جو کسی بھی قسم کے گناه سے مخلوط نه هو ـ اور جو افراد حسنه مطلق کے حامل هیں ، وه اهل ایمان میں سے خاص افراد هیں اور ان کی ذات هر آلودگی سے پاک و پاکیزه هے اور وه هر قسم کے "نفاق" ، "کفر" اور"شرک" سے منزه هیں ـ انهوں نے کبهی اپنے دل کو غیر خدا کے حواله نهیں کیا هے اور اپنے تمام امور کو اسی کے سپرد کر کے تسلیم و توکل محض کے مقام پر فائز هو ئے هیں ، بلکه وهاں، سے بھی عبور کر کے کسی قسم کے تکبر ، هستی اور فر عونیت کا اظهار کئے بغیر فنا فی الله هو چکے هیں ـ یه خصو صیات مقام و لایت کو بیان کرتی هیں ـ اسی لحاظ سے آیت میں ذکر هوئے "حسنه" کو روایات میں امیرالمٶمنین(ع) کی ولایت، [26] ولایت کی معرفت اور اهل بیت (ع) کی محبت سے تعبیر کیا گیا هے اور" سیئه" کو ولایت کا انکار اور اهل بیت(ع) کی نسبت بغض سے تعبیر کیا گیا هےـ [27]
٢ـ "مخلصین" سے مراد وه لوگ هیں جو آیه شریفه : "فبعز تک لاغوینهم اجمعین الاعبادک منهم المخلصین[28] ـ" کے مطابق تمام انسانوں سے ممتاز هیں، شیطان کے توسط سے اغوا هو نے سے بچ نکلے هیںـ چونکه ، سوره ابراھیم کی آیت نمبر ٢٢ کے مضمون کے مطابق، انسان شیطان کے جھوٹے وعدوں کو قبول کر نے سے اغوا هو تا هے اور دوسری طرف اس کے ان وعدوں کو قبول کر نا "شرک" و گمراهی کا نتیجه هےـ البته "مخلصین" ایسے بندے هیں جو هر قسم کے شرک سے پاک و منزه هیں اور صرف خدا کے لئے مخلص هیںـ
مذکوره دو الفاظ کے مفهوم پر توجه اور غور کر نے سے معلوم هو تا هے که دونوں الفاظ حقیقت میں ایک معنی رکھتے هیںـ اس لئے جو افراد دو نفخوں ، موت اور حیات، کے حوادث سے مستثنی قرار پائے هیں ان کی یوں توصیف کی جاسکتی هے: وه ایسے انسان هیں، جو کسی صورت میں غیر خدا کا کوئی وجود نهیں دیکھتے هیں اور اس کے علاوه کوئی نام ونشان نهیں پاتے هیں اور وه اپنے فائده ، نقصان، موت اور حیات کے لئے کسی اختیار کے قائل نهیں هیں اور ان کی حقیقت خداوند متعال کی ذات میں غرق ، تحلیل اور فانی هوچکی هے اور وه اپنے تمام امور کو خداوند متعال کے سپرد کر چکے هیں اور ان سے کوئی چیز صادر نهیں هوتی هے ، بجز وه چیز جس میں رضائے الهی هو (نوافل) اور وه صرف رضائے الهی کی تلاش میں هیں ـ اس لئے خداوند متعال ان کی آنکھـ ، کان ، هاتھـ ، زبان اور دل بن گیا هے [29]اور هر قسم کے غلو سے منزه هو کر وه خدا کے مکمل مظهر بن چکے هیں اور صرف اس کی تجلی بن چکے هیں ـ حقیقت میں وه وهی " وجه ا لله " هیں ، یعنی وه باطنی اور حقیقی چهره جس سے هر چیز کی " مکمل شناخت" صرف اسی کے ذریعه ممکن هے ـ اور ان بندوں کا " وجه الله" هو نا اس معنی میں هے که وه خدا وند متعال کی مکمل ترین آیت اور اس کے مظهر کا مکمل آئینه هیں که خداوند متعال فر ماتا هے : "کل شئی هالک الا وجه" " یعنی اس کے چهره کے علاوه هر چیز فنا هو نے والی هےـ"[30] اس لئے جبکه تمام چیزیں اور مخلوقات (آسمان ، زمین ، اهل زمین ، اهل برزخ اور اهل آسمان ، یعنی ملائکه و... حتی که ملائکه مقرب بھی) پهلے نفخه کے نتیجه میں فنا هوں گے ، لیکن وه لوگ باقی رههیں گے زوال و نابودی ان کی حقیقت سے دور هے ـ کیونکه ان کی هستی خداوند متعال میں فنا هو چکی هے اور ان کے لئے خداوند متعال کے وجود اور اس کے چهره کے علاوه کوئی اور وجود باقی نهیں رها هے ، نه برزخ میں رکتے هیں اور نه قیامت میں ان کے لئے حساب و کتاب اور سوال و جواب کے لئے کوئی حشر هے، کیو نکه وه اس سے پهلے دنیا میں خدا کی راه میں مجاهدت، مراقبت اور ریاضت کے سبب ، تمام مادی تعلقات اور مثالی صورتوں اور بر زخی قالبوں سے رهائی