Please Wait
9371
معصومین {ع} کی دعائیں اور طلب مغفرت، گناھوں کی وجہ سے نہیں ھوتی ہیں، کیونکہ شیعوں کے اعتقاد کے مطابق وہ گناھوں سے پاک و معصوم ہیں- یہ دعائیں بہت سے مواقع پر صرف تربیتی اور دکھاوے کا پہلو نہیں رکھتی ہیں، بلکہ ان کا حقیقی پہلو برتر ھوتا ہے-
مذکورہ دو مطالب کا نتیجہ یہ ہے کہ ان کا استغفار ان موارد کے بارے میں تھا، جو ہمارے لئے گناہ نہیں ہے- لیکن ان کے لئے گناہ شمار ھوتے تھے-
اگر چہ، اس استدلال کے پیش نظر ہم معتقد ھو جائیں کہ اس قسم کے گناہ، جنھیں " ترک اولی" کہا جاتا ہے، معصومین کے لئے ممکن ہے، تو آپ کے سوال کا جواب مثبت ھوگا، لیکن معصومین {ع} کی طرف سے بعض اعمال کو بجا لانے کے تمام دلائل سے آگاہی نہ رکھنے کی وجہ سے، ہم ان کے دقیق مصادیق بیان کرنے کی طاقت نہیں رکھتےہیں-
جو چیز اکثر شیعوں کے اعتقاد کے مطابق ایک مسلم اور قطعی امر ہے، وہ انبیاء {ع} اور ائمہ اطہار {ع} کی عصمت کا موضوع ہے کہ اس کی بنا پر، یہ بزرگوار ہر گز ایسا کوئی کام انجام نہیں دیتے ہیں، جو قرآن مجید اور قطعی سنت کے مطابق گناہ کا عنوان رکھتے ہیں-
اس کے مقابلے میں قرآن مجید کی بعض آیات سے معلوم ھوتا ہے کہ پیغمبروں سے بھی بعض گناہ سرزد ھوئے ہیں، کہ اس پر اپنی جگہ پر بحث کی گئی ہے-[1]
لیکن معصوم اماموں {ع} کے بارے میں بھی ایسی بے شمار روایتیں پائی جاتی ہیں، جن سے معلوم ھوتا ہے کہ انھوں نے استغفار کرکے خداوند متعال سے اپنے گناھوں کی بخشش کی درخواست کی ہے-
دعائے کمیل ایک ایسی دعا ہے کہ جس کا آغاز" اللھم اغفرلی الذنوب التی- - - " کی عبارت سے ھوتا ہے- یہ دعا ایسی روایتوں کی ایک مثال ہے-
امیرالمومنین {ع} کا ایک صحابی معاویہ کے پاس جاکر، امیرالمومنین[ع] کی ستائش میں یوں بیان کرتا ہے:
" میں نے انھیں { امیرامومنین کو} ایک تاریک رات میں دیکھا کہ محراب میں کھڑے ہیں، اپنی داڑھی کو اپنے ہاتھوں سے پکڑے ھوئے ہیں اور سانپ کے ڈسے ھوئے انسان کے مانند تڑپ رہے ہیں اور زار زار روتے ھوئے کہتے تھے:" اے دنیا؛ اے دنیا؛ مجھ سے دور ھوجا میرے پیچھے کیوں پڑی ہے؟ اور کیوں مجھے گمراہ کرنے کی تمنا رکھتی ہے؟؛ وہ دن کبھی نہ آئے- - - میرے علاوہ کسی اور شخص کے پیچھے جانا- - - مجھے زاد راہ کی کمی ، طولانی راہ، دراز سفر اور پریشان کن مقصد کے بارے میں افسوس ہے-"؛[2]
مذکورہ مطالب پر غور کرنے سے بظاہر اصل عصمت اور اشارہ شدہ روایتوں کے درمیان ایک قسم کا تعارض معلوم ھوتا ہے- دینی علماء نے اس تعارض کو دور کرنے کے لئے کچھ نظریات پیش کئے ہیں ہم ذیل میں ان میں سے دو نظریوں کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
۱- معصومین {ع} کی دعائیں ار استغفار، ان کے اپنے بارے میں نہیں تھے، کیونکہ وہ حقیقت میں کسی گناہ کے مرتکب نہیں ھوئے تھے، کہ اس کے بارے میں استغفار کرتے، بلکہ بیان کئے گئے مطالب تربیتی پہلو رکھتے ہیں اور ان کی یہ دعائیں اور استغفار ان کے پیرووں کے استفادہ کے لئے تھے-
