Please Wait
9499
- سیکنڈ اور
خداوند تبارک و تعالی حکیم اور جاننے والا ھے ، وہ کبھی بھی بیھودہ اور بے فائدہ کام کا امر نھیں کرتا ھے، یقیناً جن عبادات کا ھمیں امر کیا گیا ھے۔ ان کے اثرات و فوائد ھیں۔ چونکھ خدا ، جو اپنی ذات میں بے نیاز ھے وہ ھماری عبادتوں سے بھی بے نیاز ھے ، ان عبادات کے فائدے غیر خدا ( عبادت کرنے والے اور دوسرے بندوں ) کو پھنچتے ھیِں۔
عبادت یھ اثرات اور فائدے،ھمارے اھداف اور مقاصد نے منافی نھیں ھیں۔ یعنی اگر ایک متقی اور پرھیزگار انسان صرف خداوند متعال کیلئے عبادت کرتا ھے ،لیکن اس کی یھ عبادت اس مسئلھ کے ساتھہ کھ اس کا فائدہ اسے اپنے لئے بھی حاصل ھوتا ھے کسی بھی طرح منافی نھیں ھے۔
عبادت سے لوگوں کا مقصد ، انکی معرفت ، فکر اور علم کے درجے سے متعلق ھے۔ انبیاء الھی اور ائمھ اطھار علیھم السلام جو کھ معرفت کے اعلی ترین درجے پر فائز ھیں۔ پروردگار کی عبادت کا سب سے اعلی مقصد، (یعنی خدا کی نعمتوں پر شکر اور خدا کے ربوبی مقام نے مناسب عمل انجام دینا ھے)، حاصل کرتے ھیں۔اور جتنا مقصد بلند ھو عبادت کے اثرات ، جو کھ عبادت کرنے والے تک پھنچتے ھیں، بھی اتنے ھی زیادہ اور بلند ھوں گے۔
دوسرے نقطہ نظر کے مطابق انسان، ایک دو پھلو وجود ھے جس کے اندر الھی اور نفسانی کشش موجود ھے ، اس وجھ سے انسان "دو خود" خود حقیقی(الھی پھلو) اور خود مجازی( نفسانی پھلو) پر مشتمل ھے۔ اسلام نے جس کی مذمت کی ھے وہ اس کے حیوانی اور مجازی (نفسانی) پھلو کیلئے کوشش کرنے پر کی گئی ھے۔ لیکن حقیقی اور روحانی پھلو کی ترقی کے لئے کوشش کرنا در حقیقت خدا کی راہ میں اور خدا کیلئے کوشش کرنے کے ساتھہ مترادف ھے۔ اگر عبادت کرنے سے انسان کا مقصد الھی پھلو کی ترقی اور پروردگار سے تقرب کرنا ھے ، تو اس صورت میں انسان کی عبادت " اللھ" کی عبادت سے یک جھت ھوگی اور خدا کی راہ میں گامزن ھوکر اس کے راستے سے ذرہ برابر بھی منحرف نھیں ھوگی۔
جو کچھہ سوال میں ذکر ھوا ھے اس کا جواب دو حصوں میں دیا جا سکتا ھے۔
1۔ اگرچھ عبادات پر اثرات مترتب ھوتے ھیں، لیکن ائمھ اطھار علیھم السلام نے صرف ان ھی اثرات پر اپنی آنکھیں نھیں ٹھرائی ھیں۔ بلکھ عبادتوں سے ان کا مقصد صرف اور صرف خداوند متعال ھے، اور وہ خدا کو خدا کیلئے چاھتے ھیں نھ کھ اپنے لئے۔
جواب کی وضاحت کیلئے کچھہ نکات کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے:
الف) اس میں کوئی شک نھیں کھ عبادات کے اثرات ھیں۔ اور عبادت کرنا ایک بیھودہ اور بے مقصد کام نھیں، کیونکھ خداوند متعال کبھی بھی اپنے بندوں کو بیھودہ کام کا امر نھیں کرتا اور اس کے ترک کرنے پر عذاب کا وعدہ نھیں کرتا ھے [1] لیکن بندوں کی عبادت ، خدا کے بلند مقام پر کوئی اثر نھیں ڈالتی ۔ جیسے بندوں کی عبادت سے خدا کی قادریت زیادہ ھوجائے اور اس کے الھی مقام میں ارتقاء پیدا ھوجائے (نعوذباللھ) کیونکھ خدا کے مقام سے بالاتر کوئی مقام متصور نھیں اور سب مخلوقات اور انسان اس کی عظمت کے بحر بیکراں کے مقابلے میں قطرہ برابر ھیں ، وہ اپنی ذات میں بے نیاز (غنی) ھے اور وہ کس طرح کی حاجت نھیں رکھتا کھ کوئی غیر اس کی حاجتوں کو دور کرسکے ۔ بندوں میں اسے کوئی بھی کسی طرح کا نقصان نھیں پھنچا سکتا کھ خالص بندوں کی عبادت اس نقصاں کیلئے رکاوٹ بن سکے۔
پس ان عبادات کا اثر ، خود عبادت کرنے والے انسان اور دیگر مخلوقات میں ظاھر ھوتا ھے[2]۔ اور اس میں کسی طرح کا فرق نھیں کھ عبادت عام انسان کے ذریعے انجام پائے یا ائمھ معصومین علیھم السلام کی طرف سے ۔ ھاں معصومین علیھم السلام اپنی عبادتوں سے ، دوسری کی بھ نسبت زیادہ فائدہ حاصل کرتے ھیں۔ کیونکھ وہ پوری معرفت کے ساتھہ عبادت انجام دیتے ھیں۔
ب) عبادت کے فائدہ اور اس کے اثر جسے فعل کی غرض اور غایت سے تعبیر کیا جاتا ھے، کو فاعل (یعنی عبادت کرنے والے ) کی غرض سے مشتبہ نھیں ھونا چاھئے۔ یھ ضروری نھیں کھ فاعل کی غرض بھی فعل کی غرض ھو۔ یھاں پر مناسب ھے کھ فاعل کی غرض اور فعل کی غرض کو مثال کے ذریعے سمجھایا جائے۔
فرض کیجئے کھ کسی بیمار کیلئے ، دوا مفید اور شفا بخش ھے، لیکن بیمار اس دوا کو لینے سے انکار کرتا ھے۔ یھ بیمار اپنے باپ کیلئے خاص احترام کا قائل ھے ، اس کا باپ اسے دوا دینےپر اصرار کرتا ھے اورباپ کے اصرار پر وہ دوا لیتا ھے، البتھ اس لئے نھیں کھ دوا اس کے لئے مفید ھے بلکھ اس لئے کھ اس کے باپ نے بے حد اصرار کیا۔ پس ضروری نھیں ھے کھ کام کرنے والے کی غرض اورکام کی غرض ایک ھو۔ ( یھاں پر بیمار کی غرض اور دوا پینے کی غرض الک الگ ھے)
پس اگر چھ خداوند سب سے بھتر شکر قبول کرنے والا ھے اورکسی بھی عمل کو شکر گزاری کے بغیر نھیں چھوڑتا۔ لیکن دنیا میں ایسے انسان بھی موجود ھیں کھ اگر وہ جان بھی لیں کھ ان کی عبادتوں کا ان کیلئے کوئی بھی فائدہ نھیں ھے پھر بھی خدا کی عبادت سے ھاتھہ نھیں کھینچیں گے۔ کیونکھ خدا نے انھیں عبادت کا امر کیا ھے اور وہ امر کی اطاعت کرکے عبادت انجام دیتے ھین اور ھمارا عقیدہ یھ کھ ائمھ اطھار علیھم السلام ھی اس قسم کے انسان ھیں۔
ج ) عبادت کرنے سے فاعل (عبادت کرنے والے ) کی غرض ، اس عبادی عمل کے اثر اور فائدے کی میزان کو معین کرتا ھے۔ یعنی جس مقدار میں فاعل عبادت کرنے والے) کی غرض خالص ھو اسی مقدار مین فعل (عبادت ) کی غرض اور اس عبادتی عمل کے اثرات وسیع تر اور بھتر ھوں گے۔ اور حقیقت میں جب تک ایک عمل خدا کیلئے انجام نھ پائے اس کا کوئی اثر نھیں ھے۔ بلکھ اس کا اثر اس وقت ھے جب وہ خدا کیلئے انجام پائے۔ خدا کیلئے عمل کے مختلف درجے ھیں:
الف) ایک گروہ بھشت کے شوق سے عبادت کرتا ھے یھ تاجروں کی عبادت ھے۔ ( اور اس کی زیادہ اھمیت نھیں ھے)
ب) ایک گروہ جھنم کے ڈر سے عبادت کرتا ھے، یھ غلاموں کی عبادت ھے (اھمیت ھی نھیں ھے)
ج) لیکن ایک گروہ ایسا ھے جس نے خدا کو لایق عبادت جانا ھے ، وہ لوگ نعمتوں کی شکر گزاری کیلئے عبادت کرتے ھیں۔ یھ آزاد بندوں اور احرار کی عبادت ھے۔ ( اس عبادت کی بھت ھی اھمیت اور قیمت ھے) [3]
یھ جملھ حضرت علی کے جواھر کلام میں سے ھے جس میں فاعل (عابد) کی غرض کی جانب اشارہ کیا گیا ھے کھ اگرچھ انسان بھشت کے شوق اور جھنم کے ڈر سے عبادت کرے پھر بھی وہ خدائی غرض سے دور نھیں ھوتا کیونکھ بھشت میں جانا، خداکے امر کے مطابق ھے اور عبادتی اعمال کا طبیعی اثر بھی یھی ھے کھ انسان تقوا سے زینت کرے اور آخر کار بھشت میں داخل ھوجائے۔ لیکن انسان کو بھرحال ایسا مقام حاصل کرنا چاھئے کھ خدا کو خود خدا کیلئے چاھے۔
خلاف طریقت بود کھ اولیا تمنا کنند از خدا جز خدا
( یھ اولیاء کی طریقے کے برخلاف ھے کھ خدا سے غیر خدا کی تمنا کریں)
گر از دوست چشمت بھ احسان اوست تو در بند خویشی نھ در بند دوست[4]
( اگر خدا سے تمھاری امید اس کے احسان پر ھے ، پھر تو تم خود غرض ھو ، نھ کھ خدا غرض )
جیسا کہ ھم نے پھلے ذکر کیا کھ جو عبادت صرف خدا کیلئے ھو اس کے اثرات خود عبادت کرنے والے کو پھنچتے ھیں۔ اور یھ عبادت کرنے والا رضوان اور قرب الھی کے درجات کو حاصل کرتا ھے لیکن اس درجے تک پھنچنے کیلئے اس نے عبادت کا خرقھ نھیں پھنا ھوتا ھے۔
جو انسان اس مقام تک پھنچ گیا ھے ، اس نے عبادت کو معبود کے ساتھہ عشق کی راہ مانی ھے۔ [5] اور عاشق وصال معشوق کے بغیر کچھہ نھیں چاھتا۔ وہ ایسے مقام تک پھنچتا ھے کھ اس میں اپنی کوئی خواھش نھیں رہ جاتی وہ اپنی جان کو معشوق کے قدموں پر نچھاور کردیتا ھے۔ بابا طاھر عریان اس سلسلے میں نغمہ سرا ھیں۔
یکی درد و یکی درمان پسندد یکی وصل و یکی ھجران پسندد
من از درمان و درد و وصل و ھجران پنسدم آنچھ کھ جانان پسندند۔
(کوئی درد ، کوئی دوا ، کوئی وصل اور کوئی ھجران چاھتا ھے
میں درد ، درمان ، وصل و ھجران کو وہ چاھوں گا جو میرا معشوق پسند کرے )
2۔ دوسرا جواب یھ ھے کھ انسان دو پھلو والا مخلوق ھے۔
1۔ الھی پھلو ، 2۔ نفسانی (شھوانی )پھلو ،
ان دو پھلوؤں سے کو ھم "خود حقیقی" اور "خود مجازی" [6] سے تعبیر کریں گے۔
اسلام نے جس چیز کی مذمت کی ھے اور اس سے جھاد کرنے کا حکم دیا ھے بلکھ اس کے خلاف جھاد کو ، جھاد اکبر مانا ھے یھی خود مجازی ( شھوانی پھلو) اور نفسانی خواھشات ھیں۔ قرآن مجید میں اس کے بارے میں ارشاد ھوا ھے : "کھ حقیقی خسارہ والے وھی ھیں جنھوں نے اپنے نفس کو گھاٹے میں رکھا" [7]اس سے مراد یھی خود حقیقی ھے۔
یھ ایک حقیقت ھے جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ھے:" خبردار ان لوگوں کی طرح نھ ھوجانا جنھوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے خود ان کے نفس کو بھی بھلا دیا اور وہ سب واقعی فاسق اور بدکار ھیں" [8] یعنی انسان اس "خود" کو اس وقت پاتا ھے جب وہ خدا کو پاتا ھے لھذا خود حقیقی کو مشاھدہ کرنا کبھی بھی خدا کے مشاھدہ کرنے سے الگ نھیں۔ [9]
اس خود ( الھی پھلو) سے نھ صرف جنگ نھیں کرنی چاھیئے بلکھ اس کی عزت اور تکریم کرنی چاھئے اس لئے انسان کا کبھی یھ حق نھیں بنتا کھ کوئی ایسا عمل انجام دے جس کی وجھ سے اس کی عزت لوگوں کے درمیان خطرے میں پڑ جائے۔[10]