پاچکے هیں اور اپنا سب حساب و کتاب چکا کر اور براه راست ذات حق کی بهشت اور لقا ء الله کے مقام تک پهنچ چکے هیں ـ یه وه امن وسلامتی کی جگه هے که جس میں راه پانے والے امن و امان اور اطمینان سے زندگی بسر کر تے هیں ـ [31]اس لئے یه هر حوادث کے خطره سے بالاتر اور موت و حیات کے ان دو عظیم نفخوں سے بھی محفوظ هیں ـ کیونکه اس عظیم حادثه کا نتیجه وهی تمام موجودات کو اپنی قابلیت کے مطابق حیات عندالله سے بهره مند کرنا هے ، جبکه یه بندے اس سے مکمل تر اور بلند تر حیات کے مقام پر دنیا میں هی فائز هو چکے هیں جو نفخه صور کے سبب دوسروں کو ملے گی ـ
مذکوره مطالب پر غور کر نے سے معلوم هوتا هے که حقیقت میں وه " موتوا قبل ان تموتوا" کے مکمل مصداق هیں اور " وجه اللهی وجود" کے سبب قیامت میں ان کا حشر و حضور بھی دوسرے موجودات کی نسبت متفاوت هے اس طرح که وه وهاں پر حاضر تمام موجودات کا احاطه کر رهے هوں گےـ
ان بندوں کے مکمل اور حقیقی مصداق چوده معصومین (ع) هیں، کیو نکه روایت میں "حسنه" ،[32] "وجه الله" [33] ، "اسمای حسنی" [34]اور" آیت کبری" [35] جیسے اوصاف پیغمبر اسلام (ص) اور اهل بیت اطهار (ع) پر منطبق هو تے هیں ـ لیکن انبیاء اور اولیائے الهی اور وه انسان جو اهل بیت(ع) کی معرفت اور محبت رکھتے هوں ان سے دشمنی اور بغض سے منزه و پاک هوں اور ان کی ولایت کے بارے میں اپنی وجودی ظرفیت اور تلاش وکوشش کے مطابق ، ادنی مراتب میں ، ان بندوں کے مصداق هیں، اور هوں گے ـ
آخر میں یه نکته قابل ذکر هے که اس هولناک حادثه کے بارے میں اس کی عظمت وسعت اور اهمیت کے پیش نظر اس تحریر کے علاوه ایک تفصیلی تالیف کی ضرورت هے ـ اس لئے تجویز کی جاتی هے که جو کتابیں اس سلسله میں تالیف هوچکی هیں ان کا مطالعه کیا جائے تاکه خدا کے لطف وکرم سے اس عظیم حادثه کے بارے میں مزید اسرار کا انکشاف ھوجائے ـ
مطالعه کے لئے منابع:
١ـ طهرانی ، محمد حسین ، معاد، ج٤ـ
٢ـ جوادی آملی ، عبدالله، معاد در قرآن (تفسیر موضوعی قرآن) ، ج٤، ص٢٩٧ ـ ٢٨١ـ
٣ـ طباطبائی ، سید محمد حسین ، حیات پس از مرگ ، ترجمه ، سید مهدی نبوی و صادق لاریجانی ، ص٦٢ـ ٤٨)ـ
[1] سوره زمر/٨
[2] سوره انعام/٢
[3] سوره نحل / ٩٦
[4] نمل/٨٧، زمر/ ٦٨، حاقه /١٥ - ١٣ ، و...ـ
[5] یس /٥٣ـ
[6] نازعات/ ١٣ و ١٤ـ
[7] عبس / ٣٣ و ٣٤ـ
[8] مدثر / ١٠- ٨ـ
[9] ملاحظه هو: حیات پس از مرگ / ص ٤٩ و ٥٠ـ
[10] حاقه / ١٥ ـ ١٣ـ
[11] انبیاء / ١٠٤ـ
[12] زمر / ٦٧ـ
[13] نازعات / ٦ و -٧، زمل /١٤، حج /١ و ٢، تکویر/٣ و ٤ و ٦ ، قارع/ ٥، قیامه /٩ و ٧ ، تکویر/١ ،انفطار/ ٢، و...ـ
[14] نمل/ ٨٧ـ
[15] زمر /٦٨ـ
[16] نور الثقلین ، ج٣، ص، ٢٥٤ـ
[17] لقالی الاخبار، ج٤، ص٢٥٢ـ
[18] مٶمنون ، ١٠٠ـ
[19] ملا حظه هو : حیات پس از مرگ ، ص٥١ـ
[20] زمر، ٦٨، یس ٥١ و ٥٣، کهف، ٩٩، طه، ١٠٢، نبا، ١٨، ق،٢٠ و ٤٢، و...ـ
[21] کافی ،ج٣، ص٢٥٦ـ
[22] احتجاج ، ج٢، شماره٢٢٣، ص٢٤٥ـ
[23] نهج البلاغه ، خ١٨٦، بند ٢٩ـ
[24] کافی ، ج٣ ، ص٢٥٦ـ
[25] احتجاج ، ج٢، شماره ٢٢٣، ص٢٤٥ـ
[26] تفسیر قمی، بحار ج٧، ص١١٧ و ١٧٥، ج٢٤، ص٤٥ـ
[27] حاکم حسکانی ، شواهد التنزیل ، ج١، ص٤٢٦، کافی، ج ١، ص١٨٥، ح ١٤ـ
[28] ص، ٨٢ و ٨٣ـ
[29] کفی ، ج٢، ص٣٥٢، ( حدیث قرب نوافل)ـ
[30] ملاحظه هو: اشاره: روی زمیں پر اشیاء کی فنا (تفسیر آیه ٢٦ سور الرحمن)، س: ١٦٢ـ
[31] فجر، ٣٠ـ ٢٧ـ
[32] بحار الانوار ، ج٧، ص١١٧ و ١٧٥ و ج٢٤، ص٤٥ـ
[33] بحار الانوار ، ج٤،ص٧ ـ ٥، ج٢٤ ، ص١١٦ ـ١١٤ـ
[34] بحار الانوار ،ج ٢٥ ، ص٤، ح٧ـ
[35] بحار الانوار ج٢٣، ص٢٠٦ـ