Please Wait
14794
روزہ، تزکیہ نفس، انسان کے اپنے نفس پر غلبہ پانے اور نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی ایک قسم کی مشق ہے-
روزہ جسمانی فوائد کے علاوہ انسان کے انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے تربیتی اور تعمیری فوائد رکھتا ہے، جیسے: صبر کی تقویت، آخرت کی یاد، شہوت پر کنٹرول کرنا، فقرا کے ساتھ ہمدردی کی حس میں فروغ اور طبقاتی فاصلوں کو کم کرنا شامل ہے- امام صادق {ع} نے روزہ کے فوائد میں سے ایک کو یوں بیان فرمایا ہے: " روزہ اس لئے واجب ھوا ہے کہ فقیر اور غنی کے درمیان مساوات بر قرار ھو جائے اور یہ اس لئے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ ثروتمند عام طور پر جو چاہتا ہے وہ اس کے لئے مہیا ھوتا ہے، اور خدا اپنے بندوں کے درمیان مساوات چاہتا ہے- اور ثروتمند افراد کو بھوک، درد و رنج کا مزہ چکھانا چاہتا ہ تاکہ وہ ضعیفوں اور بھو کوں پر رحم کریں-
روزہ، تزکیہ نفس، انسان کے اپنے نفس پر کنٹرول کرنے اور نفسانی خواہشات سے مبارزہ کرنے کی ایک مشق ہے- روزہ، انسان کی زندگی کے اہم ترین فلسفہ، یعنی کمال و قرب الہی کو متحقق کرنے کی راہ کا ایک موثر حامل ہے-
خداوند متعال نے سال کے اکثر ایام ، خاص کر رمضان المبارک میں روزہ کی تشریع کرکے انسان کے لئے ایک مناسب فرصت پیدا کی ہے تاکہ وہ قرب الہی تک پہنچنے کی بالقوہ استعداد کو عملی جامہ پہنا سکے، اور اپنے خلیفتہ الہی کے مقام کے نزدیک پہنچے- کیونکہ روزہ کے تمام اخلاقی اور جسمانی اثرات و فوائد تقوی کی راہ میں ھوتے ہیں، جیسا کہ قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" صاحبان ایمان ، تمھارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دیئے گئے ہیں جس طرح تمھارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے شائد تم اسی طرح متقی بن جاو-[1]"
قابل ذکر بات ہے کہ اگر چہ اصل روزہ انسان کے جسم و روح پر اثر ڈالتا ہے، اس لحاظ سے روزہ ایک وسیع نعمت اور خداوند متعال کی عام رحمت کا مصداق ہے اور سب لوگ اس سے استفادہ کر سکتے ہیں، لیکن اگر یہ عبادی عمل، اپنی معنوی خصوصیات اور کمال کے صفات اور اخلاقی فضائل کے ہمراہ ھوتو یقینا، روزہ انسان کو کمال تک پہنچانے میں کافی موثر ھوسکتا ہے- اس لحاظ سے ایک عام انسان کا روزہ، تقوی اور انسانی کمال کے مراحل طے کرکے اخلاق الہی کے مالک بنے ھوئے شخص کے روزوں سے کافی فرق رکھتا ہے-
روزہ، انفرادی اور اجتماعی لحاظ سے جسمانی فوائد کے علاوہ تربیتی و تعمیری فوائد سے مالا مال ہے- یہاں پر ہم ذیل میں ان میں سے بعض فوائد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
روزہ کے انفرادی اثرات:
۱- صبر کی پائیداری کی تقویت: اخلاقی و انسانی فضائل میں سے ایک صبر ہے کہ اس کے بارے میں کافی تاکید کی گئی ہے، کیونکہ سالک قرب الہی کی طرف گامزن ھوتا ہے اور اس صفت کا مالک ھونے کی صورت میں تمام نشیب و فراز، مشکلات اور مصیبتوں کے ساتھ مقابلہ کرکے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے-
اس نفسانی طاقت اور انسانی فضیلت تک پہنچنے کا ایک طریقہ روزہ ہے، معصومین{ع} کی طرف سے ہم تک پہنچی روایتوں کے مطابق[2] آیہ مبارکہ:" واستعینوا بالصبر والصلاۃ"[3] میں لفظ " صبر" کی تفسیر روزہ کی گئی ہے[4]- پیغمبر اسلام{ص} رمضان المبارک کو ماہ صبر جانتے ھوئے فرماتے ہیں:" اے لوگو؛ بیشک ایک ایسا مہینہ آپ پر سایہ فگن ھوا ہے جس میں ایک ایسی رات ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے اور وہ ماہ رمضان ہے – خداوند متعال نے اس مہینہ میں روزہ رکھنا واجب قرار دیا ہے اور یہ مہینہ صبر کا مہینہ ہے"-[5]
حقیقت میں روزہ کے اثرات میں سے ایک اہم اثر روزہ دار کی روح و جان میں صبر کا روحانی و معنوی اثر ہے، کیونکہ روزہ بھوک اور پیاس کے مقابلے میں عارضی محدودیتیں فراہم کرکے اسے پائیداری و صبر و شکیبائی کی طاقت عطا کرتا ہے تاکہ انسان جانکاہ حوادث اور نفسانی خواہشات پر کنٹرول پاکر اپنے دل میں نور و صفا پیدا کرسکے-[6]
۲- آرام و سکون: روزہ، خاص کر رمضان المبارک کا روزہ، روزہ دار کے لئے دو لحاظ سے آرام و آسائش کا سبب بنتاہے اور روزہ دار کو پریشانیوں اور اضطراب سے نجات دلاتا ہے، ان میں سے ایک انسان کو صبر عطا کرنا ہے اور صابر انسان اپنے نفس پر قابو پاتا ہے اور خدا کا مطیع ھوتا ہے اور جو شخص ایسا ھو اس میں ایک اطمینان و سکون پیدا ھوتا ہے، کیونکہ صبر کی حقیقت اور اس کے معنی آرام و سکون ہیں اور حقیقت میں صابر وہ ہے- جو فوری طور پر حوادث کے زیر اثر قرار نہیں پاتا ہے اور مخالف ہوائیں اس کے پائے استقلال میں جنبش پیدا نہیں کرسکتی ہیں اور اسے مضطرب نہیں کرسکتی ہیں-[7]
دوسری جانب، روزہ خداوند متعال کی عملی یاد اور ذکر ہے اور یقینا خدا کی یاد دلوں کو آرام و سکون بخشتی ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:" یہ وہ لوگ ہیں جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دلوں کو یاد خدا سے اطمینان حاصل ھوتا ہے اور آگاہ ھو جاو کہ اطمینان یاد خدا سے ہی حاصل ھوتا ہے"[8]-
روزہ دار کو حاصل ھونے والے اطمینان و سکون کے علاوہ اسے خاص کر افطار کے وقت لذت بھی حاصل ھوتی ہے، اسی وجہ سے امام صادق{ع} فرماتے ہیں:" روزہ دار کے لئے دو شادمانیاں ہیں، ایک شاد مانی سے افطار کے وقت بہرہ مند ھوتے ہیں اور دوسری شادمانی خداوند متعال سے ملاقی ہوتے وقت حاصل ھوتی ہے"[9]-
اس کے علاوہ پیغمبر اسلام {ص} نے حضرت علی {ع} سے اپنے ایک ارشاد میں فرمایا ہے:" اے علی؛ مومن دنیا میں تین بار خوشحال ھوتا ہے:" ایک اپنے بھائیوں سے ملتے وقت، دوسرا رمضان المبارک میں افطار کے وقت اور تیسرا رات کے آخری وقت پر نماز پڑھتے ھوئے"[10]-
۳- آخرت کا رجحان: روزہ کے انفرادی اثرات میں سے ایک یہ ہے کہ روزہ انسان میں آخرت کا رجحان پیدا کرتا ہے، کیونکہ روزہ دار انسان اپنی بھوک اور پیاس کی وجہ سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرتا ہے اور فیصلہ کرتا ہے کہ اس روز کے لئے کسی زاد راہ کا اہتمام کرے-
پیغمبراسلام {ص} خطبہ شعبانیہ میں فرماتے ہیں:" {رمضان کے روزوں کے دوران} تم لوگ اپنی بھوک اور پیاس کی وجہ سے قیامت کی بھوک اور پیاس کو یاد کرو"[11]- آنحضرت {ص} کی ایک دوسری حدیث میں آیاہے:" بہشت کا "ریان"{سیراب شدہ} نام کا ایک دروازہ ہے کہ اس میں سے صرف روزہ دار داخل ھوتے ہیں"[12] –
مرحوم صدوق {رح} اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں :" بہشت کے اس دروازہ کے لئے اس نام کا انتخاب اس لئے کیا گیا ہے کہ، روزہ دار کی زیادہ زحمتیں پیاس کی وجہ سے ھوتی ہیں، جب روزہ دار اس دروازہ سے بہشت میں داخل ھوتا ہے، یوں سیراب ھوتا ہے کہ اس کے بعد کبھی اسے پیاس نہیں لگے گی-[13]
۴- شہوتوں پر کنٹرول کی طاقت: رحمت الہی سے دور ھونے اور خداوند متعال کے بے حساب الطاف الہی سے محروم ھونے کی سب اہم وجہ انسان کا نفسانی پھندوں اور شہوتوں، خاص کر جنسی شہوتوں میں پھنسنا ہے- دینی تعلیمات میں ، ان شہوتوں پرکنٹرول کرنے اور انھیں صحیح سمت دینے اور انھیں تبدیل کرنے کے لئے بہت سے دستور العمل اور طریقہ کار بیان کئے گئے ہیں کہ ان طریقوں میں سے ایک روزہ داری ہے، کیونکہ روزہ ایک قسم کی فطری اور معقول ریاضت ہے کہ اگر اسے منظم و مرتب صورت میں دہرایا جائے تو انسان میں گناہوں سے بچنے کی طاقت پیدا ھوتی ہے اور روزہ اسے اپنے ارادہ پر مسلط کرتا ہے اور شخص روزہ دار ہر گناہ کے مقابلے میں اختیار کی لگام کو ہاتھ سے نہیں چھوڑتا ہے، اور خداوند متعال کا تقرب حاصل کرنے میں سستی اور کاہلی سے دوچار نہیں ھوتا ہے ، اور گناہوں سے پرہیز کرتا ہے – جیسا کہ قرآن مجید جملہ " لعلکم تتقون"[14] سے اس مسئلہ کی طرف اشارہ کرتا ہے-
پیغمبر اکرم {ص} فرماتے ہیں :" اے جوانو؛ جو بھی تم میں سے بہتر زندگی گزارتا ھو، وہ ازدواج کرے، کیونکہ ازدواج ، نظروں اور شرم گاہ کی حفاظت کے لئے بہتر ہے اور جس میں ازدواج کے لئے مالی طاقت نہ ھو، وہ روزہ رکھے، کیونکہ روزہ اس کےلئے شہوت پر کنٹرول کرنے کا سبب بن جائے گا"[15]
۵- اخلاص کو بڑھانے کا سبب: امام علی {ع} فلسفہ عبادات بیان کرتے ھوئے روزہ کے بارے میں یوں فرماتے ہیں:" خداوند متعال نے روزہ کو اخلاص کے امتحان اور تعلیم کے لئے واجب کیا ہے"[16]-
حضرت فاطمہ زہراء {ع} ، اس سلسلہ میں فرماتی ہیں:" خداوند متعال نے روزہ کو اخلاص کو مستحکم کرنے کے لئے واجب قرار دیا ہے"[17]-
اس بناپر روزہ ، انسان میں اخلاص پیدا کرنے اور اسے رشد و بالیدگی بخشنے کے لئے موثر ہے- کیونکہ روزہ ایک قسم کا پرہیز ہے، اس لئے تنہا مخفی عبادت ہے اور جب تک خود شخص بیان نہ کرے خدا کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتیاہے کہ وہ روز دار ہے-
روزہ کے سماجی فوائد:
روزہ کے بعض سماجی فوائد حسب ذیل ہیں:
۱-فقرا کے ساتھ ہمدردی کی حس کی شکوفائی اور طبقاتی فاصلوں کا کم ھونا: روزہ انسان میں مستضعف طبقوں کے ساتھ ہمدردی کا احساس پیدا کرتا ہے- روزہ دار اپنی عارضی بھوک اور پیاس کے ذریعہ اپنے جذبات کو شگفتگی اور فروغ بخشتا ہے اور بھوکوں اور حاجتمندوں کی حالت کا بہتر صورت میں ادراک کرتا ہے اور اس کی زندگی میں ایک ایسی راہ کھلتی ہے کہ وہ اپنے ماتحتوں کے حقوق کو ضائع نہیں کرتا ہے اور محروموں کے دکھ درد سے غافل نہیں رہتا ہے- اگر چہ یہ ممکن ہے کہ ثروتمندوں اور سرمایہ داروں کو بھوکوں اور پیاسوں کے حالات بیان کرکے ان کی طرف متوجہ کیا جائے، لیکن اگر یہ مسئلہ حسی اور عینی پہلو اختیار کرے تو اس کے بہتر نتائج ھوں گے-
امام صادق {ع} سے ایک مشہور حدیث میں نقل کیا گیا ہے کہ" ہشام بن حکم" نے روزہ کی علت کے بارے میں سوال کیا، امام{ع} نے جواب میں فرمایا:" روزہ اس لئے واجب ھوا ہے کہ غنی اور فقیر کے درمیان مساوات قائم ھو جائے اور یہ اس لئے ہے کہ غنی بھوک کا مزہ چکھ لے اور فقیر کا حق ادا کرے، کیونکہ دولتمند لوگ عام طور پر جو چاہتے ہیں وہ ان کے لئے مہیا ھوتا ہے، خداوند متعال اپنے بندوں کے درمیان مساوات قائم کرنا چاہتا ہے ، اور دولتمندوں کو بھوک اور درد و رنج کا مزہ چکھانا چاہتا ہے تاکہ وہ ضعیفوں اور بھوکوں پر رحم کریں"[18]-
۲- حسن معاشرت: روزہ داری انسان میں معنوی امور کو تقویت بخشتی ہے اور اسے سماجی برائوں سے نجات دے کر اپنے ہم نوعوں کے ساتھ اجتماعی تقوی اور حسن معاشرت کی راہ پر قرار دیتی ہے- البتہ یہ نتائج ماہ مبارک رمضان میں زیادہ جلوہ دکھاتے ہیں کیونکہ اس میں اکثر لوگ روزہ دار ھوتے ہیں اور افطاری دینے کے مستحبات پر عمل کیا جاتا ہے-
۳- معاشرہ میں معنوی فضا کا پیدا ھونا اور سماجی برائیوں میں کمی واقع ھونا:
روزہ، انسان میں تقوی کا جذبہ اور ہمدردی کا احساس پیدا کرتا ہے اور رفتہ رفتہ ان خصوصیات کو تقویت بخشتا ہے اور معاشرہ کے فرد فرد پر براہ راست اثر ڈالتا ہے، کیونکہ اکثر انفرادی و اجتماعی گناہوں کا سر چشمہ غضب اور شہوت ہے اور روزہ ان دو جبلتوں کو روکتا ہے- لہذا معاشرہ میں فساد اور برائیوں میں کمی واقع ھونے اور تقوی میں اضافہ ھونے کا سبب بن جاتا ہے-[19]
یہ بات مسلم ہے کہ جس معاشرہ کے اکثر افراد، خاص کر رمضان المبارک میں روزہ دار ھوں، تو وہ معنوی فضا کے مالک ھوتے ہیں- ان میں اجتماعی ہمدردی پیدا ھوتی ہے اور ثقافتی اور سماجی برائیوں میں کمی واقع ھوتی ہے-
[1] بقره، 183.
[2] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 4، ص 63 و 64، دار الکتب الاسلامیة، تهران، 1365ش؛ مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 93، ص 254، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ھ ؛ عاملی، شیخ حرّ، وسائل الشیعة، ج 10، ص 408، مؤسسه آل البیت (ع)، قم، 1409ھ-
[3] قره، 45 و 153: صبر { روزہ} اور نماز سے مدد حاصل کرو-
[4] لیکن صرف روزہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ روزہ کا ذکر ایک واضح مصداق کے عنوان سے آیا ہے ، کیونکہ انسان اس عظیم عبادت کی روشنی میں ارادہ میں استحکام پیدا کرتا ہے، اس کا ایمان قوی ھوتا ہے اور اس کی عقل نفسانی خواہشات پر غلبہ پاتی ہے- مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونه، ج 1، ص 218، دارالکتب الاسلامیة، تهران، طبع اول، 1374ھ ش؛ حسينى همدانى، سيد محمد حسين، انوار درخشان، تحقيق: بهبودى، محمد باقر، ج 1، ص 144، كتاب فروشى لطفى، تهران، طبع اول، 1404ھ.
[5] کافی، ج 4، ص 66.
[6] ملا حظہ ھو : تفسیر نمونه، ج 1، ص 629.
[7] بانوى اصفهانى، سيده نصرت امين، مخزن العرفان در تفسیر قرآن، ج 1، ص 306، نشر نهضت زنان مسلمان، تهران، 1361ھ ش؛ بلاغى، سيد عبد الحجت، حجة التفاسیر و بلاغ الاکسیر، ج 1، ص 135، انتشارات حكمت، قم، 1386ھ.
[8] رعد، 28.
[9] شیخ صدوق، من لایحضره الفقیه، ج 2، ص 76، انتشارات جامعه مدرسین، قم، 1413ھ .
[10] من لایحضره الفقیه، ج 4، ص 360.
[11] وسائل الشیعة، ج 10، ص 313.
[12] ایضا، ص 404؛ شیخ صدوق، معانی الاخبار، ص 409، انتشارات جامعه مدرسین، قم، 1361ھ ش.
[13] معانی الاخبار، ص 409،
[14] بقره، 183، " صاحبان ایمان؛ تمھارے اوپر روزے اسی طرح لکھ دئے گئے ہیں جس طرح تمھارے پہلے والوں پر لکھے گئے تھے، شائد تم اسی طرح متقی بن جا"-
[15] محدث نوری، مستدرک الوسائل، ج 14، ص 153، مؤسسه آل البیت (ع)، قم، 1408ھ-
[16] سید رضی، نهج البلاغه، ص 512، نشر هجرت، قم، طبع اول، 1414ھ .
[17] بحارالانوار، ج 93، ص 368.
[18] من لا یحضره الفقیه، ج 2، ص 73.
[19] قرائتی، محسن، تفسیر نور، ج 1، ص 281، مركز فرهنگى درس هايى از قرآن، تهران، طبع چهارم، 1389ھ ش.