شھید مطھری کے بقول: روح اور عبادت کی حقیقت، خدا کی طرف توجھ کرنا ھے ، خود واقعی (الھی) کو واپس پانا ھے ، انسان اپنے خود واقعی (الھی پھلو) کو عبادت اور خدا کی طرف توجھ کرنے سے پاتا ھے۔ [11]
بھرحال اگر عبادت سے انسان کی غرض ، الھی پھلو کی ترقی اور خدا سے تقرب ھو اور عبادت اسی نیت سے انجام پائے تو اس صورت میں ، جس عبادت کو معنوی اور الھی درجات کی ترقی کیلئے انجام دیا جاتا ھے وہ عبادت بالکل " اللھ" کی عبادت سے یک سو ھوتی ھے۔ اور اس میں "حق" کی راہ سے ذرہ برابر بھی انحراف نھیں پایا جاتا۔ معصومین علیھم السلام کی عبادت بھی اسی نوع کی ھے۔ ھم انسانوں کو بھی ان کی پیروی میں اپنی عبادات کو اس راہ میں قرار دینا چاھئے۔ اس کےلئے انسان کو خود خواہ بننا چاھئے ، یعنی اپنے اندر موجود اقدار کو پھچان لے اور ان سے محبت کرے۔ انھیں بیھودہ طور پر فنا نھ کرے بلکھ ان میں اضافھ کرنے کی کوشش کرے۔ کیونکھ خود خواھی کا مطلب الھی پھلو کو دوست رکھنا اور یھ نام خدا دوستی کا دوسرا نام ھے۔ پس اسلام کی نظر میں جو کچھہ مذموم ھے وہ حیوانی اور شھوانی پھلو کی راہ میں تلاش اور کوشش کرنا ھے ، لیکن الھی پھلو کی ترقی کیلئے حقیقت مین خدا کی راہ اور خدا کیلئے کوشش کرنا ھے ، لھذا اگر کوئی نائب جو کسی عبادت جیسے حج وغیرہ کیلئے اجیر کیا جاتا ھے ۔ الھی پھلو کی ترقی کیلئے ھو[12] تو اس کی غرض ایک مطلوب اور ممدوح غرض ھے۔
" لعلکم تتقون، ۔۔۔ شاید تم متقی بن جاؤ ( سورہ بقرہ آیت 183) یا حضرت صدیقھ کبری ، فاطمھ زھرا علیھا السلام نماز کے تربیتی فوائد پر تواضع کو بھی اضافھ کرتے ھوئے ،فر ماتی ھیں : " خداوند متعال نے نماز کو واجب کیا ھے تاکھ لوگ متواضع بن جائیں" ( بحار الانوار ئ ج 83، ص 209) ، میزان الحکمۃ ج 5، ص 375 ) اور اسی دلیل کے پیش نظر کھا جاتا ھے کھ عبادت ، انسانی کمال کی ایک درسگاہ ھے اور طبیعی ھے کھ فرد کی اصلاح ھونے سے معاشرہ کی بھی اصلاح ھوگی ۔ اثرات عبادت کے بارے میں مزید معلومات کیلئے کتاب" حکمت عبادات " آیۃ اللھ جوادی آملی ، عبداللھ ، کو ملاحظھ فرمائیں۔
الف فقط تربیتی اثرات تک پھنچنا۔
ب) فقط اجارہ کے مبلغ تک پھنچنا۔
ج) دونوں تک پھنچنا۔
ممکن ھے دوسری صورت میں اشکال پیش آئے ، لیکن اس سلسلے میں یھ بیان کرنا ضروری ھے کھ کلی حکم نھیں کیا جاسکتا ھے کیونکھ اگر چھ اجیر کی غرض صرف اجارہ کے مبلغ کو لینا ھے نھ کھ عبادت کے تربیتی اثرات ، لیکن اگر اس کی غرض اجارہ کے مبلغ سے اپنے مادی جوائج کو پورا کرنا ھو ، اور اس طرح وہ دوسروں کے سامنے بھیک مانگنے پر مجبور نھ ھو اور اپنی خود حقیقی کی حفاظت کرے ، اس صورت میں بھی اجیر کی عبادت اسے خود واقعی تک پھنچنے میں موثر ھے ، یعنی اس صورت میں بھی عبادت اپنے تربیتی اثرات بر برقرار ھے۔ ( یھاں پر اس نکتھ کی طرف غور کرنا ضروری ھے کھ اجرت لینا ، خدا کے ساتھہ نزدیک ھونے کیلئے ایک داعی اور مقصد ھے۔ لیکن یھ بات کھ میں کیوں اجرت کے پیچھے ھوں اس کی غرض ممکن ھے مختلف ھو ، پس عبادات میں اجرت لینا ، نھ قصد قربت کے ساتھہ منافی ھے اور نھ ھی خود حقیقی تک پھنچنے میں )