Please Wait
11676
قرآن اپنی شهادت کے مطابق ایسی کتاب هے جو عالم گیر هے [ذکری للعالمین] اور کسی زمانے یا جگه یا کسی قوم سے مخصوص نهیں هے: [نذیراً للبشر]۔
جو آیات الله کی طرف سے اس میں نازل هوئی هیں وه اس طرح کی هیں که جو تاریخ کے هر موڑ پر اور هر زمانے میں انسانی هدایت کی ضرورتوں کو پورا کریں گی اور ان کی هدایت کے لئے چراغ کی طرح جلتی رهیں گی اور انسانیت اس کے معارف کے چشمه سے سیراب هوتی رهے گی۔
چونکه پیغمبر صلّی الله علیه وآله بھی آخری پیغمبر اور اسلام بھی آخری اور مکمل دین هے پیغمبر اسلام کے بعد کوئی پیغمبر نهیں بھیجا گیا اور اسلام دین خاتم هے۔ خاتمیت خود قرآن کی جامعیت اور جاودانگی پر دلیل هے۔
قرآن کی تاریخ اور تفسیر بھی اس بات کی شاهد هے که قرآن کی برکت سے هی هر زمانے میں دانشوروں کے لئے معارف نو کے دریچه کھلے هیں اور قرآن نے انسان کی عبوری اور ابدی دونوں طرح کی ضرورتوں کو پورا کیا هے۔ البته یه کام کلیات اور اصول هدایت کو بیان کرنے اور علم و اجتهاد کے ماهرین کے ذریعه اصول سے فروع کو حاصل کرنے کے راسته انجام پایا هے۔
یه جو آپ نے کها هے که قرآن نے بارها اپنی آیات کی نفی و ترمیم کی هے، تو اس کا کوئی درست مفهوم نهیں هے؛ کیونکه همارا عقیده هے که قرآن کی کوئی آیت کسی دوسری آیت کی نفی نهیں کرتی اور ان میں کسی طرح کا تناقض، ٹکراؤ اور باطل راه نهیں پاسکتا۔ ممکن هے اس جمله سے آپ کی مراد یه هو که قرآن میں نسخ پایا جاتا هے لیکن یه خیال رکھنا چاهئے که قرآن میں نسخ هونے کا مطلب یه نهیں که یه آیت دوسری آیت کی نفی یا اس میں ترمیم کر رهی هے؛ چونکه نسخ کا مطلب یه هے که شروع سے هی اس آیت کا حکم وقتی اور عبوری تھا اور جب اس کا وقت ختم هوگیا تو دوسرا حکم آگیا، نه یه که شروع میں حکم ابدی تھا بعد میں اس کے اندر ترمیم کی گئی۔ لهذا اگر ظاهری اعتبار سے ﮐﭼﮭ آیتوں میں تناقض یا تضاد پایا جاتا هو تو یه ظاهری اور عام نگاه میں هے۔ اور چونکه قرآن کی بعض آیتیں دوسری آیتوں کی تصدیق کرتی هیں لهذا مفسرین کے بیان سے ان کا تضاد و تناقض ختم هو جاتا هے۔
قرآن جیسا که وه خود هی شهادت دیتا هے، ایک عالمگیر اور همیشگی کتاب هے اور انسان کی هر موقع و مقام کی ضرورتوں کو پورا کرتا هے نیز نه کسی نژاد سے مخصوص هے اور نه هی کسی طرح کے آداب و رسوم سے [ذکری للعالمین][1]۔ [نذیراً للعالمین][2]۔
الله نے قرآن کے معارف و مضامین کو اس طرح منتخب کیا هے که تاریخ کے هر موڑ اور هر موقع و مقام پر تمام لوگ اس کے چشمه معارف سے سیراب هوسکتے هیں۔ قرآن اور اس کی تفسیر کی تاریخ بھی اس بات تک پهنچاتی هے که قرآن هی کی برکت سے هر زمانے میں دانشوروں کے لئے نئے معارف کے دروازے کھول گئے هیں اور اس کے معارف کے چشمه جوشاں نے هر زمانے کی ضرورتوں اور سوالات کے جنگلوں کو سینچا هے اور معارف الهی کےپیاسوں کو سیراب کیا هے۔
قرآن کریم کی جامعیت، جاودانگی اور عالمگیری کے لئے بهت سے راستوں سے استدلال کیا جاسکتا هے جن میں سے بعض کی طرف ذیل میں اشاره کیا جارها هے:[3]
۱۔ قرآن اس سلسله میں فرماتا هے [ما فرّطنا فی الکتاب من شئٍ][4] هم نے قرآن میں کوئی چیز چھوڑی نهیں هے۔ [الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی…][5] وغیره۔
یه آیات اس بات پر دلالت کرتی هیں که دین اسلام کامل هوگیا هے اور جو چیز کهی جانی چاهئے تھی اور جو احکام و قوانین انسان کے لئے بنائے جانے چاهئے تھے وه تیار هوچکے هیں۔
۲۔ امام صادق علیه السلام سے معارف قرآن کی تازگی اور جدیدیت کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا: قرآن کی تازگی اس میں هے که الله نے اسے کسی خاص زمانے یا خاص لوگوں کے لئے نهیں بھیجا اور وه همیشگی اور هرجائی هے، اور هر زمانے میں نیا هے اور هر طرح کے لوگوں کے درمیان قیامت تک شیریں و دلچسپ هے۔[6]
۳۔ خاتمیت، قرآن کی جامعیت اور جاودانگی پر دلیل هے؛ کیونکه انبیاء کے بھیجنے کا فلسفه یه تھا که الله وحی کے ذریعه لوگوں کی هدایت فرمائے اور عقائد، احکام و قوانین کے بیان کے ذریعه انھیں هدایت اور معنویت کے راسته پر لگادے اور چونکه انسان کی زندگی میں همیشه تغییر و تبدل اور ترقی کمال هے لهذا ایسا دین بھیجنے کی ضرورت تھی جو تمام انسانی ضرورتوں پر مشتمل هو،اس لئے خاتم الانبیاء اور نئے دین میں ایسی خصوصیت کا هونا ضروری هے جس سے نبوت، شریعت اور کتاب کی تجدید کی ضرورت نه پڑے۔
دوسرے الفاظ میں: همیشه کے لئے هونا اور انسان کی ضروت هونے کا لازمه یه هے که اس پر کبھی بھی کهنگی اور فرسودگی کا غبار نه بیٹھے اور وه همیشه نیا اور تازه رهے۔ قرآن کے ناقابل استفاده اور پرانا نه هونے کا راز یه هے که قرآن ایک تشریعی وجود هے جو فطرت انسان کے تکوینی وجود سے هم آهنگ هے اور فطرت میں تبدیلی نهیں هوا کرتی۔
اس کے علاوه قرآن ایسی کتاب هے جو صرف عقائد و احکام، اقوام کے احوال، هار جیت کے اسباب، امتوں کی تاریخ، جهان ابدیت کی توصیف اور خود سازی و انسان سازی کی راه وصول بیان کرنے کی کتاب نهیں هے بلکه همیں ایسے راهنماؤں کی طرف لے جاتی هے جو راسته بھر لوگوں کی مدد کرتے هیں۔ یه اولیائے دین اور راسخون فی العلم هیں جو آیات متشابهات کو آیات محکمات کے ذریعه حل کرسکتے هیں اور روش اجتهاد کی بنیاد ڈال کر هر زمانے میں احکام مستحدثه اور مسائل متغیره کا استنباط کرسکتے هیں۔ قرآن نے خاتمیت کے دور میں راسخون فی العلم کی طرف رجوع کو کها هے جو کلی منصوبه کے ذریعه امت کی راهنمائی کرتے هیں اور زمان و مکان کے مطابق جزئی احکامات کی توضیح و تفسیر کرتے هیں۔ اجتهاد کا یهی کردار هے۔[7] لهذا ان علماء کا فریضه یه هے که وحی کے ختم نه هونے والے منابع سے استفاده کرتے هوئے اور موضوعات احکام کے تغییر و تحول کے مد نظر کلیات کی تطبیق اور احکام کی تفسیر کریں، هوسکتا هے کوئی مسئله صدر اسلام میں در پیش نه رها هو لیکن آج در پیش هو اور ضروری سمجھا جارها هو۔ علماء اور مجتهدین کے ذریعه جزئیات کو کلیات پرمنطبق کرکے اور استنباط کی روش کو اپناکر نئی ضرورتوں کا جواب دیا جاتا هے۔ در حقیقت اجتهاد کا مطلب یهی هے اور اگر قرآن نے هر چیز کو الگ الگ ذکر کیا هے اور هر چیز کا بیان اس میں موجود هے[8] تو اس کا مطلب بھی یهی هے۔
اس نسبتا طویل تمهید کے بعد اصل مسئله کو بیان کرتے هیں۔
همارا عقیده هے که قرآن ظاهری لحاظ سے خوبصورت (فصیح و بلیغ) اور معنوی لحاظ سے موافق و هم آهنگ هے، اس طرح که کسی طرح کا اختلاف اور ناموافقت اس کے آیات و احکام میں نهیں پایا جاتا۔ قرآن کی کوئی آیت دوسری آیت کی نفی نهیں کرتی بلکه بعض آیات دوسری آیات کی تصدیق کرتی هیں اور کسی طرح کا تناقض اور باطل ان میں راه نهیں پاسکتا[9] [کیا قرآن کے بارے میں نهیں سوچتے هو؟ اگر الله کے سوا کسی اور کی طرف سے هوتا تو تم اس میں شدید اختلاف پاتے][10]۔
لیکن اگر نفی و ترمیم سے آپ کی مراد، نسخ هے تو اس کا جواب یه هے که لغت میں نسخ کے معنی زایل کرنے اور نابود کرنے کے هیں، یعنی کسی چیز کو باطل کرکے اس کی جگه کسی اور چیز کو لانا[11]۔ اور اصطلاح میں اس کا مطلب یه هے که شریعت اسلامی میں سے ایک ثابت شده حکم کو اٹھا لینا اور یه اس کی میعاد (مدت) ختم هونے کے سبب هے۔[12]
قرآن کے بارے میں تین طرح کے نسخ کا تصور کیا جاسکتا هے:
۱۔ حکم اور تلاوت دونوں نسخ هوجائیں۔ یعنی قرآن کی ایک ایسی آیت نسخ هوجائے جس میں احکام الهی میں سے کوئی حکم بیان کیا گیا تھا۔ یه نسخ چونکه تحریف قرآن کے معنی میں هے لهذا یه ممکن نهیں هے۔
۲۔ حکم کو نسخ نه کیا جائے بلکه صرف تلاوت نسخ هو اس طرح سے که آیت کو هٹا لیا جائے لیکن اس کا حکم باقی رهے۔ نسخ کی یه قسم بھی مختلف وجوهات کے سبب ممکن نهیں هے۔
۳۔ حکم نسخ هوجائے لیکن تلاوت برقرار رهے۔ نسخ کی یه قسم ممکن هے اور قرآن میں واقع بھی هوئی هے اور تمام مفسرین نے اس کو قبول کیا هے۔
البته یه نسخ نه تو تناقض کلام هے اور نه هی اختلاف نظر اور نه هی نظر ثانی بلکه ایک حکمی اختلاف هے جو مصداق کے سبب وجود میں آیا هے۔ کیونکه ممکن هے که ایک مصداق کسی خاص حالت میں ایک خاص مصلحت رکھتا هو لهذا اس کے لئے ایک خاص حکم آئے گا، اور پھر جیسے هی وه خاص مصلحت ختم هوجائے تو وه حکم بھی اٹھ جائے گا یعنی وه پهلے سے هی وقتی اور محدود مصلحت کا حامل تھا۔
قرآن کی بعض آیتیں مثلا سوره نمل کی 101ویں اور سوره بقره کی 106 و 107ویں آیتیں اسی بات کو بیان کرنا چاهتی هیں۔[13]
البته نسخ کے فلسفه کے بارے میں یوں کهنا بهتر هوگا که قرآن کے نزول کا مقصد انسانی معاشره کی تعمیر هے، انسانی معاشره ایک ایسے بیمار کے مثل هے جو شفا کے نسخه کا ضرورتمند هے، ظاهر سی بات هے که بیمار کی شفا کے لئے کبھی دوا کے بدلنے کی ضرورت هوتی هے۔ قرآن کریم بھی ان انسانوں کے لئے نسخه شفا هے جو جهل، غفلت، خود خواهی وغیره میں گرفتار هیں اور معنوی حقائق اور اعلی انسانی صفات و کمالات سے لاعلم هیں۔ ان بیماروں کی نجات کے لئے ایک ماهرانه منصوبه کی ضرورت هے جو قدم قدم پر ان کی روح و جان کو اخلاقی پلیدیوں سے پاک کرکے ان کی جگه اخلاقی کمالات کو جاگزیں کرتا رهے۔ نسخ ایک ایسے معاشره کے لئے اجتناب ناپذیر هے جو پست اور گرے ماحول سے عالی اور بلند مرحله کی طرف ارتقا کررها هو۔ کیونکه بهت سی جگهوں پر دفعی اور اچانک قسم کا کام ممکن نهیں هوتا بلکه زینه بزینه کام کرنا هوتا هے۔ لهذا معاشره کے پست ماحول سے عالی ماحول کی طرف جانے کے زمانے کی منسوخ آیتیں وقتی اور عبوری علاج کا حکم رکھتی هیں۔[14]
لهذا ناسخ و منسوخ ظاهری لحاظ سے آپس میں منافات رکھتے هیں لیکن در حقیقت ان میں کوئی تناقض اور ٹکراؤ نهیں هے؛ کیونکه دونوں هی اپنی خاص مصلحت رکھتے هیں، ناسخ میں منسوخ سے بعد والی مصلحت هے۔
قرآن کی آیات محکم و متشابه بھی اسی طرح هیں۔ جیساکه که قرآن خود فرماتا هے که اس کی آیتیں محکمات و متشابهات پر مشتمل هیں۔ هوسکتا هے بشر کی فکری نارسائی اور ماورائے طبیعت حقائق و معانی کی بلندی و برتری اسی طرح روز مره کی ضرورتوں کے لئے بنائے گئے الفاظ و عبارات کی نارسائی قرآن میں آیات متشابه کے وجود کا سبب هوں کیونکه فطرتا ان الفاظ میں ان بلند معانی کو بیان کرنے کی گنجائش اور وسعت نهیں هوتی۔[15]
انبیاء الهی در حقیقت دانا و نادان اور عقلمند و احمق هر طرح کے انسان کے لئے مبعوث هوئے بهت سے اعلی مفاهیم اس طرح بیان کئے گئے هیں که هر انسان انھیں نهیں سجھ سکتا بلکه صرف خاص افراد هی ان کو درک کرسکتے هیں۔ ان کا علم، راسخون فی العلم کے پاس هے۔[16]
لهذا یه ظاهری اختلافات اسی سبب هیں اور یه بات کسی طرح بھی آیات کے تناقض یا نفی و ترمیم پر دلالت نهیں کرتی لهذا نتیجه میں انجام تاریخ تک انسان کے لئے اس کی راهنمائی سے بھی منافی نهیں هے۔
[1] انعام، ۹۰۔
[2] مدثر، ۳۶۔
[3] مزید معلومات کے لئے: اشاریه: قرآن میں رطب و یابس ، سؤال ۱۳۵ سائٹ ۱۱۰۱
[4] انعام، ۳۷
[5] مائده، ۳
[6] بحار الانوار، ج ۸۹، ص ۱۵؛ نور الثقلین، ج ۳، ص ۷۲۰۔
[7] ایازی، سید محمد علی، جامعیت قرآن، ص ۵۱۔ جامعیت اور خاتمیت کے بارے میں مزید معلومات کے لئے رجوع فرمائیں: خاتیمت، مرتضی مطهری؛ خاتمیت از نظر قرآن و حدیث، جعفر، سبحانی؛ راهنما شناسی، محمد تقی، مصباح یزدی۔
[8] نحل، ۸۹۔
[9] فصلت۔، ۴۱۔۴۲۔ یه شکست ناپذیر کتاب هے جس میں نه آگے سے نه پیچھے سے کسی طرح کا باطل نهیں آسکتا چونکه حکیم اور شائسته حمد خدا کی طرف سے نازل هوئی هے۔ علامه طباطبائی کا نظریه هے که اس آیت سے استفاده هوتا هے که احکام قرآن قابل تغییر نهیں هیں اور نه اس کے کسی حکم اٹھاکر اس کی جگه کوئی اور حکم لایا جاسکتا هے (در محضر علامه طباطبائی،محمد حسین رخشاد، ص ۲۷۶)
[10] قریشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن، ج ۷، لفظ نسخ۔
[11] خوئی، سید ابولقاسم، البیان، ص ۲۷۷ ۔ ۲۷۸
[12] نساء، ۸۲۔
[13] هم جس آیت کو نسخ یا ترک کرتے هیں اس سے بهتر یا اسی طرح کی آیت لے آتے هیں۔۔۔ بقره، ۱۰۶۔ دیکھئے: فخررازی، التفسیر الکبیر، ج۳ و ۴، ص ۲۲۶؛ تفسیر نمونه، ج۱۱، ص ۴۰۵ ، ج۱ ،ص ۳۸۸۔ کچھ منسوخ آیتیں یه هیں: ۱۵و ۱۶ سوره نساء جو سوره نور کی دوسری آیت کے ذریعه نسخ هوئی هیں؛ اسی طرح سوره مجادله کی ۱۲ویں آیت جس میں رسول الله صلّی الله علیه وآله سے خلوت میں بات کرنے کے لئے صدقه رکھا گیا هے اور یه آیت اسی سوری کی ۱۳ویں آیت کے ذریعه منسوخ هوئی۔
[14] احمدی، مھدی ، قرآن، ص ۱۰۳۔۱۱۲۔
[15] ایضا ۔
[16] آل عمران، ۷ ، نساء ۱۶۲۔