Please Wait
11490
"ثوبان" جو " مولا رسول اللہ" کے نام سے مشہور ہے، من جملہ غلاموں میں سے تھے، جنہیں رسول خدا{ص} نے آزاد کیا تھا، ثوبان، آزاد ہونے کے بعد پیغمبراکرم{ص} کے صحابی اور اہل بیت{ع} کے دوست بن گیے۔ پیغمبراکرم{ص} اور آپ{ص} کے اہل بیت{ع} کے ساتھ ثوبان کی شدید محبت کے بارے میں احادیث کی بعض کتابوں میں کئی روایتیں بیان کی گئی ہیں۔
رسول خدا{ص} کے اصحاب میں سے چند افراد کا نام "ثوبان" تھا۔ لیکن " مولا[1] رسول اللہ" کی توصیف کے ساتھ ثوبان صرف ایک شخص کے لیے کہا گیا ہے[2]۔
اس بنا پر، "ثوبان" رسول خدا{ص} کے ایک صحابی تھے، اور ان کے بارے میں جو مختصر معلومات پائی جاتی ہیں، ان کے مطابق کم از کم یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ پیغمبراکرم{ص} اور اہل بیت{ع}سے شدید محبت کرنے والے تھے۔
شیخ طوسی کی "رجال" میں آیا ہے کہ، "ثوبان" جن کی کنیت "ابا عبداللہ" ہے، رسول اللہ{ص} کے صحابیوں میں سے ہیں[3]۔ "الاصابہ" میں ، عسقلانی کے بیان کے مطابق، "ثوبان" رسول خدا{ص} کے مشہور صحابی ہیں، جنہیں رسول خدا{ص} نے خرید کر آزاد کیا ہے، لیکن "ثوبان" اپنی مرضی اور اختیار سے پیغمبراکرم{ص} کی آخری عمر تک آپ{ص} کی خدمت کرتے رہے[4]۔
قابل بیان ہے کہ، کتب اربعہ جیسی ہماری احادیث کی کتابوں میں، ان سے کوئی روایت نقل نہیں کی گئی ہے۔ لیکن احادیث کی دوسری کتابوں میں ان سے کئی روایتیں نقل کی گئی ہیں۔ ان سے نقل کی گئی روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ رسول خدا{ص} اور آپ{ص} کے اہل بیت{ع} سے انتہائی محبت رکھتے تھے۔ ایک روایت ہے کہ رسول خدا{ص} نے ثوبان سے آپ{ص} اور آپ{ص} کے اہل بیت{ع} کی محبت کے بارے میں سوال کیا تو ثوبان نے جواب میں کہا: "خدا کی قسم اگر مجھے تلواروں سے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جائے یا قینچی سے میرے بدن کو کاٹا جائے، یا مجھے آگ میں جلا دیا جائے۔ ۔ ۔ ۔ میرے لیے اس سے آسان تر ہے کہ آپ{ص} ، آپ{ص} کے اہل بیت{ع} اور صحابیوں کے بارے میں اپنے دل میں موجود اخلاص و محبت میں کم ترین خلل پیدا ہو جائے۔[5]"
تفسیر مجمع البیان میں، طبرسی، آیہ شریفہ:"وَ مَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَأُولئِكَ مَعَ الَّذينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَ الصِّدِّيقينَ وَ الشُّهَداءِ وَ الصَّالِحينَ وَ حَسُنَ أُولئِكَ رَفيقا"[6] کے ذیل میں کہتے ہیں: کہا گیا ہے کہ یہ آیہ شریفہ ، پیغمبراسلام{ص} کے خادم ثوبان کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ کیونکہ ایک دن ثوبان پیغمبرخدا{ص} کی خدمت میں حاضر ہوئے، جبکہ پریشانی اور بیماری کی حالت میں تھے، پیغمبراکرم{ص} نے ان سے فرمایا: کیا ہوا ہے؟ جواب میں کہا: میں بیمار نہیں ہوں لیکن اس فکر میں پریشان ہوں کہ کل قیامت کے دن اگر جہنم میں داخل ہو جاوں تو آپ{ص} کو کبھی نہیں دیکھوں گا اور اگر بہشت میں داخل ہو جاوں تو بھی آپ{ص} سے کافی نچلے درجہ میں ہوں گا کہ آپ{ص} تک نہیں پہنچ سکوں گا۔ اس بات نے مجھے پریشان اور غمگین کر دیا ہے۔ یہاں پر یہ آیت نازل ہوئی اور پیغمبراکرم{ص} نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: خدا کی قسم؛ کسی مسلمان کا ایمان تب تک مکمل نہیں ہوگا جب تک نہ وہ مجھے اپنے ، اپنے ماں باپ اور اپنی بیوی بچوں اور تمام لوگوں سے زیادہ دوست نہ رکھتا ہو[7]۔
اس بنا پر مذکورہ مطالب کے پیش نظر ثوبان کو رسول خدا{ص} اور آپ{ص} کے اہل بیت{ع} کا محب جانا جا سکتا ہے۔
لیکن ، جیساکہ قرائن سے معلوم ہوتا ہے، ثوبان کے بارے میں بیان کی گئی صفت {ثوبان مولا رسول اللہ" میں لفظ "مولا" کے معنی رسول خدا{ص} کے توسط سے آزاد کیا گیا، یا عبد رسول خدا ہے، لیکن، چونکہ ثوبان ابتداء ہی میں رسول خدا{ص} کے توسط سے آزاد کیے گیے ہیں اس لیے پہلے معنی ان کی شخصیت کے ساتھ زیادہ مناسب ہیں۔
آخر میں ہم یاددہانی کرتے ہیں کہ شیعوں کی کتابوں میں ثوبان سے کوئی خاص روایت نقل نہیں کی گئی ہے۔
[1] لفظ "ولایت" اور "مولی" کو مادہ "ولی" سے لیا گیا ہے اور اہل لغت نے اس کے لیے گوناگون معانی لکھے ہیں جیسے: مالک، عبد، معتیق{آزاد کرنے والا}، معتق {آزاد کیا گیا} صاحب {ہمراہ}، قریب {جیسے چچیرا بھائی}، حار {ہمسایہ}، حلیف {ہم پیمان}، ابن {بیٹا}، عم{چچا}، رب، ناصر، منعم، نزیل { جو کسی جگہ پر ساکن ہو}۔ ملاحظہ ہو: عنوان: " معانی ولایت" سوال: 2333{سائٹ: 2449}۔
[2]. عسقلانی، ابن حجر، الاصابة، ج1، ص 528، دار الکتب العلمیة، بیروت، 1415ھ.
[3]. طوسی، محمد بن حسن، رجال طوسی، ص 31، انتشارات حیدریه، نجف، 1381 ھ.
[4]. الاصابة، ج 1، ص 528.
[5]. تفسیر امام حسن عسکری (ع)، ص 370، مدرسۀ امام مهدی (عج)، قم، 1409ق؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 27، ص 100، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، چاپ دوم، 1403 ھ.
[6]. نساء، 69.
[7]. طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان، ج 3، ص 110، انتشارات ناصر خسرو، تهران، 1372ھ ش.