اس سلسلہ میں قابل بیان ہے کہ: ان دعاوں میں سے بعض کے تربیتی ھونے سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ نیمہ رجب کی "دعائے ام داود" اس کی مثال ہے-[3] لیکن ان کی بہت سی دعائیں تضرع و زاری اور رات کی تاریکی اور خلوت میں انجام پاتی تھیں کیا یہ گریہ اور نالہ وزاری{ نعوذ باللہ} دکھاوے کی تھی اور ائمہ معصومین{ع} ایک ادا کار کا رول ادا کرتے تھے؟ یا یہ کہ حقیقت میں دل سے گریہ اور راز و نیاز اور استغفار کرتے تھے-
اگر دوسری صورت صحیح ھو تو یہ سوال پیدا ھوتا ہے کہ وہ کس گناہ کے بارے میں استغفار کرتے تھے اور کس چیز کے لئے فکر مند تھے؟
۲- دوسرا نظریہ، یہ ہے کہ معصومیں کا استغفار اور دعائیں، حقیقی تھیں، اگر چہ وہ ان گناھوں سے معصوم تھے جو ہمارے لئے معصیت ہیں، لیکن ایسے امور بھی ہیں، جو ہمارے لئے گناہ نہیں ہیں، لیکن ان کے لئے گناہ شمار ھوتے ہیں اور ان کا استغفار اسی قسم کے گناھوں کے لئے تھا-
اس سلسلہ میں جاننا چاہئے کہ لفظ " ترک اولی" اسلام کے ابتدائی منابع میں نہیں تھا اور علمائے اسلام نے، انبیاء {ع} اور ائمہ سے منسوب گناھوں کے لئے اس عبارت کو منتخب کیا ہے-
" ترک اولی" کا مصداق یہ ہےکہ ہم خوب اور خوب تر سے خوب کا انتخاب کریں، اس صورت میں اگر چہ ہم کسی گناہ کے مرتکب نہیں ھوئے ہیں اور انجام شدہ کام بھی مناسب اور بجا تھا، لیکن ہم خوب ترکا انتخاب کرکے بہتر کام انجام دے سکتے تھے جس سے ہم نے غفلت کی ہے-
سب سے اہم دلیل، جس سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، وہ یہ ہے کہ آپ کے سوال کا جواب مثبت ہے اور ممکن ہے معصومین {ع} ترک اولی کریں، یہی دعائیں ہیں جن میں خداوند متعال سے مغفرت کی درخواست کی جاتی ہے، اور جگہ جگہ پر یہ دعائیں قابل مشاہدہ ہیں، کیونکہ اگر یہ گناھوں کے بارے میں طلب مغفرت نہ ھو تو قدرتی طور پر ترک اولی کے لئے ہے کہ جو ان کے بلند مقام کے پیش نظر قابل استغفار ہے- اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ :" حسنات الابرار سئیات المقربین"[4]
اس کے مشابہ مسئلہ میں ایک نوجوان، اپنی عمر کے ہفتوں اور مہینوں کو ضائع کرکے اس قدر افسوس نہیں کرتا ہے کہ ایک دانشور اپنے ایک گھنٹہ کو ضائع ھونے میں افسوس کرتا ہے اور پشیمان ھوتا ہے، اور ہم جانتے ہیں کہ اس دانشور کی حسرت دکھاوے کی اور تربیتی نہیں ہے، بلکہ وہ حقیقت میں حسرت ہے-
