Please Wait
کا
18263
18263
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2012/04/18
سوال کا خلاصہ
قرآن مجید کے مطابق انسان کی کن طریقوں سے آزمائش کی جاتی ہے؟
سوال
قرآن مجید کے مطابق انسان کی کن طریقوں سے آزمائش کی جاتی ہے؟
ایک مختصر
خداوند متعال قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:" میں نے انسانوں کو پیدا کیا ہے تاکہ ان کی آزمائش کروں کہ، ان میں سے کون بہتر عمل انجام دیتا ہے- خدا کی آزمائش و امتحان کا مفہوم، ہماری آزمائشوں سے مختلف ہے- ہماری آزمائشیں زیادہ تر پہچان حاصل کرنے اور ابہامات اور جہالت کو دور کرنے کے لئے ھوتی ہیں- لیکن خدا کی آزمائش حقیقت میں وہی" پرورش و تربیت" ہے، یعنی خداوند متعال کی آزمائش و امتحان میں تربیت، پرورش اور کمال حاصل کرنے کا زمینہ پایا جاتا ہے-
خداوند متعال انسانوں کی طاقت کے مطابق مختلف طریقوں سے ان کا امتحان لیتا ہے- کبھی مشکلات اور سختیوں کے ذریعہ، کبھی خیر و شر کے طریقے سے اور کبھی مال و سرمایہ اور اولاد کی فراوانی سے اور کبھی مصیبتوں وغیرہ سے امتحان لیتا ہے-
خداوند متعال انسانوں کی طاقت کے مطابق مختلف طریقوں سے ان کا امتحان لیتا ہے- کبھی مشکلات اور سختیوں کے ذریعہ، کبھی خیر و شر کے طریقے سے اور کبھی مال و سرمایہ اور اولاد کی فراوانی سے اور کبھی مصیبتوں وغیرہ سے امتحان لیتا ہے-
تفصیلی جوابات
الہی آزمائش کا مفہوم:
جس چیز کو اردو زبان میں " آزمائش" اور " آزمانا" کہا جاتا ہے، وہ چیز قرآن مجید میں مختلف الفاظ میں آئی ہے- مثال کے طور پر" ابتلاء" " بلاء" " فتنہ، اور تمحیص" خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ میں نے انسانوں کو پیدا کیا تاکہ ان کی آزمائش کروں کہ ان میں سے کون بہتر عمل انجام دیتا ہے- اور ارشاد فرماتا ہے:" اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں احسن عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے-"[1] خداوند متعال کی طرف سے آزمائش اور امتحان کا ہماری آزمائش اور امتحان سے کافی فرق ہے- ہماری آزمائش زیادہ تر پہچان حاصل کرنے اور ابہامات اور جہالت کو دور کرنے کے لئے ھوتی ہے-[2] لیکن خداوند متعال کی آزمائش و امتحان میں تربیت، پرورش اور کمال حاصل کرنے کا زمینہ پایا جاتا ہے- اور وہ پرورش اور کمال کو انسانوں کے لئے وجود میں لاتا ہے، چنانچہ حضرت ابراھیم (ع) جیسے انبیائے الہی سخت اور ناقابل برداشت آزمائشوں اور امتحانات کے بعد ہی عالی ترین مقامات پر فائز ھوئے ہیں-[3]
قرآن مجید میں الہی آزمائشوں کے نمونے:
خداوند متعال کی طرف سے انسانوں کی آزمائش سنت الہی ہے-
قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا- بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں"-[4]
کبھی خداوند ایک عمومی امتحان کا نام لیتا ہے جو خدا کے تمام بندوں سے متعلق ھوتا ہے، اور ارشاد فرماتا ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا-"[5]
کبھی قرآن مجید کچھ خاص امتحانات کے ایک سلسلہ سے پردہ اٹھاتا ہے جو بعض خاص افراد اور گروہوں کے بارے میں تھے، اور یہ موضوع پیغمبروں اور ان کی قوموں کی داستانوں کے مانند قرآن مجید کی کچھ داستانوں اور قصوں پر مشتمل ہے-
قرآن مجید میں عام امتحانات کے بارے میں آیات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے- ہم ذیل میں قرآن مجید میں الہی امتحانات میں سے بعض کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1-مشکلات اور سختیاں:
خداوند متعال مشکلات اور سختیوں کے ذریعہ انسانوں کا امتحان لیتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے:" اور ہم یقینا تمھیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبران صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں-"[6]
مشکلات اور دشواریاں بھٹی کے مانند ہیں جولو ہے کو مضبوطی اور استقامت بخشتی ہے، اور انسان بھی مشکلات اور حوادث کی بھٹی میں قوی اور طاقتور بن جاتا ہے اور اس میں اپنی زندگی اور سعادت کی راہوں کی رکاوٹوں کو ہٹانے کی طاقت پیدا ھوتی ہے- بلا اور مصیبتوں میں تربیت کا اثر ھوتا ہے اور یہی مصیبتیں فرد کو تربیت کرتی ہیں اور معاشرہ کو بیدار کرتی ہیں- سختیاں خفتہ انسانوں کو بیدار کرنے والی اور ان کے عزم ا ور ارادوں کو متحرک کرنے والی ھوتی ہیں – مصائب ، آہن و فولاد کی جلا کے مانند زیادہ تر انسان کی روح سے رابطہ رکھتے ہیں، اور افراد کو مصمم تر فعال تر اور مضبوط تر بناتے ہیں، کیونکہ حیات کی خاصیت یہ ہے کہ سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں مقاومت کرے اور ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ھو جائے، سختی کیمیا کے مانند ماہیت کو تبدیل کرنے کی خاصیت رکھتی ہے اور انسان کی جان اور روح میں تبدیلی پیدا کرتی ہے-[7]
2- برائی اور اچھائی:
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے کہ:" اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے-"[8] پس اچھائیاں بھی امتحان کا سبب بن سکتی ہیں، مثال کے طور پر کسی کومال و دولت یا کوئی ایسی مسئولیت ملتی ہے، جو اس کی عزت و آبرو میں اضافہ ھونے کا سبب بنتی ہے اور وہ شخص اس حالت سے بخوبی استفادہ نہیں کرتا ہے اور شیطان اسے گمراہ کرتا ہے-
3-نعمت کی فراوانی:
خداوند متعال کے امتحانات ہمیشہ سخت حوادث و مشکلات کے ذریعہ ہی نہیں ھوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی خداوند متعال اپنے بندوں کا نعمتوں کی فراوانی اور کامیا بیوں سے بھی امتحان لیتا ہے-[9] چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید بقول حضرت سلیمان (ع) ارشاد فرماتا ہے: " یہ میرے پرور دگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چاہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ھوں یا کفران نعمت کرتا ھوں اور جو شکریہ ادا کرے گا وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کرے گا اور جو کفران نعمت کرے گا اس کی طرف سے میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے-"[10]
جو لوگ نعمتوں میں غرق ھوتے ہیں اور ہر اعتبار سے انھیں مادی وسائل اور امکانات مہیا ھوتے ہیں، ان کا امتحان یہ ہے کہ ان حالات میں وہ نعمتوں کا شکریہ بجا لانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں یا نہیں اور محتاجوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں یا غفلت، غرور اور خود خواہی میں غرق ھوتے ہیں ؟
4- اولاد:
قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" اور جان لو کہ یہ تمھاری اولاد اور تمھارے اموال ایک آزمائش ہیں"-[11]
5- ایمان و کفر:
قرآن مجید جہنم کے نگہبانوں اور ان کی تعداد کے بارے میں یاد دہانی کراتا ہے کہ انیس(19) فرشتے جہنم کی حفاظت اور نگہبانی کرتے ہیں، اور اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ یہ رپورٹ ان لوگوں کے لئے امتحان و آزمائش کا وسیلہ ہے، جو غیب اور پوشیدہ امور کے بارے میں قوی ایمان رکھتے ہیں، وہ اس رپورٹ کو صمیم قلب سے قبول کرتے ہیں- لیکن دوسرے گروہ کے لوگ اس کی تردید کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد ھوتا ہے:" اور ہم نے جہنم کا نگہبان صرف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور ان کی تعداد (19) کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے-"[12]
6- زمین کی زینت:
قرآن مجید ایک جگہ پر، جو کچھ زمین پر قرار پایا ہے، اسے امتحان کا سبب جانتا ہے، اور اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے-"[13]
جس چیز کو اردو زبان میں " آزمائش" اور " آزمانا" کہا جاتا ہے، وہ چیز قرآن مجید میں مختلف الفاظ میں آئی ہے- مثال کے طور پر" ابتلاء" " بلاء" " فتنہ، اور تمحیص" خداوند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ میں نے انسانوں کو پیدا کیا تاکہ ان کی آزمائش کروں کہ ان میں سے کون بہتر عمل انجام دیتا ہے- اور ارشاد فرماتا ہے:" اس نے موت و حیات کو اس لئے پیدا کیا ہے تاکہ تمھاری آزمائش کرے کہ تم میں احسن عمل کے اعتبار سے کون بہتر ہے اور وہ صاحب عزت بھی ہے اور بخشنے والا بھی ہے-"[1] خداوند متعال کی طرف سے آزمائش اور امتحان کا ہماری آزمائش اور امتحان سے کافی فرق ہے- ہماری آزمائش زیادہ تر پہچان حاصل کرنے اور ابہامات اور جہالت کو دور کرنے کے لئے ھوتی ہے-[2] لیکن خداوند متعال کی آزمائش و امتحان میں تربیت، پرورش اور کمال حاصل کرنے کا زمینہ پایا جاتا ہے- اور وہ پرورش اور کمال کو انسانوں کے لئے وجود میں لاتا ہے، چنانچہ حضرت ابراھیم (ع) جیسے انبیائے الہی سخت اور ناقابل برداشت آزمائشوں اور امتحانات کے بعد ہی عالی ترین مقامات پر فائز ھوئے ہیں-[3]
قرآن مجید میں الہی آزمائشوں کے نمونے:
خداوند متعال کی طرف سے انسانوں کی آزمائش سنت الہی ہے-
قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا- بیشک ہم نے ان سے پہلے والوں کا بھی امتحان لیا ہے اور اللہ تو بہرحال یہ جاننا چاہتا ہے کہ ان میں کون لوگ سچے ہیں اور کون جھوٹے ہیں"-[4]
کبھی خداوند ایک عمومی امتحان کا نام لیتا ہے جو خدا کے تمام بندوں سے متعلق ھوتا ہے، اور ارشاد فرماتا ہے:" کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دئے جائیں گے کہ وہ یہ کہدیں کہ ہم ایمان لائے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ھوگا-"[5]
کبھی قرآن مجید کچھ خاص امتحانات کے ایک سلسلہ سے پردہ اٹھاتا ہے جو بعض خاص افراد اور گروہوں کے بارے میں تھے، اور یہ موضوع پیغمبروں اور ان کی قوموں کی داستانوں کے مانند قرآن مجید کی کچھ داستانوں اور قصوں پر مشتمل ہے-
قرآن مجید میں عام امتحانات کے بارے میں آیات کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ ان سب کا یہاں ذکر کرنا ممکن نہیں ہے- ہم ذیل میں قرآن مجید میں الہی امتحانات میں سے بعض کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کرتے ہیں:
1-مشکلات اور سختیاں:
خداوند متعال مشکلات اور سختیوں کے ذریعہ انسانوں کا امتحان لیتا ہے، جیسا کہ ارشاد فرماتا ہے:" اور ہم یقینا تمھیں تھوڑے خوف تھوڑی بھوک اور اموال، نفوس اور ثمرات کی کمی سے آزمائیں گے اور اے پیغمبران صبر کرنے والوں کو بشارت دیدیں-"[6]
مشکلات اور دشواریاں بھٹی کے مانند ہیں جولو ہے کو مضبوطی اور استقامت بخشتی ہے، اور انسان بھی مشکلات اور حوادث کی بھٹی میں قوی اور طاقتور بن جاتا ہے اور اس میں اپنی زندگی اور سعادت کی راہوں کی رکاوٹوں کو ہٹانے کی طاقت پیدا ھوتی ہے- بلا اور مصیبتوں میں تربیت کا اثر ھوتا ہے اور یہی مصیبتیں فرد کو تربیت کرتی ہیں اور معاشرہ کو بیدار کرتی ہیں- سختیاں خفتہ انسانوں کو بیدار کرنے والی اور ان کے عزم ا ور ارادوں کو متحرک کرنے والی ھوتی ہیں – مصائب ، آہن و فولاد کی جلا کے مانند زیادہ تر انسان کی روح سے رابطہ رکھتے ہیں، اور افراد کو مصمم تر فعال تر اور مضبوط تر بناتے ہیں، کیونکہ حیات کی خاصیت یہ ہے کہ سختیوں اور مشکلات کے مقابلے میں مقاومت کرے اور ان کے ساتھ مقابلہ کرنے کے لئے آمادہ ھو جائے، سختی کیمیا کے مانند ماہیت کو تبدیل کرنے کی خاصیت رکھتی ہے اور انسان کی جان اور روح میں تبدیلی پیدا کرتی ہے-[7]
2- برائی اور اچھائی:
چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد الہی ہے کہ:" اور ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے-"[8] پس اچھائیاں بھی امتحان کا سبب بن سکتی ہیں، مثال کے طور پر کسی کومال و دولت یا کوئی ایسی مسئولیت ملتی ہے، جو اس کی عزت و آبرو میں اضافہ ھونے کا سبب بنتی ہے اور وہ شخص اس حالت سے بخوبی استفادہ نہیں کرتا ہے اور شیطان اسے گمراہ کرتا ہے-
3-نعمت کی فراوانی:
خداوند متعال کے امتحانات ہمیشہ سخت حوادث و مشکلات کے ذریعہ ہی نہیں ھوتے ہیں، بلکہ کبھی کبھی خداوند متعال اپنے بندوں کا نعمتوں کی فراوانی اور کامیا بیوں سے بھی امتحان لیتا ہے-[9] چنانچہ اس سلسلہ میں قرآن مجید بقول حضرت سلیمان (ع) ارشاد فرماتا ہے: " یہ میرے پرور دگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چاہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ھوں یا کفران نعمت کرتا ھوں اور جو شکریہ ادا کرے گا وہ اپنے ہی فائدے کے لئے کرے گا اور جو کفران نعمت کرے گا اس کی طرف سے میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے-"[10]
جو لوگ نعمتوں میں غرق ھوتے ہیں اور ہر اعتبار سے انھیں مادی وسائل اور امکانات مہیا ھوتے ہیں، ان کا امتحان یہ ہے کہ ان حالات میں وہ نعمتوں کا شکریہ بجا لانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں یا نہیں اور محتاجوں اور فقیروں کی مدد کرتے ہیں یا غفلت، غرور اور خود خواہی میں غرق ھوتے ہیں ؟
4- اولاد:
قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے:" اور جان لو کہ یہ تمھاری اولاد اور تمھارے اموال ایک آزمائش ہیں"-[11]
5- ایمان و کفر:
قرآن مجید جہنم کے نگہبانوں اور ان کی تعداد کے بارے میں یاد دہانی کراتا ہے کہ انیس(19) فرشتے جہنم کی حفاظت اور نگہبانی کرتے ہیں، اور اس کے بعد ارشاد فرماتا ہے کہ یہ رپورٹ ان لوگوں کے لئے امتحان و آزمائش کا وسیلہ ہے، جو غیب اور پوشیدہ امور کے بارے میں قوی ایمان رکھتے ہیں، وہ اس رپورٹ کو صمیم قلب سے قبول کرتے ہیں- لیکن دوسرے گروہ کے لوگ اس کی تردید کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد ھوتا ہے:" اور ہم نے جہنم کا نگہبان صرف فرشتوں کو قرار دیا ہے اور ان کی تعداد (19) کو کفار کی آزمائش کا ذریعہ بنا دیا ہے-"[12]
6- زمین کی زینت:
قرآن مجید ایک جگہ پر، جو کچھ زمین پر قرار پایا ہے، اسے امتحان کا سبب جانتا ہے، اور اس سلسلہ میں ارشاد فرماتا ہے:" بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زمین کی زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے-"[13]
[1] - ملک، 2.
[2] - مکارم شیرازی، ناصر، تفسير نمونه، ج 1، ص 527، دارالکتب الاسلامیة، طبع بیست و یکم، 1365 شمسی.
[3] - بقره، 124. "وَ إِذِ ابْتَلى إِبْراهيمَ رَبُّهُ بِكَلِماتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قالَ إِنِّي جاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِماماً قالَ وَ مِنْ ذُرِّيَّتي قالَ لا يَنالُ عَهْدِي الظَّالِمينَ".
[4] - عنکبوت، 3و2.
[5] - عنکبوت، 2.
[6] - بقره، 155.
[7] - سوال نمبر 2056 (سائٹ: 2418) کے عنوان کا اقتباس-
[8] - انبیاء، 35.
[9] - تفسير نمونه، ج 1، ص 533.
[10] - نمل، 40.
[11] - انفال، 28.
[12] - مدثر،31.
[13] - كهف، 7.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے