Please Wait
7818
آیت''اناً سنلقی علیکا قولاً ثقیلا'' میں قول ثقیل سے مراد خود قراّن مجید ہے ؛ اگرچہ مفسرین نے قول ثقیل سے الگ الگ وضاحتیں فرمائ ہیں جن میں سے ہر الگ الگ پہلووں کی طرف ا
اشارہ ہے لکین ایسا نظر اتا ہے کہ اس قول کے سنگین ہونے سے مراد جو بلا شبہ قرآن کریم ہے اس کے مختلف پہلو ہیں یعنی قرآن سنگین ہے آیات کے معنی و مفہوم کے لحاظ سے دلوں پر ان مطالب کی
سنگینی کے لحاظ سے ۔ تبلیغ اور دعوت کی مشکلات کے لحاظ سے ۔ منصوبہ بندیوں اور ان پر عمل کے لحاط سے
ثقلی(سنگینی) جسم کے لئے ایک خاص کیفیت ہے اور اس کی خاصیت یہ ہے کہ اس کا تحمل کرنا اور ادھر سے ادھر منتقل کرنا دشوار ہونا ہے ؛ اور کبھی یہی لفظ جسم سے الگ معنوی امور میں استعمارہ کے طور ہر استعمال ہوتا ہے ۔ مثلاً کہتے ہیں کہ آج کا سبق سخت اور سنگین تھا یعنی شاگردوں کے لیئے اس کا سمجھنا دشوار تھا ۔ یا کہتے ہیں کہ آج کی تقریر جو دقیق عملی نظریات سے بھری تھی عوام کے لئے سنگین تھی۔ اس طرح کی تعبیروں میں سنگین کا لفظ جو غیر مادی اعتبار سے استعمال ہواہے یا معنوی امور سے متعلق ہے جن کا درک کرنا دشوار ہے یا ان حقائق کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے جن تک پہنچنا سخت ہے یا ایسا فرمان یا حکم ہوتا ہے جس کا بجا لانا یا اس کی پابندی کرنا سخت اور دشوار ہے
قرآن کریم جو کلام الہی ہے دونوں اعتبار سے (یعنی معنی سمجھنے اور اسے عملی جامہ پہنانے کے اعتبار سے) ثقیل ہے یعنی سمجھنے کے اعتبار سے اس لئے ثقیل ہے کہ وہ کلام الہی ہے اور پیغمبر اسلام نے اسے خدا سے حاصل کیا ہے اور ظاہرہے کہ ایسے کلام کو ہر طرح کی برائی و پلیدی سے پاک افراد ہی سمجھ سکتے ہیں ایسے افراد جنہوں نے ہر سبب سے رابطہ توڑ کر صرف سبب الاسباب خدا سے دل لگا رکھا ہے یہ کلام الہی ہے اور ایسی عزیز کتاب ہے جس کا ظاہر بھی ہے اور باطن بھی تنزیل بھی ہے اور تاویل بھی ۔ ہر چیز کا بیان ہے اس کی سنگینی حضرت رسول خدا کی حالت سے ظاہر ہے سب دیکھتے تھے کہ وحی نازل پوتے وقت پیمبر اکرم کی کیا حالت ہوتی تھی اورپھر قرآن کے ان تعا رف و تعلیمات کو عملی جامعہ پہنانا یعنی توحید واعتقادی واخلاقی تعلیمات کو عملی شکل میں ڈھالنا بھی اس قدر سنگین ہے کہ اس سنگینی کو قرآن کریم یوں فرماتا ہے '' لو انزلنا ھاذالقران علی جبل لرآیتہ خاشعاً متصدعاً خشیتہ اللہ ۔۔۔[1] کہ پہاڑ بھی برداشت اور تحمل نہیں رکھتا کہ قرآن اس پر نازل ہو سکے اور اگر پہاڑ پر نازل ہو جاتاا تو پہاڑ خوف خدا سے ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ۔
قرآن نہ صرف ان دو اعتبارات سے سنگین ہے بلکہ اسے کاج کے اندر رائج کرنے لوگوں کو اس کی طرف دعوت دینے کے اعتبار سے کہ وہ اس پر عمل کر یں نیز تمام ادیان پر اس دین کی برتری کے اعتبار سے بھی سنگین ہے اس کے گواہ وہ مصائب و آلام میں جو تبلیغ دین اور خدا کی راہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اٹھانا پڑے اور وہ اذییتں اور تکلیفیں ہیں جو خدا کے لئے آپ نے برداشت کی ہیں کہ قرآن کریم نے ان اذیتوں اور مضحکوں کا کچھ ذکر کیا ہے جو آنحضرت نے مشرکین اور کفارو منافقین سےدیکھے ہیں لہزا وہ فرماتا ہے '' انا سنلقی علیک قولاً ثقیلا'' سے مراد یہی قرآن کریم ہے
اس بنابر پر اگر چہ مفسروں نے''قول ثقیل'' کی الگ الگ وضاحت کی ہے کہ ان میں سے ہر ایک کسی خاص پہلو کی طرف اشارہ ہے لکین نظر آتا ہے کہ اس قول ثقیل سے مراد جو بلا شبہ قرآن کریم ہے خود اس کے مختلیف پہلو ہیں 'قرآنی آیات معنی و مفہوم کے اعتبار سے دلوں پر اس کی سنگینی کے اعتبار سے اس کی سنگینی کے اعتبار سے اس کی تبلیغ اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات
کے اعتبار سے اور اسے سماج میں رائج کرنے کے اعتبار اور ۔۔۔۔ بھی سنگین ہے [2]
[1] سورہ حشر / ۲۱
[2] ر۔ک۔ : طباطبائ ؛سید محمد حسین ؛ المیزان ؛ترجمہ؛ موسوی ھمدانی ؛سید محمد باقر ج۲۰ ص ۹۷ ۔ دفتر انتشارات اسلامی ؛ قم ؛ چاپ پنجم ۱۳۷۴ ش مکارم شیرازی؛ ناصر؛ تفسیر نمونہ ج ۲۵ ص۱۶۹ ۱۷۰ ؛دارالکتب الاسلامیہ تہران ۱۳۷۴ ش