Please Wait
8271
شیعه اهل بیت علیهم السلام کی طرف زیاده توجه اور اهتمام نهیں کرتا هے، بلکه شیعه کی توجه اور عنایت زیاده تر رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی طرف هوتی هے- شیعوں کی اهل بیت علیهم السلام کے تئیں توجه اور اهتمام پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی دعوت کو قبول کرنے اور آپ کی اطاعت کرنے کے علاوه کچھ نهیں هے؛ یه مسئله بهت سی آیات اور روایات میں آیا هے، جیسے وه آیات جن میں ذی القربیٰ کی اطاعت اور اکرام کرنے کی دعوت دی گئی هے- حدیث ثقلین اور بهت سی احادیث جو آنحضرت {ص} سے نقل کی گئی هیں- کیونکه ائمه اطهار کی تعظیم اور اهتمام پیغمبر اسلام کے دین اور آپ {ص} کی رسالت کی حفاظت هے- اگر کوئی دعا کی کتابوں کی طرف رجوع کرے تو اسے معلوم هوگا که ان میں بهت سی دعائیں اور نمازیں موجود هیں جو رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے مخصوص هیں اور کوئی ایسی دعا و زیارت نهیں پائی جاتی هے، جس کا کوئی نه کوئی حصه پیغمبر اکرم{ص} سے متعلق نه هو- آپ اگر مفاتیح الجنان کو اُٹھا کر دیکھیں تو آپ کو معلوم هوگا که مدینه منوره اور روضه اطهر میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی زیارت کے خاص آداب موجود هیں- آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے لئے دور و نزدیک سے پڑھنے کی چار زیارتیں مخصوص هیں- اسی طرح کتاب مزار کبیر، کامل الزیارات اور دیگردعا کی کتابوں میں بھی آنحضرت {ص} کی زیارتوں اور دعائوں کا اهتمام کیا گیا هے-
شیعوں کے خلاف کبھی کبھی اٹھایا جانے والا مسئله شیعوں کا رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے دلی لگاو هے- اور یه الزام لگایا جاتا هے که شیعه، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی به نسبت اهل بیت علیهم السلام کو زیاده اهمیت دیتے هیں-
اس شبهه کو دور کرنے اور حقیقت بیان کرنے سے پهلے ضروری هے که ایک مقدمه بیان کیا جائے اور یه مقدمه مندرجه ذیل چند نکات پر مشتمل هے:
۱۔ مشهور یه هے که، تشیع یعنی پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کے نقطئه نظر کے مطابق دین کو سمجھنا اور اس بات کا اعتقاد رکھنا که بیشک پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد حضرت علی علیه السلام کی امامت اور ان کے بعد ان کے فرزندوں کی امامت هے-
شیعوں کا یه اعتقاد، حقیقت میں، قرآن و سنت کی روشنی میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے احکام و اوامر کی اطاعت کرنا هے[1]- ظاهر هے که شیعوں نے اپنے اس اعتقاد کے لئے بڑی قربانیاں پیش کی هیں اور سب سے اهم بات یه هے که مخالفین کی طرف سے پیدا کئے گئے شک وشبهه کو دور کرنے کے لئے اور حقیقت کو ثابت کرنے کے لئے زبردست کوششیں کی هیں-
اس لئے، فطری بات هے که هم اپنی بحث کو حق ثابت کرنے اور باطل کو محو کرنے پر مرکوز کریں گے اور لوگوں کو سچے قائدین اور اماموں سے آگاه کریں گے، جن کی اطاعت کرنے کی پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے وصیت کی هے اور حکم فرمایا هے-
واضح رهے که یه مسئله کوئی ساده اور آسان کام نهیں هے- خاص کر جب هم تاریخ اور احادیث کی کتابوں کا مطالعه کرتے هیں تو معلوم هوتا هے که ان میں اکثر کتابیں اموی اور عباسی حکام کے زمانے میں ان کے نظریات کے مطابق تالیف کی گئی هیں- اس کے علاوه تاریخ اسلام سے معلوم هوتا هے که فقهی اور کلامی فرقوں کے قائدین نے بھی اسی راه پر قدم رکھا هے-
اس لئے ائمه اطهار علیهم السلام کی تاریخ کو اهمیت دینا اور ان کے مسائل کے بارے میں تحقیق کر کے انھیں پیش کرنا فطری بلکه ضروری امر هے-
