Please Wait
10925
جواب سے پهلے قابل ذکر بات هےکه اشیاء کی تعریف کے طریقوںمیں سے ایک طریقه"مثل"کے ذریعه تعریف کرنا هے،یعنی حقائق عقلی کی حسی اور قابل لمس امور سے تشبیه دینا ،تاکه اکثر لوگ آسانی کے ساتھ اس کا ادراک کرسکیں اور سمجھـ سکیں.کیونکه انسان عمو ما محسوسات کی عادت رکھتا هے- معلوم هوتا هے که قرآن مجید کی مثالوں میں اس روش سے استفاده کیا گیا هے اور قرآن مجید نے گوناگون مواقع پر واقعات کو تمثیل کی صورت میں بیان کیا هے که ابلیس کی داستان ان میں سے ایک هوسکتی هے.البته اس سلسله میں که کیا قرآن مجید کی مثالیں مصداق اور وجود خارجی رکھتی هیں یا صرف تمثیل هیں،دو نظریے پائے جاتے هیں:
الف):بعضوں کی نظر میں ،یه مثالیں معروف تشبیهات کی صورت میں هیں اور حقیقی اور خارجی وجود نهیں رکهتی هیں ،اور صرف عالی معارف ،بلند اسرار اور مخفی نظام هستی کو مادیات سے سروکار والے انسان کے ذهن کے قریب لانے کے لئے هے.
ب):بعض دوسرے اعتقاد رکهتے هیں که یه مثالیں ان حقائق کی مثالی وجود کی حکایت هیں اور ان میں کسی قسم کی تشبیه اور مجاز گوئی نهیں هے.
معلوم هو تا هے که ابلیس کی داستان ایک تکوینی تمثیل هے اور سجده کر نے کا الهی حکم ایک حقیقی امر نهیں هوسکتا هے،کیونکه یه امر دو حالتوں سے خارج نهیں هے یا امر مولا اور تشریعی هے اور یا تکو ینی هے.اگر هم امر کو مولائی فرض کریں تو مشکل سے دوچار هوتے هیں ،کیونکه حکم کا خطاب صرف ابلیس کی طرف نهیں تها بلکه اس میں ملائکه بھی شامل تهے ،جبکه ملائکه تکلیف الهی کے مخاطب قرار نهیں پا سکتے هیںاور دوسری طرف سجده کے حکم کو دو حصوں میں تقسیم نهیں کیا جاسکتا هے که تشریعی اور تمثیلی هو،اور اگر حکم تکوینی فرض کیا جائے تو جس چیز کا حکم هوا هے وه مراد الهی هے اور اس کا محقق هو نا ضروری هے.اور اس کی خلاف ورزی نهیں کی جاسکتی هے،حالانکه ابلیس نے سجده نهیں کیا هے اور خلاف ورزی عمل میں آئی هے .اس لئے قضیه کے حل کی تنھا راه یه هے که مذکوره داستان کو تمثیل مانا جائے .البته توجه رکھنی چاهئےکه داستان کو تمثیل جاننا اس معنی میں نهیں هے که اصل قضیه واقع نهیں هوا هے اور صرف ایک افسانوی داستان هے،بلکه امر اعتباری کے دقیق تر معنی واقع هوئے هیں اور اس سلسله میں وهم و گمان نهیں کر نا چاهئےکه یه عظیم الهی قضیه اوراهم دینی حقیقت بنیادی طور پر خارج میں محقق نهیں هوئی هے.
جواب کو بیان کر نے سے پهلے چند مطالب کی طرف اشاره کر نا ضروری هے:
١.ابلیس اور تمثیل کے الفاظ کا مفهوم:ابلیس:قرآن مجید میں اس لفظ سے مراد،ایک زنده باشعور،مکلف،نامرئی اور فریب کارو...مخلوق هے ،جس نے حکم خدا کی نافر مانی کر کے آدم کو سجده نهیں کیا ،جس کے نتیجه میں اس کا اخراج هوا اور عذاب کا مستحق قرار پایا.اسے قرآن مجید میں اکثر جگهوں پر شیطان کے نام سے یاد کیا گیا هے اور صرف گیاره مواقع پر شیطان کی جگه پر ابلیس کا نام استعمال هوا هے.[1]
کتاب "لسان العرب" میں،ابلیس،رحمت خدا سے ناامید اور پشیمان کے معنی میں هے.
قرآن مجید میں ابلیس کی ماهیت کی طرف اشاره هوا هے (کان من الجن)ابلیس جنات کی ذات هے [2]اور ابلیس کے ناموں میں فرق اس کی ماهیت کے تغیر میں کوئی اثر نهیں رکهتا ،چنانچه لفظ ابلیس کے عربی هو نے میں شبهه هے.[3]
تمثیل:یعنی مثال پیش کرنا،راغب اصفهان کهتا هے:"والمثل عباره عن قول فی شیء یشبه قولا فی شیءآخر بینهما مشابهه لیبین احدهما الآخر ."مثال،ایک قول هےکسی چیز کے بارے میں جو کسی دوسری چیز کے بارے میں شبیه هے تاکه ایک دوسرے کو بیان اور مجسم کرے."
