Please Wait
12811
مقام و رتبہ کے لحاظ سے علم کی تقسیم بندی میں پہلا مقام علوم الہٰی کو ہے، اور علوم الہٰی وہی علوم ہیں جن کے، علمی حوزوں میں پڑھانے کا رواج ہے، اس کے بعد دوسرے علوم کا رتبہ ہے۔
ہمارے اعتقاد کے مطابق روحانیت، یونیورسٹی کے پروفیسروں، معلموں اور علوم انسانی کے اساتید کا کام ، ان خدمات سے کئی گنا برتر ہے، جن کا صرف مادی استفادہ ہوتا ہے {اگرچہ ان کا کام بھی قابل قدر ہے}، کیونکہ انسان کی روحانی، نفسیاتی اور معنوی ضرورتیں اس کی مادی ضرورتوں پر مقدم ہیں۔ اور روحانیت کا کام لوگوں اور معاشرہ کے اخلاقی اور معنوی پہلو کی تعمیر ہوتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ میں مادی لحاظ سے قابل توجہ ترقی ہوئی ہو، لیکن اخلاقی و معنوی لحاظ سے پست ہو، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اور ممکن ہے کہ مادی ایجادات اس معاشرہ کے لیے فائدہ کے بجائے خطرناک ثابت ہوں۔ اس لحاظ سے ، عالموں اور دانشوروں کے کام کی نوعیت مختلف ہے، اور اس کا فیصلہ بھی ان کے کام کی مناسبت سے کیا جانا چاہئیے۔
انسان کی ضرورتیں، مادی اور معنوی دونوں ابعاد میں ہوتی ہیں، اور ہر فرد یا گروہ اپنی استعداد اور طاقت کے مطابق ان دو میں سے ایک کا انتخاب کرتا ہے، اور اسی میدان میں تحقیق و تلاش سے انسانی معاشرہ کی خدمت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مقام و رتبہ کے لحاظ سے علم کی تقسیم بندی میں پہلا مقام علوم الہٰی کو ہے، اور علوم الہٰی وہی علوم ہیں جن کے، علمی حوزوں میں پڑھانے کا رواج ہے، اس کے بعد دوسرے علوم کا رتبہ ہے۔
ہمارے اعتقاد کے مطابق روحانیت، یونیورسٹی کے پروفیسروں، معلموں اور علوم انسانی کے اساتید کا کام ، ان خدمات سے کئی گنا برتر ہے، جن کا صرف مادی استفادہ ہوتا ہے {اگرچہ ان کا کام بھی قابل قدر ہے}، کیونکہ انسان کی روحانی، نفسیاتی اور معنوی ضرورتیں اس کی مادی ضرورتوں پر مقدم ہیں۔ اور روحانیت کا کام لوگوں اور معاشرہ کے اخلاقی اور معنوی پہلو کی تعمیر ہوتا ہے۔ اگر ایک معاشرہ میں مادی لحاظ سے قابل توجہ ترقی ہوئی ہو، لیکن اخلاقی و معنوی لحاظ سے پست ہو، تو اس کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے۔ اور ممکن ہے کہ مادی ایجادات اس معاشرہ کے لیے فائدہ کے بجائے خطرناک ثابت ہوں۔ لیکن یہاں پر ہماری مراد تجربی اور طبیعی علوم کی عیب جوئی کرنا نہیں ہے، البتہ عالموں اور دانشوروں کے کام کی نوعیت مختلف ہے، اور اس کا فیصلہ بھی ان کے کام کی مناسبت سے کیا جانا چاہئیے۔ جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ انبیاء{ع} آئے ہیں تاکہ لوگوں کی روحانی بیماریوں کا معالجہ کریں۔ اس سلسلہ میں مولا علی{ع} فرماتے ہیں: " پیغمبراکرم{ص} ایک متحرک طبیب ہیں، جنہوں نے ضروری شفا بخش مرہموں کو تیار رکھا ہے، تاکہ جہاں پر بھی اندھے دلوں اور گونگے ارواح کو دیکھیں ان کا علاج کریں اور ان بیماریوں میں مبتلا لوگوں کو معنوی موت اور روحانی زوال سے بچائیں[1]۔
قرآن مجید اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے: "وَ مَنْ أَحْیاها فَكَأَنَّما أَحْیا النَّاسَ جَمِیعاً" "جو شخص ایک انسان کو زندہ کرے ، جیسے اس نے تمام لوگوں کو زندہ کیا ہے۔"
آیہ شریفہ میں ایک انسان کو زندہ کرنے سے مراد " ایک زندہ انسان کو خلق کرنا" یا " ایک مردہ انسان کو زندہ کرنا " نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد وہ چیز ہے جسے عقلا کے عرف میں زندہ کرنا شمار کیا جاتا ہے، جب طبیب کسی بیمار کا علاج کرتا ہے، یا غواص ، کسی ڈوبنے والے کو ڈوبنے سے نجات دلاتا ہے یا کوئی شخص کسی اسیر کو دشمن سے آزاد کراتا ہے، تو عقلا کہتے ہیں کہ فلاں شخص کو زندہ کیا گیا { یا یہ کہتے ہیں کہ اس پر اس کو زندہ کرنے کا حق ہے} کلام اللہ مجید میں بھی اس قسم کی تعبیریں استعمال ہوئی ہیں،مثال کے طور پر حق کی طرف ہدایت کرنے کو زندہ کرنا کہتے ہوئے خدا وند متعال ارشاد فرماتا ہے: "أَ وَ مَنْ كانَ مَیتاً فَأَحْییناهُ وَ جَعَلْنا لَهُ نُوراً یمْشِی بِهِ فِی النَّاسِ" پس اس آیہ شریفہ کے مطابق جس شخص نے کسی گمراہ کی، ایمان کی طرف راہنمائی کی، اس نے اس کو زندہ کیا ہے[2]۔
اگر سوال میں بیان کیے گیے مطلب کے مطابق ہو تو، ہمیں یہ نتیجہ نکال لینا چاہئیے کہ جن والدین نے اپنی اولاد کی اچھی تربیت کی ہے، جن معلموں اور یونیورسٹی کے استادوں کا سروکار علوم انسانی سے ہے، انہوں نے انسانی معاشرہ کے لیے کوئی مفید کام انجام نہیں دیا ہے۔ اور مفید کام صرف ان لوگوں نے انجام دیا ہے، جو مادیات کے شعبے میں کوئی ایجاد کر سکے ہیں۔ لیکن اس قسم کا فیصلہ ہرگز صحیح نہیں ہے۔
اس بنا پر، روحانیت کے کام کا ان کی ترسیل اور انجام دہی کے لحاظ سے تجزیہ و تحلیل کرنا چاہئیے، نہ کہ اس طرح، جس طرح بعض افراد فیصلہ کرتے ہیں، اگر اس طرح ہو تو {نعوذ باللہ} کہنا چاہئیے کہ انبیائے الہٰی {ع}، ائمہ اطہار{ع} دانشوروں اور بزرگ عارفوں نے بھی لوگوں کے لیے کوئی مفید اور قابل توجہ کام انجام نہیں دیا ہے؛
[1]نهج البلاغه، ص 156، فتنه بنی امیه.
[2]طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان، ترجمه، موسوی همدانی، ج 5، ص 317. انتشارات اسلامی، قم.