Please Wait
8003
پیغمبر اسلام{ص} اور آپ {ص} کے اہل بیت {ع} کی دوستی، قرآن مجید کی تعلیمات اور رسول اکرم {ص} کی سفارشات پر مبنی ہے اور یہ شیعوں کا ایک اہم اعتقادی اصول ہے اور شیعوں میں سے کوئی فرد اس پر شک و شبہہ نہیں رکھتا ہے- اس سلسلہ میں ہم اعتقاد رکھتے ہیں کہ قیامت کے دن جس طرح نماز، روزہ اور زکوۃ وغیرہ کے بارے میں سوال ھوگا، اسی طرح اہل بیت{ع} کی ولایت اور ان کی محبت کے بارے میں بھی سوال کیا جائے گا، بلکہ یہ موضوع ، قیامت کے دن اہم سوالات میں سے ھوگا، کیونکہ یہ محبت، قرآن مجید کی صراحت کے مطابق پیغمبر اسلام {ص} کی طرف سے مسلمانوں سے اجر رسالت کے طور پر پہلی اور تنہا درخواست ہے-
البتہ جو شخص محب اہل بیت{ع} ہے، وہ کوشش کرتا ہے کہ حتی الامکان گناھوں سے پرہیز کرے اور نیک کردار سے اپنے آپ کو پروردگار کے قریب تر لائے اور اپنے کردار کو ائمہ اطہار {ع} کے مطابق قرار دے – اس قسم کا انسان امید رکھ سکتا ہے کہ غفلت کی وجہ سے مرتکب ھوئے اس کے گناہ اہل بیت {ع} کی محبت کی وجہ سے اور ان کی شفاعت سے پروردگار کی طرف سے بخش دئے جائیں گے-
آپ نے جس روایت کے بارے میں اشارہ کیا ہے وہ کتاب " اعیون اخبار رضا" سے کتاب " بحار الانوار" میں نقل کی گئی ہے اور اس کا متن حسب ذیل ہے: "قَالَ قَالَ النَّبِيُّ (ص): أَوَّلُ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ الْعَبْدُ حُبُّنَا أَهْلَ الْبَيْت"؛[1] پیغمبر اکرم {ص} نے فرمایا ہے:" پہلی چیز جس کے بارے میں سوال کیا جائے گا، ہم اہل بیت کی دوستی ہے"-
اس سلسلہ میں، مختصر صورت میں پیش کئے گئے مندرجہ ذیل نکات کا مطالعہ کرکے اس کا نتیجہ حاصل کیا جاسکتا ہے:
۱- قرآن مجید میں ایک ایسی آیت پائی جاتی ہے جس کی بنا پر پیغمبر اسلام {ص} نے اپنی رسالت کے بارے میں اہل بیت{ع} کی دوستی کے علاوہ کسی اجر کا تقاضا نہیں کیا ہے: "قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى".[2]
عام شیعوں نے اس آیت سے اہل بیت {ع} کی دوستی، تفسیر کی ہے ، اور اس قسم کی تفسیر کے بارے میں اہل سنت کی بہت سے روایتوں میں بھی اشارہ کیا گیا ہے، اس روایت کے مانند: لما نزلت هذه الآية قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى قالوا: يا رسول الله من هؤلاء الذين أمر الله بمودتهم؟ قال: فاطمة و ولدها عليهم السلام"؛[3]
ابن عباس نقل کرتے ہیں کہ اس آیت کے نازل ھونے کے بعد، صحابیوں نے پیغمبر اکرم {ص} سے پوچھا کہ اے پیغمبر؛ یہ افراد، جن کی دوستی کا خداوند متعال نے حکم دیا ہے، کون لوگ ہیں؟ آنحضرت {ص} نے جواب میں فرمایا: فاطمہ اور ان کے بیٹے؛
اس سلسلہ میں، اہل بیت {ع} کی ولایت اور ان کی محبت شیعوں کے اعتقادات کا ایک رکن شمار ھوتی ہے اور انھوں نے اس سلسلہ میں پیغمبر {ص} کی درخواست کا مثبت جواب دیا ہے-
۲- خدا، اس کے پیغمبر{ص} اور اہل بیت{ع} کی دوستی صرف زبانی نہیں ھونی چاہئے، بلکہ ان کے دستور کی پیروی بھی کی جانی چاہئے- خداوند متعال اپنے پیغمبر {ص} سے خطاب کرتے ھوئے فرماتا ہے:" اے پیغمبر؛ کہدیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا وہ تمھارے گناھوں کو بخش دے گا- - -"[4]
۳- اسی سلسلہ میں امام صادق {ع} فرماتے ہیں: قیامت کے دن جن امور کے بارےمیں پہلے سوال کئے جائیں گے وہ حسب ذیل ھوں گے: واجب نمازیں، واجب زکواۃ، واجب روزے، واجب حج اور ہم اہل بیت {ع} کی ولایت"-[5]
ان آیات کی بنا پر، محبت، اطاعت کا سبب بنتی ہے اور یہ دونوں چیزیں یعنی محبت اور اطاعت گناھوں کی بخشش کا سبب بنتی ہیں-
یہ روایت اور اس قسم کی دوسری روایتیں، دو اہم عناصر یعنی " ولایت" اور عمل صالح کے درمیان ایک قسم کی پیوستگی اور رابطہ کی نشانی ہے کہ:
۲-۱جو افراد، پیغمبر اکرم {ص} کے مقام و منزلت کو پہچانتے ہیں، اور اہل بیت{ع} کی دوستی کی ضرورت کو قرآن مجید اور پیغمبر اکرم {ص} کے ارشادات سے جانتے ہیں، لیکن اس کے باوجود، اس عظمت والے خاندان کی نسبت کینہ و حسد رکھتے ہیں اور ان کے دل اہل بیت[ع} کی محبت سے عاری ہیں، ان کے بظاہر نیک اعمال بھی قبول نہیں کئے جائیں گے، کیونکہ اس قسم کے اعمال، پاک نیت پر مبنی نہیں ہیں-
۳-۲ دوسری جانب، جو افراد بظاہر اہل بیت{ع} کی محبت کا دم بھرتے ہیں، لیکن عمل کے مقام پر ان کی سفارشات اور دستوروں کی نافرمانی کرتے ہیں، وہ بھی اہل بیت {ع} کے حقیقی دوست نہیں ہیں، کیونکہ جیسا کہ اشارہ کیا گیا، محبت کا مطلب اطاعت ہے-
۳-۳ اگر چہ آپ کے سوال میں اشارہ کی گئی روایت میں، اہل بیت{ع} کی محبت قیامت کے دن سوال ھونے والے موضوعات میں پہلا موضوع اعلان ھوا ہے، لیکن دوسری روایتوں کے پیش نظر اس کے معنی، یہ نہیں ہیں کہ دوسرے تمام اعمال کی کوئی اہمیت نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس، جیسا کہ امام صادق {ع} کی روایت میں صراحتا اعلان کیا گیا ہے کہ، اہل بیت کی ولایت اور محبت کے علاوہ، نماز، روزہ، زکواۃ اور حج بھی قیامت کے دن پوچھے جانے والے سوالات میں پہلے درجہ پر ھوں گے- قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس روایت میں بھی اور آپ کے سوال میں موجود روایت میں بھی عبارت "أَوَّلُ مَا يُسْأَلُ عَنْهُ الْعَبْدُ " سے استفادہ کیا گیا ہے-
آپ کے سوال کا سر انجام جواب یہ ہے کہ قیامت کے دن، اہل بیت {ع} کی محبت اور ولایت، نماز، روزہ اور زکواۃ وغیرہ جسے دوسرے اہم شرعی واجبات کی فہرست میں ان سے بالاتر درجہ پر واقع ھوں گی اور یہ موضوع قرآن مجید اور سنت کی تعلیمات کے مخالف نہیں ہے اور ہم شیعہ اس سلسلہ میں کسی قسم کا شک و شبہہ نہیں رکھتے ہیں-
[1] مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج 27، ص 79، ح 18، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 هـ .
[2] شوری، 23.
[3] ابن ابی حاتم، تفسیر القرآن العظیم، ج 10، ص 3277، ح 18477، مکتبة نزار مصطفی الباز، عربستان سعودی، مکة المکرمة ، 1419 هـ .
[4] آل عمران، 31، "قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُوني يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ وَ يَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحيم".
[5] حر عاملی، محمد بن الحسن، وسائل الشیعة، ج 4، ص 124، ح 4688،
پمؤسسة آل البیت، قم، 1409 هـ .