Please Wait
9659
سوال کرنے والے محترم کو جواب دینے سےپھلے اس نکتھ کی جانب توجھ کرنا ضروری ھے۔ کھ خود شیطان کو پھچاننا اور یھ کھ وه انسان کو سعادت اور کمال تک پھنچنے اور خدا کی رضا حاصل کرنے میں سب سے بڑی رکاوٹ ھے۔ وه انسان کا سب سے واضح دشمن ھے جس نے اس کی دشمنی کی قسم کھائی ھے، نیز اس کے ساتھه مقابلھ کرنے کی طریقوں کو پھچاننا اوّل قرار پاتا ھے۔
"شیطان" لغت میں " شریر" کے معنی میں ھیں ۔ اور ابلیس کو اس کی شرارت کی خاطر شیطان کھتے ھیں ۔ شیطان انسانیت کا سب سے واضح اور سب سے بڑا دشمن ھے۔ وه لوگوں کے دلوں میں خفیھ القاء کرکے انھیں اپنی راھوں کی جانب بھکاتا ھے ۔ اس لئے شیطان کی دشمنی کو مدنظر رکھه کر خداوند متعال نے انسان سے یھ ارشاد کیا ھے کھ " اگر شیطان کی طرف سے تم میں وسوسھ ڈالا گیا تو خدا کی پناه میں آجاؤ"
اس لحاظ سے کھا جاسکتا ھے، که ھر وه چیز جو شیطان کواپنے مقصد تک نھ پھنچائے وه اس کی ناراضگی اور اسکی آه و زاری اور فریاد کرنے کا سبب بنتی ھے۔
حضرت امام صادق علیھ السلام نے فرمایا: ابلیس نے چار عظیم واقعات پر چار مرتبھ فریاد کی ۔
۱۔ جب وه خدا کی لعنت کا مستحق قرار پایا۔
۲۔ جب وه زمین پر آگیا۔
۳۔ جب رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو نبوت عطا کی گئی۔
۴۔ جب سوره فاتحۃ الکتاب نازل ھوئی۔
اس سوال کا جواب دینے سے پھلے بعض نکات کی جانب توجھ دینا ضروری ھے ۔
۱۔ شیطان کا لفظ" شطن " کے ماده سے ھے اور " شاطن" ، "خبیث" اور "پست" کے معنی میں آتا ھے۔ شیطان سرکش اور باغی موجود کو کھتے ھیں چاھے وه انسان ھو یا جن، یا کوئی اور حیوان ھو۔ نیز وه، شریر روح اور حق سے دوری کے معنی میں بھی آیا ھے اور حقیقت میں یھ سب معانی ایک قدر مشترک کی طرف رجوع کرتے ھیں۔[1]
۲۔ خداوند متعال نے قرآن مجید میں فرمایا: اور وه موقع یاد کرو جب ھم نے ملائکھ سے کھا کھ آدم کیلئے سجده کرو تو ابلیس کے علاوه سب نے سجده کرلیا اس نے انکار اور غرور سے کام لیا اور کافروں میں ھوگیا" [2]
قرآن مجید کے بیان کے مطابق "ابلیس" جن کی نسل سے تھا۔ اور زیاده عبادت کی وجھ سے ملائکھ کی صف میں قرارپایا۔ لیکن روایات اور آیات کے ظاھر اور باطن سے یھ بات سامنے آتی ھے کھ شیطان میں واقعی ایمان نھیں تھا۔ " و کان من الکافرین" [3] کیونکھ واقعی عبادت وه ھے جسے خداوند چاھتا ھے نھ کھ وه جو ھم اپنی خواھش کے مطابق انجام دیتے ھیں ۔ ابلیس تیار تھا کھ خدا کو سجده کرے لیکن آدم کو سجده کرنے پر تیار نھ تھا اور اس کی وجھ اسکا تکبر اور خودپسندی تھی ، جو اسکی تباھی کی موجب بنی اور اسکی بدبختیوں کا سرچشمھ قرار پائی ، حقیقت میں ابلیس عبادت کرتا تھا لیکن اس نے بندگی کی روح، خدا، اورامر کے مقابلے میں سر تسلیم خم نھیں کیا تھا۔
اس خدائی امتحان میں جس میں ملائکھ کامیاب اور سربلند نکلے اور شیطان ملعون اور تباه ھوا ابلیس تین بنیادی انحرافات کا مرتکب ھوا۔
الف ) عملی جرم: خدا کے دستور کی نافرمانی اور سرکشی جو اس کے فسق کا سبب بنی۔[4]
ب) اخلاقی جرم : تکبر ، جو اس کو بھشت سے نکالنے اور دوزخی ھونے کا سبب بنا۔ [5]
ج) اعتقادی جرم: " کان من الکافرین" [6] حضرت حق میں عدل الھی کا منکر ھوا۔ [7]
۳۔ شیطان انسانیت کا سب سے بڑا اور واضح دشمن ھے، جو لوگوں کے دلوں میں مخفی طور سے وسوسے ڈال کر انھیں اپنی طرف بلالیتا ھے [8] اور لوگوں کے برے اعمال کو انکی نظر میں نیک ظاھر کرتا ھے ۔ [9]
۴۔ چونکھ آیات اور بھت سی روایات میں جو مختلف آسمانی کتابوں میں موجود ھیں ، شیطان کو انسان کا سب سے بڑا دشمن اور فریب دینے والا اور اغوا کرنے والا پھنچنوایا گیا ھے اور قرآن کریم میں انسان سے یھ ارشاد کیا گیا ھے:" اے اولاد آدم خبردار شیطان تمھیں بھی نھ بھکائے ، جس طرح تمھارے ماں باپ کو جنت سے نکال لیا اس عالم میں ان کے لباس الگ کردئے تا کھ شرمگاھیں ظاھر ھوجائیں وه اور اس کے قبیلھ والے تمھیں دیکھه رھے ھیں اس طرح تم انھیں نھیں دیکھه رھے ھو بیشک ھم نے شیطان کو بے ایمان انسانوں کا دوست بنادیا ھے۔ [10]
دوسری جگھ فرمایاھے : اور جو شخص بھی اللھ کے ذکر کی طرف سےاندھا ھوجائے گا ھم اس کیلئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ھم نشین ھوگا۔ [11] یھاں تک کھ خود شیطان نے انسان کو گمراه کرنے میں خدا کی بارگاه میں قسم کھائی ھے۔[12]
اس لئے شیطان کی واضح دشمنی کے پیش نظر خداوند متعال نے انسان سے ارشاد کیا ھے:" اگر شیطان کی طرف سے کوئی غلط خیال پیدا کیا جائے تو خدا سے پناه مانگیں کھ وه ھر شیء کا سننے والا اور جاننے والا ھے۔ [13]
۵۔ جو شیطان کی ھم نے خصوصیت بیان کی ممکن ھے یھ سوال ذھن میں آئے کھ شیطان کو خلق کرنے کا کیا فلسفھ ھے؟
اس کے جواب میں ھم کھیں گے:
اولا: خداوند متعال نے شیطان کو شیطان نھیں بنایا کیوں کھ وه سالوں سال تک ملائکھ کے ساتھه اور اپنی پاک فطرت پر تھا۔ لیکن اس مقام سے آزادی پانے کے بعد اس نے سوء استفاده کرکے بغاوت اور سرکشی کی راه لی۔
ثانیا: خلقت کے نظام میں ، شیطان کا موجود ھونا با ایمان ایمان اور ان لوگوں کیلئے جو حق کی راه طے کرنا چاھتے ھیں مضر نھیں ، بلکھ ان کی ترقی اور کمال کا وسیلھ ھے واضح الفاظ میں، جب تک انسان ایک طاقتور دشمن کے مقابل نھیں ھوتا تب تک کبھی وه اپنی طاقت اور دماغ کو کام میں نھیں لاتا ھے۔ [14]
قرآن کریم ، شیطان کو امت کے امتحان کا وسیلھ پتاتا ھے جو اپنے القاءات سے حق اور اھل حق کےلئے بنیاد خراب کرتا ھے۔ " (مقصد یھ تھا) کھ شیطان القاء کو ان لوگوں کیلئے آزمائش بنا دے جن کے قلوب میں مرض ھے اور جن کے دل سخت ھوگئے ھیں اور ظالمین یقینا بھت دور رس نافرمانی میں پڑے ھوئے ھیں[15]۔
اب مذکوره نکات کو بیان کرکے یھ نتیجھ نکالا جاسکتا ھے کھ جس چیز نے شیطان کو اپنے مقصود اورمقصد تک نھیں پھنچنے دیا وه اس کی ناراضگی اور اس کی آه و زاری اور فریاد میں مؤثر ھوئی اس لئے اخبار اور روایات میں آیا ھے که ابلیس نے چار جگھوں پر نالھ و فریاد کیا۔
۱۔ جب اس نے سجده کرنے پر حضرت آدم علیھ السلام سے تکبر اور حسد کیا اور لعنت کا مستحق قرار پایا۔
۲۔ جب وه امر الھی کی نافرمانی کرکے خدا کے دربار سے نکالا گیا اور زمیں پر آگیا۔
۳۔ جب حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم خداوند متعال کی طرف سے لوگوں کی ھدایت کیهئے نبی خاتم کے عنوان سے مبعوث ھوئے ۔
۴۔ جب سوره فاتحۃ الکتاب رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے مقدس قلب پر نازل ھوئی۔[16]
کیوں کھ یھ چاروں واقعات انسان کی رشد اور ھدایت میں بنیادی کردار ادا کرسکتے ھیں۔
[1] تفسیر نمونھ ، ج ۱ ص ۱۹۱۔، ۱۹۲۔
[2] سوره بقره / ۳۴۔
[3] ایضا
[4] " فسق عن امر ربھ" کھف ، ۵۰۔
[5] " فئس مثوی المتکبرین " زمر، ۷۲۔
[6] سوره بقره / ۳۴۔
[7] قرائتی ، محسن ، تفسیر نور، ج ۱ ، ۱۰۳، ۱۰۴۔
[8] سوره ناس، / ۴۔ من شر الوسواس الخناس " مخفی وسواس کرنے والا۔
[9] سوره نمل / ۲۴۔ " زین لھم الشیطان اعمالھم۔" اور شیطان نے ان کے کاموں کو ان کی نظرون میں نیک دکھایاھے"
[10] سوره اعراف / ۲۷۔
[11] سوره زخرف / ۳۶۔
[12] سوره صاد، / ۸۲ أ ۸۳۔
[13] سوره اعراف / ۲۰۰۔
[14] ایضا ص ۱۹۳۔ ۱۹۴۔
[15] سوره حج ، / ۵۳۔
[16] بحار الانوار ، ج ۱۱، ص ۱۴۵۔ امام صادق علیھ السلام نے فرمایا: " ان ابلیس رنَّ اربع رنّات: اولھین یوم لعن و یوم اھبط الی الارض و حیث بعث محمد ( صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم ) علی فترۃ من الرسل و حین انزلت ام الکتاب۔۔۔۔