شائد اسی لئے، امام سجاد علیه السلام نے یزید کی مجلس میں اپنے مشهور خطبه میں اپنے جد امیرالمومنین۴ کو متعارف کرتے هوئے اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی به نسبت ان کی اهم صفات اور خصوصیات بیان کرتے هوئے فرمایا : " میں علی مرتضیٰ کا بیٹا هوں- میں اس شخص کا بیٹا هوں، جس نے بهادروں اور شجاعوں سے اس قدر جنگ کی هے که انھیں شکست دیدی- میں صالح ترین مومنین، انبیاء کے وارثوں اور صابر تریں شخص کا بیٹا هوں۔۔۔۔ [2]" اور یه اس لئے تھا که لوگ امام علی علیه السلام کی شخصیت کی خصوصیات سے مکمل طور آگاه نهیں تھے لیکن پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی نسبت ایسا نهیں تھا-
۲۔ شیعوں کی ائمه اطهار علیهم السلام خاص کر حضرت علی علیه السلام کے ساتھه دلی لگاو، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے ساتھه دلی لگاو کے علاوه کچھه نهیں هے، کیونکه حضرت علی علیه السلام وهی نفس پیغمبرص هیں- یه مطلب آیه مباهله میں واضح طور پر آیا هے:
" پیغمبر؛ علم کے آجانے کے بعد جو لوگ تم سے {عیسیٰ کے بارے میں} کٹ حجتی کریں اور {حق کو قبول کرنے سے گریز کریں} ، ان سے کهه دیجئے که آو هم لوگ اپنے اپنے فرزند، اپنی اپنی عورتیں اور اپنے اپنے نفسوں {جو همارے برابر هیں} کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاه میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں[3]-"
اس کے علاوه بهت سی ایسی احادیث پائی جاتی هیں جو پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور حضرت علی۴ کے درمیان انتهائی پیار اور محبت کی حالت کو بیان کرتی هیں اور ثابت کرتی هیں که امام علی علیه السلام پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی شریعت کو آگے بڑھانے والے هیں- ایسی احادیث میں ، حدیث منزلت، حدیث مواخات، حدیث طائر مشوی وغیره قابل ذکر هیں[4]-
۳۔ شیعوں کا اعتقاد هے که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے علاوه کوئی اشرف المخلوقات نهیں هے اور آنحضرتص کے بعد آپ کے مانند کوئی آنے والا نهیں هے- پیغمبر اکرم میزان و معیار هیں جس پر لوگوں کو تولا جا سکتا هے- شیعوں کے عقیده کے مطابق جو شخص معنوی لحاظ سے آنحضرتص کے نزدیک تر هو اس کی قدر و منزلت بلند هے اور جو آنحضرتص کی راه و روش سے دور هو اس کی کوئی قدر و منزلت نهیں هے- چاهے وه قریش میں سے بھی هو- اس دعویٰ کا گواه سوره "مسد" هے جو ابو لهب کی مزمت میں نازل هوا هے، جبکه وه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کا چچا تھا- حضرت علی علیه السلام اس بارے میں فرماتے هیں: " آپ رشته کے سلسلے میں رسول خدا سلی الله علیه وآله وسلم کی به نسبت میرے خاص مقام و منزلت کو جانتے هیں، پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم مجھے اپنے کمرے میں بٹھاتے تھے، جب میں بچه تھا، آپص مجھے اپنی گود میں لیتے تھے اور اپنے مخصوص بستر میں سلاتے تھے، اپنے بدن مبارک کو میرے بدن سے ملاتے تھے اپنی پاکیزه خوشبو کو مجھے سنگھاتے تھے اور کبھی کبھی لقمه لقمه کر کے کھانے کو میرے منه میں ڈالتے تھے، آپص نے کبھی میرے گفتار و کردار میں جھوٹ یا غلط چیز نهیں پائی- جس دن پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کو دودھ پینے سے جدا کیا گیا، خداوند متعال نے اپنے عظیم فرشته {حضرت جبرئیل} کو آپ کی تربیت پر مامور فرمایا تاکه وه دن رات بزرگواری،سچائی اور نیک اخلاق کی طرف آپص کی راهنمائی فرمائیں اور میں همیشه سے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے همراه ایسے هوا کرتا تھا، جیسے ایک بچه اپنی ماں کے همراه هوتا هے- پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم هر روز میرے لئے ایک نیا درس اخلاق دیتے تھے اور مجھے اس پر عمل کرنے کا حکم دیتے تھے[5]-
۴۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم ایسی خصوصیات کے مالک هیں، جو دوسروں میں نهیں پائی جاتی هیں- ان خصوصیات میں سے ایک آپ کا خاتم الانبیاء هونا هے اور آپص کی رسالت کا آخری رسالت هونا هے- آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے بعد کوئی بھی شخص وحی و رسالت کا دعویٰ نهیں کر سکتا هے اور اگر کوئی ایسا دعویٰ کرے تو وه جھوٹا هے- پس جس پیغمبر کی رسالت پیغمبری کا خاتمه هو اور تمام آسمانی رسالتیں اس کی رسالت پر ختم هوتی هوں {یعنی تمام آسمانی رسالتیں اس میں جمع هوں} ، وه کمالات کا مجموعه اور انسانیت کا نمونه هے، وه هر قسم کی پلیدی سے پاک و منزه هے اور وه پیدائش کے وقت سے اپنے معبود سے مل کر مقام محمود تک پهنچنے کے لمحه تک زندگی کے تمام مراحل میں معصوم هے-
امیرالمومنین حضرت علی علیه السلام اس سلسله میں فرماتے هیں: " جس وقت پیغمبرص کو دودھ پینے سے جدا کیا گیا، خداوند متعال نے سب سے بڑے فرشته {جبرئیل} کو آپص کی تربیت کے لئے مامور فرمایا تاکه رات دن بزرگی اور نیک اخلاق کی طرف ان کی راهنمائی کریں اور میں همیشه پیغمبر ص کے اس طرح دوش بدوش تھا جیسے ایک بچه اپنی ماں کے ساتھ هوتا هے – پیغمبرص هر دن نیک اخلاق کا ایک تاذه نمونه میرے لئے واضح فرماتے تھے اور مجھے حکم دیتے تھے که اس پر عمل کروں-[6]، [7] ،[8]"
اس مختصر مقدمه کو بیان کرنے کے بعد هم اصل مسئله پر بحث شروع کرتے هیں- شیعه اپنی ثقافت اور تهذیب و تمدن میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم اور آپص کی تعلیمات کے بارے میں تمام جهات سے ' من جمله تشریع، تفسیر، اخلاق اور سیاست وغیره کے لحاظ سے انتهائی اهمیت کے قائل هیں، کیونکه خداوند متعال کا ارشاد هے: " بیشک آپ کے لئے رسولص کی زندگی بهترین نمونه عمل هے[9]-"
" جو کچھ بھی رسول تمھیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کر دے اس سے رک جاو[10]-"
جو بھی انصاف پسند انسان شیعوں کی دینی کتابوں کی طرف رجوع کرے گا، تو اسے معلوم هوگا که شیعوں کا دوسرا دینی مرجع و منبع پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سنت هے[11]-"
یه مسئله چند اهم نکات پر مشتمل هے، جو حسب ذیل هیں:
۱۔ یه مسئله ایک عظیم احترام اور تقدس کا انکشاف کرتا هے، جس کا ایک شیعه پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کے بارے میں قائل هے اور یهی آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کے همارے اور پروردگار عالم کے درمیان تمام امور میں واسطه هونے کا سبب هے[12]-
۲۔ شیعوں نے تدوین و ترویج کے لحاظ سے پیغمبراکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی سنت کی حفاظت اور تحفظ کے سلسلے میں بھرپور کوششیں کی هیں- همارے علماء نے ابتدائی صدیوں سے آج تک اس سلسله {حدیث کی کتابیں تدوین کرنے} میں وسیع کوششیں کی هیں اور ان کی یه کوششیں اس وقت بھی جاری هیں- اس دعویٰ کے ثبوت میں شیعوں کی احادیث اور روایتوں پر مشتمل کتابوں، جیسے کتب اربعه، بحارالانوار، وسائل الشیعه، مستدرک الوسائل وغیره کی طرف رجوع کرنا کافی هے-
۳۔ پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی زندگی سے متعلق کسی ایسے پهلو کو نهیں پایا جا سکتا هے، جس پر شیعوں نے کام نه کیا هو اور اس کے بارے میں تجزیه و تحقیق نه کی هو- اس کی گواه اس سلسله میں ان کی تالیف کی گئی کتابیں هیں[13]- اور شیعه علماء کی خدمات جو انھوں نے اس سلسله میں اسلامی ثقافت اور مسلمان معاشره کے لئے انجام دئے هیں ، اس قدر مفصل هیں که اس مختصر مقاله میں ان کو بیان کرنے کی گنجائش نهیں هے-
سنت رسول الله صلی الله علیه وآله وسلم کی اهمیت کے پیش نظر اس کی حفاظت میں شیعه علماء کی زبردست کوششوں کے باوجود، شیعه، اس عظیم شخصیت کے تئیں اس کوشش کو حقیر اور ناچیز جانتے هیں اور اس سلسله میں اپنے آپ کو ذمه دار ٹھراتے هیں- رسول اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی شخصیت اس قدر عظیم هے که اگر تمام دنیا والے بھی پوری طاقت کے ساتھه جمع هو جائیں، تب بھی اس سلسله میں حق ادا نهیں کر سکتے هیں-
۴۔ لیکن سوال میں جو دعا اور زیارتوں کے بارے میں آیا هے، اس سلسله میں کهنا چاهئیے که: شیعه اپنی دعاوں اور زیارتوں میں اهل بیت علیهم السلام کے بارے میں زیاده اهمیت دیتے هیں- یه مسئله اس وقت واضح هو جاتا هے جب هم مندرجه ذیل مسائل پر توجه کریں:
۔ – بهت کم ایسی زیارتیں پائی جاتی هیں، جن کا ایک حصه پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم سے مخصوص نه هو-
۔ – مفاتیح الجنان کی پهلی دعا میں هم دیکھتے هیں که، خداوند متعال کی حمد و ثنا کے بعد تاکید کی گئی هے که دعا کرنے والا سات مرتبه کهے:" یا رب محمد و آل محمد، صلی علیٰ محمد و آل محمد و عجل فرج آل محمد" اس بنا پر هم اس تاکید کو مثال کے طور پر پیش کرتے هیں-
۔ – فجر کی نماز کی تعقیبات میں آیا هے : سو مرتبه کهو: "صلی الله علیٰ محمد وآل محمد" اسی دعا میں آیا هے "خداوندا؛ میں تجھه سے محمد و آل محمد کے واسطے درخواست کرتا هوں-"
۔ – هم اتوار کو دعا میں پڑھتے هیں : " پس درود بھیج محمدص پر جو تیری بهترین مخلوق هے اور تیری طرف دعوت دینے والا هے-"
۔ – اسی طرح منگل کی دعا میں آیا هے: " خداوندا؛ محمد، خاتم الانبیاء پر درود بھیج-"
۔ – بدھ کی دعا میں آیا هے: " پس درود بھیج محمد خاتم الانبیاء اور ان کے اهل بیت۴ پر اور محمدص کی شفاعت کو میری روزی قرار دینا اور مجھے آنحضرتص کی مصاحبت اور هم نشینی سے محروم نه کرنا- - - -"
۔ – جمعه کی دعا میں آیا هے : " محمد و آل محمد پر خدا کا درود هو، خداوندا؛ مجھے ان کے پیرووں اور شیعوں میں قرار دے اور ان کے زمرے میں محشور فرما-"
۔ – روز جمعه کے اعمال میں آیا هے: " بسمه الله الرحمٰن الرحیم درود هو سید و سالار رسولان اور خاتم الانبیا اور پروردگار عالم کی حجت پر- - - - جو هر پلیدی سے پاک و مطهر هے اور عیب سے منزّه هے، جو نجات کی آرزو اور شفاعت کی امید هے اور دین خدا کو ان کے حواله کیا گیا هے- خداوندا؛ انھیں شرافت بخش، ان کی برهان کو عظیم قرار دے اور ان کے درجه و مقام کو بلندی عطا کر - - - -"
۔ – اس کے علاوه آنحضرتص کی زیارت میں آیا هے:
" میں شهادت دیتا هوں که الله کے سوا کوئی خدا نهیں هے اور شهادت دیتا هوں که آپص خدا کے رسول هیں- - -[14]"
خلاصه کے طور پر مذکوره بالا نمونوں کے علاوه جب هم مفاتیح الجنان کی طرف رجوع کرتے هیں تو هم مندرجه ذیل عناوین کا مشاهده کرتے هیں:
۱۔ مدینه منوره میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی زیارت
۲۔ روضه منوره {پیغمبرص } کے اعمال
۳۔ دور سے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی زیارت
۴۔ جمعه کے دن دور سے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم اور ائمه اطهار علیهم السلام کی زیارت
۵۔ پیغمبر اکرمص پر درود و سلام بھیجنے کی فضیلت
۶۔ پیغمبر اکرمص سے الوداع
۷۔ وه آداب جن کی مدینه کے زائر کو رعایت کرنی چاهئیے[15]-
کتاب "کامل الزیارات" کے مولف نے اپنی کتاب کا آغاز رسول خداص کی زیارت کی فضیلت سے کیا هے-
اسی طرح کتاب " مزار" کے مولف نے اپنی کتاب میں پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کے لئے چار زیارتیں درج کی هیں[16]-
رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم کی به نسبت شیعوں کے اهتمام اور دلی لگاو اور ائمه اطهار علیهم السلام کے بارے میں فضیلت و برتری کے سلسله میں یه چند نمونے تھے- ظاهر هے که اگر ایک انصاف پسند محقق شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرے گا تو اسے معلوم هوگا که شیعه اهل بیت علیهم السلام کی به نسبت پیغمبر اسلام کا بهت ذیاده احترام کرتے هیں، خاص کر اگر وقت اور سنجیدگی سے غور کیا جائے تو معلوم هوگا که شیعه ائمه معصومین ۴ کے علاوه حمزه سید الشهداء۴، جعفر طیار۴ اور سلمان فارسی۴ وغیره جیسے صحابیوں کی به نسبت پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کا زیاده اهتمام کرتے هیں-
آخری قابل توجه نکته یه هے که اسرا و معراج کی رات کو کیوں امام علی علیه السلام کی زیارت پڑھی جاتی هے، جبکه یه مسئله {معراج} رسول خدا صلی الله علیه وآله وسلم سے مخصوص هے؟ ؛
اس نکته کا جواب مذکوره مسائل کی وضاحت کے پیش نظر واضح هو چکا هے- شیعوں کی عادت رهی هے که اسلامی تقریبات کی مناسبت پر ائمه اطهار۴ خاص کر حضرت علی علیه السلام کی زیارت سے بهترین صورت میں استفاده کیا جائے- اس وجه سے شیعوں نے حضرت علی علیه السلام کی زیارت کو ان تقریبات میں قرار دیا هے-
لیکن قابل ذکر بات هے که یه امر مذکوره مناسبت سے مخصوص نهیں هے، بلکه روز مبعث وغیره پر امام علی علیه السلام کے لئے ایک زیارت هے[17]-
[1] هم یهاں پر ان آیات اور روایات کو بیان کرنا نهیں چاهتے هیں، اس سلسله میں ملاخطه هو:الغدیر، علامه امینی؛ اور حدیث کی دوسری کتابیں.
[2] مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 138؛ امین، سید محسن، لواعج الاشجان، ص 243.
[3] آل عمران، 61؛ ئ مختلف تفاسیر کا مطالعه کرنے سے معلوم هوتا هے که تمام مفسرین کا اس بات پر اتفاق هے که اس آیت میں دوسرے " انفسنا" سے مراد علی ابن ابیطالب هیں.
[4] مزید معلومات کے لئے ملاخطه هو؛ الغدیر، علامه امینی.
[5] نهج البلاغه، خ 192، معروف به خطبه قاصعه.
[6] ایضاً.
[7] ملاخطه هو: الاهیات، سبحانی جعفر، ج 2، بحث نبوت اور نبوت و عصمت پر لکھِی گئ کتابیں.
[8] شیعوں کا اعتقاد هے که پیغمبر ص رسالت پهنچانے کے علاوه دوسرے امور میں بھی معصوم هیں، اس کے بر عکس اهل سنت معتقد هیں که پیغمبر ص صرف رسالت کی تبلیغ میں معصوم هیں.
[9] احزاب، 21.-
[10] حشر، 7.
[11] شیعوں کی نطر میں سنت صرف نبی اکرم کے قول و فعل و بیان تک محدود نهیں هے بلکه یه اهل بیت علیهم السلام کے قول و فعل و بیان پر بھی مشتمل هے. اس کے برعکس اهل سنت، سنت کو پیغمبر اکرم کے قول و فعل اور بیان تک هی محدود جانتے هیں اور شیعه اور سنی عقائد میں یه ایک اختلافی نکته هے- شیعوں کے سنت کو وسعت دینے کا سبب معصومین۴ کی عصمت هے- یه وهی عصمت هے جس کے سبب هم سنت نبی اکرم سے دینی منبع کے طور پر استفاده کرتے هیں اور اهل بیت۴ سے تمسک پیدا کرنے کا سبب بھی بن جاتی هے- دوسرے الفاظ میں سنت کے سلسله میں هماری بحث کا موضوع، معصومین علیهم السلام کی سنت هے- معصوم کے اس مفهوم کا جو بھی مصداق هو، اس کا قول و فعل و بیان همارے لئے منبع کے عنوان سے قابل قبول هے- ملاخطه هو : درس خارج، نهدی هادوی ترانی، دفتر پنجم-
[12] ملاخطه هو: اصول فقه مقارن، حکیم، سید محمد تقی، فصل حجیت سنت.
[13] ملاخطه هو: الذریعة، تهرانی، شیخ آقا بزرگ؛ معجم ما کتب عن الرسول و اهل بیته، الرفاعی، عبد الجبار.
[14] مفاتیح الجنان، ص 314، 315، 326، 335، 336.
[15] ایضاً.
[16] مشهدی، مزار، ص 55 – 76.
[17] ملاخطه هو: مفاتیح الجنان، ص 380.