Please Wait
کا
7455
7455
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2011/03/10
سائٹ کے کوڈ
fa12671
کوڈ پرائیویسی سٹیٹمنٹ
47263
- سیکنڈ اور
سوال کا خلاصہ
کیا ائمہ اطہار ﴿ع﴾ ہمارے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں؟
سوال
سورہ یس کی آیت نمبر ١۲ میں خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے: “ ۔ ۔ ۔ اور ہم نے ہر شے کوایک روشن امام میں جمع کردیا ہے ۔” اس کے علاوہ اہل بیت ﴿ع﴾ سے نقل کی گئ ایسی احادیث اور روایتیں بھی ہیں ، جن میں بیان کیا گیا ہے کہ:“ ہر جمعرات کی شب کو ہمارے اعمال و کردار پیغمبراکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ یہ اعمال سوموار اور جمعرات کی شب کو امام زمانہ ﴿عج﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ میں نے امام رضا﴿ع﴾ سے نقل کی گئی ایک حدیث دیکھی ہےکہ آپ﴿ع﴾ اپنے اصحاب سے فرماتے تھے: آپ کے تمام اعمال ہر روز صبح اور غروب کے وقت مجھے پیش کئے جاتے ہیں۔
آپ کی نظر میں مذکورہ یہ روایتیں اور آیات، جو آپس میں اختلافات رکھتی ہیں، کیسے مطابقت رکھ سکتی ہیں؟ کیا ائمہ اطہار﴿ع﴾ ہمارے اعمال کا مشاہدہ کرتے ہیں یا یہ کہ خاص شبوں کے دوران ہمارے اعمال کے بارے میں آگاہ ھوتے ہیں؟
اگر ائمہ اطہار ﴿ع﴾ سب کچھ جانتے ہیں، تو ایسی روایتوں کے کیا معنی ہیں، جن میں بیان کیا گیا ہے کہ ایک امام نے دوسرے امام کو سفارش اور تجاویز پیش کی ہیں؟ مثال کے طور پر امام رضا ﴿ع﴾ نے امام محمد تقی﴿ع﴾ کو ایک خط لکھا اور اس میں سفارش کی ہے کہ: گھر کو آگے سے خالی کرنا تاکہ محتاجوں اور بے سہاروں کے لئے فائدہ بخش ھو۔ آپ کی نظر میں، کیا امام محمد تقی ﴿ع﴾ اس مطلب کو پہلے سے جانتے تھے، جبکہ انھوں نے اس صورت میں ﴿ درخواست کے مطابق﴾ عمل کیا ہے؟ جزاک اللہ۔
ایک مختصر
آیات و روایات اس مسئلہ پر تاکید کرتی ہیں کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ شب و روز بھی ہمارے اعمال سے آگاہ ہیں اور بعض اوقات ہمارے اعمال کو ان کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے۔
لیکن یہ کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کیوں ایک دوسرے کو سفارش کرتے ہیں، اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ:“ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کے علوم، ایسے علوم ہیں جو خداوند متعال کی طرف سے انھیں عطا کئے گئے ہیں ، لیکن یہ اس امر کے منافی نہیں ہے کہ ائمہ اطہار﴿ع﴾ بعض علوم کو سابقہ امام ﴿ع﴾ سے حاصل کریں۔
مزید آگاہی کے سلسلہ میں تفصیلی جواب ملاحظہ ھو:
لیکن یہ کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کیوں ایک دوسرے کو سفارش کرتے ہیں، اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ:“ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کے علوم، ایسے علوم ہیں جو خداوند متعال کی طرف سے انھیں عطا کئے گئے ہیں ، لیکن یہ اس امر کے منافی نہیں ہے کہ ائمہ اطہار﴿ع﴾ بعض علوم کو سابقہ امام ﴿ع﴾ سے حاصل کریں۔
مزید آگاہی کے سلسلہ میں تفصیلی جواب ملاحظہ ھو:
تفصیلی جوابات
اس بحث کو شروع کرنے سے پہلے ایک مقدمہ کی ضرورت ہے:
علم امام:
