Please Wait
کا
5982
5982
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/11/27
سوال کا خلاصہ
کیا یہ روایت صحیح ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ: “ علی فرزند آفتاب ہیں”۔
سوال
جس روایت میں یہ کہا گیا ہے کہ حضرت امام علی ﴿ع﴾ فرزند آفتاب ہیں، کیا وہ صحیح ہے؟
ایک مختصر
احادیث کی کتابوں میں تلاش اور کوشش کرنے کے باوجود ہمیں اس قسم کی کوئی روایت نہیں ملی۔ لیکن اگر فرض کریں کہ ایسی کوئی روایت موجود ھو، تو یہ کنایہ اور مجاز ہے، جیسا کہ مندرجہ ذیل شعر میں امام حسین ﴿ع﴾ کے بارے میں کہا گیا ہے:
فابی شمس وامی قمر فانا الکوکب وبن القمرین[1]
“ بیشک میرے باپ سورج اور میری ماں چاند ہیں، پس میں ستارہ ھوں اور دو چاندوں کا فرزند ھوں”
البتہ اس شعر کا دوسرا مصرع بعض کتابوں میں اس طرح ہے: فانا ابن الشمس و ابن القمرین”[2] یعنی میں سورج اور دوچاندوں کا بیٹا ھوں۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل روایت بھی اس کا ایک اور نمونہ ہوسکتی ہے: جابر بن عبداللہ انصاری نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ سے نقل کیا ہے:“ سورج کے ساتھ ملحق ھو جاو، اگر سورج آپ کی نظروں سے غائب ھوا تو چاند کی پیروی کرو اور اگر چاند بھی آپ سے دور ھوا تو ستارہ زہرہ کو اپنا مقتدا قرار دینا اور اگر ستارہ زہرہ بھی اپ سے دور ھوا تو فرقدان﴿ دو بھائیوں ﴾ سے ملحق ھو جاو۔ لوگوں نے سوال کیا: اے رسول خدا ﴿ص﴾: آفتاب، چاند، زہرہ اور فرقدان کیا ہیں؟فرمایا: میں سورج ھوں، علی چاند ہیں اور فاطمہ زہرہ ہیں اور حسن و حسین فرقدان ہیں”۔[3]
فابی شمس وامی قمر فانا الکوکب وبن القمرین[1]
“ بیشک میرے باپ سورج اور میری ماں چاند ہیں، پس میں ستارہ ھوں اور دو چاندوں کا فرزند ھوں”
البتہ اس شعر کا دوسرا مصرع بعض کتابوں میں اس طرح ہے: فانا ابن الشمس و ابن القمرین”[2] یعنی میں سورج اور دوچاندوں کا بیٹا ھوں۔ اس کے علاوہ مندرجہ ذیل روایت بھی اس کا ایک اور نمونہ ہوسکتی ہے: جابر بن عبداللہ انصاری نے پیغمبر اسلام ﴿ص﴾ سے نقل کیا ہے:“ سورج کے ساتھ ملحق ھو جاو، اگر سورج آپ کی نظروں سے غائب ھوا تو چاند کی پیروی کرو اور اگر چاند بھی آپ سے دور ھوا تو ستارہ زہرہ کو اپنا مقتدا قرار دینا اور اگر ستارہ زہرہ بھی اپ سے دور ھوا تو فرقدان﴿ دو بھائیوں ﴾ سے ملحق ھو جاو۔ لوگوں نے سوال کیا: اے رسول خدا ﴿ص﴾: آفتاب، چاند، زہرہ اور فرقدان کیا ہیں؟فرمایا: میں سورج ھوں، علی چاند ہیں اور فاطمہ زہرہ ہیں اور حسن و حسین فرقدان ہیں”۔[3]
[1] ۔ مجلسی، محمد باقر، بحار الأنوار، ج 45، ص 48، دار إحیاء التراث العربی، بیروت، طبع دوم، 1403ق.
[2] ۔ فتال نیشابورى، محمد بن احمد، روضة الواعظین و بصیرة المتعظین، ج 1، ص 156، انتشارات رضى، قم، 1375ش.
[3] ۔ شیخ صدوق، معانی الاخبار، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، ص 114 – 115، دفتر انتشارات اسلامی، قم، طبع اول، 1403ق.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے