Please Wait
14904
چونکھ اس سوال میں دو سوال پوچھے گئے ھیں اس لئے ھم جواب دو حصوں میں دیں گے۔
الف ) کیا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں اپنی نبوت کی شھادت دیتے تھے؟
اس کے جواب میں ھم یھ کھیں گے ،که معتبر روایات کی رو سے پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں اپنی نبوت کی شھادت دیتے تھے۔ کیونکھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو باقی افراد کے مانند احکام اور شرعی تکلیف پر عمل کرنا چاھئے۔ مگر یھ کھ کوئی خاص دلیل ھو جو ثابت کرے کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کسی خاص حکم کے بارے میں کوئی شرعی تکلیف نھیں رکھتے تھے۔
اذان کے بارے میں نھ صرف اس طرح کی کوئی دلیل موجود نھیں ھے۔ بلکھ بھت سی روایات دلالت کرتی ھیں، کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں خدا کی وحدانیت اور اپنی نبوت کی گواھی دیتے تھے۔
ب) کیا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں حضرت علی علیھ السلام کی ولایت کی شھادت دیتے تھے؟
اس کا جواب یھ ھے کھ ایسی کوئی دلیل موجود نھیں، جو روشن اور واضح الفاظ میں یھ بیان کرے کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں حضرت علی علیھ السلام کی ولایت کی گواھی دیتے تھے۔
جو روایات ائمھ طاھرین علیھم السلام نے اذان کے اجزاء کے بارے میں ارشاد فرمائی ھیں ان میں شھادت ثالثھ کی جزئیت پر کوئی دلیل موجود نھیں ھے۔ اگر چھ غیر اذان کے بارے میں بھت سی روایات موجود ھیں جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے نام مبارک کے بعد حضرت علی علیھ السلام کا نام لینے سے ثواب حاصل ھونے کا ذکرکرتی ھیں۔ اس لئے شیعھ علماء کھتے ھیں : چونکھ اذان عبادت ھے اور یھ امکان موجود ھے کھ شھادت ثالثھ اس کا حصھ نھ ھو بلکھ اس کو صرف قصد قربت کی نیت سے کھا جائے نھ که جزء ھونے کے قصد سے۔
چونکھ اس سوال میں دو چیزوں کے بارے میں سوال کیا گیا ھے لھذا جواب دو حصوں میں دیا جائے گا۔
الف ) کیا پیغمبراکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں اپنی نبوت کی گواھی دیتے تھے؟
اس سوال کا جواب یھ ھے کھ روایات کے مطابق یھ بات قطعی ھے کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم اذان میں اپنی نبوت کی شھادت دیتے تھے، کیونکھ پیغمبر بھی باقی افراد کے مانند احکام اور تکلیف شرعی پر عمل کرتے ھیں ، مگر یھ کھ کوئی خاص دلیل موجود ھو کھ جو ثابت کرے کھ رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کسی خاص حکم کی نسبت کوئی شرعی تکلیف نھیں رکھتے تھے۔ اذان کے سلسلے میں نھ صرف ایسی کوئی دلیل موجود نھیں ھے بلکھ بھت سی روایات کے مطابق پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم اذان میں خدا کی وحدانیت اور اپنی نبوت کی واضح طور پر گواھی دیتے تھے۔
حضرت امام محمد باقر علیھ السلام فرماتے ھیں: شب معراج میں جب آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم بیت المعمور کی طرف تشریف لے گئے ، تو نماز کا وقت ھوا جبرئیل نے اذان اور اقامھ کھی آنحضرت آگے کھڑے ھوئے، انبیاء اور ملائکھ آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے پیچھے صفوں میں کھڑے ھوئے اور نماز ادا کی ، کسی نے آنحضرت سے پوچھا : جبرئیل نے کس طرح اذان دی ، آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے فرمایا: ابتدا اللھ اکبر ، اشھد ان لا الھ الا اللھ۔ اشھد ان محمدا رسول اللھ ۔۔ اور اذان کے آخر تک پڑھا" [1]
اس حدیث سے زیاده واضح ایک اور حدیث موجود ھے جس میں آیا ھے :حضرت امام حسین علیھ السلام نے فرمایا: میں نے اپنے با با حضرت علی ابن ابیطالب ( علیھ السلام ) سے سنا کھ آپ نے فرمایا : خداوند متعال نے ایک فرشتے کو بھیجا جو پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کو معراج پر لے گئے ، وھاں پرایک ایسے فرشتے نے جو آسمان پرپھلے کبھی نھیں دیکھا گیا تھا ، اذان اور اقامھ کھی۔ اس کے بعد جبرئیل نے پیغمبر سے کھا[2] اس طرح نماز کیلئے اذان کھئے ، یھ جملھ واضح طور پر بیان کرتا ھے کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کی اذان اور اقامت بالکل دوسروں کی اذان اور اقامھ کے مانند ھے۔
ب ) کیا پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے اپنی اذان میں حضرت علی علیھ السلام کی ولایت کی گواھی دی ھے؟
اس سوال کے جواب میں یھ کھنا ضروری ھے کھ اس سلسلے میں کھ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے علی علیھ السلام کی ولایت کی شھادت دی ھو ، کوئی واضح دلیل موجود نھیں ھے ۔ اگر چھ کتاب " السلافۃ فی امر الخلافۃ " میں آیا ھے کھ سلمان فارسی نے اپنی اذان میں شھادت ثالثھ کا اضافھ کیا ھے اور یھ بات سبب بنی کھ بعض اصحاب نے پیغمبر کے پاس جا کر انکی شکایت کی۔ لیکن پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے ان کے اعتراض کی طرف کوئی توجھ نھیں دی۔ اور حضرت سلمان کے کام پر مھرتائید لگادی ، اس طرح اس کتاب میں آیا ھے کھ غدیر خم کے واقعھ کے بعد ابو ذر غفاری نے اپنی اذان میں ولایت علی کی شھادت دی، بعض منافقین اس کو پسند نھیں کرتے تھے ، اور جو کچھه انھوں نےد یکھا اس کو اعتراض کی صورت میں آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی خدمت میں عرض کیا ، پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم نے فرمایا: "اما وعیتم خطبتی یوم الغدیر لعلی بالولایۃ" ، پس طولانی خطبھ جو میں نے تمھارے لئے صحرا کی شدید گرمی میں پڑھا ، کیا اس کے معنی علی امیر المؤمنین کے خدا کے والی ھونے کے علاوه کچھه اور ھے؟ پھر آگے فرمایا: کیا تم نے نھیں سنا کھ ھم نے کھا کھ آسمان نے اس پر اپنا سایھ نھیں ڈالا اور زمیں نے اپنے اندر جگھ نھیں دی ھے،جو ابی ذر سے زیاده سچا ھو اور آخر کار اس اعتراض کرنے والی جماعت کی سازش کو طشت از بام کرکے فرمایا : انکم لمنقلبون بعدی علی اعقابکم " [3] ( تم میرے بعد پیٹھه پیچھے پھیرلو گے)
لیکن اس روایت کی سند نقل نھیں ھوئی ھے یا ساتویں صدی سے پھلے کی کتابوں میں اس کا ذکر نھیں آیا ھے کھ اس کی سند کے بارے میں اظھار نظر ھو۔ اس کے علاوه جو روایات ائمھ اطھار علیھم السلام سے اذان کے اجزاء کےبارے میں نقل ھوئی ھیں ان میں شھادت ثالثھ کے جزء ھونے کی طرف اشاره نھیں ھوا ھے اور یھ روایات آنحضرت صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کے زمانے کی اذان کو بیان کرسکتی ھیں۔
البتھ بھت سی روایات خداوند متعال کی وحدانیت اور حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کی نبوت کی شھادت کے بعد شھادت ثالثھ ( اشھد ان علیا ولی اللھ ) کے ذکر کرنے کے ثواب میں وارد ھوئی ھیں کھ ھم نمونے کے طورپربعض کی طرف اشاره کریں گے۔
حضرت امام صادق علیھ السلام نے فرمایا: خداوند متعال نے زمین اور آسمان کی خلقت کے بعد امر کیا کھ منادی ان تین کی شھادتوں کی ندا دیں۔ [4]
ان ھی امام علیھ السلام سے ایک اور حدیث میں آیا ھے کھ خداوند نے عرش و کرسی کے خلق کرنے کے بعد۔۔۔ ان پر لکھا "لا الھ الا اللھ محمد رسول اللھ علی امیر المومنین" ۔ پھر فرمایا: فاذا قال احدکم لا الھ الا اللھ محمد رسول اللھ فلیقل علی امیر المومنین ولی اللھ ۔۔ [5]
بعض نبوی روایات سے یھ سمجھا جاسکتا ھے کھ ذکر امام علی علیھ السلام ذکر خدا اور حضرت رسول اللھ کے ذکر کے بعد کرنا ، اذان میں ھو یا غیر اذان میں جائز ھے اور یھ عمل خداوند متعال کے پاس محبوب ھے۔ [6]
بھر حال چونکھ اذان عبادت ھے اور یھ امکان موجود ھے کھ ولایت حضرت امیر المومنین علیھ السلام اس کا جزء نھ ھو ، اسی لئے فقھای شیعھ اس کو اذان کا جزء نھیں جانتے ھیں اور کھتے ھیں کھ اس کو قصد قربت یا تبرک کے طور پر پڑھا جائے نھ کھ جزء ھونے کی نیت سے۔ [7]
[1] تھذیب الاحکام ، شیخ طوسی ، دار الاضواء، بیروت ، ج ۲ ص ۶۰ ، ح ۳۔
[2] دعائم الاسلامی قاضی نعمان بن محمد ، تمیمی ، دار المعارف ، قاھره ، ج ۱ ص ۱۴۳۔
[3] رجوع کریں ، السلافۃ فی امر الخلافۃ ، شیخ عبد اللھ مراغی جو ساتویں صدی کے علمای اھل سنت میں سے ھیں ، ان کی کتاب ان خطی کتابوں میں سے ھے جو ظاھریه لائبریری دمشق میں موجود ھے۔
[4] بحار الانوار ج ۳۷ ، ص ۲۹۵ حدیث ۱۰ اب ۵۴۔ امالی صدوق مجلس ، ۸۸ ظاھری طور پر یھ ندا ان لوگوں کی اجابت کے لئے تھی جو عالم ذر میں موجود تھے ، امام باقر علیھ السلام نے ایک حدیث میں فرمایا: ان اللھ اخذ من بی آدم من ظھورھم ذریتھم فقال الست بربکم و محمد رسولی و علی امیر المومنیں قالوا بلی۔
[5] بحار الانوار ، ج ۳۷ ص ۱ باب ۱۔
[6] بحار الانوار ، ج ۳۸۔ صفحھ ۳۱۸، اور ۳۱۹، حدیث ۲۷۔ باب ۶۷ اور جلد ۳۷ صفحھ ۸ جلد ، ۱۶ باب ۱۰ اور ایضا باب ۱۔
[7] توضیح المسائل المحشی للامام الخمینی ج ۱ مسئلھ ۹۱۹، ص ۵۱۹ ، " اشھد ان علیا ولی اللھ " اذان اور اقامت کا جزء نھیں ھے لیکن بھتر ھے کھ اشھد ان محمدا رسول اللھ کے بعد قصد قربت کے طور پر پڑھا جائے۔
( حضرت آیۃ اللھ زنجانی ) البتھ امیر المومنین کی ولایت اور ائمھ معصومیں علیھم السلام کی ولایت ایمان کے ارکان میں سے ھے ، اور اس کے بغیر اسلام صرف ظاھر داری کے علاوه کچھه نھیں ھے، اور ایسے قالب کے مانند ھے جو خالی ھو ، اور بھتر ھے کھ اشھد ان محمدا رسول اللھ ، کے بعد تیمن اور تبرک کے قصد سے ، حضرت امیر المومنیں اور باقی ائمھ معصومین علھیم السلام کی ولایت اور امامت کی شھادت اس طرح دی جائے کھ وه اذان اور اقامت کے جملوں کے مانند نھ ھوجائے ۔
(حضرت آیۃ اللھ مکارم شیرازی ): قصد تبرک سے کھا جائے، البتھ اس طرح کھ معلوم ھوجائے یھ ان کا جزء نھیں ھے۔