Please Wait
9092
جو کچھـ بیان کیا گیا ، وه نه تاریخی واقعه کے مطابق هے اورنه عقل سے جوڑ کھاتا هے- اس معنی میں که اولاً : یه مطلب کسی بھی کتاب یا مقتل میں اس طرح ذکر نھیں هوا هے – کیونکه کتابوں میں آیا هے که: امام حسین علیه السلام اپنی بهن ام کلثوم کے پاس تشریف لائے اور فر مایا : بهن! میں تجھے اپنے بیٹے کے بارے میں وصیت کر تا هوں، کیونکه وه چھـ ماه کا ایک چھوٹا بچه هے- [1]ام کلثوم نے عرض کی : اس بچے نے تین دن سے پانی نهیں پیا هے ، اس کے لئے تھوڑا سا پانی لایئےاور امام حسین علیه السلام بچے کوگود میں لے کر اس قوم کے پاس لے آئے اور فر مایا : تم لوگوں نے میرے بھائیوں ،فرزندوں اور اصحاب کو قتل کیا اور اب اس بچے کے علاوه کوئی نهیں بچا هے اور یه بھی پیاس سے تڑپ رها هے ایک گھونٹ پانی پلا کر اس کی پیاس بجھا دو! ایک اور عبارت میں یوں آیا هے که امام حسین علیه السلام نے بچے کو هاتھـ میں لے کر یوں فر مایا : اے لوگو! اگر مجھـ پر رحم نهیں کرتے هو تو کم از کم اس بچے پر رحم کرو-
جب امام (ع) ان سے خطاب فر ما رهے تھے ، ظالموں کی طرف سے ایک تیر پھینکاگیاجس نے بچے کے گلے کو ایک کان سے دوسرے کان تک ذبح کر کے رکھـ دیا- امام حسین علیه السلام اس طفل شیر خوار کے خون کو اپنی هتیلی میں لے کر آسمان کی طرف پھینکتے هوئے فر ماتے تھے : خداوندا! میں تجھے اس قوم کے لئے شاهد رکھتا هوں که اس نے پیغمبر (ص) کے گھرانے سے ایک شخص کو بھی زنده نه رکھنے کی ٹھان لی هے---[2]
ثانیاً : اس قسم کی چیز عقلی اصول کے مطابق نهیں هے، یعنی یه ممکن نهیں هے که ایک طفل شیر خوار کے دها ن کی رطوبت سے اس قدر استفاده کیا جاسکے جس سے خطبه دینے یا اسے جاری رکھنے کے لئے گلا تر کیا جاسکے! اور دوسری جانب سے کوئی بھی عقلمند انسان ایسا کام انجام نهیں دیتا هے، امام حسین علیه السلام کی بات هی نهیں کیونکه امام معصوم هیں اور ان کی طرف سے عقل و عشق سے ایک ساتھـ پورا پورا استفاده کر نے کے عمل نے سب کو متحیر کر کے رکھـدیا هے-
[1] -اس طفل شیر خوار کے نام کے بارے میں ارباب مقاتل نے کها هے که ان کا نام عبدالله بن حسین تھا اور یه که کیا عبدالله وهی علی اصغر هیں یا امام حسین (ع) کا اس نام سے کوئی دوسرا شیر خوار بچه عاشور کے دن شهید هوا هے ، اس سلسله میں دو نظریئے پائے جاتے هیں:
الف- علی اصغر ، وهی شیر خوار عبدالله هے اور یه دونوں نام ایک هی بچه کے هیں-
ب- یه دو نام ایک هی بچے کے نهیں هیں بلکه عبدا لله کی والده کا نام ام اسحاق بنت طلحه بن عبدالله تھا اور علی اصغر کی ما ں کا نام رباب بنت امر القیس تھا- ملاحظ هو: اشتهاردی ، محمد مھدی، "سوگنامه آل محمد"
[2]- ملا حظه هو: اولین تاریخ کربلا مقتل حسین، تالیف ابی منحنف ،ترجمه انصاری ص١٣٠، لهوف ، سید ابن طاٶس، ترجمه ڈاکٹرعقیقی بخشایش ص١٤٣،آموز الشهادت اور ترجمه کامل نفس المهوم ونقشه المصدور،تالیف شیخ عباس قمی ، ترجمه آیت الله کمره ای ص١٦١، منتهی الآمال ازشیخ عباس قمی ، بحار الانوار، علامه مجلسی ، ج٤٥، الارشاد ، شیخ مفید، تذ کرهۃ الشهدا ، محمد حبیب الله کاشانی-