Please Wait
9527
لغت میں " شفاعت" دو چیزوں کا آپس میں منسلک ھونے کو کھتے ھیں۔۔ عام اصطلاح میں شفاعت کا مطلب یھ ھے کھ ایک باعزت آدمی ایک بزرگ سے یھ چاھے کھ کسی جرم کے سزا سے در گزر کرے یا کسی خدمتگار کے اجر کو زیاده کرے ۔ شاید اس صورت میں شفاعت کے لفظ کا استعمال کرنے کی وجھ یھ ھو کھ مجرم شخص اکیلے اکیلے درگزر ھونے کا مستحق، یا خدمتگار شخص اکیلے میں اجر کے زیاده ھونے کا مستحق نھیں سمجھا جا سکتا ھے۔ لیکن اس کی درخواست "شفیع" کے ساتھه شامل ھونے پر وه مستحق سمجھا جاتا ھے۔
اسلامی نقطھ نظر سے شفاعت کسی شخص کو خداوند متعال کی طرف سے کوئی خیر پھنچانے مین ، یا اسے کوئی شر دور کرنے کیلئے واسطھ ھونے کوکھتے ھیں۔ لیکن اس بات کی طرف توجھ ضروری ھے کھ یھ ایک ایسا راستھ ھے جسے خود خداوند متعال نے ان لوگوں کیلئے قرار دیا ھے جن میں خدا کی دائمی رحمت حاصل کرنے کی لیاقت کم ھو۔ اس کے لئے خاص شرائط قرار دیئے گئے ھیں۔
پس شفاعت یعنی ایک گناھگار فرد جو اپنے اعمال کو خدا کے حضور لانے کے قابل نھیں سمجھتا ھے ایسے شفیع کی تلاش کرے، جس کے ذریعے اپنی نامطلوب حالت اور قابل عذاب عمل سے نجات پاکر شفیع کے واسطے سے اپنی حالت کو مطلوب بنائے اور پروردگار کی عفواور رحمت کا مستحق قرار پائے۔ اس طرح اسلام میں شفاعت ایک بے قید و شرط موضوع نھیں ھے، بلکھ اس کے خاص شرائط اور قیود ھیں ، جن میں گناه کی نوعیت ، شفاعت پانے والا اور شفاعت کرنے والا شامل ھے۔ اورجب تک کھ یھ شرائط متحقق نھ ھوں، اصل شفاعت متحقق نھیں ھوتی۔
شفاعت اور اس پر اعتقاد رکھنا گناھگار کے گناھوں کو پاک کرکے انھیں تربیت اور بلند کمالات تک پھنچنے میں خاص اثر رکھتے ھیں۔
شفاعت " شفع" کے مادے سے "جفت " کے معنی میں ھے۔ یھ معنی کسی چیز کو مشابھه چیز سے شامل ھونے سے لیا گیا ھے ، اس کے مد مقابل " وتر" ھے، جو "تنھا" اور "ایک" کے معنی دیتا ھے۔ اس کے بعد کسی طاقتور شخص کی مدد کرنے کی غرض سے کسی ضعیف کے ساتھه منسلک ھونے میں استعمال ھوتا ھے۔
عرف میں شفاعت کے معنی یھ هے کھ " شفیع" اپنے منصب سے استفاده کرکے صاحب اقتدارکی نظر کو اپنے ماتحتوں کے بارے میں تبدیل کرے ، اور یھ کام کبھی اثر و رسوخ سے یا کبھی اس کے خوف سے یا کبھی جذبات کے ذریعے ، یا مجرم کے بارے میں صاحب اقتدار کی نظر کو تبدیل کرنے کے ذریعھ ۔۔۔۔ انجام پاتا ھے۔ لیکن ان سب موارد میں مجرم شخص کے فکر اور سلوک میں کسی طرح کی تبدیلی پیدا نھیں ھوتی، بلکھ ھر طرح کی تبدیلی اس فرد میں رونما ھوتی ھے جس کے پاس شفاعت ھوتی ھے۔
اس قسم کی شفاعت اسلامی اور قرآنی نقطھ نظر سے معنی نھیں رکھتی ، کیونکھ نھ ھی خدا کوئی غلطی کرسکتا ھے جس سے اس کی نظر تبدیل کی جائے ( نعوذ باللھ) اور اس کی نظر صحیح جانب موڑدی جائے ، اور نھ ھی وه جذبات رکھتا ھے جس طرح انسان کے اندر جذبات موجود ھیں تا کھ اس کے جذبات کو متحرک کیا جائے۔ وه کسی کے اثر و رسوخ میں نھیں آتا اور نھ ھی کسی سے ڈرتا ھے اور وه کوئی خلاف عدل پر مبنی فیصلھ نھیں کرتا کھ اس کی اصلاح کی جائے۔
لیکن شفاعت کے جو معنی قرآنی آیات اور اسلامی ثقافت( روایات) میں موجود ھیں، وه یھ ھے کھ شفاعت پانے والے افرد میں تبدیلی اور تغیر پیدا ھو ، یعنی شفاعت پانے والا ایسے اسباب فراھم کرے جن کے ذریعے وه اپنی نامطلوب اور سزا پانے والی حالت سے نکل کر شفیع کے ساتھه رابطھ مستحکم کرے اور عفو اور درگذر کا مستحق قرار پائے۔ اس طرح کی شفاعت پر ایمان لانا حقیقت میں تربیت پانے کی اعلی درسگاه اور گناھگار افراد کی اصلاح کا ذریعھ ھے۔ کیوں کھ جو لوگ گناھوں کے مرتکب ھوتے ھیں،اگر ایک طرف اپنے ضمیر کے عذاب میں گرفتار ھوجائین اور دوسری جانب خدا کی رحمت اور بخشش سے ناامید ھوجائیں اور اپنے اوپر ھدایت پانے کے سب راستوں کو بند پائیں ، تو عملی طورپر اپنے اعمال میں کسی بھی طرح کی تبدیلی نھیں لائیں گے۔ کیونکھ اس کام کیلئے وه کسی بھی طرح کا فائده تصور نھیں کرسکتے ھیں بلکھ اس کے بدلے کبھی ممکن ھے وه زیاده ھی سرکش اور باغی ھوکر، اپنے گناھوں کی ذمھ داری اپنے سماج کے اوپر ڈال دیں اور یھ کھیں کھ ھمارے سماج کے حالات ھی کچھه ایسے تھے جس کی وجھ سے ھم اس حد تک گر گئے۔ اور اس طرح وه اپنے گناھوں میں اضافھ کرکے سماج سے انتقام لیں گے۔
لیکن شفاعت پر ایمان، ان کے اوپر امیدوں کے دروازوں کو کھولتا ھے ، اور انھیں اپنے اوپر کنٹرول کرنے اور اپنی گزشتھ غلطیوں کا ازالھ کرنے کا شوق دیتا ھے۔ اور یھ امر خطاکار افراد کی اصلاح کرنے اور سماج میں امن و سلامتی برقرار کرنے میں معاون ثابت ھوتا ھے۔
دوسری جانب شفاعت ایک مطلق موضوع نھیں بلکھ اس کے شرائط اور قیود ھیں ، یھ شرائط گناه اور جرم ، شفاعت کرنے والے اور شفاعت پانے والے میں ھیں ۔ جو لوگ اصل شفاعت کا اعتقاد رکھتے ھیں اور اس فرصت کو غنیمت جان کر شفاعت پانا چاھتے ھیں۔ ان کے لئے ناگزیر ھے کھ ان شرائط کو فراھم کریں اور خاص قسم کے گناھوں جیسے ظلم ، شرک وغیره جن کی وجھ سے انسان کو شفاعت نصیب نھیں ھوتی سے دوری اختیار کریں اور اپنے اعمال کو اس طرح بنائیں کھ شفاعت کرنے والوں کی عنایات میں شامل ھوں۔
یھ سب اس بات کی دلیل ھے کھ جو شفاعت قرآنی آیات میں بیان ھوئی ھے انسانوں کی تربیت اور سماج میں موجود افراد کیلئے ایک انمول خزانھ ھے کیونکھ انسانوں کی تربیت اور معاشرے کو پاک بنانا ھی انبیاء کو بھیجنے کا مقصد ھے۔ [1]
دوسرے الفاظ میں شفاعت کے وه معنی جو عام طورپر استعمال ھوتے ھیں وه یھ ھے کھ کوئی باعزت انسان کسی بزرگ سے یھ چاھے کھ مجرم کی سزا سے درگزر کرے یا کسی خدمتگار کے اجر کو زیاده کرے ، لیکن ان صورتوں میں ممکن ھے کھ شفیع کی شفاعت قبول کرنے کیلئے خاص دلائل ھوں جو کھ خداوند متعال کے بارے میں منفی ھیں۔ کیونکھ خداوند متعال کی طرف سے جن شفیعوں کو شفاعت کا اذن دیا گیا ھے، اس کی وجھ خوف اورڈر یا انکی طرف سے خدا کی نیاز مندی نھیں ھے ۔ بلکھ شفاعت ان افراد کیئے ایک راستھ ھے جن میں خدا کی ابدی رحمت حاصل کرنے کیلئے صلاحیت موجود نھیں ھے۔ اور اس راستے کو خود خداوند متعال نے قرار دیا ھے اور اس کےلئے شرائط و ضوابط بنا دیئے ھیں۔
البتھ اسلام میں کبھی یھ لفظ وسیع معنی میں بھی استعمال ھوتا ھے اور اس کے مطابق کسی دوسرے کے ذریعے انسان کو ھر طرح کا خیر پھنچنا بھی شامل ھوتا ھے اور اگر کھا جاتا ھے کھ ماں اورباپ اپنے فرزندوں یا اس کے بر عکس فرزند اپنے ماں باپ کی ، یا استاد اپنے شاگرد کی ، یا مؤذن ان لوگوں کی بھ نسبت جنھیں وه نماز کی یاد دلاتا ھے اور مسجد میں حاضر ھوتے ھیں، شفاعت کرتا ھے۔ تو حقیقت میں اس کا مطلب وھی خیر کا اثر جو اسے دنیا میں تھا قیامت کے دن شفاعت کی صورت میں ظاھر ھوگا اور اس طرح گناھگاروں کا استغفار بھی اس دنیا میں ایک طرح کی شفاعت ھے اور دوسرے لوگوں کیلئے دعا کرنا اور ان کے لئے خدا سے حاجتیں پوری کرانا بھی " شفاعت عند اللھ" کے موارد میں سے ھے ، کیوں کھ یھ سب خدا کے پاس دوسرے لوگوں کو خیر پھنچانے اور ان سے شر کو دور کرنے کے موارد میں سے ھیں۔ [2] [3]