Please Wait
7158
هم زندگی میں بارها اپنے آپ کو ایک راه پر تنها اور اجنبی پاتے هیں- یه وه راه هے جس پر چلنے کے سوا همارے لئے کوئی چاره نهیں هے- هماری زندگی کی پائدار اور پهلے سے معین شده امور کی راه، یعنی نسل، قومیت، خاندان اور قدوقامت وغیره جیسے امور کی راه، لیکن اس کے مقابلے میں هم اپنی زندگی میں خود کو حیرانی و پریشانی کی راهوں پر پاتے هیں- سب سے پهلا سوال جو همارے ذهنوں میں پیدا هوتا هے، وه یه هے که هم کیا کریں؟ اور کس راه کا انتخاب کریں؟
حقیقت میں، کون سا، کیوں اور کیا جیسے الفاظ همارے انتخاب کے لئے همارے اختیار میں هیں-
لیکن انسانی دائره اختیار کے بارے میں کهنا چاهئیے که: نه هم اپنے اختیاری کاموں کو انجام دینے میں علت تامه هیں اور نه هم اپنے کاموں میں کسی اختیار کے بغیر مجبور و مضطر هیں بلکه هم ایک فعل کو انجام دینے میں تمام شرائط و مقدمات اور علل رکھنے کے باوجود ایک علت ناقصه هیں، لیکن اگر یهی علت ناقصه، یعنی همارا اختیار و اراده نه هوتا، تو همارا کام انجام نهیں پاتا-
جو فعل انسان انجام دیتا هے، وه عالم خلقت کا ایک مظهر هے اور اس کی پیدائش، دنیا کے دوسرے مظاهر کے مانند مکمل طور پر علت سے وابسته هے اور چونکه انسان خلقت عالم کا ایک جزو هے اور عالم کے دوسرے اجزا کے ساتھه وجودی رابطه رکھتا هے، اس لئے دوسرے اجزاء اس کے فعل میں بے اثر نهیں هوں گے[1]-
مثال کے طور پر انسان جو روٹی کا لقمه کھاتا هے، اس فعل کو انجام دینے کے لئے، چونکه هاتھه پاوں، منهه، علم،قدرت اور اراده جیسے وسائل کی ضرورت هوتی هے، اس لئے اس فعل کو انجام دینے کے لئے خارج میں روٹی کا مهیا هونا، کسی رکاوٹ کا نه هونا اور زمان ومکان کے لحاظ سے دوسری شرائط کا هونا ضروری هے- ان میں سے کسی ایک کے موجود نه هونے سے فعل انجام نهیں پا سکتا هے اور ان سب وسائل کا موجود هونا { یعنی علت نامه کا متحقق هونا} تحقق فعل کے لئے ضروری هے[2]- { علت تامه= تمام علتوں اور ایک فعل کے انجام دینے کی شرائط یا ایک شے کا پیداهونا-}
اب جبکه خداوند متعال هم سب کا صاحب و مالک هے، اس نے اراده کیا هے که انسان اپنے اختیاری کاموں میں اپنے اراده سے سرچشمئه اثر هوتا هے، یعنی اگر ایک حادثه کے رونما هونے کے لئے مثال کے طور پر پانچ شرائط اور علتیں ضروری هوں تو ان علتوں میں سے ایک انسان کا اختیار و اراده هے، فرض کیجئے ایک بجلی لیمپ کو روشن کرنے کے لئے تمام ضروری وسائل، پورے طور پر مهیا هونے چاهئیے، یعنی سویچ، تار، لیمپ، بجلی کا بورڈ، کارخانه اور بجلی گھر تک تار کا سلسله اور تاروں میں بجلی کا کرنٹ وغیره- اب لیمپ کو روشن کرنے کی علتوں میں سے ایک بجلی کا بٹن دبانا هے که اس مثال میں جب همارے اختیاری کام کی تمام شرائط مهیا هیں، تو بجلی کا بٹن دبانا همارے اختیار میں هے اور خداوند متعال نے چاها که جب تک نه انسان اپنے اختیار سے کسی حادثه کے بجلی کے بٹن کو نه دبائے {اختیاری کاموں میں} اس حادثه کا لیمپ روشن نهیں هوگا- علت تامه کے مجموعی اجزاء کی به نسبت فعل کا ضروری هونا اس سے منافات نهیں رکھتا هے که انسان جو علت نامه کے اجزاء میں سے ایک هے، کی به نسبت فعل کا هونا ممکنات میں سے هو- پهلی والی مثال میں صحیح هے که اگر تمام علل و شرائط پوری هوں تو لیمپ روشن هوگا، لیکن کیا انسان کے ذریعه بجلی کے بٹن کو دبانا بھی ضروری هےیا یه که یه ممکن هے؟ اس کا جوب واضح هے که بجلی کے بٹن کو دبانے کے سلسله میں انسان کی مرضی کی صورت میں تمام علتیں مل جاتی هیں اور ضروری طور پر لیمپ روشن هوتا هے اور اس کام کی به نسبت انسان کی یهی مرضی یا عدم مرضی، امکان کی نسبت کو واضح کرتی هے اور اس لئے انسان، امکان، یعنی کام کا اختیار رکھتا هے اور علت کے مجموعی اجزاء کی به نسبت فعل کا ضروری هونا، بعض اجزاء، جن میں انسان بھی شامل هے کے ساتھه فعل کی نسبت کے ضروری هونے کا سبب نهیں هے-
ایک سیدھا ساده انسان بھی اس نظریه کی تائید کرتا هے، کیونکه هم مشاهده کرتے هیں که لوگ اپنی خداداد صلاحیت کی بنا پر کھانے، پینے، آمدورفت جیسی چیزوں اور صحت، بیماری، بڑے اور چھوٹے قد کے درمیان فرق رکھتے هیں اور اس کی پهلی قسم، جو براه راست انسان کی مرضی سے تعلق رکھتی هے، انسان کے اختیار میں جان کر امرونهی اور ستائش اور مزمت کرتے هیں، اس کے برعکس دوسری قسم میں انسان کے بارے میں کوئی ذمه داری نهیں هے-
صدر اسلام میں، انسان کے افعال کے سلسله میں اهل سنت کے درمیان دو نظرئیے پائے جاتے تھے- ان میں سے ایک گروه کے لوگ انسان کے افعال کو خداوند متعال کے نا قابل تغیر اراده سے مربوط جان کر، انسان کو اپنے افعال میں مجبور جانتے تھے اور انسان کے اراده و اختیار کے قائل نهیں تھے اور دوسرے گروه سے متعلق لوگ انسان کو اپنے فعل میں آزاد جانتے تھے اور اس کے فعل کو خدا کے اراده سے متعلق نهیں جانتے تھے اور اسے قدر کے حکم سے خارج جانتے تھے- لیکن اهلبیت پیغمبرص کی تعلیمات کے مطابق جو ظاهر هے که قرآن مجید کی تعلیمات هیں، انسان اپنے فعل میں مختار هے، لیکن آزاد نهیں هے بلکه خداوند متعال اختیار کی راه سے فعل کو چاهتا هے- دوسرے الفاظ میں، خداوند متعال علت تامه کے مجموعی اجزاء کی راه سے، جن میں سے ایک انسان کا اراده و اختیار بھی هے، فعل کو چاهتا هے اور ضروری قرار دیا هے که جس کے نتیجه میں فعل ضروری هے اور انسان بھی اس میں مختار هے، یعنی فعل اپنے اجزاء علت کی به نسبت ضروری اور ان اجزا میں سے ایک، جو انسان هے، کی به نسبت اختیاری اور ممکن هے[3]-
اس سلسله میں مفید کتابیں حسب ذیل هیں:
الف۔ " انسان شناسی" تالیف: محمود رجبی، فصل ۵ و ۶
ب۔ "آموزش فلسفه" تالیف: مصباح یزدی، ج ۲، درس۶۹
ج۔ " عدل الهٰی" تالیف: مرتضٰی مطهری
[1] علت یا اس طرح هے که معلول کے محقق هونے کے لئے کافی هے اور معلول کا وجود اس کے علاوه کسی اور چیز پر متوقف نهیں هے، اس کے وجود کے فرض پر، معلول کا وجود ضروری هے که اس صورت میں اسے علت تامه کهتے هیں، اور یا اس طرح هے که اگرچه معلول اس کے بغیر محقق نهیں هوتا هے، لیکن وه خود بھی اکیلے هی معلول کے وجود کے لئے کافی نهیں هے بلکه اس پر ایک یا کئی چیزوں کا اضافه کرنا پڑتا هے تاکه معلول کا وجود ضرورت پیدا کرے، اس صورت میں اس کو علت ناقصه کهتے هیں-
[2] طباطبائی سید محمد حسین، شیعه در اسلام، ص ۷۸
[3] ایضاً۔ ص ۷۹۔