Please Wait
6800
فلاسفہ اور متکلمین نے خداوند متعال کی صفات کو ثابت کرنے کے لئے کچھ طریقے بیان کئے ہیں، عقلی دلیل اور آفاق کا مطالعہ ان ہی طریقوں میں سے ہے- ان استدلالوں سے، خلقت کی بیہودگی کی نفی اور نظم و انتظام کے تحت ایک خاص مقصد کی طرف کائنات کی حرکت کے پیش نظر خداوند متعال کی حکمت ثابت ھوتی ہے-
اس نکتہ پر توجہ کرنا ضروری ہے کہ خداوند متعال کی صفات کی معرفت حاصل کرنا اگر چہ ادراک کے محسوسات کے ساتھ قابل موازنہ نہیں ہے، لیکن ان کی پہچان کوئی نا ممکن اور حاصل نہ ھونے والا امر نہیں ہے- اسی وجہ سے فلاسفہ اور متکلمین نے خداوند متعال کی صفات کو ثابت کرنے اور انھیں پہچاننے کے لئے ہمارے سامنے کچھ طریقے پیش کئے ہیں- بیشک ان طریقوں سے استفادہ کرکے ہم مطلوبہ نتیجہ تک پہنچ سکتے ہیں- ہم اس بحث کے ضمن میں ان طریقوں کی طرف بھی اشارہ کریں گے-
لیکن ، اصل موضوع، یعنی خداوند متعال کی حکمت کے ثبوت، سے پہلے مناسب ہے کہ وہ نکات بیان کئے جائیں، جو ہمیں اس مطلب کو سمجھنے میں مدد کریں گے-
پہلا نکتہ: خداوند متعال کا بے نیاز ھونے کے بارے میں ہے- جس طرح آپ جانتے ہیں، نیاز مندی ممکن مخلوقات کی خصوصیات میں سے ہے، کیونکہ ممکنات، حدوث اور بقا میں علت{ علت محدثہ اور علت مبقہ} کے محتاج ہیں- لیکن خداوند متعال کے لئے وجود کے واجب اور امکان کی نفی ثابت ھونے کے بعد اس کے بارے میں نقص و نیازمندی کا مسئلہ بھی منتفی ھوتا ہے-
دوسرا نکتہ: وہ ہے کہ خداوند متعال قبیح کام انجام نہیں دیتا ہے- اس امر کو ثابت کرنے کے لئے، چند دلائل کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے:
پہلی دلیل: خدا وند متعال فعل قبیح کام کا محرک نہیں ہے ، اور جو بھی فاعل فعل قبیح کا محرک یا واجب میں مخل نہ ھو، اس سے قبیح فعل انجام پانا نا ممکن اور محال ہے، پس خداوند متعال سے قبیح کام کا انجام پانا یا واجب میں مخل ہونا ناممکن ہے-
لیکن صغرا کا ثبوت: جو شخص قبیح فعل انجام دیتا ہے اس میں مندرجہ ذیل محرکات میں سے کوئی ایک پایا جاتا ہے:
۱-وہ ایک لاپروا انسان ہے، یعنی دوسروں کی ملامت کی پروا نہیں کرتاہے ، وہ جہنم کے عذاب کی پروا نہیں کرتا ہے اور خود ایک با تقوی انسان ھونا ضروری نہیں سمجھتا ہے، یہ محرک ذات باری تعالی میں نہیں ہے، کیونک خداوند متعال کوئی بیہودہ کام انجام نہیں دیتا ہے-
۲-انسان جاہل ونادان ہے، یعنی کام کی برائی اور قبیح ھونے کے بارے میں آگاہ نہیں ہے، لہذا قبیح کام کا ارتکاب کرتا ہے، یہ محرک بھی خداوند متعال میں نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ خداوند متعال عالم مطلق ہے اور اس کے لئے کوئی چیز مجہول نہیں ہے-
۳-انسان قبیح فعل سے آگاہ ہے، لیکن محتاجی اسے قبح کام انجام دینے پر مجبور کرتی ہے، اس شخص کے مانند جو شراب پینے کے لئے مجبور ھوتا ہے- یہ محرک بھی خداوند متعال کی ذات میں نہیں پایا جاتا ہے، کیونکہ خداوند متعال غنی مطلق اور بے نیاز اور اس کی ذات میں کسی صورت میں نیازمندی نہیں پائی جاتی ہے-
۴-کام کے قبیح ھونے کے بارے میں پہچان رکھتا ہے، لیکن اسے انجام دینے کے لئے مجبور ھوتا ہے، مثال کے طور پر ایک ظالم اسے وہ کام انجام دینے پر مجبور کرتا ہے- یہ محرک بھی خداوند متعال میں نہیں پایا جاتا، کیونکہ اس سے بڑھ کر کوئی طاقت موجود نہیں ہے تاکہ اسے کسی کام کو انجام دینے کے لئے مجبور کرے بلکہ وہ ہستی میں فعال مایشاء و فعال مایرید ہے- پس خداوند متعال فعل قبیح انجام دینے اور واجب میں مخل ہونے کا محرک نہیں ہے-
لیکن کبرا کا ثبوت: خداوند متعال فاعل مختار ہے اور فاعل مختار جب تک کسی چیز پر قدرت نہ رکھتا ھو اور اس کا محرک بھی نہ ھو، علت تامہ نہیں ھوسکتا ہے اور اس سے فعل صادر ھونا نا ممکن اور محال ہے- فعل قبیح کے بارے میں، اگر چہ طاقت ایک موثر رکن کی حیثیت سے موجود ہے، لیکن محرک جو اس کا دوسرا رکن ہے، موجود نہیں ہے، لہذا قبیح فعل کا خدا سے صادر ھونا نا ممکن و محال ہے- یہ مسئلہ قبیح امور کے بارے میں ہے اور لیکن وہ امور جو حسن اور مصلحت کے تحت ہیں، ان کے بارے میں خداوند متعال قادر بھی ہے اور محرک بھی-[1]
حکمت کے معانی:
لغت میں " حکمت" کا لفظ ،عدل و استحکام وغیرہ کے معنی میں استعمال ھوتا ہے- لغوی لحاظ سے اس شخص کو حکیم کہتے ہیں جو امور اور افعال انجام دینے میں مکمل استحکام و قدرت رکھتا ھو-[2]
اصطلاح میں بھی حکمت کے دو معنی ہیں:
۱-اشیاء کے حقائق کو حقیقی معنوں میں پہچاننا-
۲-کسی کام کو بہتر، مکمل اورہستی اورخلقت کی مصلحت کے مطابق انجام دینا، خداوند متعال ان دونوں معنی کے لحاظ سے حکیم ہے ، کیونکہ اشیاء کے بارے میں اس کی معرفت مکمل ترین معرفت ہے اور اس کے افعال بھی انتہائی درجہ کا استحکام رکھتےہیں-[3]
لیکن خداوند متعال کی حکمت کی صفت کو ثابت کرنے کی دلائل کئی طریقوں سے ممکن ہے:
الف: عقلی دلیل:
حکمت کے معانی میں سے یہ ہے کہ خداوند متعال کے افعال معقول اور منطقی مقصد رکھتے ہیں- جو بھی فعل کسی خاص و معین مقصد کے لئے انجام نہ پائے، تمام عقلا کے نزدیک عیب اور بیہودہ شمار ھوتا ہے، اور بیہودہ فعل عقلا کے نزدیک قبیح شمار ھوتا ہے اور قبلا ثابت ھوا ہے کہ قبیح کام خداوندحکیم کے لئے نا ممکن و محال ہے-[4]
خداوند متعال کے لئے بیہودہ کام محال اور نا ممکن ہے:
لیکن یہ جو کہا جاتا ہے کہ خداوند متعال کے افعال کا کوئی غرض ھوتا ہے، اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ یہ غرض خداوند متعال کی ذات کی طرف پلٹتا ہے، کیونکہ معلوم ہے کہ خداوند متعال کی ذات مکمل ہےاور ان افعال سے بے نیاز ہے اور حقیقت میں اس غرض کا پلٹنا مخلوقات کی طرف ہے- اس کی مزید وضاحت یہ ہے کہ کبھی جو فعل، فاعل انجام دیتا ہے، اس کا غرض اس کی ذات کی طرف پلٹتا ہے اور کبھی دوسروں کے فائدہ کے لئے کوئی کام انجام دیتا ہے- اگر اس کا غرض پہلے والی قسم ھوتو کمال بخشنے والا غرض ہے اور یہ حق تعالی کی ذات کے لئے ناروا ہے، کیونکہ یہ فاعل میں کمی اور نقص کی علامت ہے اور خداوند متعال اس سے پاک و منزہ ہے، لیکن اگر اس کا غرض دوسری قسم کا ہے تو وہ عین کمال اور فاعل کے کمال سے نشئات پاچکا ہے-
۲-خداوند متعال کے کچھ اوصاف ہیں، کہ ہم انھیں جمال و کمال کے اوصاف کے عنوان سے جانتے ہیں، جیسے: عالم ھونا، قادر ھونا، خیر خواہ ھونا وغیرہ- اس بنا پر جو موجود ان صفات سے متصف ہے اس سے احسن و حکیمانہ نظام صادر ھونا چاہئیے، ورنہ کہنا چاہئیے کہ خداوند متعال میں یہ صفات نہیں ہیں، جبکہ ایسا نہیں ہے اور خداوند متعال مسلسل ان صفات سے متصف ہے-
ب- آفاق اورنفس کا مطالعہ:
خداوند متعال، انسان کو عالم ہستی اور نفس کے بارے میں غور وفکر کرنے کی دعوت دیتا ہے اور درک و شناخت کا ایک طریقہ اسی غور و فکر کو جانتا ہے-[5]
اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ: فعل، جس طرح فاعل کی دلالت پیش کرتا ہے، اسی طرح اس کی خصوصیات کی بھی دلالت پیش کرتا ہے، یعنی شے کی خصوصیات کا ملاحظہ کرنے کے بعد اس شے کے فاعل کی صفات بھی معلوم ھوتی ہیں – حقیقت میں اثر سے موثربھی معلوم ھوسکتا ہے - اور اس کے مستحکم اور مضبوط عالم ہستی اور اس کے مستحکم مظاہر اور ان کے تمام اجزاء کے درمیان نظم و انتظام کے بارے میں غور و فکر کرنے سے[6] ان کا واضح طور پر مشاہدہ کیا جاسکتا ہے- عالم ہست کے مجموعی اجزاء میں تفاوت کے باوجود اور اس کے مظاہر کے بامقصد تکاملی سفر کا مشاہدہ ، ہمیں ایک عالم، قادر اور حکیم خالق کے وجود کی طرف راہنمائی کرتا ہے-
حیات میں تنوع خداوند متعال کی حکمت ، علم اور قدرت کی ایک اور دلیل ہے- کل حیات کے لئے ایک مقصد اور مقصود ھونے کے علاوہ، ہر چیز کا اپنا ایک مقصد ھوتا ہے، کہ وہ چیز اسی مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے- لیکن دوسری اشیاء کے ساتھ اپنا تکاملی راستہ طے کرتی ہے، مثال کے طور پر زمین بارش سے سیراب ھوتی ہے ، پانی وہی پانی ہے اور زمین وہی زمین ہے، لیکن جو نباتات اس پانی اور زمین سے اگتی ہیں، وہ رنگ، مزہ، فوائد اور مقصد کے لحاظ سے ایک دوسرے سے متفاوت ھوتی ہیں- ہر نبات ایک خاص مقصد کے لئے پیدا کی گئی ہے اور دوسری تمام نباتات کے ساتھ اپنا تکامل کا راستہ طے کرتی ہے-[7]
اس بنا پر، مذکورہ اشارہ شدہ مطالب کے پیش نطر، ادلہ عقلی یا دوسرے تائیداد کے لحاظ سے قابل بیان ہے کہ : خداوند متعال کی حکمت مخلوقات کو کمال تک پہنچا نےکے معنی میں ہے- اسی طرح خداوند متعال کا حکیم ھونا، اس معنی میں ہے کہ اس کے فعل کا ایک مقصد ہے- اور سر انجام ہر مخلوق کی حکمت اس کی ذات میں پوشیدہ ایک مقصد ہے اور یہ جو ہم کہتے ہیں کہ خداوند متعال حکیم ہے، یعنی وہ مخلوقات کو ان کے مقاصد کی طرف ہدایت کرتا ہے- [8]
[1] محمدی علی، شرح كشف المراد، ص 213، دار الفکر، قم، طبع چهارم، 1378 ھ ش.
[2] ابن منظور، جمال الدین، لسان العرب، ج12، ص 140، دار صادر، بیروت، طبع اول 1410 ھ .
[3] شرح كشف المراد، ص 196.
[4] ایضا، ص 216.
[5] انعام، 99؛جاثية 3.
[6] روم، 22.
[7] تفسیر هدايت، ج 3، ص 130، دار الكتب الإسلامیة، تهران، طبع اول، 1374 ھ ش.
[8] مطهری، مرتضی، مجموعه آثار، ج1، ص 194، انتشارات صدرا، تهران.