Please Wait
کا
9333
9333
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2009/04/29
سوال کا خلاصہ
کیا فقر وجودی صرف معلول کی علت فاعلی کی نیازمندی کا معیار ہے؟ یا علت تامہ کے لئے بھی کافی ہے؟ فلسفی مفاہیم کے کیوں جنس و فصل نہیں ہیں؟ وغیرہ
سوال
١۔ چونکہ معلول کی ھستی بخش علت کی محتاجی کا معیار، مرتبہ وجودی کا ضعف و فقر ہے، کیا کلی طور پر معلول کی علت تامہ کی محتاجی کے معیار کے بارے میں بھی، جو علل ھستی بخش پر بھی مشتمل ہیں، ایسا ہی کہا جاسکتا ہے؟
۲۔ فلسفی مفاہیم اور معقولات ثانیہ فلسفی جنس و فصل کیوں نہیں رکھتے ہیں؟
۳۔ کیا جس طرح مادی موجودات کی، علت ھستی بخش، مادیات کے بارے میں علم حضوری رکھتی ہے، اسی طرح مادی موجودات بھی اپنی ھستی بخش علل کے بارے میں علم حضوری رکھتی ہیں؟
۴۔ چونکہ تمام اجسام کی واضح ترین خاصیت، امتداد﴿ طول، عرض، اور بلندی﴾ ہے اور اس امتداد سے اجسام کا حجم معلوم ھوتا ہے اور جب ہم اجسام کے حجم کا تمام عالم کے حجم سے موازنہ کرتے ہیں، تو اس سے اجسام کا مکان معلوم ھوتا ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ ہر جسم کا مکان ہے ۔ اب اس مطلب کو بنیاد قرار دے کر کس طرح ثابت کیا جاسکتا ہے کہ ہر جسمانی و مادی موجود کے لئے زمان کی ضرورت ہے اور اس کا بعد زمانی بھی ہے؟
ایک مختصر
مندرجہ ذیل نکات پر غور کرنا آپ کو اپنے سوال کا جواب حاصل کرنے میں مدد دے سکتا ہے:
١۔ چونکہ تمام علل عٕلت فاعلی کی طرف رجوع کرتی ہیں، اس لئے اس بحث میں علت تامہ اور علت فاعلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
۲۔ مفاہیم فلسفی کو وجود سے حاصل کیا گیا ہے اور وجود کی ماہیت نہیں ہے۔ جنس و فصل ماہیت کے اجزاء ہیں، جس چیز کی ماہیت نہ ھو اس کے اجزاء بھی نہیں ھوتے ہیں۔
۳۔ معلول اپنی علت کے بارے میں علم حضوری رکھتا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ علت اپنے معلول کے بارے میں علم حضوری رکھتی ھو۔
۴۔ جس طرح، امتداد﴿ طول، عرض اور بلندی﴾ مادی موجودات کا لازمہ ہے، حرکت بھی مادی موجودات کے لوازم میں سے ہے اور چونکہ زمان حرکت کی مقدار ہے، اس لئے جہاں پر مادہ ھو وہاں پر حرکت بھی ہے اور جہاں پر حرکت ھو وہاں پر زمان بھی موجود ہے۔
١۔ چونکہ تمام علل عٕلت فاعلی کی طرف رجوع کرتی ہیں، اس لئے اس بحث میں علت تامہ اور علت فاعلی میں کوئی فرق نہیں ہے۔
۲۔ مفاہیم فلسفی کو وجود سے حاصل کیا گیا ہے اور وجود کی ماہیت نہیں ہے۔ جنس و فصل ماہیت کے اجزاء ہیں، جس چیز کی ماہیت نہ ھو اس کے اجزاء بھی نہیں ھوتے ہیں۔
۳۔ معلول اپنی علت کے بارے میں علم حضوری رکھتا ہے، لیکن نہ اس طرح کہ علت اپنے معلول کے بارے میں علم حضوری رکھتی ھو۔
۴۔ جس طرح، امتداد﴿ طول، عرض اور بلندی﴾ مادی موجودات کا لازمہ ہے، حرکت بھی مادی موجودات کے لوازم میں سے ہے اور چونکہ زمان حرکت کی مقدار ہے، اس لئے جہاں پر مادہ ھو وہاں پر حرکت بھی ہے اور جہاں پر حرکت ھو وہاں پر زمان بھی موجود ہے۔
تفصیلی جوابات
١۔ فقر وجودی، معلول کے تمام انواع علل کی احتیاج کا معیار ہے، کیونکہ اولاً: مختلف انواع علل علت فاعلی کی طرف رجوع کرتی ہیں، کیونکہ حقیقت میں علت مادی و صوری خود معلول ہیں کہ عقل کے اعتبار سے مادہ اور صورت بن جاتی ہیں، یعنی جب متحد صورت میں لحاظ کئے جائیں تو خود معلول ہیں اور جب مستقل لحاظ کیا جائے تو علت مادی و صوری ہیں، پس ان کا تفاوت اعتباری تفاوت ہے، نہ حقیقی۔ اور معلول علت فاعلی کے شئونات میں سے ہے اور علت غالی بھی ۔ اگر چہ ابتدائی نظر میں ممکن ہے اس کا رجوع غیر فاعل کی طرف ھو، لیکن دقیق نگاہ ڈالنے سے تمام مواقع پر رجوع غایت فاعل، فاعل ھونے کے لحاظ سے، بلکہ فاعل حقیقی میں غایت عین فاعل ہے،[1] پس اس بحث میں علت تامہ و علت فاعلی کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔[2]
ثانیاً: فقر وجودی معلول بہ علت، یعنی وجود معلول کا وجود علت پر توقف، اور یہ توقف علل کی تمام اقسام میں موجود ہے، پس مذکورہ معیار علل کی تمام اقسام میں جاری ہے۔[3]
۲۔ فلسفی مفاہیم، ایسے مفاہیم ہیں کہ اگر موجودات پر حمل کئے جائیں، تو بھی ماہیت نہیں رکھتے ہیں، پس اپنے مصداق کے ساتھ ماھوی مطابقت بھی نہیں رکھتے ہیں، جب کوئی ماھوی مفہوم نہیں ہے، تو معلوم ہے کہ جنس و فصل بھی نہیں ھوں گے، کیونکہ جنس و فصل ماہیت کی قسمیں ہیں۔[4]
۳۔ معلول اپنی علت کے بارے میں علم حضوری رکھتا ہے، لیکن نہ اس علمی کی صورت میں کہ علت اپنے معلول کے بارے میں رکھتی ہے، کیونکہ علت، معلول کے تمام مراتب پر نظررکھتی ہے اور معلول کی حقیقت اس کے پاس موجود ہے، اس کے برعکس معلول، جس کے پاس علت کی صرف رقیقت موجود ہے اور صرف اس کے وجود کی وسعت کے مطابق علت کے بارے میں علم رکھتا ہے، حقیقت میں، اپنے معلول کے بارے میں علم ، عین علت کے بارے میں معلول کا علم ہے۔ البتہ اپنے مرتبہ میں۔[5]
۴۔ زمان کو ہم، مادیات کے لئے اس کی تعریف کے پیش نظر ثابت کرتے ہیں، کیونکہ زمان، یعنی، مقدار متصل غیر فاری جو حرکت پر عارض ھوتی ہے۔[6] اسی لئے جہاں پر حرکت ہے، وہان پر زمان بھی ہے۔
مادی موجودات سیال کے مانند ہیں، ہمیشہ قوت سے فعل کی طرف خارج ھونے کی حالت میں ھوتی ہیں اور حرکت یعنی قوت سے فعل کی طرف خروج، پس مادیات حرکت رکھتی ہیں اور حرکت کی مقدار ہے اور حرکت کی مقدار وہی زمان ہے، پس مادی موجودات ہمیشہ زمان رکھتی ہیں۔
ثانیاً: فقر وجودی معلول بہ علت، یعنی وجود معلول کا وجود علت پر توقف، اور یہ توقف علل کی تمام اقسام میں موجود ہے، پس مذکورہ معیار علل کی تمام اقسام میں جاری ہے۔[3]
۲۔ فلسفی مفاہیم، ایسے مفاہیم ہیں کہ اگر موجودات پر حمل کئے جائیں، تو بھی ماہیت نہیں رکھتے ہیں، پس اپنے مصداق کے ساتھ ماھوی مطابقت بھی نہیں رکھتے ہیں، جب کوئی ماھوی مفہوم نہیں ہے، تو معلوم ہے کہ جنس و فصل بھی نہیں ھوں گے، کیونکہ جنس و فصل ماہیت کی قسمیں ہیں۔[4]
۳۔ معلول اپنی علت کے بارے میں علم حضوری رکھتا ہے، لیکن نہ اس علمی کی صورت میں کہ علت اپنے معلول کے بارے میں رکھتی ہے، کیونکہ علت، معلول کے تمام مراتب پر نظررکھتی ہے اور معلول کی حقیقت اس کے پاس موجود ہے، اس کے برعکس معلول، جس کے پاس علت کی صرف رقیقت موجود ہے اور صرف اس کے وجود کی وسعت کے مطابق علت کے بارے میں علم رکھتا ہے، حقیقت میں، اپنے معلول کے بارے میں علم ، عین علت کے بارے میں معلول کا علم ہے۔ البتہ اپنے مرتبہ میں۔[5]
۴۔ زمان کو ہم، مادیات کے لئے اس کی تعریف کے پیش نظر ثابت کرتے ہیں، کیونکہ زمان، یعنی، مقدار متصل غیر فاری جو حرکت پر عارض ھوتی ہے۔[6] اسی لئے جہاں پر حرکت ہے، وہان پر زمان بھی ہے۔
مادی موجودات سیال کے مانند ہیں، ہمیشہ قوت سے فعل کی طرف خارج ھونے کی حالت میں ھوتی ہیں اور حرکت یعنی قوت سے فعل کی طرف خروج، پس مادیات حرکت رکھتی ہیں اور حرکت کی مقدار ہے اور حرکت کی مقدار وہی زمان ہے، پس مادی موجودات ہمیشہ زمان رکھتی ہیں۔
[1] ۔ علامه طباطبائی، محمد حسین، نهایة الحکمة، نورانی، عبدلله، ص 184 - 183،مؤسسه نشر اسلامی وابسته به جامعه مدرسین، قم.
[2] ۔ایضاً ، ص 171- 195.
[3] ۔ ایضاً، ص 170.
[4] ۔ مصباح یزدی، محمدتقی، آموزش فلسفه، ج 1، ص 200، طبع چهارم، مرکز طبع و نشر ذفتر تبلیغات اسلامی، تابستان1370هـ.ش.
[5] ۔ نهایةالحکمة، ص 260.
[6] ۔ ایضاً، ص 214.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے