Please Wait
5893
نیند، طبیعی جسم کی تھکاوٹوں کا جواب ہے اور ہم جانتے ہیں کہ جو نیک انسان بہشت میں داخل ہوں گے، قرآن مجید کی صراحت کے مطابق وہاں پر کسی قسم کی تھکاوٹ سے دوچار نہیں ہوں گے اور یہی وجہ ہے کہ روایات میں بیان کیا گیا ہے کہ اہل بہشت ، موت، نیند، ناراحتی اور فقر وغیرہ جیسی مادی دنیا کی چیزوں سے دوچار نہیں ہوں گے۔
خداوندمتعال نے قرآن مجید میں نیند کا ایک نعمت کے عنوان سے تعارف کرایا ہے جو تھکاوٹ اور غم و اندوہ کو دور کرنے کے لیے ایک مناسب علاج ہے اور اس کے بغیر زندگی کو جاری رکھنا ممکن نہیں ہے[1]۔
مادی دنیا میں، نیند، تھکاوٹ یا خوف و اندوہ دور کرنے کے لیے ہے اور اس بنا پر اس سے صرف ضرورت کے مطابق استفادہ کرنا چاہئیے ورنہ جب انسان نیند کی حالت میں ہوتا ہے تو، وہ زمانہ انسان کے لیے ضائع شدہ شمار ہوگا۔
باایمان افراد کوشش کرتے ہیں کہ اپنی نیند کو کم کر کے وقت کو عبادت میں یا پھر ایسے کام میں صرف کرتے ہیں جو عبادت کے حکم میں ہو اور مادی انسان بھی کوشش کرتے ہیں کہ زندگی سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کر سکیں، یہاں تک کہ جب ان کو کوئی تجارتی معاملہ طے کرنے کے لیے فرصت ملتی ہے، یا کسی دوست سے ملاقات کرنا ہوتی ہے یا اپنی من پسند فلم کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اپنی نیند کے وقت کو کم کر کے ان چیزوں سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتے ہیں۔
اس بنا پر ، نیند اس وقت قابل قدر ہے، جب تھکاوٹ اور خوف و اندوہ کو دور کر سکے، البتہ بعض افراد بیکار ہونے کی وجہ سے ایک قسم کے غم و اندوہ سے دوچار ہوتے ہیں، اس لیے نیند کا سہارا لیتے ہیں۔
لیکن ابدی بہشت میں، نہ کسی قسم کی تھکاوٹ کا نام و نشان ہے[2]، اور نہ ترس و اندوہ ہے[3] اور وہاں پر مہیا فراوان نعمتوں سے استفادہ کرنے کی وجہ سے کوئی تھکاوٹ پیدا نہیں ہوگی جس کے لیے اہل بہشت نیند کا سہارا لینے پر مجبور ہوں گے پس بہشت میں نیند کے کیا معنی ہو سکتے ہیں؟؛
ایک روایت میں امام جعفرصادق{ع} فرماتے ہیں: " اہل بہشت ہمیشہ زندہ ہیں اور کبھی نہیں مرتے ، وہ بیدار ہیں اور نہیں سوتے، وہ بے نیاز ہیں، محتاج نہیں ہوتے، خوشحال ہیں ناراحت نہیں ہوتے، ہنستے ہیں کبھی نہیں روتے، محترم ہیں، کبھی ان کی توہین نہیں ہوگی وغیرہ۔ ۔ ۔ [4]"۔
اب ممکن ہے یہ سوال کیا جائے کہ کیا قرآن مجید نے کئی بار اس بات کو نہیں دہرایا ہے کہ بہشت میں جس چیز کی ہم چاہت کریں وہ ملے گی؟[5]
اب اگر کوئی اہل بہشت ، کسی وجہ کے بغیر یہ چاہے کہ اسے کچھ وقت کے لیے سونے دیں، تو کیا اس کے لیے یہ چیز فراہم کی جائے گی؟؛
اس کے جواب میں پہلے ایک مثال پر توجہ فرمائیں:
اگر کسی باغ کا مالک اپنے باغ کے قسم قسم میووں سے کسی محدودیت کے بغیر اپنی پسند سے استفادہ کرنے کی آپ کو اجازت دیدے ، تو کیا یہ تعجب کی بات نہیں ہے کہ آپ اس کے مالک سے پوچھیں کہ کیا درختوں سے گرے اور گلے سڑے میووں سے بھی استفادہ کرنے کی اجازت ہے؟؛
قدرتی بات ہے کہ، جب آپ کو کوئی شخص تازہ میووں سے استفادہ کرنے کی اجازت دیدے، تو بے فائدہ میووں سے استفادہ کرنے کی بھی اجازت دے گا، لیکن کیا آپ یا کوئی دوسرا عقلمند انسان اس قسم کی بے فائدہ درخواست کرے گا؟؛
اس بنا پر جواب دینا چاہئیے کہ جی ہاں؛ جن آیات کے مطابق یہ معلوم ہوتا ہے کہ بہشتیوں کی تمام درخواستیں پوری کی جائیں گی، اگر کوئی شخص بہشت میں نیند کی درخواست کرے ، تو اس کی درخواست قبول کی جائے گی، لیکن مطمئن رہئیے کہ بہشت میں موجود بکثرت اور حیرت انگیز نعمتوں[6] کے ہوتے ہوئے کوئی شخص اس قسم کی درخواست نہیں کرے گا اور نتیجہ کے طور پر بہشت میں نیند اور سونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے۔
ہماری اسی سائٹ کا سوال نمبر5864 ، آپ کے سوال کے مشابہ ہے جس کا عنوان "امکان اختراع در بہشت" ہے، آپ اگر چاہیں تو اس کا بھی مطالعہ کر سکتے ہیں۔
[1] نبأ، 9؛ فرقان، 47؛ آل عمران، 154؛ انفال، 11؛ روم، 23 و ...
[2] حجر، 48؛ فاطر، 35، "لا یمسنا فیها نصب و لا یمسنا فیها لغوب".
[3] فاطر، 34؛ اعراف، 49.
[4] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 8، ص 220، ح215، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ه.
[5] نحل، 31؛ فرقان، 16؛ زمر، 34؛ شوری، 22؛ ق، 35؛ فصلت، 31؛ زخرف، 71 و ...
[6]اس سلسلہ میںسوال نمبر1823 {سائٹ 1977} کے جواب کا مطالعہ بھی مفید ہوگا.