٢.قرآن مجید میں مثل کی تعریف اور شیوه تمثیل: هر چیز کی تعریف حد سے یارسم سے اور یا مثل سےکی جاتی هے.اشیاء کی حد تام اور رسم تام کو سمجھنا عام لوگوں کے لئے مشکل هو تا هے ،کیونکه اشیاء کی ذاتیات اوران کی ذات کے لوازم کو سمجھنا عام لوگوں کےلئےممکن نهیں هے ،لیکن مثل ذاتیات اورذات کے لوازم کو بیان نهیں کرتی ،بلکه مخاطب کے لئےقابل فهم چیز کو اس کی پھچان کا وسیله قرار دیتی هے .مثل ایک طرف سےمعارف کو نیچے لاتی هے اور دوسری طرف سے مخاطب کی فکر کو تقویت بخشتی هے اور اگر کوئی مطلب مخاطب کی فکر کی سطح کے برابر ھو تو وه اس کے لئے قابل فھم بن جاتا هے ،چنانچه روح کی بدن سے نسبت سے آشنائی کے لئے مثل،ناخدا کے کشتی سے اور سربراه کے معاشرے سے رابطه کے مانند هے"الروح فی البدن ،کا لسلطان فی المدینه وکالربان فی السفینه ".اس قسم کی تعریف نه حد کے قسم کی تعریف هے اور نه رسم کی تعریف.[4]
حضرت امام حسین(ع) اور اسی طرح امام صادق علیهما السلام فر ماتے هیں :معارف قرآن کے چار در جے هیں اور انسانوں کا قرآن مجید سے استفاده کر نا الگ الگ هے:..."علی العباره والاشاره واللطائف والحقایق فالعباره للعوام والاشاره للخواص واللطائف للاولیاء والحقایق للانبیاء."[5]
لیکن قرآن مجید کے تمام مخاطبین اس امر میں مشترک هیں که الهی مطالب کو سمجھتے هیں،اگر چه فهم کا درجه مفهوم کے درجه کے مانند یکساں نهیں هے .اس لئے آخر کار سمجھـ لیتے هیں که کس چیز کا اعتقاد رکهنا چاهئےاور کیا کر نا چاهئےاور کهاں جائیں اور کهاں نه جائیں...
مثل کا اصلی محور ممثل کا تناسب هے جو اس کے ادراک کو آسان بناتا هے،مثالیں ناقابل نزاع هیں،مگر یه که رسالت میں نارسا هوں.
حق وباطل کے لئے نور وظلمت کی تمثیل اور جانوروں ،پرندوں اور پودوں کی مثالیں نه صرف غیرعرب اقوام و ملل کے محا وروں کی لغات میں مروج هیں ،بلکه مدنی وبدوی اعراب کے مفاهیم میں بھی رائج هیں،چنانچه گزشته آسمانی کتا بوں ،جیسے:تورات وانجیل میں بھی ایسا ھی پھلے سے ملتا هے.[6]
٣.دو نظریوں میں قرآن کی تمثیل: قرآن مجید کی مثالوں کے تجزیه کے سلسله میں خاص کر مصداق کی تشریح میں نه کھ مفهوم کے بیان میں،صاحبان نظر کےدرمیان دو نظریئے پائے جاتے هیں:ایک یه که مثالیں عرفی تشبیهات کی حد میں هیں اور صرف بلند معارف اور نظام هستی کے مخفی اسرار کو مادی دنیا میں زندگی بسر کر نے والے انسان کے ذهن کے قریب لانے کے لئے هیں.
دوسرا نظریه ،یه هےکه مثالیں ان حقائق کے مثالی وجود کی حکایت کرتی هیںاور ان میں کسی قسم کی تشبیه اور مجاز گوئی نھیں هے.
ان دو نظریات کا فرق،جهاںپر مثال کے طور پر خداوند متعال انسانوں کو "گدهے' اور"کتے"سے تشبیه دیتا هے ،یه هے که پهلے نظریه کے مطابق یه حقیقت میں "گدهے"نهیں هیں ،لیکن چونکه گدهے حقائق کو سمجھنے سے محروم هیں ،اسی لئے اس حیوان سے تشبیه دی گئی هے .لیکن دوسرے نظریه کے مطابق ،یه تمثیل اس میں مثالی حقیقت کی حکایت کرتی هے،جهاں پر اشیاء کی حقیقت ظاهر هوتی هے وهاں پر مثالی حقیقت بهی ظاهر هوتی هے اور اس لحاظ سے یه قیامت کے دن حیوانوں کی شکل میں محشور هو ں گے.[7]
مندرجه بالا مطالب کے بیان کے بعد اب مذکوره سوال دهرایا جاتا هے که:ابلیس کی داستان حقیقی هے یا صرف ایک تمثیل هے؟
اس کے جواب میں یوں کها گیا هے:سجده کا حکم ایک حقیقی حکم نهیں هو سکتا هے ،کیونکه اس صورت میں دو حالتوں سے خارج نهیں هے ،یاحکم مولوی اور تشریعی هے ،جیسے:"اقیموالصلوه وآتو الزکوه وارکعو مع الراکعین"[8] یا حکم تکوینی هے جیسے :"فقال لها والارض ائیتنا طوعا اوکر ها قالتا اتینا طائفین"[9] اور دونوں قسموں میں مشکل پائی جاتی هے .حکم تکوینی کی مشکل یه هے که،یه قابل عصیان وانکار نهیں هے ،کیونکه خدا وند متعال کا تکوینی مقصد حتمی طور پر پیدا هو تا هے.[10] حضرت علی علیه السلام کے قول کے مطابق ،خدا کا کلام وه آواز اور ندا نهیں هے جو کانوں سے سنی جائے ،بلکه فعل اور ایجاد هے .مولائی و تشریعی حکم کا مشکل یه هے که فرشتے اهل تکلیف نهیں هیں اور ان کے لئے وحی ،رسالت،امر ونهی مولائی،وعده وعید اور عصیان کے مقابله میں اطاعت قابل تصور نهیں هے،کیونکه اگر کوئی مخلوق بالکل معصوم هو اور اس میں گناه کے لئے کوئی گنجائیش نه هو،اطاعت ضروری هے اور اگر اطاعت ضروری هو،تو اس کے بارے میں کفر واستکبار اور معصیت ممنوع هے اور اس کے بارے میںتشریعی و اعتباری اوامر ونواهی اقتضا نهیں کرتے هیں.
ممکن هے که کها جائے که کوئی شک نهیں هے که :
اولا،اس قسم کے عناوین جنات کے بارے میں قابل تصور هیں،یعنی انسانوں کے مانند تشریعی اور اعتباری قوانین اور نزول کتب اور انبیاء کی بعثت ان سے بهی تعلق رکھتی هے.
ثانیا،ابلیس جنات میں سے هے.
ثالثا،ابلیس،تشریعی طور پر سجده کر نے پر مامور هوا،اس لحاظ سے اس کے بارے میں عصیان،نافر مانی اور استکبار کا اطلاق هوا هے.
رابعا،فرشتے اور ابلیس ایک خطاب کے مخاطب اور ایک امر کے مامور قرار پائے هیں .مذکوره چار مقد موں کے پیش نظر کس طرح ممکن هے که"اسجدوا"کا امر ابلیس کے بارے میں تشریعی هو لیکن فرشتوں کے بارے میں نه هو؟
جواب یه هے که:
پهلے،سجده کے حکم میں اصلی مخاطب فرشتے هیں اور ان کے ضمن میں ابلیس بھی درج تها اور چونکه اصلی اور اکثر واغلب مخاطبین حکم مولوی وتشریعی کے زمرے میں نهیں آتے هیں لهذا اصل حکم تشریعی نهیں تها.
دوسرے یه که،صرف ابلیس کے بارے میں تشریعی کا ممکن هو نا مذکوره حکم کے تشریعی هو نے کا سبب نهیں هے.
تیسرے یه که ،ابلیس کے واسطے الگ سے حکم کو ثابت کر نے کے لئے دلیل کی ضرورت هے جو ابهی تک پیدا نهیں هوئی هے ،اگر چه بعض لو گوں نے آیه "اذا امر تک "سے اس احتمال کو بعید نهیں جانا هے.
چوتھے یه که ،ایک حکم کو چھوڑنا اور اسے تشریعی وتمثیلی طور پر تحلیل کر نا خلاف ظاهر هے اور حکم کو منفک کرنے کے لئے برهان کی ضرورت هے که ابهی تک اس سلسله میں کوئی دلیل قائم نهیں هوئی هے.
مذکوره مطالب کے پیش نظرفرشتوںکو حکم هونا دونوں صورتوں میں مشکل هے اور چونکه یه مشکل دور ھونے کے قابل نھیں هے اور حقیقی حکم کے لئے کوئی تیسری صورت تصور نهیں کی جاسکتی هے،اس لئے سجده کے حکم کے حقیقی اور واقعی هو نے سے صرف نظر کر کے اسے تمثیل پر حمل کر نا چاهئے،کیو نکه اگر چه تشریع وتکوین آپس میں ناساز گار هیں ،لیکن ایک دوسرے کی نقیض نهیں هیں که ان کو رفع کر نا محال هو.
البته سجده کے حکم کا تمثیلی هو نا اس معنی میں نهیں هے که سجده کا اصلی حکم واقع نهیں هوا هے اور ایک افسانوی داستان کی صورت میں بیان هوا هے اور یه ذهن کی تخلیق هے اور خارج میں واقع نهیں هوا هے،بلکه اس معنی میں هے که ایک معقول حقیقت اور ایک عینی معرفت محسوس اور مشهود صورت میں بیان هوئی هے .یه اس کے مانند هے که سوره"حشر"میں قرآن مجید کے پهاڑ پر نازل هو نے اور پهاڑ کے ٹکڑےٹکڑےهونے کا ذکر هوا هے.[11] دوسرے الفاظ میں حکم واقعی تشریعی اور حکم حقیقی تکو ینی کی مشکل بیان کر نے کے بعد اب حکم کے واقعی هونے کو حفظ کر نے کے ساتھـ مذکوره مشکلات کو دور کر نا چاهئے ،یا کوئی تیسری راه طے کر نی چاهئے که اصل حکم اور اس کے محقق هونے کی بھی توجیه کی جائے اور ایک ایسی چیز کا تصور کر نا چاهئےجو تشریع وتکوین سے خارج هو اور حقیقت میں حکم الهی شمار هو جائے ،لیکن چونکه حکم ،تکوینی وتشریعی میں منحصر هے اور مشکلات میں سے کوئی مشکل دور ھونے کے قابل نھیں هے ،اس لئے هم تیسری راه کو طے کرتے هیں ،اس طرح که امر کے واقعی هونے سے صرف نظر کریں گے اور اسے تمثیل تکوینی مانیں کرین گے.[12]
آدم علیه السلام پر سجده کا حکم نه امر تکوینی هے اور نه تشریعی هے ،بلکه ایک حقیقت کی تمثیل هے اور وه حقیقت یه هے که عالم امکان میں بلند ترین مقام مقام انسانیت اور مقام خلیفه الله هے که فرشتے اس کے مقابل میں خضوع کرتے هیں ،لیکن شیطان اس مقام کا راهزن هے.[13]
قرآن مجید میں پچاس سے زیاده مثالیں پائی جاتی هیںاور صرف سوره بقره میں کم از کم دس مثالیں ذکر هوئی هیں .ان مثالوں میں کونسا فلسفه مخفی هے که خدا وند متعال نے اس قدر مثالیں پیش کی هیں؟
قرآن مجید کی بعض آیات میں قرآنی مثالوں کا مقصد بیان کیا گیا هے که هم ذیل میں ان کے تین نمونوں کی طرف اشاره کرتے هیں :
١.یه مثالیں تذکر اور یاد حقیقتوں کے لئے هیں اور ان کے ذریعه پیغام الهی کی حقیقت ذهن میں اجاگر هوتی هے.
٢.یه مثالیں هستی کی حقائق کے بارے میں غور و فکر کر نے کے لئے هیں ،کیونکه موضوع پر غور و فکر کر نے سے اس کا فلسفه معلوم هو تا هے .
٣.یه مثالیں ادراک کیلئے هیں اور غور وفکر سے حقائق کی پهچان هوتی هے .یه مقاصد انسان کے فهم وادراک کی تکمیل سفر کے تین مرحلے شمار هو سکتے هیں ،جو بالترتیب سوره ابراھیم ،آیت نمب ٢٥،سوره حشر ،آیت نمبر ٢١اور سوره عنکبوت آیت نمبر٤٣میں ذکر هوئے هیں.[14]
[1] قرشی،سید علی اکبر،قاموس قرآن،لفظ"ابلیس".
[2] ملاحظه هو:شیطان،فرشته یا جن،سوال ٨٥٧.
[3] آیت الله جوادی،عبدالله،تسنیم،ج٣،ص٣١٩.
[4] آیت الله جوادی،عبدالله،تسنیم،ج٢،ص٥٢٥.
[5] بحارالانوار،ج٧٥،ص٢٧٨.
[6] تسنیم ،ج٢،ص٥٠٩.
[7] تسنیم ،ج٢،ص٢٣١.
[8] بقره/٤٣.
[9] فصلت/ 11.
[10] یس/٨٢.
[11] حشر/٢١.
[12] آیت الله جوادی،عبدالله،تفسیر موضوعی،ج٦،ص١٨٣.
[13] تمثیل پر حمل صرف ان مواقع پر جائز هے جهاں پر عقلی یانقلی بر هان موجود هو.اس لئے اعتقا دی اصول اور قرآن مجید کے دوسرے مباحث میں سے کوئی ایک تمثیل پر حمل نهیں هوتے هیں.
[14] آیت الله مکارم شیرازی،ناصر مثال های زیبای قرآن،ص١٥.