Please Wait
8277
حقیقت هستی کی دو جهتیں هیںـ ایک جهت سے وه فعلیت محض اور کمال مطلق تک پهنچتی هے اور دوسری جهت سے قوه محض اور قبول مخفی پر منتهی هوتی هے اور ان دو جهات کے در میان فاصله کو درمیانی مراحل تشکیل د یتے هیںـ
نور وجود، مبداء وجود سے قوۃ محض کے مرحله تک نهیں پهنچتا هے مگر وجود کے جمیع مراحل سے عبور کر نے کی راه سے ، اسے " قوس نزول"کهتے هیں ـ چنانچه وجود، صرف مقام قبول(هیولی) اور مقام قرب واجب الوجود سے اپنے کمال کے مراحل تک نهیںپهنچتا هے ، مگر وجود کے تمام درمیانی مراحل کو عبور کر کے ، اسے " قوس صعود" کهتے هیں ـ اس لئے، حقیقت وجود کی راه کو ایک ایسے دائره سے تشبیه دی گئی هے جو دو کمانوں ، قوس نزول و قوس صعود سے تشکیل پائی هے ـ
عرفان کے نظریه کے مطابق قوس نزول میں انسان، ودیعت میں پائے هوئے تمام مراتب کو عنصری نشاه تک اپنے همراه لے آتا هے اور اس کے بعد قوس نزول میں جو کچھـ پایا هے وه سب قوس صعود میں ابھرنے اور اپجنے والا پاتا هے اور سر انجام اپنے کمال کے درجه تک پهنچتا هے اور استحکام و قرار تک پهنچنے کے بعد وجود کا دائره مکمل هو جاتا هے اور پهر تمام حدود و قیود سے رهائی حاصل کر لیتا هے ـ چنانچه پیغمبر عظیم الشان اسلام (ص) اس بلند مقام پر فائز هو چکے تھے اور قرآن مجید نے اس کی خبر دی هے : " ...ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین اوادنی ـ" " اس کے بعد نزد یک تر سے نزد یک تر هوا یهاں تک که اس کا فاصله دو کمانوں کے فاصله سے بھی کم تر تھاـ "
بحث شروع کر نے سے پهلے ، ضروری هے که دو فلسفیانه قاعدوں ، " امکان اشرف" اور " امکان اخس " کے باے میں ایک اجمالی وضاحت کی جائے:
" قاعده امکان اشرف" عبارت هے: وجود کے تمام مراحل میں ضروری هے که ممکن اشرف ( موجوده ممکن جو قاعده سے ایک بلند تر اور شریف تر وجود هے) ممکن اخس کا ( وه ممکن موجود جو رتبه وجودی کی حیثیت سے ادنی مرتبه پر هوتا هے) مقدمه هوـ دوسرے الفاظ میں اگر ممکن اخس وجود میں آئے تو اس سے پهلے ایک ممکن اشرف کا موجود هو نا ضروری هے مثال کے طور پر جب هم " نفس" و" عقل" کو مد نظر رکھـ کر ان دونوں کا ایک دوسرے سے موازنه کرتے هیں ، تو یقینا عقل( ایک ایسا جوهر جو ذاتا وفعلا مجرد هے) نفس سے برتر هےـ اس صورت میں اگر هم وجود نفس کے صادر هو نے سے آگاه هوں تو اس سے پهلے وجود عقل کے صدور سے بھی آگاه هوں گے اور امکان اخس کا قاعده ، قاعده امکان اشرف کے برعکس هےـ
حقیقت هستی کی دو جهتین هیں جنھیں " وجود کے دو حاشیے " کهتے هیں ـ ایک جهت سے فعلیت محض اور کمال مطلق تک پهنچتی هے اور دوسری جهت سے قوه محض اور خالص قبول پر منتهی هوتی هے ـ جس طرح فعلیت محض اور کامل مطلق تک پهنچتی هے وه عبارت هے: واجب الوجود جو کمال کی شدت اور لامتناهی فضیلت هے اور فعل کی حیثیت سے لامتناهی هےـ اور جس طرف قوه محض اور خالص قبول پر منتهی هو تی هے ، عبارت هے هیولائے اولی که کمال کے فقدان اور کمی میں لامتناهی اور فعلیتوں کو قبول کر نے میں بے انتها هے ـ ان دو کے در میانی فاصله کو وجود کے درمیانی مراحل تشکیل دیتے هیںـ نور وجود مبدا و جود سے مر حله هیولائی، (جو انفعال محض هے)، تک نهیں پهنچتا هے مگر یه که درمیانی وجود کے جمیع مراحل سے عبور کر ے اسے " قوس نزول " کهتے هیں ـ چنانچه کمال کے مراحل میں وجود مقام هیولا سے واجب الوجود کے قرب کے مقام تک نهیں پهنچتا هے مگر یه که تمام در میانی مراحل سے عبور و مرور کی راه سے ، که اسے " قوس صعود" کهتے هیں ـ چنانچه قوس نزول میں بهت سے درمیانی مخلوقات قاعده امکان اشرف کے ذریعه ثابت هو تے هیں ـ قوس صعود میں بھی بهت سے درمیانی مخلوقات قاعده امکان احسن کے ذریعه ثابت هو تے هیں ـ یعنی قوس نزول میں وجود کے ثابت هو نے سے ، وجود عقل بھی قاعده امکان شرف سے ثابت هوتی هے لیکن قوس صعود میں قاعده امکان احسن سے عقل کے ثابت هو نے سے نفس ناطقه ثابت هوتا هےـ [1]
انسان کے قوس نزول و صعود (عرفان کے مطابق): خدا وند متعال فر ماتا هے : " هم نے انسان کو بهترین ساخت میں پیدا کیا هےـ پھر هم نے اس کو پست ترین حالت کی طرف پلٹا دیا هے 2"- اور یه " قوس نزولی" کے مطابق هے اور اس چیز کی دلا لت هے که عالم فطرت کی طرف سے انسان کے لئے وجود قبلی تھا ، چنانچه تحقیق کا تقاضا بهی یهی هے اور " اعلی علیین" سے " اسفل السا فلین" کی طرف پلٹانا ، ممکن نهیں هے، مگر یه که اس کے در میان راه میں موجود منازل کو طے کیا جائےـ " حضرت احد یت" اور " عین ثابت" کے بعد انسان نے علم الهی میں " عالم مشیت" میں تنزل کیا هے اور عالم مشیت سے " عالم عقول و روحانیان" ، ملائکه مقر بین اور اس عالم سے " عالم ملکوت علیا" ، نفوس کلیه اور وهاں سے " عالم فطرت" اور عالم فطرت کے بهی اپنے مختلف مراتب هیں اور اس کے پست ترین مراتب " عالم هیولی" هے اور وه پهلی زمین هے اور ایک لحاظ سے " زمین سابق" اور " طبیعت نازله" هے اور یه انسان کے نزول کا آخری درجه هے ـ اس کے بعد سفر شروع هو تا هے اور تدریجا " هیولی" سے، جو قوس (کمان) کا مقبص (دسته) هے تا مقام " ثم دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادلی" )3 پھر وه قریب هوا اور آگے بڑھا یهاں تک که دو کمان یا اس سے کم کا فاصله رها) تک اوپر جاتا هے ـ پس انسان کامل مکمل طور پر وجود کا سلسله هے اور وجود کا دائره اس کے ذریعه مکمل هو تا هے اور وه هے اول وآخر، ظاهر و باطن اور وه کتاب کلی الهی هےـ4
" فلا سفه " نے ان دو کمانوں (قوس) کی ابتداء و انتها کو عقل اول جانا هے جو " قبض مقدس" کے حدود میں هےـ اور عقل اول کو بساطت اور اجمال امر الهی 5 کا مرحله جانتے هیں اور اب جبکه " اهل معرفت" قوس صعود میں پورے دائرے کو مقام " ادنی" تک پهنچنا جانتے هیں، چونکه حرکت کی ابتداء اور فیض کے نزول کا اسمائے ذاتی سے انتساب کرتے هیں ، اس لئے اهل معرفت (عرفان) کے نزدیک صعود و نزول کی دو کمانیں اور دائره الهی کا محدوده اور حرکت ایجادی اس چیز سے کئی گنا وسیع تر هے جو فلاسفه کے فهم و ادراک میں آسکتی هےـ
عرفان کے مطابق، انسان کامل کا مقام وهی هے جس کے بارے میں قرآن مجید فر ماتا هے : " رات کے ایک حصه میں ( نید سے بیدار هو کر) قرآن ( اور نماز) کے ساتھـ بیدار رهیں- یه آپ(ص) کے لئے اضافه خیر هے عنقریب آپ کا پروردگار اسی طرح آپ(ص) کو مقام محمود تک پهنچادے گاـ"6 یه اس لحاظ سے " محمود مطلق" هے که تمام عالم امکان اس سے فیض حاصل کر نے کی وجه سے، اس کا حامد هےـ مقام محمود کا مالک وهی هے جو نزول و صعود کی دو کمانوں سے گزر کر مقام " او ادنی" تک پهنچا هے اور ان دو کمانوں کے آپس میں متصل هو نے کا سبب بنا هے ـ قوس نزول میں ، انسان تمام مراتب کو تحفه میں حاصل کر تا هے تاکه بنیادی سر چشمه کو حاصل کر سکے اور اس کے بعد جوکچھـ قوس نزول میں حاصل کر چکا هے اسے قوس صعود میں بالیدگی بخشتا هےـ [2]
احمد مرسل که خرد خاک اوست هردو جهان بسته فتراک اوست
کنت نبیا که علم پیش برد ختم نبوت به محمد(ص) شده است
مه که نگین دان زبرجد شده است خاتم او مهر محمد(ص) شده است
گوش جهان حلقه کش میم اوست پر دو جهان تعبیه در کوی اوست
شمع الهی ز دل افروخته درس ازل تا ابد آموخته
چشمه خورشید که محتاج اوست نیم هلال ازشب معراج اوست
تخته اول که خرد نقش بست بردر محجوبه احمد نشست
شمسه نه مسند هفت اختران ختم رسل خاتم پیغمبران [3]
قرآن مجید میں بهت سی آیات هیں جن سے قوس صعود و نزول کے بارے میں استفاده کیا جاسکتا هےـ جیسے: " کما بداکم تو عدون"[4] "جس طرح تمهاری ابتداء کی هے اسی طرح تم پلٹ کر بھی جاٶ گےـ "اور" کما بدانا اول خلق نعیده"[5] " جس طرح هم نے تخلیق کی ابتداء کی هے اسی طرح انهیں واپس بهی لے آئیں گے ـ" و... اس لئے هم دعائے ندبه میں روئے زمین پر حجت خدا اور صاحب عصر و زمان علیه السلام سے مخاطب هو کر کهتے هیں : " یابن من دنی فتدلی فکان قاب قوسین او ادنی دنوا واقتربا من العلی الا علی ..." " اے اس کے فرزند جو نزدیک تر سے نزدیک هوا ، پس خدائے بزرگ کے قرب میں اس کا فاصله دو کمانوں کے برابر یا اس سے کم تر تها ـ"[6]
قوس صعود ونزول کے بارے میں بحث طولانی هے اور یهاں پر هم اسی پر اکتفا کرتے هیں ـ مزید تفصیلات کے طا لب و مشتاق اس موضوع سے متعلق کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے هیں ـ[7]
[1] ابراهیمی دینانی ، غلام حسین، قواعد کلی فلسفی در فلسفه اسلامی، ج١، ص ٣٠ ، موسسه مطا لعات و تحقیقات فر هنگی ـ
[2] جوادی آملی ، عبدالله، تحریر تمهید القواعد، ص ٦٢١ـ ٥٦٦ الذھراء-
[3] نظامی-
[4] اعراف/، ٢٩-
[5] انبیاء/، ١٠٤ـ
[6] محدث قمی ، عباس، مفاتیح الجناح ، دعائے ندبه ـ
[7] اسراء/ ، ٧٩ـ
ملا حظه هو:
١- قرب الهی ، سوال نمبر ٨٩.
٢ـ کمال انسان ، سوال نمبر ٢١٦.