امام خمینی {رح} اس نظریہ کو یوں بیان فرماتے ہیں:" انسان جب ائمہ اطہار {ع} کی دعاوں کو دیکھتا ہے، خواہ وہ رمضان المبارک کی دعائیں ھوں یا دوسری دعائیں- - - ہمیں رحمت خدا سے مایوس ھونے کی ممانعت کی گئی ہے، ہمیں اس وقت دعاوں کو دیکھنا چاہئے جب مکمل طور پر مایوس ھو جائیں- یہ امام سجاد {ع} ہیں، جب ہم ان کی مناجات کو دیکھتے ہیں، تو مشاہدہ کرتے ہیں کہ وہ کس طرح گناہ سے ڈرتے ہیں- مسئلہ ان مسائل سے بڑا ہے کہ ہم سوچتے ہیں یہ مسئلہ ان مسائل کے علاوہ ہے جو ہماری سوچ میں یا عقلا کی عقل یا عرفا کے عرفان میں آتے ہیں- یہ ایک ایسا مسئلہ ہے، جسے اولیائے الہی جانتے ہیں کہ قضیہ کیا ہے – یہ ہمیں سکھاتے ہیں ، اس طرح نہیں ہے کہ دعائیں ہمارے سکھانے کے لئے ھوں، دعا، خود ان کے لئے تھی، وہ خود ڈرتے تھے اور اپنے گناھوں کے بارے میں پوری رات صبح تک روتے تھے- - -
پیغمبر اکرم {ص} سے لے کر امام عصر {عج} تک سب گناہ سے ڈرتے تھے ان کا گناہ ہمارے گناہ کے علاوہ ہے وہ ایک عظمت کا ادراک کرتے تھے، جو کثرت کی طرف توجہ، ان کے ہاں گناہان کبیرہ کے بارے میں ہے حضرت سجاد {ع} سے نقل کی گئی ایک روایت کے مطابق آپ {ع} ایک رات صبح تک یہ کہتے رہے کہ : اللّهُمَّ ارْزُقْنى التَّجافِىَ عَنْ دارِ الغُرُورِ وَ الْانابَةَ الى دارِ السُّرُورِ و الْاسْتِعدادَ لِلْمَوتِ قَبْلَ حُلُولِ الْفَوْت.[5] یہ ایک بڑا مسئلہ ہے- وہ جب خدا کی عظمت کے سامنے اپنے آپ کو قرار دیتے ہیں، تو دیکھتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں ہیں اور ان کے پاس کچھ نہیں ہے- حقیقت یہی ہے کہ: اس کے علاوہ کچھ نہیں ہے اور کوئی چیز نہیں ہے ، جب کہ عالم کثرت پر توجہ کرتے ہیں، اگر چہ خدا کے ہی حکم سے-
یہی وجہ ہےکہ رسول خدا {ص} سے منسوب ہے کہ آپ {ص} نے فرمایا ہے: لَيُغانُ عَلى قَلْبى فَإنّى لَأَسْتَغْفِرُ اللَّهَ فى كُلِّ يومٍ سَبْعيِنَ مَرَّة.[6]
وہ ان مسائل کے علاوہ تھا ، جو ہمارے پاس ہے – وہ ضیافت میں تھے، ماورائے ضیافت میں بھی تھے- ضیافت میں تھے اور خدا کے حضور میں تھے، اس کے باوجود لوگوں کو دعوت کرتے تھے – اس سے ناراضگی حاصل ھوتی ہے- مظاہر الہی کی طرف توجہ کرنا، غیب کے بارے میں متوجہ ھونا، مظاہر الہی کی شہادت دینا، اگر چہ سب کچھ الہی ہے، ان کے لئے سب کچھ الہی ہے، لیکن اس کے باوجود ، وہ " کمال انقطاع الیک" کے غیب کو چاہتے ہیں، جب وہ مظاہر الہی پر توجہ کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ گناہ کبیرہ اور نا قابل بخشش ہے، امام سجاد {ع} کی نظر میں یہ دار الغرور ہے- ملکوت پر توجہ کرنا دار الغرور ہے- ماورائے فوق کی طرف توجہ کرنا بھی دار الغرور ہے- ضیافت کی عدم موجودگی بھی حق تعالی کی طرف توجہ کرنا اولیائے الہی کی خصوصیت ہے، وہاں پر ضیافت اللہ کا وجود نہیں ہے-"[7]
اس کے باوجود کہ ایک اجمالی نظر میں معصومین {ع} کی دعاوں اور استغفار کو حقیقی اور ناراضگیوں اور ترک اولی کی وجہ سے جانا جاسکتا ہے، جنھوں نے انھیں کچھ لمحات کے لئے عبادت کے بلند درجات سے دور رکھ کر نچلے درجات میں قرار دیاہے، لیکن اس کے پیش نظر کہ خود وہ معصومین { ع} یقینا ہم سے بہتر مصلحتوں سے آگاہ تھے، ہم ان کے بعض کاموں کے بارے میں فیصلہ نہیں کرسکتے ہیں جو بظاہر " ترک اولی" شمار ھوتے تھے، کیونکہ ائمہ اطہار {ع} بعض اوقات افراط و تفریط کو روکنے کے لئے اپنے پیرووں کے درمیان ایسے کام انجام دیتے تھے ، جو بظاہر " ترک اولی" لگتے تھے، لیکن ان پر غور کرنے کے بعد برعکس معلوم ھوتا تھا-
مثال کے طور پر، اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ روزہ داری اور شب بیداری، معنوی درجات تک پہنچنے کے طریقے ہیں، لیکن پیغمبر اسلام {ص} عباد ت میں افراط کی مذمت کرنے کے بعد اور یہ فرمانے کے بعد کہ عبادت میں افراط، ممکن ہے ایک مد ت کے بعد اسے ترک کرنے کا سبب بنے، فرماتے ہیں:" میں بھی نماز کے لئے اٹھتا ھوں، اور سوتا بھی ھوں- روزہ بھی رکھتا ھوں اور کبھی افطار بھی کرتا ھوں – باوجودیکہ روتا ھوں ، لیکن مسکراہٹ کو فراموش نہیں کرتا ھوں-"[8]
ایک اور زاویہ سے، ہم بخوبی جانتے ہیں، کہ دنیوی مظاہر جیسے پوشاک اور خوراک کی طرف توجہ نہ کرنا، خاص کر ائمہ اطہار{ع} اور زمامداروں کے لئے پسندیدہ کام ہے، [9] لیکن اس کے باوجود ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ امام صادق {ع زاہد نما افراد کے سامنے بہترین لباس زیب تن فرماتے تھے اور قرآن مجید سے استناد کرکے، ان کے اعتراضات کا جواب دیتے تھے-[10]
شاید پہلی نظر میں یہ کام " ترک اولی" نہ لگے، لیکن اس پر سنجیدگی سے غور کرنے کے بعد کہنا چاہیئے کہ : اس زمان و مکان اور حالات میں اگر معصومین {ع} کوئی اور عمل انجام دیتے اور مثال کے طور پر اونی کپڑا زیب تن کرکے خواب و خوراک سے اجتناب کرتے اور گمراہ کن اور افراطی تفکرات کی روک تھام کرتے، اگر چہ ان کا یہ کام بظاہر مناسب بھی لگتا، لیکن حقیقت میں یہ " ترک اولی" شمار ھوتا ہے-
[1] اس سلسلہ میں آپ اس سائٹ کے سوال : 7209 کا مطالعہ کرسکتے ہیں-
[2] نهج البلاغة، ص 480، حکمت 77، انتشارات دار الهجرة، قم،
[3] مجلسي، محمد باقر، بحار الانوار، ج 47، ص 307، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404 هـ .
[4] ایضا، ج 70، ص 317،
[5] ملاحظہ ھو: ایضا، ج 95، ص 63. اشارہ کی گئی دعا کے معنی یہ ہیں کہ : خداوندا؛ غرور کے گھر {دنیا} سے جدا کرکے ابدی گھر {آخرت} کی طرف ہماری راہنمائی فرما اور مجھے فرصت کو کھو دینے سے پہلے موت کے لئے تیار کرنا- البتہ بحار الانوار کی روایت کے مطابق " دار السرور" کی جگہ پر " دار الخلود" آیا ہے-
[6] ملاحظہ ھو: ایضا، ج 25، ص 204. اس روایت کے معنی یہ ہیں کہ : کبھی کبھی میرا دل مضطرب و ناراض ھوتا اور اسی وجہ سے روزانہ ستر بار استغفار کرتا ھوں-
[7] صحیفه امام، ج 269-268، مؤسسه تنظیم و نشر آثار امام خمینی، تهران، 1386، طبع چهارم.
[8] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 2، ص 85، دار الكتب الاسلامیة، تهران، 1365 هـ ش.
[9] ایضا، ج 1، ص 410، ح 3 و کشف الغمة ، ج 1، ص 163.
[10] کلینی، محمد بن یعقوب، کافی، ج 5، ص 65، ح 1.