Please Wait
9801
"ام المؤمنین" پھلی مرتبھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے میں سوره احزاب کی آیت نمبر ۶ کے نازل ھونے کے بعد، رسول اکرم کی ازواج مطھرات کے بارے میں مؤمنوں کے درمیان اصطلاح بنی۔ رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی ازواج مطھرات کا امت کی مائیں ھونا ایک شرعی حکم اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے مخصوص حکم ھے۔ اس حکم " یعنی پیغمبر کی ازواج کا مومنوں کی مائیں ھونا" کی تشبیھ، ماں کے بعض اثرات کے ساتھه تشبیھ ھے، نھ کھ سب اثرات کے ساتھه۔ اس حکم کی دلیلوں میں بعض کی جانب اشاره کیا جاتا ھے۔
۱۔ پیغمبر کی ازواج مطھرات کا احترام کرنا۔
۲۔ انکی شخصیت کی حرمت رکھنا ۔
۳۔ بعض غرض پسند عناصر کی رکاوٹ کرنا جن کا قصد یھ تھا کھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ کی وفات کے بعد آنحضرت کی ازواج کے ذریعے اپنے سیاسی اور غلط مقاصد تک پھنچیں۔
"ام المومنین" یعنی مومنوں کی ماں، یھ اصطلاح آیھ شریفھ "اُولویت" ،" بیشک نبی تمام مومنین سے ان کے نفس کی بھ نسبت زیاده اولی ھے اور ان کی بیویاں ان سب کی مائیں ھین اور مؤمنین و مھاجرین میں سے قرابتدار ایک دوسرے سے زیاده اولویت اور قربت رکھتے ھیں"[1] کے نازل ھونے کے ساتھه حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی ازواج مطھرات کے بارے میں مومنوں کے درمیان رائج ھوئی۔ خدائے متعال اس آیھ شریفھ میں رسول خدا صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی ازواج مطھرات کو مؤمنوں کی ماؤں کی منزلت پر جانتا ھے، (البتھ روحانی اور معنوی مائیں)۔ جس طرح پیغمبر صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم امت کے معنوی اور روحانی باپ ھیں۔
۲۔ یھ حکم (کھ ازواج مطھرات مومنوں کی مائیں ھیں) ایک شرعی اور رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم سے مخصوص ھے۔ [2] جس طرح سوره احزاب میں رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی ازواج کی دوسری عورتوں کے ساتھه برابری کی نفی کی گئی ھے" اے زنان پیغمبر تم اگر تقوی اختیار کرو تو تمھارا مرتبھ کسی عام عورت جیسا نھیں ھے ، لھذا کسی آدمی سے لگی لپتی بات نھ کرنا کھ جس کے دل میں بیماری ھو اسے لالچ پیدا ھوجائے اور ھمیشھ نیک باتیں کیا کرو" [3]
۳۔ پیغمبر کی ازواج مطھرات کی ماؤں کے ساتھه تشبیھ ، صرف ماں کے بعض اثرات کے ساتھه تشبیھ ھے، نھ کھ سب کے ساتھه۔ یعنی ماں کے اپنے فرزندوں پر حقوق ھوتے ھیں، اور ان کے درمیان دو طرفھ احکام ھوتے ھیں، جو سب اس مسئلھ میں لاگو نھیں ھیں۔ یھاں پر صرف دو حکم : الف:"ان کے احترام کا واجب ھونا اور انکی حرمت رکھنا۔ ب : ان کے ساتھه شادی کرنا حرام ھے" شامل ھیں۔ کیوں کھ ماں میں ان دو احکام کے علاوه دوسرے اثرات بھی پائے جاتے ھیں ، جیسے وه اپنے فرزند سے میراث لیتی ھے اور اس کے فرزند اس سے میراث لیتے ھیں۔ اس کے چھرے پر نظر کرنا جایز ھے ان کی لڑکیوں کے ساتھه جو دوسرے شوھر سے ھوں شادی نھیں کی جاسکتی وغیروغیره۔
لیکن پیغمبر اکرم (ص) کی ازواج مطھرات کے لئے ان دو حکم کے علاوه ( احترام کا واجب ھونا ، اور شادی کا حرام ھونا [4]) دوسرے احکام جاری نھیں ھیں ۔ پس ازواج مطھرات کی ماؤں کے ساتھه تشبیھ دینے کے حکم کا اثر دو مسئلوں میں ھی ھے اور وه دو حکم : (الف) احترام کا واجب ھونا۔ (ب ) شادی کا حرام ھونا ، ھیں۔
۴۔ یھ حکم :
اولا: ازواج مطھرات کا احترام کرنے کیلئے ھے ، کیون کھ ازواج مطھرات رسول اکرم صلی اللھ عیھ وآلھ وسلم سے منسوب ھونے سے کی وجه سے مسلمانوں کے درمیان خاص احترام کی حامل ھیں، اور یھ قدرتی بات ھے کھ دوسری عورتوں کے ساتھه ان کا فرق ھے جس کو قرآن کریم نے بیان فرمایا ھے۔[5]
ثانیا: ان کا احترام کرنا پیغمبر کے احترام کرنے کے برابر ھے۔ جیسا که آیت کی شان نزول سے پتا چلتا ھے کھ بعض مخالفوں نے انتقام لینے کی غرض سے اور رسول اکرم کی ذات مقدس کی توھین کرنے کی غرض سے رسول کی رحلت کے بعد ان کی ازواج مطھرات سے شادی کرنے کا قصد کیا تھا۔
ثالثا: اندرونی دشمنوں کی بعض سازشوں اور ان سے غلط فائده اٹھانے کو روکنا۔ ان اندرونی دشمنوں کی غرض یھ تھی کھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی رحلت کے بعد ان کی ازواج کے ساتھه شادی کرکے اپنے پست سیاسی مقاصد تک پھنچا جائے تھے۔ استاد مطھری ، کے مطابق ، دوسرے لوگوں سے ازواج مطھرات کی شادی حرام کھونے کا راز یھ تھا کھ ان کے بعد میں ھونے والے شوھر ازواج مطھرات کے احترام اور شھرت سے غلط فائده اٹھاتے اور بعض خود خواه عناصر سیاسی اور سماجی مسائل میں ان عورتوں کو اپنا آلھ کار بناتے۔ [6]
[1] " النبی اولی بالمومنین من انفسھم و ازواجھ امھاتھم ۔۔۔" سوره احزاب / ۶۔
[2] طباطبائی ، محمد حسین ، المیزان ، ( ترجمھ فارسی) ج ۱۶، ص ۴۱۴۔
[3] " یا نساء النبی لستن کاحد من النساء ۔۔۔" سوره احزاب / ۳۲۔
[4] تفسیر نمونھ ، ج ۱۷، ص ۲۰۷ ۔ ۲۰۵۔
[5] سوره احزاب / ۳۲۔
[6] مطھری ، مرتضی ، مجموعھ آثار ، ج ۱۹ ، ص ۴۳۱ ، اس سلسلے میں مزید معلومات کیلئے تفسیر المیزان ، ج ۱۶ ، آیات ۱۔۔ ۵۴ سوره احزاب ، اور تفسیر نمونھ ج ۱۷ ، آیات ۱ ۔۔ ۵۴ ص ۴۰۶ اور ۴۰۵ کی جانب رجوع کریں۔