Please Wait
کا
9539
9539
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/02/10
سوال کا خلاصہ
سورہ اسراء کی آیت نمبر ۷۰ کے پیش نظر، کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری رکھتا ہے یا ان میں سے صرف بعض مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے؟
سوال
سورہ مبارکہ اسراء کی آیت نمبر ۷۰ میں لفظ“ کثیر” سے مراد کیا ہے؟
ایک مختصر
خداوند متعال قرآن مجید میں نظام ھستی میں انسان کے مقام و منزلت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:“
“ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں میں اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔”
کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان کافی بحث و گفتگو ھوئی ہے۔ جو کچھ ان نظریات کے مجموعہ سے حاصل ھوتا ہے، وہ متفاوت بیانات اور استدلالوں پر مبنی دو نظریات پر مشتمل ہے:
الف﴾ بعض مفسرین نے لفظ“ کثیر” سے جمع کے معنی لئے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے پوری کثرت کے ساتھ جو کچھ خلق کیا ہے، انسان کو ان پر برتری دی ہے اور یہ آیہ شریفہ ﴿سورہ اسراء آیہ ۷۰﴾ انسان کی جنس کی فرشتوں کی جنس پر برتری بیان کرتی ہے، نہ ہر انسان کی فرشتوں پر برتری۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدم کی اولاد میں سے کچھ خاص افراد فرشتوں پر برتری نہیں رکھ سکتے ہیں، لہذا ہم انباء اور اولیائے الہی کو فرشتوں سے برتر جانتے ہہیں اور اسی وجہ سے فرشتوں کو ماموریت دی گئی کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کے لئے سجدہ کریں اور ان کی تعظیم و تکریم کریں۔
ب﴾ مفسرین کے ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ انسان، تمام مخلوقات پر برتری نہیں رکھتا ہے، بلکہ مکن ہے، فرشتوں کے مانند مخلوقات ھوں جو کمالات کے لحاظ سے انسان سے بالا تر مرتبہ پر فائز ھوں۔
ان کا اتقاد ہے کہ کافی بعید ہے کہ آیہ شریفہ کے معنی انسان اور ملائکہ کے درمیان موازنہ کرنا ھو، لہذا یہاں پر “ کثیر” کے ظاہری معنی لینے چاہئیے اور جمیع مخلوقات کے معنی لینے کے لئے کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ اور بعید نہیں ہے کہ “ ممن خلقناء” ﴿ جن کو ہم نے پیدا کیا ہے﴾ سے مراد، باشعور حیوانوں کے انواع اور جنات ھوں۔
“ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں میں اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔”
کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان کافی بحث و گفتگو ھوئی ہے۔ جو کچھ ان نظریات کے مجموعہ سے حاصل ھوتا ہے، وہ متفاوت بیانات اور استدلالوں پر مبنی دو نظریات پر مشتمل ہے:
الف﴾ بعض مفسرین نے لفظ“ کثیر” سے جمع کے معنی لئے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے پوری کثرت کے ساتھ جو کچھ خلق کیا ہے، انسان کو ان پر برتری دی ہے اور یہ آیہ شریفہ ﴿سورہ اسراء آیہ ۷۰﴾ انسان کی جنس کی فرشتوں کی جنس پر برتری بیان کرتی ہے، نہ ہر انسان کی فرشتوں پر برتری۔ لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ آدم کی اولاد میں سے کچھ خاص افراد فرشتوں پر برتری نہیں رکھ سکتے ہیں، لہذا ہم انباء اور اولیائے الہی کو فرشتوں سے برتر جانتے ہہیں اور اسی وجہ سے فرشتوں کو ماموریت دی گئی کہ حضرت آدم ﴿ع﴾ کے لئے سجدہ کریں اور ان کی تعظیم و تکریم کریں۔
ب﴾ مفسرین کے ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ انسان، تمام مخلوقات پر برتری نہیں رکھتا ہے، بلکہ مکن ہے، فرشتوں کے مانند مخلوقات ھوں جو کمالات کے لحاظ سے انسان سے بالا تر مرتبہ پر فائز ھوں۔
ان کا اتقاد ہے کہ کافی بعید ہے کہ آیہ شریفہ کے معنی انسان اور ملائکہ کے درمیان موازنہ کرنا ھو، لہذا یہاں پر “ کثیر” کے ظاہری معنی لینے چاہئیے اور جمیع مخلوقات کے معنی لینے کے لئے کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ اور بعید نہیں ہے کہ “ ممن خلقناء” ﴿ جن کو ہم نے پیدا کیا ہے﴾ سے مراد، باشعور حیوانوں کے انواع اور جنات ھوں۔
تفصیلی جوابات
خداوند متعال قرآن مجید میں نظام ھستی میں انسان کے مقام و منزلت کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
“ «وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ وَ حَمَلْناهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ و فَضَّلْنَاهُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً».[1]
“ ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں میں اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔”
کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان کافی بحث و گفتگو ھوئی ہے۔ جو کچھ ان نظریات کے مجموعہ سے حاصل ھوتا ہے، وہ متفاوت بیانات اور استدلالوں پر مبنی دو نظریات پر مشتمل ہے۔
قرآن مجید کے مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کے مسئلہ کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔ یہاں پر ہم ان نظریات میں سے بعض نظریات کی طرف خلاصہ کے طور پر اشارہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے قابل بیان ہے،کہ کا ئنات کی مخلوقات میں انسان کی اپنی مخصوص خصوصیات ہیں، انسان، عظیم فکری اور مادی طاقت کے لحاظ سے اور قرب الہی کے مقام تک پہنچنے کی قابلیت اور تکلیف کے لحاظ سے ایک برتر مخلوق ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات میں ہم انسان کو عظمت واصلیت کے عروج پر دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان دنیا کی مخلوقات میں، ایک قابل قدر اور گراں بہا شاہکار مخلوق ہے۔ اس کی یہ قدر و منزلت یہاں تک ہے کہ خداوند متعال قرآن مجید میں انسان کی خلقت کے مراحل بیان کرنے کے بعد اپنی ذات کو مبارکباد پیش کرتے ھوئے ارشاد فرماتا ہے: : «فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ».[2] “ کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔” اور کئی جگہوں پر انسان کو مسجود ملائکہ کے عنوان سے پہچنواتا ہے اور زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی بنی آدم کو کرامت، شرافت اور فضیلت سے یاد کرتا ہے۔
خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ میں انسان کے لئے چار خصوصیات گن لی ہیں:
١۔ “ ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے”
اس کرامت سے مراد، انسان کے فکر و اندیشہ اور گوناگون استعداد رکھنے کی وجہ سے اس کی عظمت ہے کہ اس کے ذریعہ انسان طبیعت پر تصرف کرسکتا ہے اور اپنے لئے بہتر زندگی فراہم کرسکتا ہے۔ اسی طرح انسان، انتخاب اور خود آگاہی کی طاقت رکھتا ہے۔
