Please Wait
7458
جن شہروں کے بارے میں روایتوں میں کچھ فضیلتیں بیان کی گئی ہیں، ان میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، کربلا، کوفہ اور قم و غیرہ شامل ہیں-
قرآن مجید کی آیات اور روایات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ بہشت کے کئی دروازے ہیں، لیکن یہ دروازے ان دروازوں کے مانند نہیں ہیں، جو اس دنیا میں باغوں، محلوں اور گھروں میں داخل ھونے کے لئے ھوتے ہیں، بلکہ بہشت کے دروازے ان اعمال اور کارناموں کی طرف اشارہ ہیں جو بہشت میں داخل ھونے کا سبب بن جاتے ہیں-
شہر قم اور اس کے باشندوں کے لئے مخصوص دروازوں کی اہمیت کو اس شہر کے باشندوں کے ایمان، تقوی اور نیک اعمال کے علاوہ اس شہر میں پیغمبر اسلام {ص} کی ایک نواسی، حضرت معصومہ {ع} کے مرقد مطہر کا ھونا شمار کیا جاسکتا ہے-
ان روایات میں اہل قم کے بہشتی ھونے سے مراد، وہ مومنین اور نیک افراد ہیں جنھوں نے اس شہر میں موجود عبادت، فقاہت، اہل بیت{ع} کی دوستی اور محبت جیسے امکانات سے استفادہ کرکے بہشت کو حاصل کیا ہے- اسلام کے مطابق بہشت میں داخل ھونے کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے اور چونکہ ائمہ اطہار {ع} علم رکھتے تھے کہ اس شہر کے بہت سے لوگوں میں یہ خصوصیت ہے کہ وہ بہشت میں داخل ھوں گے، اسی لئے انھوں نے بیان فرمایا ہے کہ بہشت کے دروازوں میں سے ایک یا دو دروازے اہل قم سے مخصوص ہیں، لیکن یہ خصوصیت گروہی اور طبقاتی امتیاز کے معنی میں نہیں ہے-
دنیا کے شہروں میں، بعض شہروں کو برتری حاصل ہے، یہاں تک کہ مسلمانوں کے درمیان مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، قدس اور کربلا وغیرہ جیسے بعض شہر مقدس شہر شمار ھوتے ہیں اور روایتوں میں بیان کیا گیا ہے کہ ان شہروں میں عبادت، سکونت، انفاق اور حتی کہ مرنے کی خاص قدر و منزلت ہے- یہ برتری مکہ میں کعبہ کے ھونے ، مدینہ منورہ میں پیغمبر اسلام {ص} کی آرام گاہ کے ھونے اور کربلا میں امام حسین{ع} کے مرقد مطہر ھونے جیسے مختلف اور متعدد خصوصیات کی وجہ سے ہے- پیغمبر اکرم {ص} اور ائمہ اطہار {ع} نے ان شہروں کی بعض فضیلتوں کو بیان فرمایا ہے- جن شہروں کے بارے میں روایتوں میں فضائل بیان کئے گئے ہیں، ان میں مکہ مکرمہ، مدینہ منورہ، کربلا، کوفہ اور قم وغیرہ کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے-
قرآن مجید کی آیات اور روایات سے بخوبی معلوم ھوتا ہے کہ بہشت کے کئی دروازے ہیں، لیکن متعدد دروازوں کا ھونا اس لئے نہیں ہے کہ بہشت میں داخل ھونے والےاگر ایک ہی دروازہ سے داخل ھوں گے تو ان کے لئے کوئی مشکل پیش آئے گی، نہ اس لئے ہے کہ ایک قسم کا گروہی اور طبقاتی امتیاز برتا جائے گا کہ ہر گروہ کسی خاص دروازہ سے داخل ھوگا، نہ راہ کے نزدیک یا دور ھونے کا سبب ہے اور متعدد دروازہے اس لئے بھی نہیں ہیں کہ ان سے بہشت کی زیبائی اور تنوع معلوم ہوجائے، حقیقت میں بہشت کے دروازے، دنیا کے ان دروازوں کے مانند نہیں ہیں، جو باغوں، محلوں، اور گھروں میں داخل ھونے کے لئے ھوتے ہیں، بلکہ یہ دروازے ان اعمال اور کارناموں کی طرف اشارہ ہیں کہ جو بہشت میں داخل ھونے کا سبب بن جاتے ہیں- اس لئے ہم بعض روایتوں میں پڑھتے ہیں کہ :" بہشت کے مختلف ناموں سے کئی دروازے ہیں، من جملہ: ایک دروازہ " باب المجاہدین" کے نام سے مشہور ہے- حضرت امام باقر{ع} سے ایک حدیث نقل کی گئی ہے کہ فرماتے ہیں:" جان لو کہ بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اور ان دروازوں میں سے ہر ایک دروازہ کی چوڑائی، چالیس سال راہ کے برابر ہے"-[1] یہ بذات خود اس بات کی علامت ہے کہ اس قسم کے دروازے سے مراد اس مفہوم سے وسیع تر ہے جو روز مرہ تعبیرات میں کہا جاتا ہے-[2] اس بنا پر کہنا چاہئے کہ بہشت کے دروازوں سے مراد، بہشت میں داخل ھونے اور وہاں تک پہنچنے کے اسباب و وسائل ہیں- بعض مفسرین نے فرمایا ہے کہ کہا جاتا ہے کہ جہنم کے سات دروازے اور بہشت کے آٹھ دروازے ہیں – یہ رحمت اور عذاب و غضب کے متعدد اسباب کے بارے میں اشارہ ہے اور یہاں پر عدد کثرت کے لئے آیا ہے {اس سے مراد ۱+۶=۷ یا۱+۷=۸ نہیں ہے} اس بنا پر کہنا چاہئے کہ یہ جو روایتوں میں آیا ہے کہ بہشت کے دروازے بعض شہروں کے باشندوں سے مخصوص ہیں، اس سے مراد ان شہروں کے باشندوں کے لئے بہشت میں داخل ھونے کے اسباب مہیا ھونا ہیں-
امام رضا {ع} نے شہر قم اور اس کے ساکنوں کی اہمیت کے بارے میں فر مایا ہے:" بہشت کے آٹھ دروازے ہیں، ان دروازوں میں سے ایک دروازہ اہل قم کے لئے ہے کہ وہ دوسرے شہروں کی بہ نسبت ہمارے بہترین شیعہ ہیں- - -[3]
جیسا کہ اس روایت میں آیا ہے کہ، شہر قم کی اہمیت کو اس شہر کے ساکنوں کے تقوی، نیک اعمال اور اس کے علاوہ پیغمبر اکرم {ص} کی ایک نواسی ، حضرت فاطمہ معصومہ{ع} کی زیارت گاہ کے وجود کا سبب شمار کیا جا سکتا ہے-
امام صادق {ع} فرماتے ہیں:" اہل قم پر خداوند متعال کا درود و سلام ھو، خداوند متعال ان کے شہر کو بارش سے سیراب فرمائے اور اس پر اپنی برکتیں نازل فرمائے اور ان کے گناھوں کو حسنات میں تبدیل فرمائے کیونکہ وہ اہل رکوع، سجود، قیام و عبادت ہیں- وہ فقیہ اور با فہم دانشور ہیں اور اہل روایت اور حدیث کی درایت{ فہم} رکھنے والے ہیں-[4]
لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ اس شہر کے تمام افراد صالح اور مکمل تقوی والے ہیں- بلکہ جس طرح مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ جیسے مقدس ترین شہروں میں، پیغمبر اکرم {ص} کے زمانہ میں بھی بدترین اور شر پسند ترین افراد اور مشرک و منافق زندگی بسر کرتے تھے، اسی طرح شہر قم اور دوسرے مقدس شہروں میں بھی اچھے اور برے افراد اور مومن و کافر موجود ہیں- اس بنا پر روایت میں اہل قم کے بہشتی ھونے سے مراد وہ مومنین اور نیک انسان ہیں جنھوں نے اس شہر میں موجود عبادت ، فقاہت، اہل بیت کی دوستی اور محبت جیسے امکانات سے استفادہ کرکے بہشت کو حاصل کیا ہے- اس کے علاوہ اہل قم کی تجلیل بیان کرنے کی وجہ سے معلوم ھوتا ہے کہ یہ خصوصیات جس انسان میں بھی پائی جاتی ھوں وہ اہل بہشت ھوگا اگر چہ وہ قم میں زندگی نہ بسر کرتا ھو اور اس کی رہائش اور سکونت کی جگہ اس شہر سے ہزاروں کلو میٹر دور بھی ھو- بہرحال اسلام کے مطابق بہشت میں داخل ھونے کا معیار ایمان اور عمل صالح ہے، اور چونکہ ائمہ اطہار {ع} کو علم تھا کہ اس شہر کے بہت سے لوگ ان خصوصیات کے مالک ہیں جو بہشت میں داخل ھوں گے، اس لئے فرمایا ہے کہ بہشت کا ایک یا تین دروازے اہل قم سے متعلق ہیں-
بہشت کے دروازوں کی تعداد اور ان کی خصوصیات کے بارے میں مزید آگاہی حاصل کرنے کے لئے ہماری اسی سایٹ کے سوال: ۱۴۴۴{سائٹ: ۱۴۶۶} کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
[1] . خصال صدوق- ابواب الثمانية.:"و اعلموا ان للجنة ثمانية ابواب عرض كل باب منها مسيرة اربعين سنة"
[2] مکارم شیرازی،ناصر، تفسير نمونه، ج10، ص: 194
[3] بحارالأنوار ج : 57 ص : 216،حدیث 39- وَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عِيسَى عَنْ عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ الرَّبِيعِ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ يَحْيَى بَيَّاعِ السَّابِرِيِّ قَالَ كُنْتُ يَوْماً عِنْدَ أَبِي الْحَسَنِ ع فَجَرَى ذِكْرُ قُمَّ وَ أَهْلِهِ وَ مَيْلِهِمْ إِلَى الْمَهْدِيِّ ع فَتَرَحَّمَ عَلَيْهِمْ وَ قَالَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ ثُمَّ قَالَ إِنَّ لِلْجَنَّةِ ثَمَانِيَةَ أَبْوَابٍ وَ وَاحِدٌ مِنْهَا لِأَهْلِ قُمَّ وَ هُمْ خِيَارُ شِيعَتِنَا مِنْ بَيْنِ سَائِرِ الْبِلَادِ خَمَّرَ اللَّهُ تَعَالَى وَلَايَتَنَا فِي طِينَتِهِمْ
[4] بحارالأنوار ج : 57 ص : 217،حدیث46 ،. 46- وَ عَنْ سَهْلِ بْنِ زِيَادٍ عَنْ عَلِيِّ بْنِ إِبْرَاهِيمَ الْجَعْفَرِيِّ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ الْفُضَيْلِ عَنْ عِدَّةٍ مِنْ أَصْحَابِهِ عَنِ الصَّادِقِ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ع قَالَ إِنَّ لَعَلَى قُمَّ مَلَكاً رَفْرَفَ عَلَيْهَا بِجَنَاحَيْهِ لَا يُرِيدُهَا جَبَّارٌ بِسُوءٍ إِلَّا أَذَابَهُ اللَّهُ كَذَوْبِ الْمِلْحِ فِي الْمَاءِ ثُمَّ أَشَارَ إِلَى عِيسَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ فَقَالَ سَلَامُ اللَّهِ عَلَى أَهْلِ قُمَّ يَسْقِي اللَّهُ بِلَادَهُمُ الْغَيْثَ وَ يُنْزِلُ اللَّهُ عَلَيْهِمُ الْبَرَكَاتِ وَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئاتِهِمْ حَسَناتٍ هُمْ أَهْلُ رُكُوعٍ وَ سُجُودٍ وَ قِيَامٍ وَ قُعُودٍ هُمُ الْفُقَهَاءُ الْعُلَمَاءُ الْفُهَمَاءُ هُمْ أَهْلُ الدِّرَايَةِ وَ الرِّوَايَةِ وَ حُسْنِ الْعِبَادَةِ.