Please Wait
7803
حضرت علی علیه السلام رسول الله صلّی الله علیه وآله کے رشته دار، دوست، اور آپ کے یار و یاور هونے کے علاوه؛ زندگی کے تمام مراحل میں اور اسلام کے دفاع اور رسالت کی تبلیغ کے مختلف میدانوں میں آپ کے ساﭠﮭ ساﭠﮭ هونے کے علاوه؛ پیغمبر صلّی الله علیه وآله کی گود کے پرورده اور آپ کے داماد هونے کے علاوه خود اپنی جگه بهت سے خصوصیات، امتیازات اور ایک الگ شخصیت کے مالک تھے جو رسول الله صلّی الله علیه وآله کے سوا کسی اور میں اس درجه روحانی و معنوی کمالات تک نهیں پهنچی هیں۔
ازلیّت، قیامت، وحی، نبوت بلکه مکمل عالم غیب کے اوپر آپ کا گهرا ایمان و عرفان؛ علم و عمل، زندگی کے مختلف شعبوں میں ناقابل بیان خلوص، اور مثالی شجاعت؛ زهد و تقوی، ایثار و قربانی، حلم و بردباری، قناعت و سخاوت؛ آپ کے اندر انسانی تمام اقدار کی جامعیت و تکامل جو که هر اعلی انسان کے لئے میسر هے اور پھر اولیاء الله کے تمام صفات کا حامل هونا امیر المؤمنین علیه السلام کی صفات و خصوصیات میں هے۔ آپ کا علمی مقام، هر گناه سے معصوم هونا اور عهده امامت آپ کی دیگر صفتوں میں شمار هوتے هیں۔
یه سب صفات آپ کی لیاقت، اخلاق، اور آپ کی محنت و کوشش کا نتیجه اور رسول الله صلّی الله علیه وآله سے هر طرح کی رشته داری کے قطع نظر هیں ۔
کیونکه پیغمبر صلّی الله علیه وآله کے تو بهت سے رشته دار تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی حضرت علی علیه السلام کے درجه تک نهیں پهنچ پایا۔ البته جس نے رسول الله صلّی الله علیه وآله کے مکتب میں پرورش پائی هو اس کے لئے ایک فطری بات هے که وه ان سب اخلاق و کمالات کو رسول الله صلّی الله علیه وآله اور آپ کے مکتب کا مرهون منت جانے۔
حضرت علی علیه السلام جیسی عظیم شخصیت اور اعلی انسان کا تعارف کرانا ایک عام آدمی کے بس کی بات نهیں هے۔ کم از کم چند سطروں میں حضرت علی علیه السلام کے اوصاف کی پاک تصویر نهیں کھینچی جاسکتی۔ لهذا یهاں پر صرف ﮐﭼﮭ مصنِّفین اور دانشوروں کے اعترافات اور حضرت علی علیه السلام کی ﮐﭼﮭ صفات و خصوصیات کے بیان پر اکتفا کرتے هیں:
حضرت علی علیه السلام رسول الله صلّی الله علیه وآله کے دوست، رشته دار اور قبل از رسالت اور رسالت کی 23 ساله زندگی میں آپ کے یار و یاور هونے؛ نیز اسلام کے دفاع کے تمام میدانوں میں فعال کردار ادا کرنے کے علاوه خود اپنی جگه بھی ایک ممتاز اور خاص صفات سے متصف شخصیت کے مالک تھے جو روحانی ا ور معنوی صفات پیغمبر صلّی الله علیه وآله کے علاوه کسی میں بھی اس درجه کمال تک نهیں پهنچیں۔[1]
صدر اسلام سے آج تک جو پوری جهات میں تحقیقیں ، اسلامی دانشور یا غیر اسلامی دانشمندوں کی طرف سے حضرت علی علیه السلام کی شخصیت کے بارے میں هوئی هیں وه اس بات کا اعتراف کرتی هیں که حضرت علی علیه السلام کی شخصیت، (نبوت سے قطع نظر) حضرت نوح، ابراهیم، موسی، عیسی علیهم السلام اور حضرت محمد صلّی الله علیه وآله کی فهرست میں آتی هے۔
علی علیه السلام اس شخصیت کا نام هے جس کی عظمت کے سامنے مسلمان اور غیر مسلمان هر طرح کی شخصیت اور متفکرین نے سر اعتراف خم کیا هےاور اس کی حمد و ثنا کی هے۔ شبلی شمیّل عرب کے بے دین مفکرین میں سے ایک هے حضرت علی علیه السلام کے بارے میں ان کا کهنا هے: سردار، امام علی ابن ابی طالب، سارے بزرگوں سے بزرگ ایک ایسا نسخه هے که آج تک مشرق و مغرب نے اس کا کوئی اور نسخه نهیں دیکھا هے۔[2]
عرب کے عیسائی قلمکار اور متفکر جبران خلیل جبران کا کهنا هے که: میرا عقیده یه هے که ابوطالب کا فرزند عرب کا وه پهلا شخص تھا جس نے روح کلی سے رابطه برقرار کیا، وه عرب کا پهلا شخص تھا جس نے ایسے لوگوں کے کانوں میں روح کلی کے نغمه کا رس گھولا جنھوں نے اس سے پهلے کبھی نه سنا تھا… وه دنیا سے اس حالت میں چلا گیا که ابھی دنیا کو اپنا پورا پیغام بھی نهیں سنا پایا تھا؛ اس نے اس دنیا سے آنکھیں بند کرلیں ان پیغمبروں کی طرح جو ایسے لوگوں میں مبعوث هوتے تھے جو پیغمبر کا تحمل نهیں کرسکتے تھے اور ایسے افراد میں آیا جو ایسے پیمبر کے حقدار نهیں تھے اور ایسے زمانے میں آیا جو اس کا زمانه نهیں تھا۔[3]
روس کا مشهور مارکسیست محقق پطروشفسکی بھی حضرت علی علیه السلام کی شخصیت اور اس کے مختلف پهلؤں کے بارے میں لکھتا هے: علی علیه السلام عشق و شوق کی حد تک دین کے پابند تھے، سچے، اخلاقی امور میں چھوٹی چھوٹی باتوں کا خیال رکھنے والے، اور مال و منال سے دور تھے۔ بیشک وه ایک بهادر انسان بھی شمار هوتے هیں اور ایک شاعر انسان بھی۔ اور اولیاء الله کے تمام صفات آپ میںموجود تھے۔[4]
استاد شهید مطهری حضرت علیه السلام کی شخصیت کے بارے میں کهتے هیں: علی علیه السلام دوسرے کے لئے عادل هونے سے پهلے، اور دوسروں کے سلسله میں عدل سے کام لینے سے پهلے خود بھی ایک معتدل اور متوازن انسان تھے۔ انھوں نے انسانیت کے کمالات کو ایک جگه جمع کردیا تھا۔ ان کے پاس گهری اور دوررس سوچ بھی تھی اور نازک و جوشیلے جذبات و احساسات بھی۔ ان کے پاس جسم و روح کا کمال ایک ساﭠﮭ موجود تھا۔ رات کو عبادت کے وقت ماسوی الله سے کٹ جاتے تھے اور دن کو سماج میں کام کرتے تھے… عارف وحکیم بھی تھے اور سماج کے سربراه بھے، زاهد بھی تھے اور سپاهی بھی، قاضی بھی تھے اور مزدور بھی، خطیب بھی تھے اور قلمکار بھی، خلاصه یه که هر طرح سے ایک مکمل انسان تھے، انسانیت کے تمام محاسن کے ساﭠﮭ۔[5]
علی علیه السلام نے ذاتی صلاحیت، الهی توفیقات، اور رسول الله صلّی الله علیه وآله کی مکمل تربیت و کوشش کی ذریعه تمام علوم کو حاصل کرلیا تھا۔ اور ابن ابی الحدید کے بقول تمام علوم معارف کا سرچشمه تھے اور مختلف شعبوں کے علوم کا سرا آپ سے ملتا هے۔ ابن عباس کهتے هیں رسول خدا صلّی الله علیه وآله نے فرمایا: جب میں پروردگار کے سامنے مناجات کے لئے حاضر هوا تو اس نے ﻤﺟﮭ سے باتیں کیں اور مناجات کی، اور میں نے جو الله سے سیکھا وه علی علیه السلام کو سکھادیا لهذا علی علیه السلام میرے علم کا باب هیں۔[6] حضرت علی علیه السلام نے حتی نبوت کے علوم کو بھی رسول الله سے حاصل کیا اور وه علم کا خزانه تھے۔
آپ کی ایک بڑی اور اهم صفت [عصمت] تھی۔ هر گناه اور هر خطا سے معصوم هونا آپ کی خصوصیت تھی جو آپ نے اپنی تمام تر تلاش و کوشش اور خواهشات نفسانی سے مقابله کرکے عنایت پروردگار کے سائے میں حاصل کی۔ ان سب خصوصیات میں امامت اور پیغمبر کی جانشینی کو سب سے زیاده ممتاز حیثیت حاصل هے۔
یه علی علیه السلام کے فضائل و خصوصیات کی هلکی سی جھلک هے جو ﮐﭼﮭ متفکرین اور دانشوروں کے ذریعه البته ان کی اپنی معرفت کے مطابق بیان هوئی هے۔
انسانی و اخلاقی کمالات حضرت علی علیه السلام کے اندر اپنے پورے اوج و عروج کے ساﭠﮭ موجود تھے۔ شجاعت، زهد، ایثار، حلم و عفو، سخاوت و بخشش اور هر وه کمال جو اسلام جیسے حیات بخش دین میں انسانی و اسلامی اقدار و کمالات کے طور پر آیا هے وه آپ میں موجود تھا۔ حضرت علی علیه السلام کے زیاده تر کمالات رسول الله صلّی الله علیه وآله کی تربیت کا نتیجه هیں جیسا که خطبه قاصعه میں آپ نے خود پیغمبر سے اپنی نسبت و مقام کو بیان کیا هے۔[7] البته یه سب خصوصیات اور کمالات ان امتیازات کا معلول هیں جو آپ میں موجود تھے اور بهرحال شروع سے هی آپ پیغمر کے ساﭠﮭ تھے اور وحی و رسالت کے گھر میں بڑے هوئے اور پیغمبر کی گود میں پروان چڑھے۔
مزید معلومات کے لئے اس اشاریه پر رجوع کریں: انسان کامل کے مختلف حالات، سوال351 (سائٹ: 349)
[1] دیکھئے: سید عبد الغنی، تقریرات فلسفه امام خمینی، ج۳، ص۳۵۲
[2] جرج جرداق، صوت العدالۃ الاسلامیه، ص۹ (منقول از ترجمه و تفسیر نهج البلاغه، جعفری، محمد تقی، ج۱، ص۱۷۱
[3] عبد المقصود، عبد الفتاح، الامام علی ععع، ج۱، مقدمه (منقول از حواله مذکوره)
[4] پطروشفسکی، اسلام در ایران، ص۴۹ و۵۰ (منقول از حواله مذکوره، ص۱۶۸)
[5] مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج۱۶، ص۱۷ و ۱۸
[6] قندوزی، سلیمان، ینابیع المودۃ، ص۷۹
[7] نهج البلاغه، خ۱۹۲