۲۔“ اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے”
انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جانے اور اپنی مسافرت کے لئے، دوسری مخلوقات سے استفادہ کرتا ہے، خشکی پر چار پاؤں اور گوناگون وسائل اور سمندروں میں کشتیوں سے استفادہ کرتا ہے۔
۳۔ “اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے”
انسان کی خوراک بھی دوسرے حیوانوں کی بہ نسبت ایک خاص برتری رکھتی ہے اور وہ اپنے لئے قسم قسم کے لذیز کھانے بناتا ہے اور گوناگون میوؤں، سبزیوں اور گوشت سے استفادہ کرتا ہے۔
۴۔“ اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیل اور برتری دی ہے۔”
یہ خصوصیت انسان کی سب سے اہم خصوصیت ہے کیونکہ یہ خصوصیت انسان کے نفسانی کمالات تک پہنچنے کی معنوی فضیلت اور الہی اجر و پاداشت سے متعلق ہے۔[3]
کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان کافی بحث و گفتگو ھوئی ہے۔ جو کچھ ان نظریات کے مجموعہ سے حاصل ھوتا ہے، وہ متفاوت بیانات اور استدلالوں پر مبنی مندرجہ ذیل دو نظریات پر مشتمل ہے:
الف﴾ بعض مفسرین اعتقاد رکھتے ہیں کہ آیہ شریفہ میں لفظ“ کثیر” ، “ جمیع” کے معنی میں اور لفظ“ من” بیانیہ کے معنی میں ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ “ ہم نے جو کچھ ہیدا کیا ہے، ان میں سے بہت سوں پر انسان کو برتری و فضیلت دی ہے”۔[4] ان کا اعتقاد ہے کہ عرب“ کثیر” کو “ جمیع” کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ خداوند متعال کے اس کلام کے مانند: «وَ أَكْثَرُهُمْ كاذِبُونَ».[5] شیاطین جو کچھ سنتے ہیں، ان کے ساتھ کافی جھوٹ ملاکر اپنے دوستوں کو الہام کرتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹ بولنے والے ہیں۔ یہاں پر “ اکثر” کے معنی“ جمیع” ہیں، کیونکہ سب شیاطین جھوٹ بولنے والے ہیں۔
تفسیر صافی[6] میں بھی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت سے استناد کیا گیا ہے کہ اس سے اس نظریہ کی تائید ھوتی ہے: «في الأمالي عن الصادق ع في هذه الآية يقول فضلنا بني آدم على سائر الخلق»؛[7] حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند متعال نے بنی آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت دیدی ہے۔ ابن کثیر دمشقی، عبدالرزاق سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ جنس انسان کی جنس مللائکہ پر برتری کے معنی میں ہے۔[8]
اس نظریہ کے حامیوں کی ایک جماعت کا اعتقاد ہے کہ انسان، دوسری مخلوقات سے برتر ہے، البتہ عالم مجردات کی مقدس مخلوقات کے علاوہ،لیکن انبیاء علیہم السلام کے مانند بعض انسانوں کی فرشتوں پر برتری اور فضیلت، اس لئے نہیں ہے کہ وہ آدم ﴿ع﴾ کی اولاد ہیں، وہ اس لحاظ سے عقل کے مقام سے آگے نہیں بڑھتے ہیں، بلکہ ایک راز کی وجہ سے ہے، جو خاوند متعال کی طرف سے ان میں عطیہ کے طور پر رکھا گیا ہے۔[9]
ب﴾ بعض مفسرین قائل ہیں کہ انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت نہیں رکھتا ہے، بلکہ ممکن ہے فرشتوں کے مانند کچھ ملوقات ھوں جو کمالات کے لحاظ سے انسان کے مقام سے بالا تر مرتبہ پر فائز ھوں، چونکہ آیہ شریفہ میں ارشاد ھوتا ہے:“ انسان کو ہم نے بہت سارے مخلوقات پر برتری دیدی ہے، نہ سب مخلوقات پر۔”[10]
اس نظریہ کے حامی کہتے ہیں کہ: کافی بعید ہے کہ یہ آیہ شریفہ انسان اور ملائکہ کے درمیان موازنہ کرتی ھو، اس لحاظ سے“ کثیر” کے ظاہری معنی کرنے چاہئیے اوراس کی تاویل کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ علم بھی حکم کرتا ہے کہ یہ لفظ اپنے ظاہری معنی پر باقی رہنا چاہئیے، کیونکہ علمی انکشافات نے اس نظریہ کو باطل ثابت کیا ہے کہ زمین کائنات کا مرکز اور انسان عالم ھستی کی بر ترین مخلوق ہے۔ قرآن مجید بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے اور ارشاد ھوتا ہے:“ «لَخَلْقُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ»؛[11] “ بیشک زمین و آسمان کا پیدا کر دینا لوگوں کے پیدا کردینے سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے لیکن لوگوں کی اکثریت یہ بھی نہیں جانتی ہے۔” اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ نظام ھستی میں انسان ایک خاص مقام کا مالک ہے، لیکن یہ انسان تمام مخلوقات پر فضیلت رکھنے والا نہیں ہے، بلکہ برترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اس مطلب کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں اس سے بہتر کوئی دلیل نہیں ہے کہ انسان نظام ھستی کے بہت سے مسائل کے بارے میں لاعلم و بے خبر ہے، اس کے علاوہ اس کی ان تک پہنچ بھی نہیں ہے۔ حتی کہ انسان زمین کی مخلوقات کے بارے میں بہت سے مسائل سے بے خبر ہے، آسمانی مخلوقات کی بات ہی نہیں، جو مجردات کا حصہ ہیں۔ ظاہر ہے، کہ برتری کی ابتدائی ترین شرائط میں سے اپنے ماتحتوں پر تصرف کی طاقت رکھنا ہے۔[12]
اسی سلسلہ میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ، انسان کا فرشتوں سے موازنہ کرنا نوعی موازنہ ہے، یعنی فرشتوں کی نوع انسان کی نوع سے برتر ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بنی آدم میں سے خاص افراد فرشتوں پر برتر نہیں ھوسکتے ہیں، لہذا ہم انبیاء علیہم السلام ار اولیائے الہی کو فرشتوں سے برتر جانتے ہیں اور اسی وجہ سے فرشتوں کو ماموریت ملی ہے کہ آدم ﴿ع﴾ کے لئے سجدہ کریں اور اس کی تعظیم و تکریم کریں۔[13] اس بناپر متکلمین کے درمیان جو مشہور بحث پائی جاتی ہے، کہ کیا انسان برتر ہیں یا ملائکہ، اس سلسلہ میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ ملائکہ کی نوع، انسان کی نوع سے برتر ہے، لیکن بعض انسان کمال کے ایک ایسے مرحلہ پر پہنچتے ہیں کہ ملائکہ سے برتر بن جاتے ہیں۔
البتہ ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ بعید نہیں ہے «ممن خلقنا» ﴿ جن کو ہم نے پیدا کیا ہے﴾ سے مراد، با شعور حیوانات کی انواع اور جنات ھو کہ قرآن مجید نے اسے ثابت کیا ہے۔ اور یہ احتمال آیہ شریفہ کے معنی کے مطابق ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ زیر بحث آیہ شریفہ کا مقصد ان جہات کا بیان ہے کہ خداوند متعال نے انسان کی تکریم کی ہے اور اس عالم کی بہت سی مخوقات پر برتری دی ہے، اور یہ مخلوقات، جہاں تک ہم جانتے ہیں، حیوانات اور جنات ہیں۔ لیکن چونکہ فرشتے مادی عالم کے نظام سے تعلق نہیں رکھتے ہیں، لہذا انھیں ہم اس آیہ شریفہ میں شامل نہیں کرسکتے ہیں۔[14]
اس بنا پر، اس گروہ کے اعتقاد کے مطابق، اس آیہ شریفہ کے معنی یہ ھوتے ہیں کہ ہم نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات، جو حیوان اور جنات ہیں، پر برتری دیدی ہے۔ لیکن باقی مخلوقات جو لفظ“ کثیر” ﴿بہت﴾ کے مقابلے میں ملائکہ کے مانند قرار پاتے ہیں، اس بحث سے خارج ہیں، کیونکہ وہ نوری اور غیر مادی مخلوقات ہیں اور اس عالم کے نظام میں شامل نہیں ہیں، اور آیہ شریفہ اگر چہ انسان کے بارے میں بحث کرتی ہے، لیکن اس لحاظ سے اس پر بحث کی جاتی ہے کہ انسان عالم مادی کی مخلوقات میں سے ایک ہے جس کی خداوند متعال نے اپنی نعمتوں سے تکریم کی ہے۔
یہ آیہ شریفہ، وجود مادی کے لحاظ سے انسانی کمال پر ناظر ہے اور یہ تکریم و فضیلت دوسری مخلوقات کے موازنہ میں ہے۔ اس بنا پر ملائکہ ، چونکہ اس دنیا کی مادی نعمتوں کے نظام سے خارج ہیں، لہذا اس بحث سے خارج ہیں۔
خلاصہ یہ کہ، انسان کی بہت سی مخلوقات پر برتری اور فضیلت، اس عالم کی مخلوقات پر برتری ہے، نہ فرشتوں پر چونکہ فرشتے بنیادی طور پر ماد[15]ی وجود سے خارج ہیں ۔ لہذا یہ آیہ شریفہ انسان کی ملائکہ پر برتری کا کوئی نظریہ پیش نہیں کرتی ہے۔[16]
“ «وَ لَقَدْ كَرَّمْنا بَنِي آدَمَ وَ حَمَلْناهُمْ فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ و فَضَّلْنَاهُمْ عَلَی کَثِیرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِیلاً».[1]
“ ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں میں اٹھایا ہے اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیلت دی ہے۔”
کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان کافی بحث و گفتگو ھوئی ہے۔ جو کچھ ان نظریات کے مجموعہ سے حاصل ھوتا ہے، وہ متفاوت بیانات اور استدلالوں پر مبنی دو نظریات پر مشتمل ہے۔
قرآن مجید کے مفسرین نے اس آیہ شریفہ کی تفسیر اور انسان کی دوسری مخلوقات پر برتری کے مسئلہ کے بارے میں مختلف نظریات پیش کئے ہیں۔ یہاں پر ہم ان نظریات میں سے بعض نظریات کی طرف خلاصہ کے طور پر اشارہ کرتے ہیں۔
سب سے پہلے قابل بیان ہے،کہ کا ئنات کی مخلوقات میں انسان کی اپنی مخصوص خصوصیات ہیں، انسان، عظیم فکری اور مادی طاقت کے لحاظ سے اور قرب الہی کے مقام تک پہنچنے کی قابلیت اور تکلیف کے لحاظ سے ایک برتر مخلوق ہے۔
قرآن مجید کی تعلیمات میں ہم انسان کو عظمت واصلیت کے عروج پر دیکھتے ہیں اور مشاہدہ کرتے ہیں کہ انسان دنیا کی مخلوقات میں، ایک قابل قدر اور گراں بہا شاہکار مخلوق ہے۔ اس کی یہ قدر و منزلت یہاں تک ہے کہ خداوند متعال قرآن مجید میں انسان کی خلقت کے مراحل بیان کرنے کے بعد اپنی ذات کو مبارکباد پیش کرتے ھوئے ارشاد فرماتا ہے: : «فَتَبارَكَ اللَّهُ أَحْسَنُ الْخالِقِينَ».[2] “ کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔” اور کئی جگہوں پر انسان کو مسجود ملائکہ کے عنوان سے پہچنواتا ہے اور زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی بنی آدم کو کرامت، شرافت اور فضیلت سے یاد کرتا ہے۔
خداوند متعال نے اس آیہ شریفہ میں انسان کے لئے چار خصوصیات گن لی ہیں:
١۔ “ ہم نے بنی آدم کو کرامت عطا کی ہے”
اس کرامت سے مراد، انسان کے فکر و اندیشہ اور گوناگون استعداد رکھنے کی وجہ سے اس کی عظمت ہے کہ اس کے ذریعہ انسان طبیعت پر تصرف کرسکتا ہے اور اپنے لئے بہتر زندگی فراہم کرسکتا ہے۔ اسی طرح انسان، انتخاب اور خود آگاہی کی طاقت رکھتا ہے۔
۲۔“ اور انھیں خشکی اور دریاؤں میں سواریوں پر اٹھایا ہے”
انسان ایک جگہ سے دوسری جگہ پر جانے اور اپنی مسافرت کے لئے، دوسری مخلوقات سے استفادہ کرتا ہے، خشکی پر چار پاؤں اور گوناگون وسائل اور سمندروں میں کشتیوں سے استفادہ کرتا ہے۔
۳۔ “اور انھیں پاکیزہ رزق عطا کیا ہے”
انسان کی خوراک بھی دوسرے حیوانوں کی بہ نسبت ایک خاص برتری رکھتی ہے اور وہ اپنے لئے قسم قسم کے لذیز کھانے بناتا ہے اور گوناگون میوؤں، سبزیوں اور گوشت سے استفادہ کرتا ہے۔
۴۔“ اور اپنی مخلوقات میں سے بہت سوں پر فضیل اور برتری دی ہے۔”
یہ خصوصیت انسان کی سب سے اہم خصوصیت ہے کیونکہ یہ خصوصیت انسان کے نفسانی کمالات تک پہنچنے کی معنوی فضیلت اور الہی اجر و پاداشت سے متعلق ہے۔[3]
کیا انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت رکھتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کے سلسلہ میں مفسرین کے درمیان کافی بحث و گفتگو ھوئی ہے۔ جو کچھ ان نظریات کے مجموعہ سے حاصل ھوتا ہے، وہ متفاوت بیانات اور استدلالوں پر مبنی مندرجہ ذیل دو نظریات پر مشتمل ہے:
الف﴾ بعض مفسرین اعتقاد رکھتے ہیں کہ آیہ شریفہ میں لفظ“ کثیر” ، “ جمیع” کے معنی میں اور لفظ“ من” بیانیہ کے معنی میں ہے۔ اس کے یہ معنی ہیں کہ “ ہم نے جو کچھ ہیدا کیا ہے، ان میں سے بہت سوں پر انسان کو برتری و فضیلت دی ہے”۔[4] ان کا اعتقاد ہے کہ عرب“ کثیر” کو “ جمیع” کے معنی میں بھی استعمال کرتے ہیں۔ خداوند متعال کے اس کلام کے مانند: «وَ أَكْثَرُهُمْ كاذِبُونَ».[5] شیاطین جو کچھ سنتے ہیں، ان کے ساتھ کافی جھوٹ ملاکر اپنے دوستوں کو الہام کرتے ہیں، اور ان میں سے اکثر جھوٹ بولنے والے ہیں۔ یہاں پر “ اکثر” کے معنی“ جمیع” ہیں، کیونکہ سب شیاطین جھوٹ بولنے والے ہیں۔
تفسیر صافی[6] میں بھی اس آیہ شریفہ کے ذیل میں امام صادق علیہ السلام کی ایک روایت سے استناد کیا گیا ہے کہ اس سے اس نظریہ کی تائید ھوتی ہے: «في الأمالي عن الصادق ع في هذه الآية يقول فضلنا بني آدم على سائر الخلق»؛[7] حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں: خداوند متعال نے بنی آدم کو اپنی تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت دیدی ہے۔ ابن کثیر دمشقی، عبدالرزاق سے نقل کرتے ہیں کہ یہ آیہ شریفہ جنس انسان کی جنس مللائکہ پر برتری کے معنی میں ہے۔[8]
اس نظریہ کے حامیوں کی ایک جماعت کا اعتقاد ہے کہ انسان، دوسری مخلوقات سے برتر ہے، البتہ عالم مجردات کی مقدس مخلوقات کے علاوہ،لیکن انبیاء علیہم السلام کے مانند بعض انسانوں کی فرشتوں پر برتری اور فضیلت، اس لئے نہیں ہے کہ وہ آدم ﴿ع﴾ کی اولاد ہیں، وہ اس لحاظ سے عقل کے مقام سے آگے نہیں بڑھتے ہیں، بلکہ ایک راز کی وجہ سے ہے، جو خاوند متعال کی طرف سے ان میں عطیہ کے طور پر رکھا گیا ہے۔[9]
ب﴾ بعض مفسرین قائل ہیں کہ انسان تمام مخلوقات پر برتری اور فضیلت نہیں رکھتا ہے، بلکہ ممکن ہے فرشتوں کے مانند کچھ ملوقات ھوں جو کمالات کے لحاظ سے انسان کے مقام سے بالا تر مرتبہ پر فائز ھوں، چونکہ آیہ شریفہ میں ارشاد ھوتا ہے:“ انسان کو ہم نے بہت سارے مخلوقات پر برتری دیدی ہے، نہ سب مخلوقات پر۔”[10]
اس نظریہ کے حامی کہتے ہیں کہ: کافی بعید ہے کہ یہ آیہ شریفہ انسان اور ملائکہ کے درمیان موازنہ کرتی ھو، اس لحاظ سے“ کثیر” کے ظاہری معنی کرنے چاہئیے اوراس کی تاویل کی کوئی وجہ موجود نہیں ہے۔ علم بھی حکم کرتا ہے کہ یہ لفظ اپنے ظاہری معنی پر باقی رہنا چاہئیے، کیونکہ علمی انکشافات نے اس نظریہ کو باطل ثابت کیا ہے کہ زمین کائنات کا مرکز اور انسان عالم ھستی کی بر ترین مخلوق ہے۔ قرآن مجید بھی اس معنی کی تائید کرتا ہے اور ارشاد ھوتا ہے:“ «لَخَلْقُ السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ أَكْبَرُ مِنْ خَلْقِ النَّاسِ وَ لكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لا يَعْلَمُونَ»؛[11] “ بیشک زمین و آسمان کا پیدا کر دینا لوگوں کے پیدا کردینے سے کہیں زیادہ بڑا کام ہے لیکن لوگوں کی اکثریت یہ بھی نہیں جانتی ہے۔” اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ نظام ھستی میں انسان ایک خاص مقام کا مالک ہے، لیکن یہ انسان تمام مخلوقات پر فضیلت رکھنے والا نہیں ہے، بلکہ برترین مخلوقات میں سے ایک ہے۔ اس مطلب کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں اس سے بہتر کوئی دلیل نہیں ہے کہ انسان نظام ھستی کے بہت سے مسائل کے بارے میں لاعلم و بے خبر ہے، اس کے علاوہ اس کی ان تک پہنچ بھی نہیں ہے۔ حتی کہ انسان زمین کی مخلوقات کے بارے میں بہت سے مسائل سے بے خبر ہے، آسمانی مخلوقات کی بات ہی نہیں، جو مجردات کا حصہ ہیں۔ ظاہر ہے، کہ برتری کی ابتدائی ترین شرائط میں سے اپنے ماتحتوں پر تصرف کی طاقت رکھنا ہے۔[12]
اسی سلسلہ میں بعض مفسرین کہتے ہیں کہ، انسان کا فرشتوں سے موازنہ کرنا نوعی موازنہ ہے، یعنی فرشتوں کی نوع انسان کی نوع سے برتر ہے اور اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بنی آدم میں سے خاص افراد فرشتوں پر برتر نہیں ھوسکتے ہیں، لہذا ہم انبیاء علیہم السلام ار اولیائے الہی کو فرشتوں سے برتر جانتے ہیں اور اسی وجہ سے فرشتوں کو ماموریت ملی ہے کہ آدم ﴿ع﴾ کے لئے سجدہ کریں اور اس کی تعظیم و تکریم کریں۔[13] اس بناپر متکلمین کے درمیان جو مشہور بحث پائی جاتی ہے، کہ کیا انسان برتر ہیں یا ملائکہ، اس سلسلہ میں صحیح نظریہ یہ ہے کہ ملائکہ کی نوع، انسان کی نوع سے برتر ہے، لیکن بعض انسان کمال کے ایک ایسے مرحلہ پر پہنچتے ہیں کہ ملائکہ سے برتر بن جاتے ہیں۔
البتہ ایک گروہ کا اعتقاد ہے کہ بعید نہیں ہے «ممن خلقنا» ﴿ جن کو ہم نے پیدا کیا ہے﴾ سے مراد، با شعور حیوانات کی انواع اور جنات ھو کہ قرآن مجید نے اسے ثابت کیا ہے۔ اور یہ احتمال آیہ شریفہ کے معنی کے مطابق ہے، کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ زیر بحث آیہ شریفہ کا مقصد ان جہات کا بیان ہے کہ خداوند متعال نے انسان کی تکریم کی ہے اور اس عالم کی بہت سی مخوقات پر برتری دی ہے، اور یہ مخلوقات، جہاں تک ہم جانتے ہیں، حیوانات اور جنات ہیں۔ لیکن چونکہ فرشتے مادی عالم کے نظام سے تعلق نہیں رکھتے ہیں، لہذا انھیں ہم اس آیہ شریفہ میں شامل نہیں کرسکتے ہیں۔[14]
اس بنا پر، اس گروہ کے اعتقاد کے مطابق، اس آیہ شریفہ کے معنی یہ ھوتے ہیں کہ ہم نے بنی آدم کو اپنی بہت سی مخلوقات، جو حیوان اور جنات ہیں، پر برتری دیدی ہے۔ لیکن باقی مخلوقات جو لفظ“ کثیر” ﴿بہت﴾ کے مقابلے میں ملائکہ کے مانند قرار پاتے ہیں، اس بحث سے خارج ہیں، کیونکہ وہ نوری اور غیر مادی مخلوقات ہیں اور اس عالم کے نظام میں شامل نہیں ہیں، اور آیہ شریفہ اگر چہ انسان کے بارے میں بحث کرتی ہے، لیکن اس لحاظ سے اس پر بحث کی جاتی ہے کہ انسان عالم مادی کی مخلوقات میں سے ایک ہے جس کی خداوند متعال نے اپنی نعمتوں سے تکریم کی ہے۔
یہ آیہ شریفہ، وجود مادی کے لحاظ سے انسانی کمال پر ناظر ہے اور یہ تکریم و فضیلت دوسری مخلوقات کے موازنہ میں ہے۔ اس بنا پر ملائکہ ، چونکہ اس دنیا کی مادی نعمتوں کے نظام سے خارج ہیں، لہذا اس بحث سے خارج ہیں۔
خلاصہ یہ کہ، انسان کی بہت سی مخلوقات پر برتری اور فضیلت، اس عالم کی مخلوقات پر برتری ہے، نہ فرشتوں پر چونکہ فرشتے بنیادی طور پر ماد[15]ی وجود سے خارج ہیں ۔ لہذا یہ آیہ شریفہ انسان کی ملائکہ پر برتری کا کوئی نظریہ پیش نہیں کرتی ہے۔[16]
[1]. اسراء، 70.
[2]. مؤمنون، 14.
[3] ۔ جعفری، یعقوب، كوثر، ج 6، ص 330، بیجا، بیتا.
[4] ۔ طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البيان في تفسير القرآن، ج 6، ص 662، ناصر خسرو، تهران، چاپ سوم، 1372ش.
[5]. شعراء، 223.
[6] ۔ فيض كاشانى، ملا محسن، تفسير الصافي، تحقيق، اعلمی، حسين، ج 3، ص 205، الصدر، تهران، چاپ دوم، 1415ق.
[7]. طوسى، محمد بن الحسن، الأمالي، النص، ص 489، دار الثقافة، قم، طبع اول، 1414ق.
[8] ۔ ابن كثير دمشقى، اسماعيل بن عمرو، تفسير القرآن العظيم، تحقيق، شمس الدين، محمد حسين، ج 5، ص 89، دار الكتب العلمية، منشورات محمد على بيضون، بيروت، طبع اول، 1419ق.
[9] ۔ ابن عربى، ابو عبدالله محيى الدين محمد، تفسير ابن عربي، تحقيق، سمير مصطفى، رباب، ج 1، ص 383، دار احياء التراث العربى، بيروت، طبع اول، 1422ق.
[10] ۔ بيضاوى، عبدالله بن عمر، أنوار التنزيل و أسرار التأويل، ج 3، ص 262، دار احياء التراث العربى، بيروت، 1418ق؛ حقى بروسوى، اسماعيل، تفسير روح البيان، ج 5، ص 185، دارالفكر، بيروت، بىتا؛ زمخشرى، محمود، الكشاف عن حقائق غوامض التنزيل، ج 2، ص 680، دار الكتاب العربي، بيروت، 1407ق؛ ثعلبى نيشابورى، ابو اسحاق احمد بن ابراهيم، الكشف و البيان عن تفسير القرآن، ج 6، ص 115، دار إحياء التراث العربي، بيروت، طبع اول، 1422ق.
[11]. غافر، 57.
[12] ۔ مغنیه، محمد جواد، تفسير الكاشف، ج 5، ص 67، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع اول، 1424ق.
[13] ۔ فخرالدين رازى، ابوعبدالله محمد بن عمر، مفاتيح الغيب، ج 21، ص 375، دار احياء التراث العربى، بيروت، طبع سوم، 1420ق.
[14] ملاحظہ ھو:۔برتری و فضیلت پیامبران و ائمه بر فرشتگان، ۳۳۴۸۲؛ مرتبط: برتری انسان بر موجودات دیگر، ۷۷۱.
[15] ۔ طباطبائی، سید محمد حسین، الميزان في تفسير القرآن، ج 13، ص 157- 158، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1417ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے