اعلی درجے کی تلاش
کا
8681
ظاہر کرنے کی تاریخ: 2009/08/20
 
سائٹ کے کوڈ fa1426 کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ 5800
سوال کا خلاصہ
امام حسین علیه السلام اور آپ کے باوفا جانثاروں نے پانی کے قلّت کے باوجود کیسے عاشور کے دن غسل کیا ؟
سوال
عاشور کے دن وقوع پذیر هونے والے واقعات کے سلسله میں تاریخی منابع میں ملتا هے که امام حسین جب اپنے اصحاب کے ساتھ نماز کے قیام سے فارغ هو گئے تو آپ نے لشکر کی ترتیب و تنظیم فرمائی لشکر کو منظم کرنے کے بعد اس طرح ملتا هے که "أمر فضرب له فسطاط ، ثم أمر بمسک فمیث فی جفنة، ثم دخل الحسین فاستعمل النورة و"...اس سے پته چلتا هے که امام نے حکم دیا که خیام برپا کئے جائیں اور کچھ نظافت اور صفائی کے وسائل فراهم کئے جائیں اور انهیں ایک ظرف میں رکھ دیا جائے پھر آپ خیمه میں داخل هوئے اور اپنے بدن کے زائد بالوں کو زائل کرنے کے لئے نوره کا استعمال کیا اس تذکره کے ذیل میں یهاں تک ملتا هے که آپ کے دو صحابی امام علیه السلام کے بعد اس خیمه میں داخل هونے کے لئے ایک دوسرے سے رقابت کر رهے تھے که جلدی خیمه میں داخل هو جائیں ( ... وقف عبدالرحمن بن عبدربه و بریر بن حضیرالهمدانی علی باب الفسطاط و ازدحما أیهما یطلی بعده ...) چنانچه امامعلیه السلام کے خیمه سے نکلنے کے بعد یه لوگ اس صفائی ستھرائی کے خیمه میں داخل هوتے هیں (فلما فرغ الحسین دخلا (... کچھ لوگ سعه صدر کے ساتھ یه کهتے هیں که امام علیه السلام نے غسل شهادت کیا تھا ، البته واضح سی بات هے که غسل شهادت کا نوره کے استعمال سے کوئی تعلق نهیں هے ۔
اس صفائی اور تنظیف کی علت کو" عبد الرحمن بن عبد به " اور" بریر بن حضیر الھمدانی "کے درمیان هونے والی گفتگو سے سمجھا جا سکتا هے (بریر یهازل عبدالرحمن فقال له: و الله ما هذه بساعة باطل. فقال بریر: و الله إنّ قومی لقد علموا أنی ما احببت الباطل شابا و لا کهلا و لکنی مستبشر بما نحن لاقون، والله ما بیننا و بین الحورالعین إلا أن یمیل هؤلاء علینا بأسیافهم). بریر عبد الرحمن کے ساتھ مزاح کر ره تھے اور اشاروں کنایوں میں چھیڑ چھاڑکر رهے تھے عبد الرحمن نے کها یه چھیڑ چھاڑکا وقت نهیں هے بریر نے کها خدا کی قسم میرے قوم و قبیله والے یه بات اچھی طرح جانتے هیں که میں نے کبھی نه اپنی جوانی میں اور نه هی بڑھاپے میں فالتو بات کرنا پسند نهیں کی لیکن ابھی جو مجھے بشارت ملی هے اس پر خوش هوں خدا کی قسم همارا اور بڑی آنکھوں والی سفید پوست جنتی حوروں کا فاصله اتنا هی هے که یه لوگ ( عمر سعد کا لشکر ) اپنی شمشیروں سے همارے گلوں کو جدا کر دیں ۔
بهر کیف علت جو بھی هو وه خود امام علیه السلام اوران کے اصحاب سے متعلق هے ۔ لیکن وه چیز جهاں سوال اٹھ رها هے وه ان باتوں کے درمیان تناقض کا پایا جانا هے جو امام حسینعلیه السلام کی عزاداری کے مراسم میں خیام امام علیه السلام میں پانی کی قلت کے مسئله کو لیکر سنی جاتیں هیں اور اس کے مقابل میں وه باتیں جو تاریخ میں ذکر هوئی هیں
مذکوره عبارت کو هم نے( ابن الاثیر الجزری متوفی 630 ھ،ق) کی الکامل فی التاریخ کی تیسری جلد ص 418 سے نقل کیا هے ( چاپ ، بیروت، 1987دار الکتب العلمیه ) اس واقعه کو جن دوسرے جن منابع نے نقل کیا هے ان میں سے کچھ یه هیں :
مقتل الحسین اور طبقات ،آثار واقدی کی پانچویں جلد
تاریخ الطبری ، محمد بن جریر الطبری (310- 224 ھ۔ق) جلد 5 ص 422-423، چاپ دوم ، قاهره 1967۔ دارالمعارف ،
البدایة والنھایه ، ابن کثیر (774-701 ھ ،ق) جلد 11 ، ص 534 چاپ اوال ، دار ھجر ۔ 1998
سیره معصومان ، سید محسن امین جبل عاملی ، ترجمه ،علی حجتی کرمانی ، جلد چهارم ، ص 152، وغیره ۔
جو کچھ ابھی تک ذکر هوا اسکی روشنی میں یه پته چلتاهے که پانی کا بحران کم از کم صبح روز عاشور تک تو نهیں تھا اور امامعلیه السلام کے پاس کافی مقدار میں پانی کا ذخیره موجود تھا تبھی تو امامعلیه السلام نے کم از کم اپنے دو صحابیوں کے ساتھ نظافت و صفائی کے امور انجام دئے ۔ یقینا اگر کوئی ایسی صورت حال هوتی که امامکو اس بات کا احتمال هوتا که پانی کی قلت هو جائے گی جیسا که هم مجالس میں سنتے هیں تو امام علیه السلام پانی کی بچت کرتے تاکه آپ کے بچے تشنگی اور پیا س سے جاں بلب نه هوں ۔
مجالس میں ذکرهو نے والی روایات اور تاریخ میں نقل هوئے مطالب کے درمیان جو تناقض پایا جاتا هے اسے کیسے حل کیا جائے؟
ایک مختصر

امام حسین علیه السلام  ، ان کے اهل بیت علیهم السلام اور ا اصحاب کرام کی پیاس سے متعلقه تاریخی روایات کے سلسله میں تحقیق ور جستجو اوران روایات کے جائزه سے جو امام اور ان کے اصحاب کے صبح عاشور غسل کو بیان کرتی هیں یه بات سامنے آتی هے که اس سلسله میں جو چیز تاریخی مسلمات میں سے هے وه ایک تو امام حسین علیه السلام  کے کاروان کا محاصره اور پانی سے ممانعت هے اور دوسری امام حسین علیه السلام کی شهادت کے لمحات تک آپ کی پیاس هے ۔

اس کے علاوه جو کچھ اور تاریخی کتابوں میں نقل هوا هے ان تمام نقل هونے والی باتوں میں کوئی ایک بھی مسلم اور قطعی نهیں هے اوریه نقل هونے والی چیزیں قابل اعتماد اسناد کی حامل بھی نهیں هیں

اگر هم ان روایات کی اسناد میں پائے جانے والی مشکل کو خاطر میں نه لاتے هوئے تمام تاریخی منقولات کے ایک ساتھ معنی کرنا چاهیں اور انهیں یکجا جمع کریں تو همیں چند نکات کو مد نظر رکھنا هوگا ۔

1۔ امام علیه السلام  اور آپ کے با وفا ساتھیوں کو اپنی شهادت پر یقین تھا اور سب نے خود کو شهادت کے لئے تیار کر رکھا تھا اس امر کو دیکھتے هوے امام علیه السلام  نے چاها که یه شهادت ظاهری اور باطنی دونوں صورتوں میں نهایت خوبصورتی کے ساتھ محقق هو اور اس کے جزئی سے جزئی پهلو میں بھی پاکیزگی اور تقدس کا عنصر شامل رهے ۔ جیسا که هم جانتے هیں غسل نه صرف ظاهری طور پر طهارت اور پاکیزگی کا باعث هے بلکه باطنی اور معنوی طهارت کی فضا کو بھی فراهم کرتا هے اور یه بات بھی توجه کے لائق هے که ( هماری عادت کے برخلاف ) غسل کی انجام دهی میں بهت زیاده پانی صرف نهیں هوتا هے بلکه بهت مختصر سے پانی میں بھی غسل کیا جا سکتا هے ۔

2۔ پانی کو لیکر دشمن کا محاصره اور اسکی جانب سے برتی جانے والی سختی ، گرم هوا ، ان سب میں وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ شدت بڑھتی جا رهی تھی ۔ پس یه کها جا سکتا هے که امامعلیه السلام  نے جب غسل کیا هے اور آپ صفائی ستھرائی سے فارغ هوئے هیں تو اس وقت مشقتوں کے باوجود پانی کی فراهمی کا امکان تھا لیکن جب دشمن کی طرف سے سختی اور تنگی بڑھتی گئی اور گرمی کی شدت میں بھی اضافه هوا هوگاتو ظهر کے بعد امام علیه السلام  کے قافله کو شدید پیاس کا سامنا کرنا پڑا هوگا ۔

3۔ یه احتمال بھی دیا جا سکتا هے که وه پانی جس سے امامعلیه السلام نے غسل کیا وه پانی پینے کے قابل نه هوگا ۔

ان تمام باتوں کو دیکھتے هوئے دونوں قسم کی روایتوں کو مانا جا سکتا هے ۔

تفصیلی جوابات

امام حسین علیه السلام  اور آپ کے جانثار ساتھیوں کی پیاس اور ان پر پانی بند کئے جانے کے سلسله میں جو دلائل اور شواهد هم تک پهونچے هیں وه کچھ اسطرح هیں :

1۔ تقریبا تمام تاریخی منقولات اس بات پر متفق نظر آتے هیں که امام علیه السلام  اور آپ کے اصحاب کی شهادت سے تین دن قبل آپ پر پانی بند کر دیا گیا ابن زیاد نے عمر سعد کو حکم دیا که حسین بن علی علیه السلام  اور پانی کے درمیان حائل هو جائے اور انهیں پانی لینے کی اجازت نه دے ، اور عمر سعد نے عمرو بن حجاج کو 500 لوگوں کی همراهی میں بندش آب کے ذمه دار کے طور پر مامور کیا اور یه بیان هو اهے که یه بندش آب امام علیه السلام  اور ان کے باوفا ساتھیوں کی شهادت سے تین دن قبل سے تھی ۔ [1]

2۔شیعه[2] اور اهل سنت [3] دونوں کی تاریخ میں نقل هونے والے مطالب نیز پیغمبر [4] اور ائمه معصومین علیھم السلام [5]سے نقل هونے والی روایتوں اور زیارت ناموں[6] میں بیان شده مطالب کی روشنی میں یه کها جا سکتا هے که امام حسین علیه السلام  کی تشنه لبی کے ساتھ شهادت ایک یقینی اور مسلم امر هے اور تواتر کے ساتھ نقل هونے والی خبریں اس پر دلالت کر رهی هیں ۔

3۔ بهت سی روایتوں میں واضح طور پر عاشور کے دن امام علیه السلام  اور ان کے اصحاب کی پیاس کوبیان کیا گیا هے ان میں من جمله روایتیں کچھ یوں هیں :

الف: وه روایت جو حضرت علی اکبرعلیه السلام  کی پیاس کو جنگ کے دوران بیان کر رهی هے جس میں آپ نے اپنے بابا سے کها : العطش قد قتلنی ”بابا پیاس مجھے مارے ڈالتی هے “ [7]

ب: وه روایت جو شهادت حضرت عباسعلیه السلام  سے قبل آپ کے پانی لانے کے لئے میدان جهاد کی طرف جانے کو بیان کرتی هے ۔ [8]

ج: جناب حر علیه السلام  کا کوفیوں سے یه خطاب کرنا که حسینعلیه السلام  اور ان کی عورتوں اور بچوں کو تو تم نے فرات کے پانی سے روک دیا هے جبکه یهود و نصاری اور مجوس اس پانی کو پی رهے هیں اور جانور بھی اس سے سیراب هو رهے هیں لیکن یه اصحاب حسین علیه السلام  هیں جو پیاس کی شدت سے بیهوش هوجاتے هیں [9]

لیکن ان ذکر شده شواهد کے باوجود بعض تاریخی کتب میں ذکر هونے والے مختلف بیانوں سے معلوم هوتا هے که محاصره کے دوران هی امام علیه السلام  کے ساتھی پانی حاصل کرنے میں کامیاب هو گئے جن میں بعض شواهد یه هیں :

الف: پانی کے محاصره کا جناب عباس علیه السلام  کے ذریعه توڑا جانا ۔ بهت سے لوگوں نے روایت کی هے که امام اور ان کے اصحاب پر پانی بند کئے جانے کے بعد جب شدت پیاس کا غلبه هوا تو امام علیه السلام نے حضرت عباس علیه السلام  کو کچھ لوگوں کے ساتھ پانی لینے کے لئے بھیجا ، آپ کچھ لوگوں کو لیکر گھاٹ پر پهونچے اور وهاں عمرو بن حجاج کے لشکر سے لڑائی هوئی اس حمله کے نتیجه میں اکثر منابع ( عموماً اهل سنت ) یه کهتے هیں که آپ کامیابی کے ساتھ بھری هوئی مشکوں کے همراه خیمه میں واپس پلٹے [10] لیکن انساب الاشراف میں اس تذکره کے بعد یوں بیان هوا هے : یه کها جاتا هے که عمر سعد کے لشکر کی جانب سے پانی پهونچنے کو روکنے کی جو کوشش هوئی اس کشمکش کے نتیجه میں امام علیه السلام کی قیام گاه تک زیاده پانی نه پهونچ سکا[11]

مثیر الاحزان“ میں بھی امام علیه السلام  کی جانب سے پانی لانے کے لئے کچھ لوگوں کو بھیجنے کی خبر کے تذکره کے بعد صرف عمرو بن حجاج کی مزاحمت کا ذکر ملتا هے اور امام تک پانی پهونچنے کی خبر نهیں ملتی [12]

ب : بعض لوگوں نے نقل کیا هے که بندش آب کے بعد امام علیه السلام  پشت خیمه کی طرف گئے اور اور چند جگهوں پر امام نے کھدائی کی اور وهاں چشمے جاری هوئے جس سے تمام اصحاب سیراب هوئے اور انهوں نے اپنی مشکوں کو پانی سے بھرا لیکن جب عمر سعد کو اس بات کی اطلاع ملی تو اس نے حکم دیا که پانی حاصل کرنے سے انهیں روکا جائے [13]

ج: وه روایات جو جنگ سے پهلے امام علیه السلام کے غسل اور آپکی نظافت کو بیان کرتی هیں ، شیخ صدوق نے امام صادق علیه السلام  سے نقل کیا هے که : ”امام حسین علیه السلام  نے ( ظاهر عاشور کے دن صبح میں ) اپنے اصحاب سے فرمایا : ”پانی پی لو یه تمهارے لئے پانی کا آخری ذخیره هے ، وضواور غسل کر لو اپنے لباس دھو لو که یهی لباس تمهارے کفن هوں گے اس کے بعد نماز صبح ادا کی “ [14]

تاریخ میں موجود ان دلائل کی روشنی میں جن کا خلاصه هم نے بیان کیا حسب ذیل چند نتائج حاصل هوتے هیں :

1۔ یه بات مسلم هے که عمر سعد کا لشکر امام علیه السلام  کی شهادت سے تین دن قبل سے هی اس کوشش میں تھا که امام علیه السلام  اور آپ کے ساتھیوں تک پانی نه پهونچ پائے اور یه امر اس بات کا بیان گر هے که امام کے اصحاب علیه السلام  کو پانی کی شدید قلّت تھی اسی لئے آپ پهرے اور محاصره کے ایام میں بھی پانی کی ضرورت کے تحت لڑنے پر مجبور تھے ۔

2۔ هر مسلمان اور مورخ اس بات پر یقین رکھتاهے که نواسه رسول جنت کے جوانوں کے سردار امام حسین علیه السلام پیاسے شهید هوئے اور آپکے سنگ دل دشمنوں نے آخر وقت تک امام کو پانی نصیب نه هونے دیا ،

3۔ کتب تاریخ میں ذکرهونے والے دوسرے اقوال کے سلسله میں قطعی طور پر کوئی نظر نهیں دی جا سکتی ، اس لئے که نه ان کی شهرت اور کثرت تواتر کی حد تک هے ، نه هی سند که اعتبار سے یه نقل هونے والے مطالب قابل اعتماد هیں پس ان سب کو گمان اور احتمال کی نظر سے دیکھنا هوگا لهذا نه تو امام علیه السلام اور آپ کے اصحاب کی دو یاتین دن کی پیاس کے سلسله میں یقین سے کها جا سکتا هے اور نه پانی کی کثرت کو مانا جا سکتا هے ۔

4۔ اگر رویات کی سند میں پائی جانے والی مشکل کو نظر انداز کر دیں اور تمام تاریخ میں نقل هونے والے اقوال کو ایک ساتھ جمع کر کے انکا ایک مفهوم اخذ کر نا چاهیں تو چند نکتوں کی طرف توجه ضروری هے :

الف: 1- امام علیه السلام اورآپ کے با وفا ساتھیوں کو اپنی شهادت کا یقین تھا اور سب نے خود کو شهادت کے لئے تیار کر رکھا تھا ، ظاهری قرائن اور شواهد بھی کچھ اس طرح تھے که جنکی روشنی میں اول تو جنگ کا نتیجه صر ف یهی تھا که امام اور آپ کے با وفا ساتھی جام شهادت نوش کریں ۔ 2- ظاهری طور پر جنگ کو بهت طولانی نهیں هونا چاهیے تھا اس لئے که امام علیه السلام  کے ساتھیوں کی تعداد دشمن کے مقابله میں بهت کم تھی اور هزاروں کے لشکر کااتنی مختصر تعداد کو شهید کرنا بهت زیاده وقت کاطالب نهیں تھا۔ جیسا که تاریخ بھی یه بتاتی هے که تقریبا 50 لوگ یعنی امام علیه السلام  کے ساتھیوں میں آدھے سے زیاده صبح عاشور حمله اولٰی میں هی شهادت کے درجه پر فائز هو گئے [15] لهذا ان تمام باتوں کو ذهن میں رکھتے هوئے یه کها جا سکتا هے که امام علیه السلام  نے یه چاها که یه شهادت ظاهریاور باطنی دونوں صورتوں میں اپنے حسین انداز میں محقق هو اس کے جزئی سے جزئی حصه میں بھی تقدس اور پاکیزگی کی رنگ آمیزی هو ۔ جیسا که هم جانتے هیں غسل نه صرف ظاهری طور پر طهارت اور پاکیزگی کا باعث هے بلکه باطنی اور معنوی طهارت کی فضا کو بھی فراهم کرتا هے اور یه بات بھی توجه کے لائق هے که ( هماری عادت کے برخلاف ) غسل کی انجام دهی میں بهت زیاده پانی صرف نهیں هوتا هے بلکه بهت مختصر سے پانی میں بھی غسل کیا جا سکتا هے

ب : توجه رهے که بندش آب کو لیکر ایک طرف تو دشمن کی سختی اور اسکا محاصره کی تنگی[16]، دوسری طرف گرمی کی شدت وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رهی تھی جس کا نتیجه یه تھا که جتنا جتنا وقت گزر رها تھا امام علیه السلام  اور ان کے اصحاب کے لئے پانی کا حصول اتنا هی مشکل هوتا جا رها تھا اور جو لوگ دیر میں شهید هوئے وه زیاده پیاسے تھے پس یه کها جا سکتا هے امام علیه السلام  نے جب غسل کیا هے اور آپ صفائی ستھرائی سے فارغ هوئے هیں تو اس وقت مشقتوں کے باوجود پانی کی فراهمی کا امکان تھا لیکن جب دشمن کی طرف سے سختی اور تنگی بڑھتی گئی اور گرمی کی شدت میں بھی اضافه هوا هوگاتو ظهر کے بعد امام علیه السلام  کے قافله کو شدید پیاس کا سامنا کرنا پڑا هوگا ۔

ج۔ یه احتمال بھی دیا جا سکتا هے که وه پانی جس سے امام علیه السلام  نے غسل کیا وه پانی پینے کے قابل نه هوگا ۔

بهر صور ت بیان شده نکات کو مد نظر رکھتے هوئے کها جا سکتا هے که کسی حد تک روایات کے درمیان موجود تضاد بر طرف هو گیا هے ۔

 



[1]  ر.ک: تاریخ الطبری، ج 5، ص 409؛‌ البدایة و النهایة، ج 8، ص 175؛ الاخبار الطوال، ص 255؛ انساب الاشراف، ج 3، ص 181؛ روضة الواعظین، ج 1، ص ‌182؛ الارشاد، ج 2، ص 86 ؛ و با همین مضمون: کشف الغمة، ج 2، ص 47؛ اعلام الوری، ص 235؛ الامامة و السیاسة، ج 2، ص 11.

[2]  اللهوف، ص 117؛ بحار الانوار، ج 45، ص 56.

[3]  البدء و التاریخ، ج 6، ص 11؛ الاخبار الطوال، ص 258.

[4]  بحار الانوار، ج 44، ص 245.

[5]  کامل الزیارات، ص 131؛ وسائل الشیعة، ج 3، ص 282 و ج 25، ص 278؛ مستدرک الوسائل، ج 10، ص 237 و 239.

[6]  کامل الزیارات،صص 151 و 168 و 131.

[7]  بحار الانوار، ج 45، ص 43؛ الفتوح، ج 5، ص 115.

[8]  بحارالانوار، ج 45، ص41.

[9]  بحار الانوار، ج 45، ص 10، الارشاد، ج 2، ص 100؛ اعلام الوری، ص 242؛ تاریخ الطبری، ج 5، ص 428؛ الکامل، ج 4، ص 65

[10]  تاریخ الطبری، ج 5، ص 412؛ الاخبار الطوال، ص 255؛ الفتوح، ج 5، ص 6؛ انساب الاشراف، ج 3، ص 181؛ بحار، ج 44، ص 387، و با این مضمون الامامة و السیاسة، ج 2، ص 11.

[11]  انساب الاشراف، ج 3، ص 181

[12]  مثیر الاحزان، ص 71.

[13]  بحار الانوار، ج 44، ص 387؛ الفتوح، ج 5، ص 91.

[14]  الامالی، الصدوق، ص 150.

[15]  بحار الانوار، ج45، ص12.

[16]  بحارالانوار،ج 44، ص388 ۔

دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے
تبصرے کی تعداد 0
براہ مہربانی قیمت درج کریں
مثال کے طور پر : Yourname@YourDomane.ext
براہ مہربانی قیمت درج کریں
براہ مہربانی قیمت درج کریں

بے ترتیب سوالات

ڈاؤن لوڈ، اتارنا