Please Wait
8205
بعض بڑے شیعہ فقہا کے مطابق، ولایت فقیہ کی اصل پر اتفاق نظر یا کم از کم قریب بہ اتفاق فقہا کی طرف سے ولایت فقیہ قابل قبول ہے[i]۔ اس سلسلہ میں بنیادی اختلاف، وہ بھی خاص کر حالیہ صدیوں کے دوران، ولی فقیہ کے اختیارات کے قلمرو اور اس کو ثابت کرنے کے سلسلہ میں ہے۔
امام خمینی{رح} کا اس بات پر اصرار ہے کہ، جن ادلہ سے امام معصوم{ع} کی امامت کے باب میں استفادہ کیا جاتا ہے، غیبت کے زمانہ میں بھی وہی ادلہ حاکم کو نصب کرنے اور حکومت تشکیل دینے کا استدلال پیش کرتی ہیں[ii]۔
اس فرض کی بنا پر امام معصوم{ع} کی طرف سے سفارش کیے گیے مراجع اور فقہا کے نظریات پر توجہ کیے بغیر امام معصوم{ع} کی پیروی کا دعویٰ نہیں کیا جا سکتا ہے۔
[i]. هادوی تهرانی، مهدی، ولایت و دیانت، ص 94-66، مؤسسۀ فرهنگی خانۀ خرد، قم، طبع پنجم، بهار 1389 هـ ش.{اشارہ شدہ صفحات " پیشینہ تاریخی ولایت فقیہ" کے عنوان سے ہے اور اس میں مختلف زمانوں کے مشہور فقہا کے نظریات بیان کیے گیے ہیں}
[ii]. امام خمینی، البیع، ج2، ص462-461، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1415 هـ.
اسلامی اعتقادات میں ولایت فقیہ [1] کا مقام:
"اسلامی ثقافت میں، معاشرہ کے لیے سربراہ کے ہونے کی ضرورت کے پیش نظر ، کوئی شخص بذات خود اس قسم کے امر کا حق نہیں رکھ سکتا ہے، یہ اختیار اور حق صرف خداوندمتعال کو ہے کہ انسان سے متعلق سب کچھ اسی کے ہاتھ میں ہے اور یہی چیز اقتضا کرتی ہے کہ انسان کو خداوندمتعال کے اوامر و نواہی کا مطیع و فرمانبردار ہونا چاہئیے، اب اگر خداوندمتعال ہی ہم کو کسی خاص شخص یا گروہ کی اطاعت کرنے کا حکم دے اور پیشوائی اور قیادت کے لیے کچھ شرائط بیان کرے اور اس قسم کی شرائط کے مالک افراد میں سے کسی شخص کو معین کرنے کی ذمہ داری ہم پر ڈالے، تو اس صورت میں بھی ہم خدا کے ہی اطاعت کرنے والے ہوں گے۔ مسلمانوں کا ماضی سے حال تک اعتقاد رہا ہے کہ خداوندمتعال نے قیادت کی باگ ڈور رسول اکرم{ص} کو سونپی ہے اور اس کے بعد، اہل بیت {ع} کے پیرووں کے اعتقاد کے مطابق یہ ذمہ داری معصوم اماموں میں منتقل ہوئی ہے [2] ۔ " شیعوں کے اعتقاد کے مطابق، عصر غیبت میں، ولایت فقیہ ، معصوم اماموں[ع} کی ولایت کی ایک کڑی ہے، جس طرح ان کی ولایت نبی اکرم{ص} کی ولایت کی کڑی ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکتہ ہے کہ اسلامی معاشرہ کی سرپرستی اور اعلیٰ درجہ کی قیادت ایک اسلام شناس کے ہاتھ میں ہونی چاہئیے اگر معصوم حاضر ہو تو یہ ذمہ داری خود اسی پر ہوگی اور اگر حاضر نہ ہو تو یہ ذمہ داری فقہا پر ہوگی [3] ۔"
اس سلسلہ میں اکثر فقہا کی نظر میں ، حکومتی مسائل میں، فقیہ کو وہی اختیارات ہیں، جو معصوم کو ہوتے ہیں۔ البتہ متاخر فقہا میں سے بعض ولایت فقیہ کے اختیارات کو محدود تر جانتے ہیں اور ان اختیارات کے دائرے میں تمام حکومتی امور نہیں مانتے ہیں۔
مذکورہ مطالب کے پیش نظر مندرجہ ذیل نتیجہ حاصل کیا جا سکتا ہے:
۱۔ ولایت فقیہ، ایک فقہی مسئلہ ہے، اگرچہ شیعوں کے اکثر اور قریب بہ اتفاق فقہا اس کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن اسے اعتقادی اصول نہیں جانا جا سکتا ہے، کہ ہر شخص کو، اگرچہ مجتہد و محقق ہو، اس کو قبول نہ کرنے کی صورت میں مکتب تشیع سے خارج کیا جائے۔
۲۔ جن افراد نے ولایت فقیہ کے نظریہ کو قبول کیا ہے اور جانتے ہیں کہ موجودہ ولی فقیہ بھی شرعی اور قانونی طریقہ کو طے کرنے کے بعد اس منصب پر فائز ہوا ہے، وہ اس کی عملی طاقت کی نافرمانی نہیں کر سکتے ہیں۔
۳۔ ضمناً جو مسلمان ولایت فقیہ کا اعتقاد نہیں رکھتے ہیں اور یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ ولی فقیہ کے عنوان سے معاشرہ کی سرپرستی کرنے والے شخص میں اس کی شرائط نہیں پائی جاتی ہیں اور غیر مسلم ہم وطن ، جو بنیادی طور پر اسلام کو ہی قبول نہیں کرتے ہیں اور اس کے احکام کی پابندی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ہے، وہ اس نظریہ کا اعتقاد نہ رکھنے یا مصداق پر مفہوم کے عدم تطبیق کی وجہ سے ، ولایت فقیہ کی عملاً مخالفت نہیں کر سکتے ہیں، کیونکہ اس قسم کی مخالفت، آئین کی مخالفت شمار ہوگی اور ہم جانتے ہیں کہ آئین ایک قومی میثاق ہے، اور اس کی رعایت کرنا ضروری ہے، اگرچہ وہ اس کے اصولوں کو نظریاتی طور پر قبول کرنے یا اس پر اعتراض کرنے والے ہوں [4] ۔
اس سلسلہ میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لیے ، آپ حضرت آیت اللہ ہادوی تہرانی کی کتاب "ولایت و دیانت" کا مطالعہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ ولایت فقیہ کے سلسلہ میں کیے گیے مختلف سوالات کے جوابات کو آپ اسی ایڈرس پر مطالعہ کر سکتے ہیں
اس موضوع سے متعلق قابل مطالعہ دوسرے عناوین حسب ذیل ہیں:
1. سؤال 39 (سایٹ: 272) (ولایت فقیه و مرجعیت)
2. سؤال 1439 (سایٹ: 1445) (گسترۀ ولایت فقیه)
3. سؤال 8210 (سایٹ: ur8261) (ابعاد مدیریتی ولایت فقیه).
[1] . ولایت فقیہ اور ولایت مطلقہ فقیہ کےمعنی جاننے کے لیے ان سوالات کے عناوین ملاحظہ ہوں:3105 (سایت: 3370) مراجعه شود.
[2] هادوی تهرانی، مهدی، ولایت و دیانت، ص 59.
[3] ایضاً، ص 64-63.
[4] ایضاً، ص 129.