Please Wait
7449
هدایت کی چند قسمیں هیں :
1- عام تکوینی هدایت جو وهی توحید کی فطرت هے ، یعنی ابتدائی هدایت که اس سے هر انسان شرفیاب هے ۔ قرآنی تعلیمات کے مطابق خداوند عالم نے ابتدائی مرحله میں هی اپنی هدایت کے لطف و کرم سے تمام انسانوں کو نوازا هے اور فطرت و شریعت کے اعتبار سے ان کی سعادت و ترقی کے راستے کھول رکھے هیں ۔
2- انعام کے طور پر تکوینی هدایت ، مومنون و متقیوں سے مخصوص هے اور کافر ، ظالم اور فاسق اس سے محروم هیں ۔
مومنوں نے اس هدایت کے خزانه کو محفوظ کر رکھا هے ،یه وهی توحید کی سالم فطرت اور ابتدائی هدایت هے ۔ لیکن فاسق لوگوں خدا کی نافرمانی کی وجه سے اس خزانه کو اپنے هاﭡﮭ سے کھو بیٹھےهیں اس لیئے دوسری هدایت سے محروم هیں ۔
هدایت ماده (( ھدیٰ)) سے هے جس کے معنی ، ارشاد ، رهنمائی ، اور پهنچوانے کے هیں [1] ۔ هدایت ایک عرفانی و کلامی اصطلاح هے ، جس کے معنی نیک و صحیح راسته کو پهچوانا هے [2] اور فسق ، اخلاقی و فقهی اصطلاح هے جو لغت میں خدا کے حکم کے نافرمانی کرنے کے معنی میں هے اور کافر و گنهکار مسلمان دونوں کو شامل هے اور شریعت میں ، گناه کبیره کے مرتکب هونے یا گناه صغیره پر اصرار کو کهتے هیں [3] ۔
اسی وجه سے فاسق اسے کهتے هیں جو خدا کے حکم کی نافرمانی کرتا هے اور اس کی مخالفت کرتا هے ۔ خداوند عالم هدایت کا سرچشمه هے ۔ اس نے هر انسان کو توحید کی پاک و پاکیزه فطرت اور هدایت کی راه پر پیدا کیا هے ۔ خدا نے توحید کی فطرت کو ان کی طبیعت میں قرار دیا هے یعنی حق کی تلاش اور اس کی طرف مائل هونا اور عدالت وغیره کو ودیعه کے طور پر انسان کو عطا کیا هے ، پر وه شخص جس کی نیت پاک هے اور وه خدا کے سامنے تسلیم هونے کا جذبه رکھتا هے ، خدا کی هدایت اس کے شامل حال هے ۔ خداوند عالم اپنے فیض و کرم کو کسی بھی مخلوق کو عطا کرنے سے انکار نهیں کرتا حد تو یه هے که شیطان کو بھی ، جو دنیا کے تمام مفسدوں و گمراه کرنے والوں کا سردار هے ، شیطان سالم فطرت پر پیدا کیا گیا تھا ۔ اس کے بعد جب اس نے جناب آدم (علیه السلام) کا سجده کرنے میں خدا کے حکم کی نافرمانی کی تو رحمت الٰهی کے دربار سے بھگا دیا گیا ۔
جواب کے واضح و روشن هونے کےلیئے ضروری هے کے هدایت اور اس کی قسموں کے بارے میں ﮐﭽﻬ گفتگو کی جائے تا که واضح هوجا ئے که خدا کی هدایت فاسقوں کے شامل حال کیوں نهیں هوتی (( و الله لا یهتدی القوم الفاسقین))[4] ، خداوند عالم فاسق قوم کی هدایت نهیں کرتا ، هدایت کے معنی رهنمائی کے هیں جو ضلالت اور گمراهی کے مقابله میں هے جس کی بهت سی قسمیں هیں :
1- تمام مخلوقات کے لیئے عام هدایت (تکوینی هدایت) ((الذی خلق فسویٰ ، و الذی قدّر فهدیٰ ))[5] ۔ (وه خدا جس نے هر چیز کو پیدا کیا اور منظم کیا، جس نے (اس کام) اندازه مقدر کیا پھر هدایت کی )
(( قال ربّنا الّذی اعطیٰ کلّ شیئی ٍ خلقه ثم هدیٰ))[6] ، اس (موسیٰ) نے کها : همارا پروردگار وه هے جس نے هر چیز کو اس کے مناسب صورت عطا کی پھر هدایت فرمائی ۔
خداوند عالم نے اس مرحله میں عام طور سے پر انسان کی هدایت فرمائی هے اور کسی کو چھوڑا نهیں هے ۔
خداوند عالم کی یه عام هدایت دوطرح سے انسانوں کے شامل حال هوتی هے پهلے مرحله میں فطری طور پر اس طرح کے انسان کی طبیعت میں توحید کی فطرت کو ودیعت کیا هے که وهی انسان کا باطنی و طبیعی طور پر اچھائیوں یعنی عدالت وغیره کی طرف مائل هونا هے ((فطرۃ الله الّتی فطر الناس علیها))[7] فطرت و طبیعت هے جس پر خداوند عالم نے انسان کو پیدا کیا هے ، یه تکوینی هدایت دوسری عالم هدایت کا زمینه هے جو که تشریعی هدایت هے ، خداوند عالم نے اپنی تشریعی هدایت کے لیئے لوگوں کے درمیان انبیاء (علیهم السلام) کو بھیجا تا که وه لوگوں کو فطری وعده پورا کرنے کی دعوت دیں ،((فبعثَ فیهم رسله و واتر الیهم انبیاءه لیستادوھم میثاق فطرته))[8] تو خدا نے لوگوں کے درمیان اپنے رسول کو بھیجا اور انبیاء (علیهم السلام) کو یکے بعد دیگرے بھیجتا رها تا که توحید کی فطرت کو ان سے طلب کرتے رهیں ۔
اس مرحله میں بھی انبیاء کے ذریعه بندوں کی هدایت کی نعمت فیض علم هے اور سارے انسان سعادت و کامرانی کی جانب انبیاء (علیهم السلام) کی دعوت کے مخاطب هیں ۔ آیت ((انّ علینا للهدیٰ ))[9] بے شک هدایت کی ذمه داری هماری هے کے مطابق خداوند عالم انسانوں کی هدایت کو اپنا وظیفه سمجتا هے ، لیکن لوگ اس هدایت کا استقبال کرنے میں دو حصوں میں تقسیم هوجاتے هیں : ایک گروه اس هدایت کا شکریه ادا کرتا هے اور دوسرا گروه کفر اختیار کرتا هے ((انّا هدیناه السّبیل امّا شاکراً و امّا کفوراً))[10] هم نے انھیں راسته بتادیا هے چاهے وه شاکر بن جائے یا کفر اختیار کریں ۔
اسی لیئے اگر پهلی هدایت ((تکوینی و تشریعی)) کے سلسله میں خدا کا شکر ادا کرتے هیں تو خداوند عالم کی خاص هدایت ان کے شامل حال هوتی هے اور دوسری هدایات سے بھی مستفید هوتے هیں مؤمن و متقی افراد اسی زمره میں هیں ، لیکن جو لوگ الله کی اس نعمت (هدایت) کی قدر نهیں کرتے وه کفران نعمت کے سبب هدایت کامله سے محروم رهتے هیں اور فاسق افراد اسی زمره میں رهیں ۔
2- انسان کے لیئے خداوند عالم کی مخصوص هدایت (بطور انعام تکوینی هدایت) هے ۔
هدایت کی یه قسم عام هدایت کے بعد مؤمنین و متقین کے شامل حال هوتی هے اس هدایت کے مؤمنوں مخصوص هونے کے سلسله میں مفسرین کے درمیان تین نظریات موجود هیں یه حضرات آیت ((ذلک الکتاب لاریب فیه))[11] یه وه کتاب هے جس میں شک و شبه کی کوئی گنجائش نهیں هے ، کی تفسیر میں لکھتے هیں :
الف : ایک گروه کا عقیده هے که قرآنی هدایت عام هے اور آیتیں متقیوں سے مخصوص هونے کو بیان کر کرهی هے هیں ان کا مطلب مؤمنوں کا اس سے استفاده کرنا هے [12] ۔ اس نظریه کے مطابق قرآن مجید تشریعی هدایت کے مرحله میں کسی خاص گروه سے مخصوص نهیں هے ۔ سرانجام یه که انسان اس کے مقابله میں دو گروه هیں ، ﻜﭽﮭ قرآن کی هدایات کو سنتے هی نهیں ((ان تدعوھم الیٰ الهدیٰ لا یسمعون ۔۔۔ )) [13] ۔ اگر تم ان کی هدایت کروگے تو وه تمهاری بات نهیں سنیں گے ، لیکن متقی و پرهیزگار حضرات قرآن سے استفاده کرتے هیں اور هدایت سے مخصوص آیات انھیں افراد کے بارے میں هیں ۔
ب: علامه طباطبائی کا عقیده یه هے که آیت (( هدیً للمتّقین)) کا مقصد انعام کے طور پر تکوینی هدایت هے نه که ابتدائی تشریعی هدایت ، متقیون سے اس هدایت کے مخصوص هونے کا راز انھوں نے قرآنی هدایات کے قبول کرنے کے خزانه یعنی فطرت کی سلامتی کو محفوظ کر رکھا هے [14] ۔
3: خداوند عالم کی مخصوص هدایت کے بارے میں تیسرا نظریه یه هے که پرهیزگاروں سے مخصوص هدایت ، وهی تکوینی هدایت هے (مطلوب تک پهنچانا) جو قرآن کی عام تشریعی هدایت کے بعد هے یعنی (راسته دکھانا)؛ اور متقی سے بھی وهی لوگ مراد هیں جنھوں نے اپنی فطرت و طبیعت کو بھی نکھارے رکھا اور قرآن کی هدایات کے ذریعه کسی حد تک کامل کا راسته بھی طے کرلیا هے تب جاکر انعام والی هدایت (مقصد تک پهنچانا) ان کے نصیب هوئی هے [15] ۔ لهذا آیت ((والله لایهدی القوم الفاسقین))[16] خدا فاسقوں کی هدایت نهیں کرے گا کا مطلب دوسرے مرحله والی هدایت یعنی انعام والی تکوینی هدایت هے نه که تشریعی هدایت اس لیئے که پهلی هدایت سے منحرف هونا جو فسق و فجور هے دوسرے مرحله کی هدایت سے محروم هونے کا سبب قرار پاتا هے [17] ۔
چوں که خداوند عالم نے دینی معارف کو هر ایک انسان تک پهنچا دیا هے اور هر ایک کے کانوں میں ڈال دیا هے اور اپنے فیض و کرم سے کسی کو محروم نهیں رکھا هے لهذا مزید توفیقات و هدایات کو انسان کے قبول کرنے پر چھوڑ رکھا هے ۔
واضح سے بات هے اثر پذیری و قبول کرنے کا زمینه موجود نه رهنے کی صورت میں هدایت و نصیحت کی ضرورت هی نهیں ره جاتی ، اور آیت ((ولو علم الله فیهم خیراً لا سمعهم ولوا سمعهم لتولوا و ھم معرضون))[18]
یعنی اگر خدا ان میں نیکی (کی بو بھی ) دیکھتا تو ان میں سننے کی قابلیت ضرور عطا کرتا مگر (یه ایسے بد فطرت هیں که) اگر ان میں سننے کی قابلیت بھی دیتا تو بھی منهه پھیر کر بھاگ جاتے ۔ شاید اسی مطلب کو بیان کرتی هے [19] ۔ اس کے علاوه یه آیت اس مطلب کی طرف بھی اشاره کرتی هے که جن لوگوں کے اندر الٰهی هدایت کے قبول کرنے کا زمینه نهیں پایا جاتا اگر خداوند عالم کی مخصوص هدایت ان کے شامل حال بھی هو پھر بھی وه اس سے رخ موڑ کر فرار اختیار کرلیں گے [20] ۔
اس کے علاوه اس طرح کی بهت سی آیتیں [21] منافقوں و کافروں کے بارے میں هیں جهاں قرآن مجید نے انھیں ظالم ، کافر اور فاسق و غیره کے نام سے یاد کیا هے ، چوں که ان لوگوں نے خدا کو بھلادیا هے اور راه هدایت سے باهر نکل گئے هیں لهذا خداوند عالم کی مخصوص هدایت سے محروم هوگئے هیں[22] ۔
[1] صحاح اللغۃ ، ج 6 ، ص2533
[2] سجادی ، سید جعفر ، فرهنگ معارف اسلامی ، ج 4 ، ص622
[3] سجادی ، سید جعفر ، فرهنگ معارف اسلامی ، ج 4 ، ص622
[4] سوره صف/5
[5] سوره اعلیٰ/2-3
[6] سوره طه /50
[7] سوره روم /30
[8] معادیخواه ، عبد المجید، خورشید بی غروب ( ترجمه ی نهج البلاغه) ، خطبه نمبر1
[9] سوره لیل /2
[10] سوره انسان /3
[11] سوره بقره /2
[12] طبرسی ، مجمع البیان ، ج 1 ، ص118
[13] سوره اعراف/198
[14] طباطبائی ، سید محمد حسین، المیزان، ج 1 ،ص45
[15] جوادی آملی ، عبد الله ، تفسیر تسنیم ، ج 2 ، ص140
[16] سوره صف /5
[17] طباطبائی ، سید محمد حسین ، المیزان ، ج 1 ، ص72
[18] سوره انفال /23
[19] ھاشمی رفسنجانی ، اکبر ، تفسیر راهنما ، ج 6 ، ص454
[20] ھاشمی رفسنجانی ، اکبر ، تفسیر راهنما ، ج 6 ، ص454
[21] وه آیتیں جو ارشاد فرماتی هیں که خداوند عالم فاسقوں یا جھوٹوں یا اسراف کرنے والوں و غیره کی هدایت نهیں کرتا ۔
[22] میر باقری ، سید محسن ، سیمای انسان مختار در قرآن ، ص 152