Please Wait
کا
14525
14525
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2013/04/18
سوال کا خلاصہ
سورہ آل عمران کی آیت ۳۱ اور ۳۲ میں کونسا اہم پیغام ہے؟
سوال
سورہ آل عمران کی آیت ۳۱ اور ۳۲ میں کونسا اہم مطلب بیان کیا گیا ہے؟
ایک مختصر
سورہ آل عمران کی آیت نمبر ۳۱ ق ۳۲ [1] کے بارے میں تفاسیر میں دوشان نزول بیان کئے گئے ہیں-[2] پہلا یہ کہ کچھ لوگوں نے پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوکر پروردگار عالم سے اپنی محبت و دوستی کا دعوی کیا، جبکہ یہ لوگ خداوند متعال کے احکام پر عمل کم کرتے تھے، یہاں پر یہ دو آیتیں نازل ھوئی ہیں- دوسرا یہ کہ، نجران کے بعض عیسائی، مدینہ منورہ میں پیغمبر اسلام {ص} کی خدمت میں حاضر ھوئے اور اپنے کلام کے ضمن میں ، اظہار کیا کہ: حضرت عیسی{ع} سے ہمارے غیر معمولی احترام کی وجہ، خداوند متعال سےہماری محبت ہے-
جیسا کہ آپ بخوبی جانتے ہیں کہ انسان کے روح و روان کی فطری حیات محبت ہے کہ اس میں خداوند متعال کی طرف سے ایک عطیہ کے طور پر ڈالی گئی ہے اور انسان کی اپنے پروردگار سے محبت اس کی معرفت اور خداشناسی کے نتیجہ میں ھوتی ہے- اس آیہ شریفہ میں خداوند متعال نے رسول خدا {ص} سے خطاب کرکے فرمایا ہےکہ:" اے پیغمبر؛ کہدیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرےگا اور تمھارے گناھوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے- کہدیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے-" انسان کے اہم پہلووں میں سے ایک جذبات کا پہلو ہے کہ اس کا انسان کے اعتقادات پر موثر رول ھوتا ہے، یہاں تک کہ بعض احادیث میں دین کی محبت سے تفسیر کی گئی ہے- امام صادق {ع} نے فرمایا ہے کہ:" دین محبت کے علاوہ کچھ نہیں ہے"-[3] حقیقی محبت انسان کو اپنے محبوب کی اطاعت کرنے پر مجبور کرتی ہے اور جو کچھ محبوب اس سے چاہتا ہے، وہ بہترین صورت میں اس کی فرمانبردار کرتا ہے، اس لحاظ س امام صادق {ع} مذکورہ حدیث میں، اس آیہ شریفہ کی تلاوت فرماتے ہیں:" اے پیغمبر؛ کہدیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھوتو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا-"[4]
خداوند متعال اس آیہ شریفہ میں پیغمبر {ص} کو حکم یتا ہے کہ:{ مومنین سے} کہدیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتےتو میری پیروی کرو، خدا بھی تم سے محبت کرے گا اور تمھارے گناھوں کو بخش دے گا، وہ بخشنے والا اور مہربان ہے-" اس آیہ شریفہ کے مطابق خداوند متعال کی دوستی اسی وقت متحقق ھوتی ہے کہ انسان اس کے پیغمبر{ص} کی اطاعت کرے، یعنی ان احکام اور دستورات پر عمل کرے جو پیغمبر {ص} کے ذریعہ پہنچائے گئے ہیں- شریعت کے احکام پرعمل کئے بغیر خدا کی دوستی کے کوئی معنی نہیں ہیں- اس بنا پر جو افراد دین کے احکام پر عمل کئے بغیر خدا کی دوستی کا دعوی کرتے ہی اور حتی اس کے عاشق ھونے یا فنا فی اللہ ھونے کا دعوی کرتے ہیں، وہ جھوٹ بولتے ہیں اور گمراہ ہیں اور اس قسم کی دوستی کو خداوند متعال قبول نہیں کرتا ہے، بلکہ خداوند متعال سے دوستی اس وقت قابل قبول ہے کہ انسان پیغمبر خدا {ص} کی پیروی کرے اور شرعی احکام پر عمل کرے-
بعد والی آیہ شریفہ میں خداوند متعال اور پیغمبر خدا{ص} کی اطاعت کی تاکید کی گئی ہے اور خداوند متعال پیغمبر اکرم {ص} کو فرمان دیتا ہے کہ لوگوں سے کہدیجئے کہ:" اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے"-
