Please Wait
کا
9617
9617
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/05/06
سوال کا خلاصہ
عن أبی جعفر (ع) قال: "تفقهوا فی الحلال و الحرام و إلا فأنتم أعراب"، مہربانی کرکے بتائیے کہ اس روایت سے کیا مراد ہے؟
سوال
عن أبی جعفر (ع) قال: "تفقهوا فی الحلال و الحرام و إلا فأنتم أعراب"، مہربانی کرکے بتائیے کہ اس روایت سے کیا مراد ہے؟
ایک مختصر
یہ روایت تَفَقَّهُوا فِي الْحَلَالِ وَ الْحَرَامِ وَ إِلَّا فَأَنْتُمْ أَعْرَاب"؛[1] یعنی حلال و حرام میں تحقیق اور جستجو کرو، ورنہ بادیہ نشین عربوں کے مانند ہوگے۔ حضرت امام باقر(ع) سے روایت نقل کی گئی ہے ، اور اس کے معنی یہ ہیں کہ حلال و حرام کو پہچاننے اور احکام اور اپنے دین کے معارف جاننے کے لئے تحقیق کرنا اور ان کو سیکھنے کی کوشش کیجئے، ورنہ آپ بھی جہل اور تمدن سے دوری کے لحاظ سے اعراب [2]کے مانند ہو۔ اس بنا پر، اس روایت کا مراد تحقیق و جستجو اور دین شناسی کے پیچھے جانا ہے۔ کہ اگر کوئی شخص دین اور اس کے احکام کو نہ جانتا ہو تو وہ بادیہ نشین عرب کے مانند ہوگا کہ قرآن مجید نے ان کے بارے میں فرمایا ہے:" الاعراب اشدّ کفراً و نفاقاً۔"[3] بادیہ نشین عربوں کا کفر و نفاق شدید تر ہے اور اسی قابل ہیں کہ جو کتاب خدا نے اپنے رسول پر نازل کیا ہے اس کے حدود اور احکام کو نہ پہچانیں اور اللہ خوب جاننے والا اور صاحب حکمت ہے۔"
ان اعراب کا کفر و نفاق اس لحاظ سے شدید تر ہے کہ تمدن سے دوری اور علم و ادب جیسی انسانیت کی برکتوں سے محرومیت کی وجہ سے دوسرے طبقات کی بہ نسبت خشن تر اور سنگ دل تر ہیں، اسی طرح قرآن مجید کو سننے اور پیغمبر(ص) سے بھی دور تھے۔
اس آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں کہ بادیہ نشیں (دیہاتی) اگر کافر یا منافق ہوتے تو وہ اپنے کفر و نفاق میں شہرنشینوں کی بہ نسبت سخت اور شدیدتر ہوتے اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ حجت الہی کو سننے اور معجزات و برکات وحی کا مشاہدہ کرنے اور خداوند متعال کے نازل کئے ہوئے حدود اور اصلی معارف اور واجبات و مستحبات حلال و حرام جیسے فرعی احکام جاننے سے دور ہیں اور اسی وجہ سے ہر دوسرے طبقات کی بہ نسبت نہ سمجھنے اور نہ جاننے میں سزاوار تر ہیں۔[4]
یہ آیت درحقیقت یہ بتائی ہے کہ اعراب کا مذہب صرف کفر و نفاق اور ان کے پیغمبر خدا(ص) پر نازل کئے گئے احکام سے بے خبری کی وجہ سے قابل مذمت نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ، دیہاتی زندگی متمدن لوگوں سے دوری کی وجہ سے ان کے مزاج میں سختی اور درشتی ایجاد ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس بنا پر گناہ ماحولیات کا ہے نہ دیہاتی کا۔[5]
ان اعراب کا کفر و نفاق اس لحاظ سے شدید تر ہے کہ تمدن سے دوری اور علم و ادب جیسی انسانیت کی برکتوں سے محرومیت کی وجہ سے دوسرے طبقات کی بہ نسبت خشن تر اور سنگ دل تر ہیں، اسی طرح قرآن مجید کو سننے اور پیغمبر(ص) سے بھی دور تھے۔
اس آیہ شریفہ کے معنی یہ ہیں کہ بادیہ نشیں (دیہاتی) اگر کافر یا منافق ہوتے تو وہ اپنے کفر و نفاق میں شہرنشینوں کی بہ نسبت سخت اور شدیدتر ہوتے اس کی دلیل یہ ہے کہ وہ حجت الہی کو سننے اور معجزات و برکات وحی کا مشاہدہ کرنے اور خداوند متعال کے نازل کئے ہوئے حدود اور اصلی معارف اور واجبات و مستحبات حلال و حرام جیسے فرعی احکام جاننے سے دور ہیں اور اسی وجہ سے ہر دوسرے طبقات کی بہ نسبت نہ سمجھنے اور نہ جاننے میں سزاوار تر ہیں۔[4]
یہ آیت درحقیقت یہ بتائی ہے کہ اعراب کا مذہب صرف کفر و نفاق اور ان کے پیغمبر خدا(ص) پر نازل کئے گئے احکام سے بے خبری کی وجہ سے قابل مذمت نہیں ہوسکتا ہے۔ البتہ، دیہاتی زندگی متمدن لوگوں سے دوری کی وجہ سے ان کے مزاج میں سختی اور درشتی ایجاد ہونے کا سبب بن جاتی ہے۔ اس بنا پر گناہ ماحولیات کا ہے نہ دیہاتی کا۔[5]
[1] برقى، احمد بن محمد بن خالد، المحاسن، ج 1، ص 227، دار الكتب الإسلامية، قم، طبع دوم، 1371ق.
[2] یہاں پر اعراب سے مراد وہ بادیہ نشیں (دیہاتی)ہیں ، جو ثقافتی مراکز میں مہاجرت ممکن ہونے کے باوجود ترجیح دیتے ہیں کہ اپنی گزشتہ زندگی کو جاری رکھیں اور اسی وجہ سے اسلام و احکام الہی کو پہچاننے میں جہل و نادانی میں رہتے ہیں۔
[3] ۔ وبه 97.
[4]۔ ملاحظہ ہو: طباطبائى سيد محمد حسين، الميزان فى تفسير القرآن، ج 9، ص 370، دفتر انتشارات اسلامى، قم، 1417ق؛ طبرسى، مجمع البیان، ج 5، ص 95- 96، انتشارات ناصر خسرو، تهران، 1372ش
[5] ۔ نجفى خمينى، محمد جواد، تفسير آسان، ج 6، ص 393، انتشارات اسلاميه، تهران، 1398ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے