Please Wait
10942
شیخیه ،ایک فرقه هے،جس کابانی شیخ احمداحسائی هے-
شیخ احمد ،١١٦٦ھ میں احسا کے مقام پر پیدا هوا هے اور ١١٨٦ھ میں اس نے کربلاجاکر علمائے شیعه سے استفاده کیا- اس نے حضرت امام رضا علیه السلام کی زیارت کے سلسله میں ایران کے سفر کے دوران یزد میں سکو نت اختیار کی – کچھـ مدت کے بعد فتح علی شاه کی دعوت پر تهران گیا اور اس کے بعد محمدعلی میرزا کی دعوت پر کرمانشاهان میں سکونت اختیار کی اور محمد علی میرزا کی وفات کے بعد قزوین گیا- یهاں پر اپنے بعض انحرافی عقائدظاھر کر نے کے نتیجه میں شیعه علما کی طرف سے اس کے خلاف حکم کفر دیاگیا – اس کے بعد مجبور هو کر عراق اور وهاں سے اپنے وطن کی طرف چلاگیا – اسی سفر میں مدینه کے نزدیک ایک جگه پر اس دنیاسے چل بسا اور قبرستان بقیع میں دفن کیاگیا-
اس کے اعتقادات حسب ذیل تھے:
١-ائمه علل اربعه عالم هیں-
٢- رکن رابع (یعنی شیوخ و شیخیه کے بزرگان) کی معرفت ،خدا ،پیغمبر(ص) اور ائمه(ع) کی معرفت کے ساتھـ اصول دین کے عنوان سے شمار کی جاتی هے-
٣- قرآن مجید نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا کلام هے-
٤- امام عصر(عج)اس عالم مادی کے علاوه ایک عالم روحانی میں زندگی بسر کر رهے هیں-
٥- رکن رابع، امام عصر(عج) کا نائب خاص هے اور وه بھی اس مقام کا حامل هے و...
حد درجه اهمیت کا نکته یه هے که: ان اعتقادات نے فرقه کشفیه اور اس کے بعد بابیه اور پھر بهائی فرقه کے وجود میں آنےکی بساط تیار کی اور نوبت یهاں تک پهنچی که ان میں سے بعض افراد نے صرف رکن هو نے پر اکتفا نهیں کیا ، بلکه مهدویت کا دعوی کر نے کے بعد آخر کار الوهیت کا دعوی بھی کیا-
شیخیه کی تاریخ:
اس فرقه کا بانی شیخ احمد احسائی هے- وه١١٦٦ھ میں احسا [1]کے مقام پر پیدا هوااور ١١٨٦ھ میں کر بلا گیا اور وهاں کے حوزه علمیه میں بعض شیعه علما جیسے:آقا باقر بهبهانی ،صاحب ریاض، سید مهدی بحرالعلوم اور شیخ جعفر کاشف الغطا کے دروس میں شرکت کی-
اس نے فقه، اصول اور حد یث کے علاوه طب، نجوم ،ریاضی، علم حروف و اعداد، طلسمات اور فلسفه میں بھی کچھـ مطالعه کیا تھا-
١٢٠٩ھ میں وبا پھیلنے کی وجه سے اپنے وطن احسا چلا گیا اور ١٢١٢ھ میں دوباره عتبات کی طرف آگیا – اس کے بعد بصره میں دائمی سکو نت اختیار کی – ١٢٢١ھ میں حضرت امام رضا علیه السلام کی زیارت کی غرض سے خراسان کی طرف روانه هوا، وهاں سے یزد چلا گیا اور یزد کے لوگوں کی درخواست پر وهیں پر سکونت اختیار کی اور بڑی شهرت پائی-
کچھـ مدت کے بعد شاه قاجار، فتح علی شاه کی دعوت پر تهران گیا اور وهاں پر اس کا کافی احترام کیاگیا-[2] اس کے بعد فتح علی شاه کے بیٹے محمد علی میرزا نے اسے کر مانشاهان دعوت کی اور اس کی کافی تعظیم کی [3]ا ور محمد علی میرزا کی وفات تک اس نے وهیں پر سکو نت اختیار کی- اس کے بعد قزوین چلا گیا اور وهاں کے علما نے اس کا زبردست استقبال کیا اور قزوین کی مسجد شاه قزوین میں نماز جماعت پڑھا نے اور مدرسه" صالحیه" میں تدریس میں مشغول هوا- لیکن بعض انحرافی عقائد کے اظهار پر قزوین کے ایک بڑے عالم دین ملا محمد تقی برغانی نے اس کے خلاف حکم کفر صادر کیا اور ان کے اس حکم کی ایران اور عراق اور شیعوں کے تمام مراکز کے علما نے تائید کی –[4] اس لئے وه قزوین کو ترک کر کے مشهد چلا گیا – سر انجام ایران کے بعد عراق اور وهاں سے اپنے وطن کی طرف روانه هوا اور راسته می لوگوں کی طرف سے مسلسل بے اعتنائی اور عدم توجه سے دو چار هوا- اسی سفر کے دوران مدینه سے تین منزل دور "دیه" نامی ایک گاٶں میں اس دنیا سے چل بسا اور بقیع میں دفن کیاگیا –[5]
شیخ احمد احسائی کے مرنے کے بعد سید کاظم رشتی نے اس کے افکار و عقائد کی ترویج کی اوراسی فرقه"کشفیه" کی تاسیس کی اور فرقه "کشفیه" سے فرقه بابیه نے جنم لیا-[6]
شیخ احمد احسائی کے عقائد:
وه اخباری مسلک کا قائل تھا اور اعتقادی لحاظ سے، غلو کر نے والوں میں شمار هوتا تھا- وه معتقد تھا که:
١- ائمه اطهار(علیهم السلام) عالم کے علل اربع هیں-[7]
٢- اصول دین عبارت هے: الله کی معرفت، انبیا کی معرفت، آئمه(ع)کی معرفت اور رکن رابع یعنی فرقه شیخیه کے بزرگ شیوخ کی معرفت-[8]اسی بناپر اس کی خصوصیات میں ، اصول دین کے عنوان سے عدل کا انکار اور رکن رابع کو اصول دین میں شامل کر نا تھا-
٣- قرآن مجید نبی اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کا کلام هے-[9]
٤- خدا اور انبیا شے واحد هیں- [10]
٥- امام عصر(عج) ڈر کے مارے عالم "حور قلیائی"بھاگ گئے اور یه مادی عالم کے علاوه ایک روحانی عالم هے-[11]
فرانس کے ایک سابقه وزیر" کنٹ ڈو گو بینو" "ایران میں تین سال" نامی اپنی کتاب میں ایران کے بارے میں لکھتا هے: "دوسرے شیعوں کا شیخیه فرقه سے یه فرق هے که شیعه کهتے هیں که: بارهویں امام زنده هیں اور جسمانی صورت میں زندگی گزارتے هیں ،جبکه شیخیه کهتے هیں :بارهویں امام روحانی صورت میں زنده هیں-"[12]
٦- شیعوں میں همیشه ایک شخص کاوجودهے جوانسان کامل کے عنوان سے حضرت حجت(ع) کی نیابت خاصه کا عهده سنبھالتا هے –البته وه اپنے آپ کو اس مقام کا صاحب جانتا تھا-[13] وه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے معراج، معاد وغیره کے بارے میں خاص نظریات رکھتا تھا- اس کے افکار کا تفصیلی جائزه لینے کے لئے مزید فرصت کی ضرورت هے-
بهر حال شیخ احمد احسائی کی تالیفات ١٣٥ کتابوں اور رسائل سے زیاده هیں که ان میں سے اکثر کتابیں شائع هو چکی هیں – چند حسب ذیل هیں:
جوامع الکلام ، شرح الزیاره ، شرح حکمه العرشیه، شرح مشاعر وغیره- اس کی کتابیں معمانما عبارتوں سے بھری هیں ،ایسی عبارتیں صو فیه کی کتابوں میں پائی جاتی هیں-
سید محسن امین اس سلسله میں کهتے هیں : کشفیه کو بعض امور کی نسبت دی جاتی هے که اگر صحیح هو تو یه غلو هے اور دین سے خارج هو نے کا سبب هے-اور شیخ احمد احسائی اور اس کے مانند کشفیه علما سے مبالغه آمیز اور معمانما عبارتیں صادر هوئی هیں که بعض صوفیوں کے متجاوزات کے مشابه هیں-[14]
منابع و ماخذ:
١-حیات شیخ احمد احسائی، نوشته ی فرزند شیخ احمد-
٢- ارشاد العلوم ،کریم خان کر مانی-
٣- تاریخ نبیل ،زرندی-
٤- رد شیخیه محمد بن سید صالح ،قزوینی موسوی-
٥- اسرار پیدائش شیخیه، بابیهب بها بیه ، محمد کاظم ، خالصی-
٦- خرافات شیخیه و کفریات ارشاد العوام ،خالصی -
٧- کشف المراد (بررسی عقاید شیخیه) الف، حکیم هاشمی-
٨- الکرام البرره،ج١،ص ٨٨- ٩١-
٩- دلیل المتحیرین ، تر جمه ، محمد کریم خان ،ص١- ٥١-
١٠- مقدمه ی شواهد الربو بیه ،سید جلالادین، آستیانی-
١١-عقاید الشیخیه ،علا الدین سید امیر محمد، الکاظمی القزوینی-
[1] - یه قطیف کا ایک علاقه هے ،جو سعودی عرب کے ساحل پر بحرین کے ملحقات میں شمار هوتا هے -
[2] - فتح علی شاه نے والهانه استقبال کے علاوه ایک بڑی رقم اور مروارید سے مزین ایک عبا اسے هدیه کے طور پر دیدی اور اس کے لئے ایک دائمی تنخواه مقرر کی (دائره المعارف تشیع ج١،ص٥٠٠- )
[3] - محمد علی میرزا کی طرف سے ایک دائمی ماهانه تنخواه کے علاوه ایک هزار تومان سفر خرچ اور کر مانشاه کے نزدیک ایک بڑا گاٶں جاگیر کے طور پر اسے هدیه کیا گیا (دائره المعارف تشیعج٥٠١-٥٠٠)
[4] - جن علما نے اس کے خلاف حکم کفر صادر کیا ان میں شیخ محمد حسن ، صاحب جواهر الکلام ،سید ابراهیم قزوینی صاحب ضوابط الاصول اور شریف العلما مازندرانی قابل ذکر هیں (خاتمیت پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم ، یحیی نوری ،ص٤١)
[5] - دائره المعارف تشیع ،ج١،ص٥٠٠- ٥٠١، اعیان الشیعه ،ج٢،ص٥٨٩-٥٩٠،قصص العلما میرزا محمد، تنکا بنی ،ص٤٢- ٤٤،فرق و مذاهب کلام اسلامی، ربانی گلپایگانی ،ص٣٢٩- ٣٣٥، فرهنگ و فرق اسلامی دکتر محمد جواد مشکور، ص٢٦٦- ٢٧٠-
[6] - مجله ی انتظار ،شماره ی اول سال١٣٨٠،ص٢٤٠- ٢٥٠، فرق و مذاهب کلام اسلامی ،ص٣٢٩- ٣٣٥-
[7]- ایضاً-
[8] - قصص علما،ص٤٣-
[9] - مجله انتظار،شماره اول،ص٢٤٠- ٢٥٠-
[10] - ایضاً-
[11] - ایضاً-
[12] - مرتضی مدرسی چهار دهی،شیخیگری بابیگری،ص٤١-
[13]- ایضاً، ص٧٣- ٧٥-
[14] - اعیان الشیعه،ج٢،ص٥٨٩- ٥٩٠-