واضح تر الفاظ میں، خدا کو دوست رکھنے کا لازمہ اس کے دین کو قبول کرنا اور اس کی اطاعت و فرمانبرداری کرنا ہے- جو شخص خداوند متعال کو دوست رکھتا ھو،اس کے لئےخداوند متعال اور اہل بیت {ع} کو دوست رکھنا ضروری ہے، کیونکہ پیغمبر اکرم {ص} انھیں { اہل بیت کو} دوست رکھتے ہیں اور جو رسول خدا {ص} کو دوست رکھتا ھو، وہ خدا سے بھی محبت کرتا ہے اور ان دو محبتوں کے درمیان تفکیک نا ممکن ہے، کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:" جو رسول کی اطاعت کرے گا اس نے اللہ کی اطاعت کی ہے-[5]
محبت صرف دل سے دوست رکھنا اور ہر قسم کے اثر سے خالی نہیں ہے، بلکہ اس کے آثار انسان کے عمل میں منعکس ھونے چاہئیے – جو شخص پروردگار کے ساتھ محبت و عشق کا دعوی کرتا ہے، اس کی سب سے پہلی پہچان یہ ہے کہ وہ خدا اور اس کے رسول {ص} کی پیروی کرے-
حقیقت میں یہ محبت کا ایک فطری اثر ہے جو انسان کو اپنے محبوب کی طرف کھینچتا ہے- لیکن ممکن ہے کہ کچھ کمزور محبتیں بھی پائی جائیں جن کی شعائیں دل سے باہر نہ نکلی ھوں- لیکن اس قسم کی محبتیں اس قدر ناچیز ہیں کہ انھیں محبت نہیں کیا جاسکتا ہے، ایک بنیادی محبت کے ضرور عملی آثار ھوتے ہیں اور اس قسم کی محبت رکھنے والے کو محبوب اپنے ساتھ ملاتا ہے اور اسے اپنی مرضی کے مطابق کوشش کرنے پر مجبور کرتا ہے-
خلاصہ کے طور پر ان دو آیتوں کی تفسیر کے بارے میں قابل بیان ہے کہ اگر کوئی شخص خداوند متعال سے دوستی اور محبت کا دعوی کرتا ہے، تو حقیقت میں یہ محبت پیغمبر اسلام {ص} کے فرمائشات اور دستورات پر عمل کرنے سے متحقق ھوتی ہے، اور اس کے بغیر مبالغہ کے علاوہ کچھ نہیں ہے-
قرآن مجید مذکورہ دو آیتوں میں ارشاد فرماتا ہے:" اے پیغمبر؛ کہدیجئے کہ اگر تم لوگ اللہ سے محبت کرتے ھو تو میری پیروی کرو- خدا بھی تم سے محبت کرےگا اور تمھارے گناھوں کو بخش دے گا کہ وہ بڑا بخشنے والا اور مہربان ہے- کہدیجئے کہ اللہ اور رسول کی اطاعت کرو کہ جو اس سے روگردانی کرے گا تو خدا کافرین کو ہرگز دوست نہیں رکھتا ہے-"
اس مسئلہ کے ضمن میں یہ بھی واضح ھوتا ہے کہ محبت یک طرفہ نہیں ھوسکتی ہے، کیونکہ ہر محبت، محبت کرنے والے کو دعوت دیتی ہے کہ وہ اپنے محبوب کے مطالبات کو عملی جامہ پہنائے اور ایسی حالت میں بیشک محبوب بھی اس کے ساتھ محبت کرتا ہے-[6]
[1] -«قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونی یُحْبِبْکُمُ اللَّهُ وَ یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوبَکُمْ وَ اللَّهُ غَفُورٌ رَحیمٌ* قُلْ أَطیعُوا اللَّهَ وَ الرَّسُولَ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّهَ لا یُحِبُّ الْکافِرینَ».
[2] - طبرسی، فضل بن حسن، مجمع البیان فی تفسیر القرآن، ج 2، ص 733، ناصر خسرو، تهران، 1372ش؛ تفسیر المنار، به نقل از مکارم شیرازی، تفسیر نمونه، ج 2، ص 512، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1374ش.
[3] - شیخ صدوق، الخصال، ص 21، جماعة المدرسین فی الحوزة العلمیة، قم، 1362ش.
[4] - آل عمران،31.
[5] - نساء، 80، «مَنْ یُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطاعَ اللَّه».
[6] - اس سلسلہ میں مفسرین کی مفصل تفسیر سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ ھو: طباطبائی، سید محمد حسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج 3، ص 157- 162، دفتر انتشارات اسلامی، قم، 1417ق؛ جعفری، یعقوب، کوثر، ج 2، ص 104- 105، بیجا، بیتا؛ مغنیه، محمد جواد، تفسیر الکاشف، ج 2، ص 45، دار الکتب الإسلامیة، تهران، 1424ق؛ مصطفوی، حسن، تفسیر روشن، ج 4، ص 159، مرکز نشر کتاب، تهران، 1380ش؛ تفسیر نمونه، ص 513- 514.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے