Please Wait
7319
تفصیلی جواب
اس نکتے کی طرف توجھ کرنا ضروری ھے کھ آخرت کے بارے میں اور جنت و جھنم کے حالات سے آگاھی حاصل کرنے کیلئے صرف وحی الھی اور جو ائمھ معصومین علیھم السلام کے فرمودات ھم تک پھنچے ھیں ان کے علاوه کوئی اور راستھ نھیں ھے۔
مذکوره سوال کا جواب دینی متون میں وضاحت کے ساتھه بیان نھیں ھوا ھے ،لیکن اسلامی تعلیمات میں بیان شده بعض نکات سے یھ ظاھر ھوتا ھے کھ جنت اورجھنم میں کوئی خاص احکام موجود نھیں ھیں اور اگر ھوں وه اس دنیا کے احکام اور دستور سے بالکل مختلف ھیں۔ کیوں کھ جو احکام خداوند متعال نے انسان پر مقرر کرکے اس کو انجام دینے کی تاکید کی ھے ان کا فلسفھ انسان کو کمال اور بلندی کی طرف لے جانا ھے۔ جو اس دنیا میں خدا کے اوامر بجالانے سے ممکن ھے اور جو درجات انسان کو جنت میں عطا ھوں گے وه ان نیک کاموں کا نتیجھ ھیں جو اس نے خود ھی مرنے سے پھلے اس دنیا میں انجام دئے ھیں یا اس کے فرزندوں اور دیگر مؤمنوں نے اس کے مرنے کے بعد انجام دے کر ان کا ثواب اس میت کو ھدیھ کیا ھے۔
اس سے زیاده گهری تعبیر کے مطابق جنت اور جھنم ان اعمال کے باطن اور حقیقت ھیں جو ھم اسی دنیا میں انجام دیتے ھیں چنانچھ بھت سی روایات میں آیا ھے کھ آج ( دنیاوی زندگی ) عمل کا دن ھے اور کوئی حساب نھین لیکن کل (آخرت میں) حساب ھے لیکن عمل نھیں [1]
اس بنا پر آخرت میں کوئی ایسا عمل موجود نھیں جو فریضه بن کر حساب و کتاب کا سبب بنے اور اس کا باطن کسی اور جگھ ظاھرجائے، ایسا بالکل نھیں ھے۔
اس کے علاوه یھ نکتھ کھ احکام اور قوانین وھاں پر بنائے جاتے ھیں جھان ظلم اور دوسروں کے حقوق پامال ھونے کا خطره ھو ، جب کھ ایسے مسائل بھشت میں بالکل موجود نھیں ھے۔ کیوں کھ :
۱۔ جنت میں ظلم اور زبردستی نھیں ، ظلم اور زبردستی عام طور پر وھاں ھوتی ھے جھان وسائل محدود ھوں اور کسی نعمت تک پھنچنے کا تقاضا اس کے موجود ھونے سے زیاده ھو ، جبکھ جنت میں کسی طرح کی کمی نھیں ، قرآن مجید کی آیات کے مطابق جو کچھه وه خواھش کریں گے اور جو ان کا دل چاھے گا وه ان کے اختیار میں رکھا جائے گا۔[2]
۲۔ دوسری چیز جو قانون کو ضروری بناتی ھے ایسی جگھ ھے جھاں افراد ، شیطانی وسوسوں ، شھوانی خواھشات ، یاروحانی بیماریوں جیسے حسد، کینھ ، نازیبا اعمال ، اور ناشاستھ حرکات کی وجھ سے اپنے یا دوسروں کے اوپر ظلم روا رکھیں۔ جبکھ ایسے مسائل بھی بھشت میں موجود نھیں ھے کیوں که جو لوگ بھشت میں جگھ پاتے ھیں ، وه پاکدل اور پاک طینت افراد ھیں جو دنیا میں بھی اپنی نفسانی خواھشات اور اخلاقی بیماریوں کو کنٹروں کرتے تھے ، اس کے علاوه قرآن مجید فرماتا ھے " بھشتی لوگوں سے ھر طرح کا غِلّ ( حسد، کینھ ، خیانت ، ) اٹھالیں گے اور اں کی روح کو پاک بنائیں گے جبکھ وه ایکدوسرے کے بھائی ھیں۔۔۔۔" [3] اور جو کلام اور گفتگو بھشتی لوگون کےد رمیان واقع ھوگی وه سلام ، سلامتی ، خیر ، اور نیکی کے علاوه کچھه نھیں ھے ۔[4]
پس یھ بات سمجھه میں آتی ھے کھ بھشتی لوگوں کے درمیان عداوت اورستمگری لڑائی اور جھگڑا ظاھر ھونے کا امکان نھیں لھذا وھاں پر قانون بنانے کی ضرورت نھین ھے قرآنی آیات سے یھ بات بھی واضح ھوتی ھے که بھشتی لوگوں کی خواھش بدی اور غلط چیزوں کی طرف نھیں ھوتی اور وه انسانی کمال اور روح کی زیبائی تک پھنچے ھوئے ھیں اور وه کسی چیز کو پسند نھیں کرتے مگر یھ کھ وه پسند کرنے کے قابل ھو[5] ، اور کسی چیز کو دوست نھیں رکھتے مگر یھ کھ خدا اسے دوست رکھتا ھو ، [6]
پس وھاں پر قانون اور احکام بنانے کی ضرورت نھیں ھے۔
بعض مفسروں نے اس آیت شریفھ کے ذیل میں لکھا ھے:" ان کے گرد سونے کی رکابیوں اور پیالیوں کا دور چلے گا اور وھاں ان کے لئے وه تمام چیزیں ھوں گی جن کی دل میں خواھش ھو اور جو آنکھوں کو بھلی لگیں اور تم اس میں ھمیشھ رھنے والے ھو"[7]
یھاں پر یھ سوال اٹھتا ھے کھ کیا اس آیھ کے مفھوم عام ھونے سے یھ آیت ان چیزوں کو بھی شامل ھوتی ھے جو دنیا میں حرام تھیں؟ اور اگر ایک بھشتی کسی حرام چیز کا تقاضا کرے تو کیا اس کے اختیار میں دے دی جائے گی ؟
اس کا جواب یھ دیا گیا ھے: کھ اس سوال کا پیش آنا اس نکتھ کی طرف غفلت کی وجھ سے ھے ، کھ حرام اور قبیح چیزیں روح کیلئے نا مناسب غذا کے مانند ھیں اور یقیناً ایک سالم اور صحیح روح اس کے کھانے کا میلان نھیں رکھتی ۔ جبکھ بیمار روح ، نا مناسب غذا حتی کھ زھر کو بھی کھا لیتی ھے۔ بعض ایسے بیمار ھیں جنھیں مٹی کھانے کی عادت ھوتی ھے، لیکن یھ بیماری ٹھیک ھونے کے بعد ، یھ خواھش بھی مٹ جاتی ھیں ، بھشتی لوگوں کو بھی کبھی ان چیزوں کے کھانے کو جی نھیں چاھتا ھے ، کیونکھ ان کی روح کی کشش خوبیوں اور پاک چیزوں کے لئے ھے۔ [8]