Please Wait
16045
- سیکنڈ اور
جنگ بدر تاریخ اسلام میں واقع ھونے والی مسلمانوں کی سب سے پہلی تجربے کی جنگ تھی- چونکہ اسلام اپنے ابتدائی مرحلہ میں غیر معمولی حساسیت رکھتا تھا اور اس کے مقابلے میں بت پرستوں کی ایک جماعت تھی جو اسلام کی نابودی کے بغیر کسی چیز پر راضی نہیں تھے، اس لئے خداوند متعال اور فرشتوں کی طرف سے براہ راست مدد ملنا ایک ضروری امر لگتا ہے-
ہمارا اعتقاد ہے کہ جنگ احد میں بھی مسلمان غیبی امداد سے بے بہرہ نہیں رہے ہیں بلکہ خداوند متعال نے دشمنوں کے دلوں میں ایسا رعب و وحشت پیدا کیا کہ وہ فرار کرنے پر مجبور ھوئے- اس بنا پر بعض روایات کے مطابق فرشتے امام حسین{ع} کی مدد کے لئے حاضر ھوئے لیکن امام حسین {ع} نے ان کی مدد قبول نہیں کی-
آیہ شریفہ سے واضح طور پر معلوم ھوتا ہے کہ، فرشتوں کا مدد کے لئے آنا، صرف ہمت افزائی ، بشارت اور اطمینان حاصل ھونے کے لیے تھا نہ یہ کہ انھوں نے تلوار ہاتھ میں لے کر جنگ کی ہے، یعنی اس طرح نہیں ہے کہ ہم ایک کونے میں بیٹھیں اور خدا کو جنگ کرنے کا مامور قرار دیں جیسا کہ بنی اسرائیل ایسا ہی کرتے ھوئے کہتے تھے:" اے موسی، ہم تب تک ہرگز وہاں نہیں جائیں گے جب تک وہ وہاں پر موجود ہیں، پس ہم یہاں پر رہیں گے اور آپ اپنے پروردگار کے ہمراہ جاکر ان سے جنگ کیجیے-
اب ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا جس خدا نے حضرت ابراھیم {ع} کو نمرودیوں سے اور حضرت عیسی {ع} کو بنی اسرائیلوں سے نجات دلائی، وہ خدا حضرت زکریا {ع} اور حضرت یحیی کو ظالم ہروریس سے اور دوسرے انبیاء کو بنی اسرائیل اور دوسرے ظالموں سے نجات نہیں دلا سکتا تھا؟؛
اس سوال کا جواب دینے کے لئے مندرجہ ذیل نکات پر توجہ کرنا ضروری ہے:
۱- دنیا پر حاکم اصول و قواعد و ضوابط، ایک قانون مند، مدلل اور با مقصد نظام پر مشتمل ہیں-
دنیا پر پھیلے ھوئے قانون کی بنا پر، خداوند متعال ہر کوشش اور فعالیت کرنے والے کو اس کے کام کے نتیجہ تک پہنچاتا ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں ہے کہ وہ شخص ایک اچھا انسان ھو یا کوئی بد کار ھو یا وہ کام پسندیدہ ھو یا نا پسند-[1] اس بنا پر ہم دیکھتے ہیں کہ بہت سے انبیاء {ع} من جملہ حضرت زکریا و یحیی {ع} بلکہ پیغمبر اسلام سے نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق ایک ہی دن میں ۴۳ پیغمبر اور ۱۱۲ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنے والے خدا کے بندے، بنی اسرائیل کے ہاتھوں قتل کئے گئے ہیں-
خداوند متعال سورہ بقرہ میں ارشاد فرماتا ہے:" جب کوئی رسول تمھاری خواہش کے خلاف کوئی پیغام لے کر آتا ہے تو اکڑ جاتے ھو اور ایک جماعت کو جھٹلا دیتے ھو اور ایک کو قتل کر دیتے ھو-"[2]
۲- بعض اوقات خداوند متعال حکمت اور مصلحت کی بنا پر علت کو بے اثر کردیتا ہے یا کسی معلول کو کسی متعارف علت سے انتساب کئے بغیر پیدا کرتا ہے، مثال کے طور پر آگ کا ذاتی کام جلانا ہے لیکن حضرت ابراھیم {ع} کے بارے میں سرد ھوتی ہے، اور حضرت عیسی{ع} باپ کے بغیر پیدا ھوتے ہیں اگر چہ یہ مسائل ہستی کے ہم آہنگ مدلل نظام سے جدا نہیں ہیں، بلکہ اس کی ایک کڑی ہیں، لیکن ایک استثنائی فطری قانون ہے جو غیر معمولی اور معجزہ کی صورت میں واقع ھوتا ہے- اسی بنا پر جب بنی اسرائیل حضرت عیسی{ع} کو قتل کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو خداوند متعال حضرت عیسی{ع} کے ایک دشمن کو اس کی صورت میں بناتا ہے تاکہ اس کی جگہ پر قتل ھو جائے اور حضرت عیسی{ع} کو آسمان پر لے جاتا ہے-[3]
۳- خدوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:" اگر تم خدا کی مدد کرو گے تو خدا تمھاری مدد کرے گا-"[4]
یہ آیہ مومنین کو جہاد کی ترغیب دیتی ہے اور جب خدا کی مدد کریں گے، تو وہ مدد کا وعدہ کرتا ہے-" خدا کی نصرت" سے مراد، دین کی تائید اور کلمہ حق کی ترویج کے لئے خدا کی راہ میں جہاد کرنا ہے، نہ یہ کہ جہاد کریں تا کہ زمین پر حکمرانی کریں یا مال غنیمت حاصل کریں، یا اپنی شجاعت اور ہنرمندی کا مظاہرہ کریں- یہ جو فرمایا ہے کہ" خدا بھی تمھاری مدد کرتا ہے" سے مراد یہ ہے کہ دشمن پر غلبہ پانے کے اسباب آپ کے لئے فراہم کرتا ہے، مثال کے طور پر کفار کے دلوں میں آپ کے بارے میں خوف پیدا کرتا ہے اور امور کو کفار کے خلاف اور آپ کے حق میں قرار دیتا ہے اور آپ کے دلوں کو مستحکم اور شجاع بنا دیتا ہے-[5]
۴- خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:" اور اس امداد کو خدا نے صرف تمھارے لئے بشارت اور اطمینان قلب کا سامان قرار دیا ہے ورنہ مدد تو ہمیشہ صرف خدائے عزیز و حکیم ہی کی طرف سے ھوتی ہے-" [6]
مذکورہ نکات کے پیش نظرہم جواب کو دو حصوں، حلی اور نقضی صورت میں پیش کرتے ہیں:
الف} تاریخ اسلام میں واقع ھونے والی جنگوں میں جنگ بدر پہلا تجربہ تھا اور تازہ ظہور ھوا اسلام غیر معمولی حساسیت کا حامل تھا اور اس کے مقابلے میں بغض و عناد رکھنے والے بت پرستوں اور مشرکوں کی ایسی جماعت تھی جو اسلام کی نابودی کے علاوہ کسی چیز پر راضی نہیں تھے- اس لحاظ سے خداوند متعال اور فرشتوں کی طرف سے مسلمانوں کی براہ راست مدد ایک ضروری امر لگتا ہے-
ہم بخوبی جانتے ۃیں کہ جنگ احد میں پیغمبر اکرم{ص} کے صحابیوں کی ایک قابل توجہ تعداد نے فوجی کمان کے حکم کی نافرمانی کی اور کوہ رمات{ جبل العینین} سے نیچے آگئے اور یہی کام دشمنوں کے دوبارہ حملہ کا سبب بنا اور بظاہر مسلمانوں کو شکست سے دوچار ھونا پڑا اور دشمن کامیاب ھوئے- اب ہمارا سوال یہ ہے کہ کیا جنگ احد میں خداوند متعال نے مسلمانوں کی مدد نہیں کی؟ کیا آپ نے اس پر غور کیا کہ مشرکین اور احزاب ظاہری فتحیابی کے بعد مدینہ میں کیوں داخل نہیں ھوئے؟ انھوں نے کیوں پیغمبر {ص} کو پانے کی کوشش نہیں کی؟ کیوں اسلام اور مسلمانوں کا کام تمام نہیں کیا؟ بلکہ پیغمبر{ص} کے واپس آنے کے بعد آپ {ص} نے صحابیوں کی ایک تعداد کے ہمراہ ان کا پیچھا کیا کہ یہ واقعہ " حمراء الاسد" کے نام سے مشہور ہے-[7]
اس بنا پر ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ جنگ احد میں بھی مسلمان غیبی امداد سے محروم نہیں رہے ہیں اور خداوند متعال نے ان کے دشمنوں کے دلوں میں ایسا خوف و رعب پیدا کیا جو ان کے بھاگنے کا سبب بنا-
امام حسن{ع} اور امام حسین{ع} کے بارے میں بھی توجہ کرنی چاہئیے کہ ان کے اور ان کے معدود جاں نثار صحابیوں کے مقابلے میں، ایک ایسا گروہ تھا، جو بظاہر مسلمان تھا، وہ لوگ بھی ائمہ اطہار {ع} اور ان کے اصحاب کے مانند نماز پڑھتے تھے اور روزہ رکھتے تھے- - - اس بنا پر اولا: قرار نہیں ہے کہ تمام مسائل معجزہ اور غیر معمولی صورت میں حل ھو جائیں- ثانیا: دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور دونوں گروھوں کا امتحان لیا جانا چاہئیے- اس کے علاوہ، بعض روایتوں کے مطابق، امام حسین{ع} کی مدد کرنے کے لئے فرشتے آپ {ع} کی خدمت میں حاضر ھوئے، لیکن آپ {ع} نے انھیں قبول نہیں کیا-[8] اور ممکن ہے ہماری روز مرہ زندگی میں فرشتوں نے ہماری مدد کی ھو، لیکن ہم نے توجہ نہیں کی ہے اور ان کا مشاہدہ نہیں کیا ہے-
ایک اہم نکتہ جس کی طرف ہمیں خاص توجہ کرنی چاہئیے، وہ یہ ہے کہ چوتھے نکتہ میں اشارہ کی گئی آیت کے مطابق، فرشتوں کا مدد کے لئے آنا صرف ہمت افزائی، بشارت، اطمینان بخشنے اور حوصلہ بلند کرنے کے لئے تھا، ایسا نہیں ہے کہ فرشتوں نے تلوار ہاتھ میں لے کر جنگ کی ھو- یعنی اس طرح نہیں ہے کہ ہم ایک کونے میں بیٹھیں اور خدا کو جنگ کرنے کا مامور قرار دیں جیسا کہ بنی اسرائیل ایسا ہی کرتے ھوئے کہتے تھے:" اے موسی، ہم تب تک ہرگز وہاں نہیں جائیں گے جب تک وہ وہاں پر موجود ہیں، پس ہم یہاں پر رہیں گے اور آپ اپنے پروردگار کے ہمراہ جاکر ان سے جنگ کیجیے-[9]
ب} اب ہم آپ سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا جس خدا نے حضرت ابراھیم {ع} کو نمرودیوں سے اور حضرت عیسی {ع} کو بنی اسرائیلوں سے نجات دلائی، وہ خدا حضرت زکریا {ع} اور حضرت یحیی کو ظالم ہروریس سے اور دوسرے انبیاء کو بنی اسرائیل اور دوسرے ظالموں سے نجات نہیں دلا سکتا تھا؟؛
مذکورہ مطالب پر سرسری نظر ڈالنے سے ہم یہ نتیجہ حاصل کرتے ہیں کہ اگر چہ معجزہ ہستی کے ہم آہنگ مدلل نظام سے جدا نہیں ہے، بلکہ اس کی ایک کڑی ہے، لیکن ایک استثنائی فطری قانون ہے جو غیر معمولی صورت میں واقع ھوتا ہے اور یہ بھی تب واقع ھوتا ہے جب خدا وند متعال مصلحت جانے-
[1] آل عمران، 195، "فَاسْتَجابَ لَهُمْ رَبُّهُمْ أَنِّي لا أُضيعُ عَمَلَ عامِلٍ مِنْكُمْ مِنْ ذَكَرٍ أَوْ أُنْثى بَعْضُكُم".
[2] بقره، 87، "أَ فَكُلَّما جاءَكُمْ رَسُولٌ بِما لا تَهْوى أَنْفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَ فَرِيقاً تَقْتُلُونَ".
[3] نساء، 157،`اور یہ کہنے کی بنا پر کہ ہم نے مسیح عیسی بن مریم رسول اللہ کو قتل کردیا ہے حالانکہ انھوں نے نہ انھیں قتل کیا ہے اور نہ سولی دی ہے بلکہ دوسرے کو ان کی شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے عیسی کے بارے میں اختلاف کیا ہے وہ سب منزل شک میں ہیں اور کسی کو گمان کی پیروی کے علاوہ کوئی علم نہیں ہے اور انھوں نے یقینا انھیں قتل نہیں کیا ہے-
[4]محمد، 7-
[5] طباطبائی، محمد حسین، تفسير الميزان، موسوى همدانى، سيد محمد باقر، ج 18، ص 346 و 347، دفتر انتشارات اسلامى ، قم، طبع پنجم، 1374 ش.
[6]آل عمران، 126-
[7] أبو عمر يوسف بن عبد الله بن محمد بن عبد البر، الاستيعاب فى معرفة الأصحاب، البجاوى، على محمد، ج 3، ص 1428، بيروت، دار الجيل، ط الأولى، 1412/1992.ُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّ
[8] اس سلسلہ میں مزید آگاہی کے لئے ملاحظہ ھو عنوان:کمک جنیان و فرشتگان به امام حسین (ع) در روز عاشورا" سوال: و عنوان: "عدم جلوگیری خداوند از کشته شدن امام حسین" سوال: ۷۶۰۵-
[9] مائده، 24.