Please Wait
8666
اهلبیت (علیهم السلام) کو پنجتن آل عبا یعنی حضرت محمد مصطفیٰ (صل الله علیه وآله وسلم) ، علی (علیه السلام) ، فاطمه (سلام الله علیها) حسن اور حسین(علیهم السلام) سے مخصوص کرنے کی بهترین وه روایتیں هیں جنھیں اهل سنت اور شیعوں کے علماء و محدثین نے پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) سے نقل کیا هے جو ستر سے بھی زیاده هیں ، اس کے علاوه خود قرآن کی آیتوں میں بھی ایسے قرینے پائے جاتے هیں که اس سے مراد پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) سے وابسته تمام افراد نهیں هیں ۔
اهلبیت (علیهم السلام) ایک قرآنی ، کلامی اور حدیث کی اصطلاح هے جس کے معنی پیغبر اکرم(صل الله علیه وآله وسلم) کا خانواده هے ، یه اصطلاح اس معنی میں صرف ایک مرتبه قرآن مجید کی آیت تطهیر میں استعمال هوئی هے ، سوره احزاب کی آیت نمبر 33 میں، (( انّما یرید الله لیذھب عنکم الرّجس اهل البیت ِ و یطهِّرکم تطهیراً)) بس الله کا اراده یه هے اے اهلبیت که تم سے هر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزه رکھے جو پاک و پاکیزه رکھنے کا حق هے ۔
لغت میں "اهل" انس و محبت اور قرابت [1] کے معنی میں هے اور "بیت" بھی، سکونت اور بیتوته کے مقام کے معنی هے [2] ۔ خود اهلبیت لغت میں کسی شخص کے قرابتداروں اور رشته داروں کے معنی میں هے [3] ۔
لیکن عام طور سے ایک وسیع معنی جو حسب و نسب ، دین، گھر، شهرو وطن میں کسی کے ساﭡﮭ شریک افراد کو شامل هے استعمال هوتا هے [4] ۔
لیکن مفسرین و محدثین نے قرآن مجید میں استعمال هونے والے لفظ اهلبیت کی اصطلاح کا ایک خاص مفهوم نکالا هے ، اس لیئے که ان کا عقیده هے که اس سلسله میں پیغمبر اکرم (صل الله علیه وآله وسلم) اور ائمه (علیهم السلام) کی طرف سے بهت سی حدیثیں نقل هوئی هیں لهذا قرآن کے اس لفظ کی ایک خاص تفسیر هے ۔
یه خاص تفسیر کن افراد کو شامل هے اس سلسله میں متکلمین ، محدثین اور مفسرین کے درمیان اختلاف نظر هے ۔
1- اهل سنت کے بعض مفسرین کا عقیده هے ؛ چوں که اس سے پهلے اور بعد کا جمله ازواج نبی (صل الله علیه وآله وسلم) سے متعلق هے لهذا یه آیت فقط ازواج کے شامل حال هے ان افراد نے اس نظریه کی تائید میں ابن عباس سے ایک روایت جسے عکرمه ، مقاتل ، ابن جبیر اور ابن سائب نے نقل کیا هے ، سے منسوب کی هے اور لکھتے هیں که : عکرمه بازار میں نعره لگاتے تھے که اهلبیت فقط ازواج النبی (صل الله علیه وآله وسلم) هیں اور میں اس سے انکار کرنے والوں سے مباهله کروں گا [5] ۔
بعض سنی اور سبھی شیعه مفسرین نے اس نظریه پر اعتراض کیاهے اور کهتے هیں (( اگرقرآن مجید میں اهلبیت سے مراد ازواج نبی (صل الله علیه وآله وسلم) تھیں تو بهتر یه تھا که قبل و بعد کی عبارت کی طرح جهاں ان سے مخاطب جمع مؤنث کی شکل میں هوا تھا اس آیت میں بھی خداوند عالم فرماتا (( انّما یرید الله ُ لیذھبَ عنکن الرجسَ اهل البیت ویطهرکنّ تطهیراً)) جب که ایسا نهیں هے ،اور اس آیت میں خطاب جمع مذ کر (عنکم و یطهرکم) هے جس سے پتا چلتا هے که ان لوگوں کا قول صحیح نهیں هے ۔
ان افراد پر روایت سے استناد کرنے پر اعتراض کیا گیا هے ، من جمله ابو حیان غرناطی – جو خود سنی هیں –
نے لکھا هے که اس روایت کو ابن عباس سے منسوب کرنا صحیح نهیں هے ، ابن کثیر بھی لکھتے هیں که اگر اس روایت کا مطلب یه هو که آیت تطهیر کی شان نزول ازواج النبی (صل الله علیه وآله وسلم) هیں نه که دوسرے افراد تو یه بات صحیح نهیں هے ، اس لیئے که بهت سی روایتیں اس نظریه کو رد کرتی هیں [6] ۔
البته جیسا که هم نے اشاره کیا هے که ابن کثیر کا یه کهنا هے که((آیت کی شأن نزول ازواج نبی(صل الله علیه وآله وسلم))) هیں یه بھی صحیح نهیں هے کیوں که اولاً : یه قول سیاق آیات کے مخالف هے ، دوسرے: یه قول اس روایتوں کے مخالف هے جن پر خود اسے یقین هے ۔
2- سنی مفسرین کا دوسرا گروه جو اس بات کا معتقد هے که آیت میں ازواج سے مراد، ازواج النبی(صل الله علیه وآله وسلم) اور علی(علیه السلام)، فاطمه (سلام الله علیها) ، حسن و حسین (علیهم السلام) بھی هیں [7] ۔
قابل ذکر هے که اس نظریه کے طرفداروں نے اپنی تائید میں کسی روایت سے استناد نهیں کیا هے ۔
3- بعض مفسر کهتے هیں : ظاهر میں آیت عام هے اور پیغمبر(صل الله علیه وآله وسلم) کے پورے خاندان کو شامل هے ، چاهے ازواج هوں یا بچے یا رشته دار حتی غلام اور کنیزیں بھی شامل هیں ۔
ثعلبی کا کهنا هے که یه آیت تمام بنی هاشم اور بنی هاشم کے مؤمنین کو بھی شامل هے [8] ۔ یه نظریه کسی بھی روایت پر مبنی نهیں هے ۔
4- مفسرین کے ایک گروه نے اس بات کی طرف اشاره کیا هے که شاید اهلبیت وه حضرات هیں جن پر صدقه حرام هے ۔ یه نظریه زید بن ارقم کی ایک حدیث پر مبنی هے جس میں اس سے سوال کیا گیا که اهلبیت رسول (صل الله علیه و آله وسلم) کون هیں ؟ کیا ازواج رسول کا شمار بھی ان (اهلبیت) میں هے ؟ زید نے کها : ازواج بھی اهلبیت میں سے هیں ، لیکن اهلبیت رسول (صل الله علیه و آله وسلم) وه هیں جن پر صدقه حرام هے ، یعنی آل علی ، آل عقیل ، آل جعفر اور آل عباس [9] ابوالفتوح رازی کے بقول ، یه نظریه ایک شاذ و نادر قول هے جس کی کوئی سند موجود نهیں هے [10] ۔
5- تمام شیعه مفسرین اور بعض سنی مفسرین کا قرائن و شواهد کے ذریعه نیز پیغمبر اکرم(صل الله علیه و آله وسلم) حضرت علی ، امام حسن ، امام حسین ، امام سجاد اور دوسرے ائمه(علیهم السلام) سے منقول روایتوں کے علاوه ام سلمه ، عائشه ، ابوسعید خدری ، ابن عباس نیز دیگر صحابه سے منقول روایتوں کی بنیاد پر پکّا عقیده هے که آیت تطهیر اصحاب کساء [حضرت محمد مصطفیٰ(صل الله علیه و آله وسلم) ، علی (علیه السلام) ، فاطمه (سلام الله علیها) ، حسین اور حسین (علیهم السلام) ] کی شان میں نازل هوئی هے ۔
فقط سوال یه پیدا هوتا هے که کس طرح ازواج النبی (صل الله علیه و آله وسلم) کی بحث کے دوران ایک ایسا مطلب بیان کیا گیا جو ازواج کے شامل حال نهیں هے ۔
اس سوال کے بهت سے جواب هیں : من جمله مرحوم طبرسی فرماتے هیں : یه تنها مقام نهیں هے جهاں قرآن مجید میں ﻜﭽﮭ آیتیں ایک دوسرے کے پهلو میں هوں اور مختلف موضوعات کو بیان کررهی هوں ، ۔ ۔ ۔
جیسا که عرب کے فصحاء کے کلام و اشعار میں اس طرح کے بهت سے نمونے دیکھنے کو ملتے هیں [11] ۔
علامه طباطبائی اس جواب مین اضافه کرتے هوئے لکھتے هیں : اس سلسلے میں کوئی صحیح دلیل موجود نهیں هے که جمله (( انّما یرید الله لیذھِبَ عنکم الرّجس اھل البیتِ و یطَھّرکم تطهیراً)) انھیں آیات کے ساﭡﮭ نازل هوا هو۔
اور یا تو پیغمبر (صل الله علیه و آله وسلم) کے حکم سے یا آنحضرت (صل الله علیه و آله وسلم) کے وفات کے بعد قرآن جمع کرتے وقت یه جمله ان آیات کے پهلو میں قرار پایا هے [12] ۔
تفسیر نمونه میں اس طرح لکھا هے : ((اس سوال کا تیسرا جواب اس طرح دیا جا سکتا هے که قرآن مجید ازواج النبی (صل الله علیه و آله وسلم) کو یه بتانا چاهتا هے که تم ایسے خاندان میں هو جن میں ایک گروه معصوموں کا بھی هے لهذا جو شخص شجر عصمت کے زیر سایه معصوموں کے مرکز میں ره رها هو ، اسے چاهئے که دوسروں سے زیاده اپنے اعمال کی نگرانی کرے اور یه بات نه بھولے که اس کا ایسے خاندان سے منسوب هونا جس میں پانچ معصوم هوں بهت بڑی ذمه داری کا سبب بنتا هے اور خدا ومخلوق خدا کو اس سے بهت زیاده امید هوتی هے [13] ۔
آیت تطهیر کی شان نزول اور مقصد کے سلسله میں روایات بهت زیاده هیں جن کی چند قسمین هیں :
الف : وه روایتیں جو صراحۃً آیت تطهیر کے مقصد و شان نزول کو پنجتن آل عبا سے متعلق جانتی هیں [14] ۔
ب : وه روایات جو حدیث کساء کی تائید کرتی هیں : ابوسعید خدری ، انس بن مالک ، ابن عباس ، ابو الحمراء اور ابو برزه سے منقول هیں که کساء (چادر تطهیر ) کے واقعه اور آیت تطهیر کے نازل هونے کے بعد پیغمبر اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) مستقل ایک مهینه یا 40 دن یا 6 سے 9 مهینے تک نماز صبح یا نماز پنجگانه کے وقت علی (علیه السلام) و فاطمه (سلام الله علیها) کے گھر جاکر فرماتے تھے : (( السلام علیکم اھل البیت و رحمۃ الله وبرکاته ، الصلاۃ یرحمکم الله)) ، اس کے فوراً بعد آیت تطهیر کی تلاوت کرتے تھے [15] ۔
کتاب شرح احقاق الحق [16] میں اس سلسله میں اهل سنت کے 70 سے زیاده منابع جمع کئے گئے هیں اور شیعوں کے منابع اس سے کهیں زیاده هیں [17] ۔
لهذا روایات کی روشنی میں یه بات یقینی هوگئی که سوره احزاب آیت نمبر 33 کا مقصد رسول خدا (صل الله علیه و آله وسلم) ، امام علی (علیه السلام)، فاطمه زهرا (سلام الله علیها) اور امام حسن و حسین (علیهم السلام) هیں لیکن باقی اماموں پر یعنی امام سجاد (علیه السلام) سے لیکر امام زمانه (عج) تک ، لفظ اهلبیت (علیهم السلام) کیوں اطلاق هوا هے تو اس کے جواب یه هے که : قرآن مجید کا اهلبیت (علیهم السلام) کے مقام و منزلت پر اصرار کرنے کا فلسفه یه تھا که لوگ کمال تک پهنچے اور هدایت کے راسته کو طے کرنے میں ان کی پیروی کریں اس لیئے که قرآن مجید کا اصل مقصد انسانوں کی هدایت کرنا هے (( الم ۔ ذالکَ الکِتاب لا ریبَ فیه ھدیً للمتّقین )) [18] قرآن مجید کی آیتوں میں دقت کرنے والا واضح طور سے اس استنباط کی تصدیق کر سکتا هے اور چوں که شیعوں کے ائمه (علیهم السلام) ، امت کے هادی اور مقتدیٰ تھے اسی وجه سے اهلبیت (علیهم السلام) کا عنوان ان پر صادق هوا هے ۔
اسی لیئے پیغمبر اکرم (صل الله علیه و آله وسلم) جو قرآن مجید کے حقیقی مفسر هیں جب اپنے بعد دینی مرجعیت کے منصب ، امامت اور رهبری کو بیان کرنا چاهتے هیں تو اسی لفظ اهلبیت سے استفاده کرتے هیں مثال کے طور پر آپ (صل الله علیه و آله وسلم) فرماتے هیں : (( انّی تارک فیکم الثقلین کتاب الله وعترتی اھل بیتی ما ان تمسکتم بھما لن تضلوا بعدی ابداً فانّھما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض)) [19] ۔ میں تمهارے در میان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جارها هوں ، کتاب خدا اور میری عترت و اهل بیت جب تک که تم ان دونوں سے متمسک رهوگے هرگز میرے بعد گمراه نه هوگے ، اور یه دونوں هرگز ایک دوسرے سے جدا نهیں هوں گے یهاں تک که حوض کوثر پر ﻤﺠﮭ سے ملاقات کریں ۔
یا حدیث سفینه میں فرماتے هیں: (( انّما مثل اھل بیتی فیکم کسفینۃ نوح من رکبھا نجا و من تخلف عنھا غرق)) [20] یقیناً میرے اهلبیت کی مثال تم میںسفینه نوح کی سی هے ۔ جو اس پر سوار هوا وه نجات پاگیا اور جس نے اس کی مخالفت کی وه غرق هوگیا ۔
مزید معلومات کے لیئے ان عنوانات کی طرف رجوع کریں :
1- اهلبیت (علیهم السلام) اور سوره شوریٰ کی آیت نمبر 23 (آیت مودت) سوال نمبر 2346 (سایٹ: 2506)
2- پیغمبر اسلام (صل الله علیه و آله وسلم) کے اهلبیت (علیهم السلام) ، سوال نمبر 833
3- مصادیق اهل بیت (علیهم السلام) ، سوال نمبر 1247
4- اهل بیت (علیهم السلام) کا اصحاب کساء سے مخصوص هونا ، سوال 2341 (سایٹ: 2481)
[1] مصباح المنیر ، فیومی ، ص 28
[2] گذشته حواله ، ص 68
[3] گذشته حواله
[4] مفردات راغب ، اصفهانی ، ص 29
[5] طبری ، جامع البیان ، ج 22 ، ص7 – ابن کثیر ، تفسیر القرآن العظیم ، ج 6 ، ص365
[6] تفسیر ابن کثیر ، ج 5 ، ص452-453
[7] فخر الدین ، تفسیر کبیر ، ج 25 ، ص209 ؛ بیضاوی ، انوار التنزیل ، ج 4 ، ص 163 ؛ ابوحیان ، البحر المحیط ، ج 7 ،ص232
[8] قرطبی ، الجامع لاحکام القرآن ، ج 14 ، ص 183 ؛ آلوسی ، روح المعانی ،14-22
[9] ابو حیان ، البحر المحیط ، ج 7 ، صص231-232
[10] ابوالفتوح رازی ، روض الجنان و روح الجنان ، ج 15 ، ص 421
[11] مجمع البیان ، ج 7 ، ص 560
[12] المیزان ، ج 16 ، ص312
[13] تفسیر نمونه ، ج 17 ، ص 295
[14] طبری ، ج 22 ، ص 7-6 ؛ قرطبی ، ج 14 ، ص 183 ؛ حاکم ، ج 2 ، صص416-3146 ؛ بخاری ، التاریخ ، ج 1،(2) ص69-70 ترمذی ، السنن ، ج 5 ، ص 663
[15] طبری ، ج 22 ، ص 5-6 ؛ بخاری ، الکنی ، صص25-26 ؛ احمد بن حنبل ، مسند ، ج 3 ص259 ؛ حسکانی ، شواهد التنزیل ، ج 2 ،ص11-15 ؛سیوطی ، الدر المنثور ، ج 6 ، ص606-607
[16] مرعشی ، ج 2 ، صص502-547 ، ج 9 ، ص2-19
[17] اس مقاله که ﻜﭽﮭ حصوں میں کتاب شناخت نام اهلبیت ، مؤلف علی رفیعی علامرودشتی ، ص 301-308 سے استفاده کیا گیا هے مزید معلومات کے لیئے خود اسی کتاب کی طرف رجوع کریں ۔
[18] سوره بقره /1-2
[19] صحیح ترمذی ، ج 2 ، ص 380 ؛ احمد بن حنبل ، مسند ، ج 3 ،ص17
[20] حاکم ، مستدرک الصحیحین ، ج 2 ، ص432 ؛ فیروز آبادی ، فضائل الخمسۃ ، ج 2 ، ص 65