Please Wait
11621
مشہور مفسرین کے نظریہ کے مطابق ، سورہ بنی اسرائیل {اسراء}،[1] مکہ میں نازل ہوا ہے اور مکی سوروں میں سے ہے[2]۔
کلی طور پر، سورہ بنی اسرائیل کی تعلیمات مندرجہ ذیل مسائل کے محوروں پر مشتمل ہیں:
۱۔ نبوت کے دلائل، خاص کر قرآن مجید اور پیغمبراکرم{ص} کی معراج کا معجزہ۔
۲۔ معاد، کیفرکردار، پاداش اور نامہ اعمال وغیرہ سے متعلق مسائل۔
۳۔ قوم بنی اسرائیل کی داستان سے متعلق تاریخ کا ایک حصہ جو سورہ کی ابتداء اور آخر میں آیا ہے۔
۴۔ ارادہ کی آزادی اور اختیار کا مسئلہ اور یہ کہ ہر قسم کے نیک و بد عمل کا نتیجہ خود انسان کی طرف پلٹتا ہے۔
۵۔ اس دنیا کی زندگی کے حساب و کتاب کا مسئلہ جو دوسری دنیا کے لیے ایک مثال ہے۔
۶۔ تمام سطحوں پر حق شناسی ، خاص کر اپنے رشتہ داروں کے بارے میں، اور ان میں بھی علی الخصوص ماں باپ کے بارے میں۔
۷۔ اسراف اور فضول خرچی، بخل، اولاد کشی، زنا، یتیموں کا مال کھانا ، کم تولنا، تکبر، اور خوں ریزی کا حرام ہونا۔
۸۔ توحید اور خداشناسی کی بحثیں
۹۔ حق کے مقابلے میں ہر قسم کی ہٹ دھرمی سے مبارزہ اور یہ کہ انسان اور حق کے درمیان گناہ پردہ ڈالتا ہے۔
۱۰۔ انسان کی شخصیت اور دوسری مخلوقات پر اس کی برتری۔
۱۱۔ ہر قسم کی اخلاقی اور اجتماعی بیماریوں کا علاج کرنے میں قرآن مجید کا اثر۔
۱۲۔ قرآن مجید کا معجزہ اور اس کا مقابلہ کرنے کی کمزوری۔
۱۳۔ شیطان کے وسوسے اور تمام مومنین کو شیطان کے انسان میں نفوذ کرنے کی راہوں سے ہوشیار رہنے کا انتباہ۔
۱۴۔ اخلاقی تعلیمات
۱۵۔ تمام انسانوں کے لیے درس عبرت اور مذکورہ بالا مسائل کے لیے شاہد کے عنوان سے انبیاء{ع} کی تاریخ کی ایک جھلک[3]۔
مختصر یہ کہ سورہ، عقیدتی، اخلاقی اور اجتماعی بحثوں پر مشتمل ہے اور مختلف ابعاد میں انسان کے لیے ارتقاوکمال تک پہنچنے کا ایک مکمل نسخہ ہے[4]۔
[1]. اس سورہ کا مشہور نام "بنی اسرائیل" ہے اور اس کے دوسرے نام "اسراء" اور "سبحان" ہیں۔؛ مکارم شيرازى، ناصر، تفسير نمونه، ج 12، ص 3، دار الكتب الإسلامية، تهران، 1374ھ ش.
[2]. ایضاً، ص 5.
[3]. ایضاً، ص 5 و 6.
[4]. ایضاً، ص 6.