Please Wait
14743
"کتاب بحار الانوار " احادیث کا ایک ایسا مجموعہ ہے جو علامہ محمد باقر مجلسی کی اہم تالیف ہے۔ یہ کتاب شیعہ احادیث کی ایک ٰعظیم انسائیکلوپیڈیا ہے جوبہت سارے دینی مسائل، جیسے تفسیر قرآن ، تاریخ ، فقہ ، کلام وغیرہ پر مشتمل ہے۔
بحار الانوار کی بعض اہم خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں:
ہر باب کے آغاز میں قرآن مجید کی آیات کا ذکر ،مختلف موضوعات کے بارے ممیں جامعیت، اس مجموعہ میں مستقل رسالوں کا ذکر ، کم یاب مصادر اور تصحیح شدہ کتبی نسخوں سے استفادہ ، احادیث کی تفسیر اور وضاحت۔
البتہ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ اس کتاب میں موجود ہر طرح کے احادیث قابل قبول ہیں۔ یا ان کے متن اور سند میں کسی طرح کی تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں ہے.
کتاب "بحارالانوارالجامعۃ لدرر اخبار الائمہ الاطہار" جس کے معنی "نور کے دریا" ہیں ، یہ کتاب ائمہ اطھار )ع( کے نورانی احادیث پر مشتمل ہے ۔ یہ مجموعہ علامہ محمد باقر مجلسی کی سب سے عظیم تالیف ہے۔ اور شیعہ احادیث کی ایک جامع انسائیکلوپیڈیا ہے جو بہت سارے دینی مسائل جیسے تفسیر قرآن ، تاریخ ، فقہ، کلام وغیرہ پر مشتمل ہے۔
الف: خصوصیات
بحار الانوار کی بعض اہم خصوصیات حسب ذیل ہیں:
۱۔ ابواب اور تنظیم : یہ کتاب شیعہ احادیث کی سب سے عمدہ اور وسیع تالیف ہے جس میں کتب احادیث کی روایتوں کو مکمل نظم کے ساتھ ابواب میں جمع کیا گیا ہے۔
۲۔ ہر باب کے شروع میں قرآنی آیات کا ذکر :علامہ مجلسی نے اس عظیم مجموعے کے ہر باب کے آغاز میں متناسب آیات کو ذکر کیا ہے اور اس کے بعد ضرورت کے مطابق آیات کی وضاحت کے لیے مفسروں کے اقوال ذکر کئے ہیں اور اس کے بعد اس باب کی احادیث کو قلمبند کیا ہے۔
۳۔ مختلف موضوعات کے بارے میں بحار کی جامعیت : بحارالانوار کی روایات میں تحقیق کرنے سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ کتاب مختلف دینی مسائل پر مشتمل ہے اور )مولف کے زمانے میں ( اسلامی موضوعات میں سے ایسا کوئی بھی موضوع نہیں ہے جس کے بارے میں علامہ مجلسی نے بحث نہ کی ہو، اور اس موضوع کی روایات کی جمع آوری نہ کی ہو۔
۴۔ بحار الانوار میں مستقل رسالوں کا ذکر: علامہ مجلسی نے اپنی کتاب میں اپنے مختلف ابحاث کے دوران کچھ کتابوں یا رسالوں کا ملاحظہ کیا ہے۔ ان رسالوں میں سے بعض کو مختصر ہونے اور بحار الانوار کے موضوع کے ساتھ متعلق ہونے کے پیش نظر ، مکمل طور پر اپنی کتاب میں لایا ہے
، مثال کے طور پر امام ھادی )ع( کا رسالہ جو جبر و تفویض کے جواب میں ہے ، رسالۃ الحقوق حضرت امام سجاد)ع( اور کتاب توحید مفضل وغیرہ۔
۵۔ کم یاب اور تصحیح شدہ نسخوں کا استعمال: بحار الانوار کی اہمیت یہ ہے کہ علامہ مجلسی کے پاس بہت سی ایسی کتابیں موجود تھیں اور مکمل طور پر مفقود ہوئی ہیں۔ اور ہم تک نہیں پہنچی ہیں اس لئے علامہ مجلسی نے بحار الانوار کی تالیف کے دوران میسر سہولیات کی بناء پر ہر کتاب کا بہترین اور سب سے معتبر نسخہ حاصل کرکے اس سے احادیث نقل کی ہیں اگر علامہ ان روایتوں کو اس مجموعہ میں درج نہ کرتے تو یہ آج یہ روایتیں ہمارے پاس موجود نہیں ہوتیں۔
۶۔ احادیث کی تفسیر اور وضاحت: علامہ نے بہت سی مواقع پر روایات کو نقل کرنے کے بعد ان کی تشریح کی ہے اور مشکل الفاظ کی وضاحت کی ہے، انہوں نے احادیث کی تفسیر اور تشریح میں لغت، تفسیر ،کلام ، تاریخ ، اخلاق وغیرہ کا مختلف منابع سے استفادہ کیا ہے یہ تشریحات اس معجم حدیثی کی خصوصیات میں سے ہیں۔
۷۔ ہر موضوع میں متعدد متون اور اسناد کا ذکر: بحار الانوار کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ہر ایک موضوع میں بہت سی احادیث کو ایک ہی جگہ پر ذکر کیا ہے ، اس لئے محقق کے لیے یہ تشخیص دینا آسان ہوجاتا ہے کہ اس موضوع کے تحت مندرج احادیث اعتبار کے کس درجہ پر ہیں۔[1]
۸۔ مکرر روایات کے لیے مختلف حوالوں کا ذکر: علامہ مجلسی نے مکرر احادیث کے ایک یا ایک سے زیادہ منابع کا حوالہ دیا ہے اور مشابہہ روایات کی سند اور متن کے اختلاف کو مختلف کتابوں سے بیان کیا ہے۔
ب: تنقید
مختلف روایات کی جمع آوری سےعلامہ مجلسی کا سب سے اہم مقصد یہ تھا کہ ان روایات کو ضایع ہونے سے بچائے تاکہ اس طرح شیعوں کے حدیثی خزانوں کی حفاظت کرکے انہیں آئندہ نسلوں تک پہنچاسکے ۔ البتہ یہ قدرتی بات ہے کہ اس طرح کے وسیع اور عظیم کام میں کچھ خامیاں بھی رہی ہوں گی ، یہ کتاب چونکہ ایک انسان کا ہی کام ہے اور انسان کا کوئی کام بھی اس کے باقی کاموں کی طرح خطا اور غلطیوں سے مبرا نہیں ہوتا ۔ البتہ علماء اور بزرگان دین نے کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ ان کے کام نقص و عیب سے پاک ہیں جبکہ بعض علماءبحار الانوار میں بعض غیر معتبر اور ضعیف احادیث کے موجود ہونے اور علامہ مجلسی کی بعض وضاحتوں کو ناکافی اور غلط ہونے کواس کتاب کی خامی جانتے ہیں اور ان کا نظریہ یہ ہے کہ علامہ مجلسی نے احادیث کے ذیل میں جو مختلف وضاحتیں ، بیانات اور تفاسیر بیان کی ہیں وہ جلدی میں لکھی گئی ہیں اور اسی وجہ سے اس کتاب کے فائدہ میں کمی واقع ہوئی ہے اور اس میں خامیاں رہ گئی ہیں۔ [2]
احادیث کو مکرر طور پر نقل کرنا بھی بحار الانوار کی ایک خامی کے طور پر بیان کیا جاسکتا ہے۔ البتہ علامہ مجلسی کی عبارتوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد یہ بات سمجھہ میں آسکتی ہے کہ خود علامہ مجلسی بھی احادیث کے تکرار سے آگاہ تھے لیکن مختلف وجوہات کی بناء پر من جملہ سند اور متن میں موجود اختلاف اور ایک حدیث کا دو یا دو سے زیادہ احادیث کے ساتھ رابطہ ہونے کی وجہ سے احادیث کو مکرر نقل کیا گیا ہے۔
غور طلب بات یہ ہے کہ ایک ایسے عظیم اور بڑے مجموعے میں، جس میں روایات کو موضوع کے لحاظ سے مختلف ابواب میں بیان کیا گیا ہو اس میں تکرار ایک لازمی امر ہے، جیسا کہ ذکر ہوا علامہ مجلسی موجودہ احادیث اور روایات کو موضوعات کے لحاظ سے ابواب میں مرتب کرنا چاھتے تھے اور چونکہ بعض روایتیں مختلف موضوعات کے ذیل میں آتی تھیں لذا مولف کیلئے ضروری تھا کہ اس طرح کی روایات کی تکرار کو روکنے کے لیے یا انہیں جدا جدا کرتا اور روایت کے ہر حصے کو اپنے مناسب عناوین کے ذیل میں ذکر کرتا یا روایت کو مکمل طور پر ہر عنوان کےذیل میں تکرار کرتا اور یہ کام کتاب کے حجم کو بڑھاتا ہے اور مطالعہ کرنے والے کیلئے تھکاوٹ کا سبب بنتا ہے۔
علامہ مجلسی اچھی طرح جانتے تھے کہ اگر روایت کو جدا جدا تو کہیں صدر روایت، ذیل روایت کے لیے قرینہ ہوتا یا اس کے بر عکس ، تو نتیجہ کے طور پر روایت کو جدا جدا کرنے سے یہ قرائن ختم ہوجاتے، اسی لئے علامہ نے بہت سے مواقع پوری روایات کو ایک باب میں نقل کیا ہے اور دوسرے باب میں روایت کے اسی حصے کو ذکر کیا ہے جو اس باب سے متعلق ہے اور اس نکتے کی یاد دہانی کی ہے کہ پوری حدیث فلان باب میں نقل ہوئی ہے اور اس طرح قرائن کو مٹنے سے بچایا ہے۔
[1] ملاحظہ کریں ، "جامع الاحادیث سافٹ ویر"، نور اسلامک سافٹ ویر،قم ، ایران، مدرسان دانشکدہ علوم حدیث، دانش حدیث، ص ۲۵۰ – ۲۵۱ ، نشر جمال ،قم ، طبع اول ، ۱۳۸۹ ش۔
[2] ملاحظہ کریں، سید محسن ، اعیان الشیعہ ، ج ۹ ص ۱۸۳ ، دار التعارف للمطبوعات ، بیروت ، ۱۴۰۶ ق۔