اہل بیت عصمت ﴿ع﴾ سے متعلق معارف اور خصوصیات کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ لوگوں کے اعمال کی کیفیت اور معیار کے بارے میں آگاہ ھوتے ہیں اور خاص مواقع پر لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کرنے کے سلسلہ میں خاص اقدامات بھی انجام دیتے ہیں۔
اسلام کے نظریہ کے مطابق، نظام ھستی اور اسلامی معاشرہ میں امام کی اہم ذمہ داریوں کے پیش نظر، لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی چون و چرا کے بغیر امام کی پیروی کرں، اس حقیقت کا تقاضا ہے کہ امام کو تمام امور میں من جملہ دینی و دنیوی، کلی و جزئی اور لوگوں کی ہدایت سے متعلق امور میں علم اور مکمل آگاہی ھونی چاہئے۔ ثانیا: اس کا علم انبیاء ﴿ع﴾ کے علم کے مانند حضوری، عطا شدہ، عام اور وسیع ھونا چاہئے، لہذا جب بعض روایات میں علم امام کی تعریف کی جاتی ہے، تو مقدار و معیار کے لحاظ سے اس علم کو، “ ما کان وما یکون وما ھو کائن” کی اصطلاح میں یاد کیا جاتا ہے۔[1] مثال کے طور پر اصول کافی میں مرحوم کلینی نے“ ان الائمہ یعلمون علم ما کان وما یکون و انہ لا یخفی علیھم شیء” کے عنوان سے ایک باب بیان کیا ہے، یا مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی ۲٦ ویں جلد میں تقریبا ۲۲ ایسی روایتیں نقل کی ہیں کہ ان کے مطابق جو کچھ زمین و آسمانوں، بہشت و جہنم میں قیامت تک واقع ھوگا، امام اس سے آگاہ ھوتا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے ، جس کے بارے میں امام علم نہ رکھتا ھو۔
اس قسم کی روایتوں کے مضامین پر دقت اور غور کرنے سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ اپنے شیعوں کی کار کردگی، رفتار و کردار حتی کہ ان کی نیت کے بارے میں بھی باخبر ھوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سلسلہ میں امام زمانہ ﴿عج﴾ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں آپ ﴿عج﴾ فرماتے ہیں:“ لا یعزب عنا شیء من اخبارکم”۔[2] “ آپ کے بارے میں کوئی ایسی خبر نہیں ہے، جو ہم سے مخفی ھو۔ ہم آپ لوگوں کے تمام امور کے بارے میں اطلاع حاصل کرتے ہیں۔ اس بنا پر اس روایت کے مطابق امام کے علم کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔[3]
اعمال کا پیش کیا جانا:
قرآن مجید کی آیات اور معصومین ﴿ع﴾ کی روایتوں سے یہ نکتہ بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور ائمہ اطہار ﴿ع ، امت کے اعمال کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے:“ قل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون”[4]“ اور پیغمبر! کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمھارے عمل کو اللہ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں ۔”
اس سلسلہ میں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں، ان کی تعداد زیادہ ہے، من جملہ اسی آیہ شریفہ کی تفسیر میں امام صادق ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ لوگوں کے تمام نیک و بد اعمال ہر روز صبح سویرے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ھوشیار رہئے”۔[5]
یا عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابیطالب ﴿ع﴾ ہیں”۔[6] چونکہ تمام ائمہ اطہار ﴿ع﴾ نفس واحد کے مانند ہیں اور وہ سب ایک ہی نور ہیں، اس لئے جوبھی حکم ان میں سے ایک کے لئے ثابت ھو، باقی ائمہ﴿ع﴾ کے بارے میں بھی وہی حکم ثابت ہے۔
یہ آیہ شریفہ جو بیان کرتی ہے کہ خدا، اس کے پیغمبر ﴿ص﴾ اور مومنین ہماری کارکردگی کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں، یہ شیعوں کا وہی عقیدہ ہے جس کے مطابق وہ اعتقاد رکھتے ہیں، کہ اولیائے خدا کے پاس ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ اعمال کا امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کیا جانا ہر روز، ہر ہفتہ اور ہر مہینے میں انجام پاتا ہے۔ اگر ہمارے اعمال اچھے ھوں، تو اولیائے الہی ہم سے خوش اور راضی ھوتے ہیں۔ اور اگر ہمارے اعمال برے ھوں تو وہ غمگین اور نا راحت ھوتے ہیں۔۔ اور اس مسئلہ پر ایمان اور یقین رکھنا، افراد کے تقوی پر کافی اثر رکھ سکتا ہے۔
اس حقیقت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے بعد،ہم میں سے ہر ایک کو ایسے اعمال انجام دینے چاہئیے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور ائمہ اطہار﴿ع﴾ کی شادمانی کا سبب بنیں اور اس سلسلہ میں بھی روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک دن امام جعفر صادق ﴿ع﴾ نے آپ ﴿ع﴾ کی مجلس میں حاضر اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا:“ آپ کیوں رسول خدا﴿ص﴾ کو اپنے بارے میں رنجیدہ کرتے ہیں؟ ایک شخص نے حضرت ﴿ع﴾ سے سوال کیا: ہم کیسے رسول خدا﴿ص﴾ کو رنجیدہ اور ناراض کرتے ہیں؟” حضرت صادق ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا: کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ آپ کے تمام اعمال رسول خدا﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں؟ پس اگر آنحضرت ﴿ص﴾ آپ کے اعمال میں کسی معصیت کا مشاہدہ کریں تو وہ آپ ﴿ص﴾ کے لئے رنجیدگی و غمگین ھونے کا سبب بن جاتی ہے۔ پس آپ اپنے برے اعمال سے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو غمگین نہ کرنا، بلکہ اپنے نیک اعمال سے آنحضرت ﴿ص﴾ کو خوشحال و مسرور [7]کرنے کی کوشش کرنا۔”
اس بنا پر اس قسم کی آیات اور روایات سے یہ مفہوم حاصل ھوتا ہے، کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ شیعوں کے اعمال سے آگاہی رکھتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد معلوم ھوا کہ اس قسم کی آیات اور روایات میں کسی قسم کا تضاد اور ٹکراؤ موجود نہیں ہے۔
آپ کے دوسرے سوال کے بارے میں بھی کچھ روایتیں موجود ہیں کہ بعض خاص اوقات، جیسے شب قدر وغیرہ میں بھی ہمارے اعمال ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، یہ بھی ہمارے تمام اعمال کے ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کی خدمت میں ہر وقت پیش کئے جانے کے منافی نہیں ہے۔ اس کی ایک سادہ اور واضح مثال یہ ہے کہ ایک ادارے کا ڈائریکٹر اپنے دفتر میں کام کرنے والوں کی کارکردگی کے بارے میں روزانہ آگاہی رکھتا ہے اور ان کا مشاہدہ کرتا ہے، لیکن ہفتہ یا مہینے کے آخر پر یا کسی اور وقت پر اس کے پاس اس کے کارکنوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور وہ اس پر دستخط کرتا ہے۔
اور آپ کے آخری سوال کے بارے میں کہ ائمہ ﴿ع﴾ کیوں ایک دوسرے کو سفارش کرتے ہیں؟ قابل بیان ہے کہ: اولا: جو علم امام ﴿ع﴾ کے پاس ھوتا ہے، وہ ایک ایسا علم ھوتا ہے جو خداوند متعال کی طرف سے انھیں عطا ھوتا ہے لیکن یہ اس امر کے منافی نہیں ہے امام بعض علوم کو اپنے سے پہلے معصوم سے حاصل کرے، جیسے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی زندگی کے آخری لمحات میں حضرت علی ﴿ع﴾ آنحضرت ﴿ص﴾ کے پاس تھے اور علی ﴿ع﴾ نے فرمایا: رسول خدا ﴿ص﴾ نے میرے کان میں کچھ فرمایا اور اس کی وجہ سے میرے لئے علم کے ہزار باب کھل گئے کہ ہر باب کے بھی ہزار باب کھل گئے۔[8]
ثانیا: جب امام رضا ﴿ع﴾ نے اپنے فرزند ارجمند امام جواد ﴿ع﴾ کو وصیت فرمائی، اس وقت امام جواد ﴿ع﴾ ابھی امامت کے عہدہ پر فائز نہیں ھوئے تھے، تاکہ علم امامت رکھتے۔
علم امام:
اہل بیت عصمت ﴿ع﴾ سے متعلق معارف اور خصوصیات کی تحقیق کے بعد معلوم ھوتا ہے کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ لوگوں کے اعمال کی کیفیت اور معیار کے بارے میں آگاہ ھوتے ہیں اور خاص مواقع پر لوگوں کی ہدایت اور اصلاح کرنے کے سلسلہ میں خاص اقدامات بھی انجام دیتے ہیں۔
اسلام کے نظریہ کے مطابق، نظام ھستی اور اسلامی معاشرہ میں امام کی اہم ذمہ داریوں کے پیش نظر، لوگوں کے لئے بھی ضروری ہے کہ کسی چون و چرا کے بغیر امام کی پیروی کرں، اس حقیقت کا تقاضا ہے کہ امام کو تمام امور میں من جملہ دینی و دنیوی، کلی و جزئی اور لوگوں کی ہدایت سے متعلق امور میں علم اور مکمل آگاہی ھونی چاہئے۔ ثانیا: اس کا علم انبیاء ﴿ع﴾ کے علم کے مانند حضوری، عطا شدہ، عام اور وسیع ھونا چاہئے، لہذا جب بعض روایات میں علم امام کی تعریف کی جاتی ہے، تو مقدار و معیار کے لحاظ سے اس علم کو، “ ما کان وما یکون وما ھو کائن” کی اصطلاح میں یاد کیا جاتا ہے۔[1] مثال کے طور پر اصول کافی میں مرحوم کلینی نے“ ان الائمہ یعلمون علم ما کان وما یکون و انہ لا یخفی علیھم شیء” کے عنوان سے ایک باب بیان کیا ہے، یا مرحوم علامہ مجلسی نے بحارالانوار کی ۲٦ ویں جلد میں تقریبا ۲۲ ایسی روایتیں نقل کی ہیں کہ ان کے مطابق جو کچھ زمین و آسمانوں، بہشت و جہنم میں قیامت تک واقع ھوگا، امام اس سے آگاہ ھوتا ہے اور کوئی ایسی چیز نہیں ہے ، جس کے بارے میں امام علم نہ رکھتا ھو۔
اس قسم کی روایتوں کے مضامین پر دقت اور غور کرنے سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ اپنے شیعوں کی کار کردگی، رفتار و کردار حتی کہ ان کی نیت کے بارے میں بھی باخبر ھوتے ہیں۔ اس کے علاوہ اس سلسلہ میں امام زمانہ ﴿عج﴾ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں آپ ﴿عج﴾ فرماتے ہیں:“ لا یعزب عنا شیء من اخبارکم”۔[2] “ آپ کے بارے میں کوئی ایسی خبر نہیں ہے، جو ہم سے مخفی ھو۔ ہم آپ لوگوں کے تمام امور کے بارے میں اطلاع حاصل کرتے ہیں۔ اس بنا پر اس روایت کے مطابق امام کے علم کے بارے میں کسی قسم کا شک و شبہہ باقی نہیں رہتا ہے۔[3]
اعمال کا پیش کیا جانا:
قرآن مجید کی آیات اور معصومین ﴿ع﴾ کی روایتوں سے یہ نکتہ بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور ائمہ اطہار ﴿ع ، امت کے اعمال کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں۔ قرآن مجید میں آیا ہے:“ قل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون”[4]“ اور پیغمبر! کہہ دیجئے کہ تم لوگ عمل کرتے رہو کہ تمھارے عمل کو اللہ،رسول اور صاحبان ایمان سب دیکھ رہے ہیں ۔”
اس سلسلہ میں جو روایتیں نقل کی گئی ہیں، ان کی تعداد زیادہ ہے، من جملہ اسی آیہ شریفہ کی تفسیر میں امام صادق ﴿ع﴾ سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ لوگوں کے تمام نیک و بد اعمال ہر روز صبح سویرے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، اس لئے ھوشیار رہئے”۔[5]
یا عبداللہ بن ابان ایک روایت میں کہتے ہیں:“ میں نے حضرت امام رضا ﴿ع﴾ کی خدمت میں عرض کی کہ: میرے اور میرے خاندان کے لئے ایک دعا فرمائیے۔ حضرت ﴿ع﴾ نے فرمایا:“ کیا میں دعا نہیں کرتا ھوں؟ خدا کی قسم آپ کے اعمال ہر روز وشب میرے سامنے پیش کئے جاتے ہیں، لہذا ہر ناسب امر کے بارے میں دعا کرتا ہوں”۔ عبداللہ کہتے ہیں کہ امام ﴿ع﴾ کا یہ کلام میرے لئے عجیب تھا کہ ہمارے اعمال ہر روز و شب امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں۔ جب امام ﴿ع﴾ میرے تعجب کے بارے میں آگاہ ھوئے تو مجھ سے مخاطب ھوکر فر مایا:“ کیا آپ خداوند متعال کی کتاب نہیں پڑھتے ہیں، جہاں پر خداوند متعال ارشاد فرماتا ہے:“ وقل اعملوا فسیراللہ عملکم و رسولہ والمؤمنون” اور اس کے بعد فرمایا:“ خدا کی قسم اس آیت میں مومنون سے مراد علی بن ابیطالب ﴿ع﴾ ہیں”۔[6] چونکہ تمام ائمہ اطہار ﴿ع﴾ نفس واحد کے مانند ہیں اور وہ سب ایک ہی نور ہیں، اس لئے جوبھی حکم ان میں سے ایک کے لئے ثابت ھو، باقی ائمہ﴿ع﴾ کے بارے میں بھی وہی حکم ثابت ہے۔
یہ آیہ شریفہ جو بیان کرتی ہے کہ خدا، اس کے پیغمبر ﴿ص﴾ اور مومنین ہماری کارکردگی کے بارے میں آگاہی رکھتے ہیں، یہ شیعوں کا وہی عقیدہ ہے جس کے مطابق وہ اعتقاد رکھتے ہیں، کہ اولیائے خدا کے پاس ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ اعمال کا امام ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کیا جانا ہر روز، ہر ہفتہ اور ہر مہینے میں انجام پاتا ہے۔ اگر ہمارے اعمال اچھے ھوں، تو اولیائے الہی ہم سے خوش اور راضی ھوتے ہیں۔ اور اگر ہمارے اعمال برے ھوں تو وہ غمگین اور نا راحت ھوتے ہیں۔۔ اور اس مسئلہ پر ایمان اور یقین رکھنا، افراد کے تقوی پر کافی اثر رکھ سکتا ہے۔
اس حقیقت کے بارے میں آگاہی حاصل کرنے کے بعد،ہم میں سے ہر ایک کو ایسے اعمال انجام دینے چاہئیے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ اور ائمہ اطہار﴿ع﴾ کی شادمانی کا سبب بنیں اور اس سلسلہ میں بھی روایت نقل کی گئی ہے کہ ایک دن امام جعفر صادق ﴿ع﴾ نے آپ ﴿ع﴾ کی مجلس میں حاضر اصحاب سے مخاطب ھوکر فرمایا:“ آپ کیوں رسول خدا﴿ص﴾ کو اپنے بارے میں رنجیدہ کرتے ہیں؟ ایک شخص نے حضرت ﴿ع﴾ سے سوال کیا: ہم کیسے رسول خدا﴿ص﴾ کو رنجیدہ اور ناراض کرتے ہیں؟” حضرت صادق ﴿ع﴾ نے جواب میں فرمایا: کیا آپ نہیں جانتے ہیں کہ آپ کے تمام اعمال رسول خدا﴿ص﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں؟ پس اگر آنحضرت ﴿ص﴾ آپ کے اعمال میں کسی معصیت کا مشاہدہ کریں تو وہ آپ ﴿ص﴾ کے لئے رنجیدگی و غمگین ھونے کا سبب بن جاتی ہے۔ پس آپ اپنے برے اعمال سے پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کو غمگین نہ کرنا، بلکہ اپنے نیک اعمال سے آنحضرت ﴿ص﴾ کو خوشحال و مسرور [7]کرنے کی کوشش کرنا۔”
اس بنا پر اس قسم کی آیات اور روایات سے یہ مفہوم حاصل ھوتا ہے، کہ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ شیعوں کے اعمال سے آگاہی رکھتے ہیں۔
اس وضاحت کے بعد معلوم ھوا کہ اس قسم کی آیات اور روایات میں کسی قسم کا تضاد اور ٹکراؤ موجود نہیں ہے۔
آپ کے دوسرے سوال کے بارے میں بھی کچھ روایتیں موجود ہیں کہ بعض خاص اوقات، جیسے شب قدر وغیرہ میں بھی ہمارے اعمال ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں، یہ بھی ہمارے تمام اعمال کے ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کی خدمت میں ہر وقت پیش کئے جانے کے منافی نہیں ہے۔ اس کی ایک سادہ اور واضح مثال یہ ہے کہ ایک ادارے کا ڈائریکٹر اپنے دفتر میں کام کرنے والوں کی کارکردگی کے بارے میں روزانہ آگاہی رکھتا ہے اور ان کا مشاہدہ کرتا ہے، لیکن ہفتہ یا مہینے کے آخر پر یا کسی اور وقت پر اس کے پاس اس کے کارکنوں کی کارکردگی کی رپورٹ پیش کی جاتی ہے اور وہ اس پر دستخط کرتا ہے۔
اور آپ کے آخری سوال کے بارے میں کہ ائمہ ﴿ع﴾ کیوں ایک دوسرے کو سفارش کرتے ہیں؟ قابل بیان ہے کہ: اولا: جو علم امام ﴿ع﴾ کے پاس ھوتا ہے، وہ ایک ایسا علم ھوتا ہے جو خداوند متعال کی طرف سے انھیں عطا ھوتا ہے لیکن یہ اس امر کے منافی نہیں ہے امام بعض علوم کو اپنے سے پہلے معصوم سے حاصل کرے، جیسے کہ پیغمبر اکرم ﴿ص﴾ کی زندگی کے آخری لمحات میں حضرت علی ﴿ع﴾ آنحضرت ﴿ص﴾ کے پاس تھے اور علی ﴿ع﴾ نے فرمایا: رسول خدا ﴿ص﴾ نے میرے کان میں کچھ فرمایا اور اس کی وجہ سے میرے لئے علم کے ہزار باب کھل گئے کہ ہر باب کے بھی ہزار باب کھل گئے۔[8]
ثانیا: جب امام رضا ﴿ع﴾ نے اپنے فرزند ارجمند امام جواد ﴿ع﴾ کو وصیت فرمائی، اس وقت امام جواد ﴿ع﴾ ابھی امامت کے عہدہ پر فائز نہیں ھوئے تھے، تاکہ علم امامت رکھتے۔
[1] . مظفر، محمدحسین، علم الامام ،ج3 ،ص17؛ مظفر، محمدحسین، امام شناسی ، ج42 ،ص11، درس 65 تا 67 . مکتبه الشامله.
[2] .۔ المجلسى، محمدباقر، بحارالانوار، ج53، ص175 ، مؤسسه الوفا، بیروت، لبنان، 1404. ھ
[3] ۔ ائمہ اطہار ﴿ع﴾ کے علم کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ ھو: علم اولیای خدا، 189 (سایٹ: 953)؛ علم غیب ائمه(ع)، 2775 (سایٹ: 3259).
[4] ۔ توبه،105.
[5] ۔ الكلينى، محمدبن يعقوب، الکافی، ج 1، ص 219، كتاب الحجة، باب عرض الاعمال على النبى و الائمة، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365،هـ.ش.
[6] ۔ ایضا، ج1، ص 219، ح 4.
.
[8] ۔ ایضا، ج 1، ص 219، ح 3.
[8] ۔ بلخی حنفی، سلیمان، ینابیع المودة، سید علی جمال اشرف الحسینی، ج 1، ص 208؛ چاپ اول، دار الاسوه، [بی جا]، 1416،
[8] ۔ بلخی حنفی، سلیمان، ینابیع المودة، سید علی جمال اشرف الحسینی، ج 1، ص 208؛ چاپ اول، دار الاسوه، [بی جا]، 1416،
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے