Please Wait
14683
دانیال نبی، ان پیغمبروں میں سے ہیں، جن کے نام کا اشارہ قرآن مجید میں ہوا ہے، لیکن ان کے بارے میں متعدد روایتیں ملتی ہیں[1]۔
اکثر روایات کے مطابق، دانیال نبی، بابل کے بخت النصر نامی ایک ظالم بادشاہ کے زمانہ میں زندگی گزارتے تھے اور اس بادشاہ کی طرف سے حضرت دانیال نبی{ع} کو اذیت و تکلیف پہنچائی جاتی تھی۔ جیسا کہ بعض تاریخی کتابوں میں آیا ہے کہ بخت النصر کو ایران کے بادشاہ کورش نے شکشت دی اور اس کی حکومت کو سرنگوں کیا۔ ایک تفسیر میں آیا ہے کہ: "جن مشہور ترین شہروں کو کورش نے فتح کیا، ان میں بابل بھی شامل تھا، جو ۵۳۸ قبل مسیح میں فتح کیا گیا ہے اور اس کے بعد یہود کی طرف رجوع کرنے کا حکم کیا گیا، جبکہ ستر سال تک بابل اسیری میں تھا اور سرکاری خزانہ سے کافی مال اس کی تعمیر نو کے لیے بخشا گیا اور حضرت دانیال اس وقت کورش کے دربار میں تھے[2]۔"
مذکورہ مطالب کے پیش نظر، کہا جا سکتا ہے کہ حضرت دانیال نبی تقریباً ۲۵۰۰ سے ۲۶۰۰ قبل مسیح میں زندگی گزارتے تھے۔ البتہ اس سلسلہ میں اور بھی تاریخی روایتیں ملتی ہیں، جن کے مطابق ان کی زندگی کا زمانہ حضرت یحییٰ {ع} کے بعد تھا، یعنی تقریباً ۲۰۰۰ سال قبل مسیح بیان کیا گیا ہے، کہ حضرت نوح {ع} جیسے انبیا کی طولانی عمر کے پیش نظر، ممکن ہے کہ حضرت دانیال نبی{ع} نے بھی لمبی عمر یعنی کئی سو سال کی عمر پائی ہو اور اس لحاظ سے اشارہ کی گئی دونوں روایتیں صحیح ہو سکتی ہیں[3]۔
حضرت دانیال نبی{ع} کے والدین کے بارے میں قابل ذکر بات ہے کہ ، بہت سے دوسرے انبیاء اور تاریخی شخصیتوں کے مانند ، مورخین کے لیے یہ موضوع زیادہ اہم نہ تھا جس کی وجہ سے ، اس سلسلہ میں کوئی خاص نظریہ پیش نہیں کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ مسلم بات ہے کہ حضرت دانیال{ع} بنی اسرائیل کے انبیاء اور حضرت یعقوب کی ذریت میں سے ہیں۔
بہرحال، اگرچہ اس پیغمبر الہٰی کو دوسرے انبیائے الہٰی ، جیسے حضرت نوح{ع}، حضرت ابراھیم{ع}، حضرت موسی{ع} اور حضرت عیسی{ع} کے مانند شہرت حاصل نہیں ہے، لیکن مملکت ایران میں ان کے مشہور ہونے کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ ان کا مرقد ایران کے ایک شہر میں ہے، جو ان سے ہی منسوب "شوش دانیال" کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت دانیال نبی{ع} کی شہرت کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بنی اسرائیل کی قوم کو ان کے ہی زمانہ میں فتحیابیوں اور ناکامیوں سے دوچار ہونا پڑا ہے، ان واقعات کی تفصیلات تفسیر اور روایتوں کی کتابوں میں درج ہیں[4]۔
[1]ملاحظہ ہو: مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 14، ص 351، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 ھ.
[2]بلاغی، سید عبدالحجة، حجة التفاسیر و بلاغ الإکسیر، ج 1، ص 204، انتشارات حکمت، قم، 1386 ق، به نقل از كتاب دانيال 6: 28.
[3] مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 14، ص 355.
[4]مثال کے طور پر ملاحظہ ہو: جزائری، سید نعمت الله، قصص الأنبیاء، ص 426، کتابخانه آیت الله مرعشی، قم، 1404 ھ.