Please Wait
کا
9746
9746
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2014/02/27
سوال کا خلاصہ
زن و مرد کے درمیان ازدواج کے سلسلہ میں کون سے معیار ضروری ہیں اور کون سے معیاروں کی رعایت کرنا بہتر ہے؟ ازدواج میں کفو کے معنی کیا ہیں؟
سوال
زن و مردکے درمیان ازدواج کے سلسلہ میں کون سے معیار ضروری ہیں اور کون سے معیاروں کی رعایت کرنا بہتر ہے؟ ازدواج میں کفو کے معنی کیا ہیں؟
ایک مختصر
اسلامی تعلیمات میں، شریک حیات کےانتخاب کے سلسلہ میں، خداوند متعال پر توکل اور شائستہ شریک حیات ملنے کے لئے دورکعت نماز اور دعا کے علاوہ ناکام ازدواج سے بچنے کے لئے، شریک حیات کو انتخاب کرنے میں دقت اور کافی توجہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں کئی معیار بیان کئے گئے ہیں جن میں سے بعض اصلی ہیں اور بعض فرعی ہیں۔
بعض اصلی معیار یہ ہیں: ایمان، شراب نوشی جیسے گناہوں سے دور ہونا، حسن اخلاق کا مالک ہونا اور میاں بیوی کا آپس میں کفو ہونا۔
ازدواج میں شرعی لحاظ سے کفو ہونے کے معنی یہ ہیں کہ میاں بیوی، اسلام یا ایمان کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم سطح اور ہم پلہ ہونا اور اس سلسلہ میں آپس میں زیادہ تفاوت نہ رکھتے ہوں۔اگر چہ یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ ہم پلہ یا ہم سطح ہونا ہردو طرف سے مسای اور ایک ہی رتبہ پرہوں، کیونکہ انسانوں میں ایمان اور اسلام کے قوی اورضعیف مراتب ہوتے ہیں، اسی لحاظ سے ازدواج میں کفو کا مفہوم نسبتی ہے۔
فقہ کی کتابوں میں، کفو شرعی کے ساتھ کفوعرفی کا بھی ذکر آیا ہے، لیکن کفو عرفی کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے، مگر جہاں پر لڑکی میں فکری رشد و بالیدگی نہ پائی جاتی ہواور اس کے لئے اس کا ولی شوہر کا انتخاب کرتا ہے۔
کفو عرفی، یعنی، عورت اور مرد اجتماعی حیثیت سے آپس میں متناسب ہوں۔ جیسے، عمر اور خاندانی لحاظ سے۔ ۔ ۔
بعض اصلی معیار یہ ہیں: ایمان، شراب نوشی جیسے گناہوں سے دور ہونا، حسن اخلاق کا مالک ہونا اور میاں بیوی کا آپس میں کفو ہونا۔
ازدواج میں شرعی لحاظ سے کفو ہونے کے معنی یہ ہیں کہ میاں بیوی، اسلام یا ایمان کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم سطح اور ہم پلہ ہونا اور اس سلسلہ میں آپس میں زیادہ تفاوت نہ رکھتے ہوں۔اگر چہ یہ دعوی نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ ہم پلہ یا ہم سطح ہونا ہردو طرف سے مسای اور ایک ہی رتبہ پرہوں، کیونکہ انسانوں میں ایمان اور اسلام کے قوی اورضعیف مراتب ہوتے ہیں، اسی لحاظ سے ازدواج میں کفو کا مفہوم نسبتی ہے۔
فقہ کی کتابوں میں، کفو شرعی کے ساتھ کفوعرفی کا بھی ذکر آیا ہے، لیکن کفو عرفی کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے، مگر جہاں پر لڑکی میں فکری رشد و بالیدگی نہ پائی جاتی ہواور اس کے لئے اس کا ولی شوہر کا انتخاب کرتا ہے۔
کفو عرفی، یعنی، عورت اور مرد اجتماعی حیثیت سے آپس میں متناسب ہوں۔ جیسے، عمر اور خاندانی لحاظ سے۔ ۔ ۔
تفصیلی جوابات
ازدواج، خداوند متعال کے ہاں بلند ترین قدروں کی تجلّی اور محبوب ترین مرکزیت کے لئے مطلوب ترین فرصت فراہم کرنے کا وسیلہ ہے۔ اسی بنا پر اسلامی تعلیات میں اس کی تاکید کی گئی ہے کہ لوگ ازدواج کو معنوی اور مقدس نگاہ سے دیکھیں۔ اس مطلب کے سلسلہ میں قرآن مجید کی متعدد آیات گواہ ہیں۔ جیسے ارشاد ہوتا ہے:" اور اس کی نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اس نے تمھارا جوڑا تمھیں میں سے پیدا کیا ہے تاکہ تمھیں اس سے سکون حاصل ہو اور پھر تمھارے درمیان محبت اور رحمت دی ہے کہ اس میں صاحبان فکر کے لئے بہت سی نشانیاں پائی جاتی ہیں۔"[1]
اسی طرح قرآن مجید میں ازدوج کے بارے میں " میثاق غلیظ"[2]، یعنی مستحکم اور مقدس پیمان[3] کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ ایک ایسا پیمان، جس کے لئے وفاداری، اعتماد، صادقانہ ہم عہدی اور بے لوث عشق کی ضرورت ہے، لہذا نفسانی خواہشات، اور زور زبردستی پر مبنی خود خواہی اور خود محوری اس میثاق کے اصول سے منافات رکھتی ہیں اور اس پیمان کے طرفین کو اس کے استحکام و پائیداری کے تحفظ کے لئے زندگی کے قابل قدر اصولوں کی رعایت کرنی چاہئے۔
اسی لئے، ازدواج، من جملہ انسان کے اہم انتخاب میں سے ہے کہ اس کا نتیجہ پوری عمر کے لئے پائدار رہتا ہے۔ لہذا اس انتخاب میں دقت اور دور اندیشی ایک منطقی اور دینی امر ہے، لیکن نہ وسواس کی حد ہیں۔[4]
اسلامی احکام میں، شائستہ شریک حیات اور کامیاب ازدواج کے لئے.[5] خداوند متعال پر توکل، دورکعت نماز پڑھنے اور دعا کے علاوہ، ناکام ازدواج سے بچنے کے لئے، شریک حیات کے انتخاب کے سلسلہ میں دقت اور مکمل توجہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں کئی معیار ذکر کئے گئے ہیں۔
لیکن ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان معیاروں میں سے بعض اصلی اور بعض فرعی معیار ہیں۔
یہاں پر ہم دونوں قسم کے معیاروں میں سے بعض کی تشریح و تحقیق پیش کرتے ہیں:
شریک حیات کے انتخاب میں اصلی معیار:
الف: صحیح دینی اعتقادات (ایمان)
اسلامی تعلیمات کی بنا پر، ایمان اور صحیح دینی و مذہبی اعتقادات، شریک حیات کے لئے اہم اور ضروری شرط شمار ہوتی ہے۔ یہ شرط، تمام زمان و مکان کے حالات میں، ایک شریک حیات کے لئے ضروری ہے۔
اس بناپر اگر کوئی شخص، ایمان، دینی اعتقادات اور اعتقادی مشترکات کے لحاظ سے ایک مناسب حد میں نہ ہو، تو وہ شرائط سے عاری شمار ہوتا ہے، اگر چہ دوسری خصوصیات کا مالک بھی ہو، اور انسان کو دنیوی اور اخروی سعادت سے محروم کر دیتا ہے۔
قرآن مجید کی آیات اور روایتوں میں ازدواج میں ایمان کی شرط کی تصریح کی گئی ہے: جیسے ارشاد باری تعالی ہے:" خبردارمشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرنا جب تک ایمان نہ لےآئیں کہ ایک مومن کنیز مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتنی ہی بھلی معلوم ہو اور مشرکین کو بھی لڑکیاں نہ دینا جب تک نہ مسلمان ہو جائیں کہ مسلمان غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتناہی اچھا کیوں نہ معلوم ہو۔ یہ مشرکین تمھیں جہنم کی دعوت دیتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے جنّت اور مغفرت کی دعوت دیتا ہے اور اپنی آیتوں کو واضح کرکے بیان کرتا ہے کہ شاید یہ لوگ سمجھ سکیں۔[6]
اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم(ص)فرماتے ہیں:" جس نے اپنی بیٹی کو کسی فاسق مرد کی ازدواج میں قرار دیا۔ اس نے اس عمل سے اس کے ساتھ قطع رحم انجام دیا ہے"۔[7]
امام صادق(ع) فرماتے ہیں: اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اس کی خوبصورتی یا دولت کی لالچ میں ازدواج کرے تو وہ دونوں ( خوبصورتی اور مال) سے محروم ہوگا اور اگر دین اورتقوی کے لئے اس سے ازدواج کرے تو خداوند متعال مال اور خوبصورتی بھی اسے عطا کرے گا۔"[8]
اس کے علاوہ، اعتقادی اور اخلاقی خصوصیات، دوسرے ہر عامل سے زیادہ اعتماد پیدا کرنے والی ہیں، کیونکہ اخلاقی خصوصیات اور دینی اعتقادات نہ صرف انسان کو تبدیل کرتے ہیں، بلکہ مد مقابل کے لئے اطمینان حاصل ہونے کا سبب بھی ہیں اور یہی امر زوجین کے لئے ابتدائی تفاہم حاصل ہونے کا باعث بھی بن جاتا ہے اور پوری زندگی میں اس کا تداوم، فیصلہ کن ہوتا ہے۔
ب: حسن اخلاق کا مالک ہونا۔
اسلام میں اخلاقی خصوصیات، جیسے حسن اخلاق، ایک مناسب شریک حیات کے لئے ضروری خصوصیات اور شرائط میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں پر حسن اخلاق سے مراد زندگی میں مناسب رفتار اور معاملہ ہے، افراد کے ساتھ سازگاری اور مہربانی سے پیش آنا ہے۔ حسن اخلاق، خوش اخلاقی اور نیک خصلت، کلام کو زینت بخشنا، شکر و سپاس گزاری، خوش بیانی، حقیقت گوئی، محبت و تشویق اور صداقت وغیرہ ہے۔ ازدواجی زندگی کی بنیاد، سازگاری، تفاہم اور ہم کاری ہے کہ یہ امور صرف حسن اخلاق کی روشنی میں فراہم ہوتے ہیں۔
انسان کو پسندیدہ صفات، عادات اور خصلتوں کا مالک ہونا چاہئے اور نیک فضائل، کمالات، اعمال و رفتار کا مالک ہونا چاہئے اور برے صفات اور اخلاقی بیماریوں وغیرہ سے دور رہنا چاہئے، لیکن جو چیز انسان کو سرکش نفس اور طغیان گر و عصیان گر نفسانی خواہشات سے بچاکر عمومی آرام و آسائش اور پر امن زندگی فراہم کرسکے، وہ صرف حقیقی حسن اخلاق ہے کہ جس کا سرچشمہ خداوند متعال کا حقیقی ایمان ہے۔ زندگی میں نیک اخلاق کا مالک ہونا طرفین اور خاندان کے تمام افراد کے لئے نشاط و شادمانی کا سبب بن سکتا ہے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ بد اخلاق شریک حیات کی وجہ سے انسان زودرس بوڑھاپے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
اسی لئے روایتوں میں صراحت کے ساتھ بد اخلاق افراد سے ازدواج کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، اس روایت کے مانند:
رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے:" ایک مرد کے لئے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک نیکوکار مسلمان عورت کی ہمسری کے علاوہ کوئی برتر اور فائدہ بخش چیز نہیں ہے، وہ عورت جو مرد کو دیکھنے کے بعد شاد کرے، اس کے دستورات کی اطاعت کرے اور شوہرکی عدم موجودگی میں اپنی عصمت اور اس کے مال کی محافظ ہو"۔
ایک شخص نے امام رضا (ع) سے کسی کے بارے میں پوچھا: میرے ایک رشتہ دار نے میری بیٹی کے بارے میں خواستگاری کی ہے اور بعض لحاظ سے ہمسری کی شائستگی رکھتا ہے، لیکن بد اخلاق ہے، میں کیا کروں؟ آنحضرت (ص) نے جواب میں فرمایا: اگر وہ بد اخلاق ہے تو اسے بیٹی نہ دینا۔
اسلام کی نظر میں اصلی شمار ہونے والے معیاروں کے علاوہ کہ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا، کچھ اور معیار بھی قابل توجہ ہیں لیکن وہ درجہ بندی میں اصلی معیاروں کے درجہ میں نہیں آتے ہیں، لیکن اسلام میں ان کی طرف بھی خاص توجہ کی گئی ہے، یہ معیار، فرعی معیار ہیں۔
ج: گناہوں سے اجتناب۔
صاحب تقوی ہونا، اس حد میں کہ زنا کے مانند گناہوں کا علی الاعلان مرتکب نہ ہونا۔ روایتوں میں شریک حیات کے انتخاب میں اس معیار اور شرط کے بارے میں تاکید کی گئی ہے، جیسے:
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:" مسلمان مرد ان عورتوں سے ازدواج نہ کریں جو آشکار صورت میں لاپروائی کے ساتھ زنا کی مرتکب ہوتی ہوں اور اسی طرح پاک دامن اور مسلمان عورتیں ان مردوں سے ازدواج نہ کریں جو آشکار صورت میں لاپروائی کے ساتھ زنا کے مرتکب ہوتے ہوں مگر یہ کہ معلوم ہو جائے کہ اس نے توبہ کی ہے ( یعنی حقیقی معنوں میں برے اور منافی عفت اعمال سے پرہیز کی ہو)"۔[9]
ایک گناہ جس سے ازدواج میں پاک ہونا ضروی ہے، وہ شراب نوشی ہے۔ متعدد روایتوں میں تاکید کی گئی ہے کہ شراب خوار سے ازدواج کرنے سے پرہیز کرنی چاہئے:
امام صادق (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرکے فرمایا ہے:" اگر خواستگار شرابخوار ہو، تو اسے ہمسر نہیں دینی چاہئے"۔[10]
اس طرح ارشاد فرمایا ہے:" اس کے بعد کہ خداوند متعال نے شراب کو حرام قرار دیا، اگر کوئی شراب نوشی کرے، تو وہ یہ شائستگی نہیں رکھتا ہے کہ خواستگاری کی صورت میں اس کے عقد میں اپنی بیٹی دی جائے۔"[11]
امام صادق (ع) سے نقل کی گئی ایک اور روایت میں امام (ع) ایک لڑکی کے باپ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:" ایسا نہ ہو کہ شرابخوار کو بیٹی دوگے، اگر ایسا کیا تو اس کے مانند ہے کہ اسےزنا کرانے کے لئے لے گئے ہو"۔[12]
اس گناہ کے اثرات صرف شرابخوار شخص پر مترتب نہیں ہوتے ہیں، بلکہ یہ گناہ پورے خاندان، خاص کر اولاد کو اپنے منفی اثرات کے تحت قرار دیتا ہے۔ لہذا ایسے افراد سے ازدواج نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
د: کفو۔
شریک حیات کے انتخاب میں، بے شک " کفو" اسلام کے اصلی معیاروں میں سے ہے۔
لغت میں " کفو" اور" کفؤ" کے معنی منزلت اور قدر وقیمت میں ہم پلہ، ہم سطح اور ہم سنگ ہونا ہے۔[13]
فقہ کی کتابوں میں زن و مرد کے درمیان ازدواج کے سلسلہ میں " کفو" کے لئے دو مصداق ذکر کئے گئے ہیں:
کفو شرعی: یعنی، عقد و ازدواج کے صحیح ہونے میں کفوشرعی، جیسے: مسلمان ہونا قابل اعتبار اور ضروری ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ زن و مرد، اسلام[14] کے لحاظ سے اور یا ایمان[15] کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ہونے چاہئے اور اس سلسلہ میں آپس میں زیادہ تفاوت نہ رکھتے ہوں، اگر چہ یہ دعوی نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ ہم پلہ اور ہم سطح ہونا دونوں کی طرف سے مساوی اور ایک ہی رتبہ پر ہوں، کیونکہ انسانوں میں ایمان و اسلام قوی اور ضعیف مراتب میں ہوتا ہے، اسی وجہ سے، ازدواج میں کفو کا مفہوم ایک امر نسبتی ہے اور مناسب نہیں ہے کہ، اصل ازدواج، جو انبیائے الہی کی ایک اہم سنت ہے، ایک مکمل ہم سطح نہ ملنے کی وجہ سے ترک کی جائے۔
اس بنا پر، کفو شرعی کے اعتبار کے مطابق ایک مسلمان مرد کی ازدواج ایک غیر کتابی کافر سے اور ایک مسلمان عورت کی ازدواج حتی کہ اہل کتاب کافر سے بھی صحیح نہیں ہے۔[16] اور اسی پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ لیکن مسلمان مرد کی اہل کتاب عورت سے ازدواج کے سلسلہ میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر ہے اور فقہائے متاخر میں مشہور یہ ہے کہ اہل کتاب عورتوں سے ازدواج دائمی حرام ہے۔[17]
البتہ یہ کفو شرعی کے بارے میں ابتدائی نظر تھی جو عقد کے صحیح ہونے کے لئے شرط اور ضروری ہے۔
2۔ کفو عرفی: یعنی عورت اور مرد اجتماعی حیثیت سے آپس میں متناسب ہوں۔[18] زن و مرد کے درمیان فکری توافق اور روحی و اخلاقی تناسب ہونا چاہئے اور دوشریک حیات خاندان، ثقافت اور جذبات کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ہونے چاہئے تاکہ ایک دوسرے کو بخوبی ادراک کرکے ازدواجی زندگی کو گرم اور پر رونق بنا سکیں۔
فقہ کی کتابوں میں، کفو شرعی کے ساتھ کفو عرفی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن کفو عرفی کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے، مگر جہاں پر لڑکی فکری رشد و بالیدگی کافی نہ رکھتی ہو اور اس کا ولی اس کے لئے شوہر کا انتخاب کرے۔[19]
بہرحال، ازدواج میں کفو کے معنی کے بارے میں، کفو شرعی اور کفو عرفی میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے: دینی لحاظ سے مرد اور عورت کا ہم پلہ اور ہم پایہ ہونا،[20] مذہبی اور اخلاقی شرائط کا ہونا نہ یہ کہ مادی اور مال مسائل میں ہم پلہ ہوں۔[21]
امام صادق (ع) ازدواج میں کفو کے بارے میں فرماتے ہیں:" کفو اور ہم پلہ ہونا اس معنی میں ہے کہ مرد صاحب عفت اور پاک دامن ہو اور خاندان کے اخراجات کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔"[22]" بعض مومنین ایک دوسرےکے ہم کفو، ہم پلہ اور ہم سان ہیں۔"[23] ( یعنی جس ہم پلہ ہونے کی ازدواج میں رعایت ہونی چاہئے وہ ہم مذہب ہونا ہے)
ہمسر کے انتخاب میں فرعی معیار:
بعض معیار اور شرائط جو دوافراد کی ازدواج میں قابل توجہ اور قابل رعایت ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
شریک حیات کے انتخاب میں فرعی معیار
ازدواج میں بعض معیار اور شرائط، جن کی رعایت کرنا بہتر ہے، حسب ذیل میں:
الف: خاندان کی اصالت اور شرافت:
دو نوجوانوں کی مشترک زندگی میں، خاندان اور ذہنی اور تربیتی مسائل اورمذہبی نظریہ اہم رول رکھتے ہیں۔ جس قدر خاندان ساخت، ترکیب اور اعتقاد کے لحاظ سے نزدیک تر ہوں، میاں بیوی کے درمیان صحیح اور مستحکم روابط قائم ہونے کے ممکنات زیادہ تر ہیں۔ اصالت و شرافت سے مراد خاندانی شہرت، دولت اور اجتماعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد نجابت، دینداری اور پاک دامنی ہے۔ جب کوئی ازدواج میں ایک گھرانہ سے رشتہ جوڑتا ہے، مسلّم ہے کہ اس خاندان کے بہت سے اخلاقی، ذہنی، نفسیاتی، عقلی اور جسمانی صفات وراثت، ماحول، عادت اور تربیت کی راہ سے اس شخص میں منتقل ہوتی ہیں اور وہ بھی ان خصوصیات کو ازدواج کی راہ سے اپنے خاندان اور اولاد میں منتقل کرتا ہے۔ اس بنا پر، اسلام کی نظر میں ایک شریف، اصیل، صحیح ماحول والے خاندان سے ازدواج کرنا کافی اہمیت رکھتا ہے۔ معصوم (ع) کےکلام میں بھی اس موضوع کی حساسیت معلوم ہوتی ہے۔
جیسا کہ ہم ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ: ایک دن رسول خدا (ص) نے کھڑے ہوکر فرمایا:" گوبر پر اُگے ہوئے سبز اور تازہ گھاس سے پرہیز کرنا" عرض کی گئی: یا رسول اللہ! اس کلام سے مراد کیا ہے؟ فرمایا: ( اس کا مراد) ایک خوبصورت عورت ہے جو بُرے خاندان اور فاسد ماحول میں پرورش پا چکی ہو"۔[24]
امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:" شائستہ اور با فضیلت خاندان سے ہمسر کا انتخاب کرنا چاہئے، کیونکہ نطفہ( پنہانی)اثر رکھتا ہے"۔[25] یعنی والدین کی صفات اور حالات نطفہ کے ذریعہ اولاد میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر ازدواج، صرف دو جوانوں کے درمیان پیوند نہیں ہے، بلکہ خاندانوں کے درمیان پیوند ہے اور اس پیوند میں دینی اور اعتقادی تحفظ کو پورا کرنے کے لئے صالح اور سالم افراد سے یہ پیوند انجام پانا چاہئے۔ اگر چہ ہمسر کے انتخاب میں خاندان کی اصالت فرعی معیاروں میں سے شمار ہوتی ہے، لیکن اسلام کے لحاظ سے اس کی طرف کافی توجہ کی گئی ہے۔ اس بناپر، یہ معیار دوسرے فرعی معیاروں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ب: ظاہری خوبصورتی اور دل کشی
بعض لوگوں کی نظر میں زیبائی اور دل کشی جیسی خصوصیات، زوجین، خاص کر عورت میں ازدواج کے سلسلہ میں اہم عامل شمار ہوتی ہیں، اگرچہ متقابل کا میل و دلچسپی حاصل کرنا اور جنسی ضرورتوں کو پورا کرنا، زن و مرد کی ایک دوسرے کی بہ نسبت احساس دلچسپی و دوستی پر مبنی ہے کہ اگر ازدواج میں یہ میل و دلچسپی موجود نہ ہو، تو ابتداء سے ہی خاندانی عدم رضایت پیدا ہوتی ہے۔
اس فطری خصوصیت پر بھی اسلام نے توجہ کی ہے، لیکن دیکھنا چاہئے کس قدر اس کی اہمیت کا قائل ہونا چاہئے؟ بعض لوگ ظاہری خوبصورتی کے لئے، اصالت کے قائل ہیں اور دوسرے عوامل کو اہمیت کے لحاظ سے دوسرے درجہ پر جانتے ہیں، جبکہ صرف خوبصورتی اور دل کشی زندگی تشکیل دینے کے لئے کافی نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ مشترک زندگی کے اپنے فرائض، ذمہ داریاں اور مشکلات ہیں کہ خوبصورتی پر تاکید کرکےان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے، لہذا خوبصورتی اور جاذبیت ایک زن و مرد کے درمیان پیوند قائم ہونے کے لئے ایک مناسب نقطہ آغاز ہے، لیکن کافی شرط اور معیار شمار نہیں ہوتا ہے۔
اسلام کی نظر میں، خوبصورتی کی اس وقت قدر و قیمت ہے کہ اس کے ساتھ دینداری اور دوسرے معنوی کمالات اور فضائل بھی ہوں، ورنہ، صرف ظاہری خوبصورتی و دلکشی اسلام کے مد نظر شائستہ صفات کے بغیر ممکن ہے ہمسر کے لئے مشکلات اور گرفتاریاں پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ جیسا کہ معیاروں کے بارے میں ذکر کی گئی احادیث میں اشارہ کیا گیا۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خوبصورتی ایک نسبتی امر ہے اور مرد و زن کی خوبصورتی اور دل کشی کو مد مقابل اور دونوں طرف کے خاندان کے افراد کی بہ نسبت مد نظر رکھنا چاہئے۔ اس بنا پر ممکن ہے دو افراد ظاہری جاذبیت کے لحاظ سے آپس میں متناسب ہوں، لیکن کسی دوسرے شخص کی نظر میں ان دونوں میں سے ایک خوبصورت نہ ہو۔
ج: عمر اور تعلیم کے لحاظ سے کفو
ہمسر کے انتخاب میں عمر کے لحاظ سے کفو اور متناسب ہونا ضروری ہے۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان سن بلوغ میں تفاوت ایک فطری امر ہے اور لڑکا، لڑکی کے بلوغ جنسی کی عمرتک پہنچنے کے چار سال بعد بلوغ جنسی تک پہنچتا ہے۔ اس لحاظ سے ازدواج میں بھی اس تفاوت کو مد نظر رکھنا چاہئے، یعنی لڑکا لڑکی سے بڑا ہو، لیکن ضروری نہیں ہے۔[26]
اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل عناوین ملا حظہ ہوں۔
1۔ " انتخاب ہمسر"، سوال 2102( سائٹ: 2167)۔
2۔ " فلسفہ ازدواج در اسلام"، سوال:1300(سائٹ: 1283)۔
3۔" عشق بہ خدا و ازدواج" ، سوال 5036( سائٹ: 5342)۔
اسی طرح قرآن مجید میں ازدوج کے بارے میں " میثاق غلیظ"[2]، یعنی مستحکم اور مقدس پیمان[3] کے عنوان سے یاد کیا گیا ہے۔ ایک ایسا پیمان، جس کے لئے وفاداری، اعتماد، صادقانہ ہم عہدی اور بے لوث عشق کی ضرورت ہے، لہذا نفسانی خواہشات، اور زور زبردستی پر مبنی خود خواہی اور خود محوری اس میثاق کے اصول سے منافات رکھتی ہیں اور اس پیمان کے طرفین کو اس کے استحکام و پائیداری کے تحفظ کے لئے زندگی کے قابل قدر اصولوں کی رعایت کرنی چاہئے۔
اسی لئے، ازدواج، من جملہ انسان کے اہم انتخاب میں سے ہے کہ اس کا نتیجہ پوری عمر کے لئے پائدار رہتا ہے۔ لہذا اس انتخاب میں دقت اور دور اندیشی ایک منطقی اور دینی امر ہے، لیکن نہ وسواس کی حد ہیں۔[4]
اسلامی احکام میں، شائستہ شریک حیات اور کامیاب ازدواج کے لئے.[5] خداوند متعال پر توکل، دورکعت نماز پڑھنے اور دعا کے علاوہ، ناکام ازدواج سے بچنے کے لئے، شریک حیات کے انتخاب کے سلسلہ میں دقت اور مکمل توجہ کرنے کی سفارش کی گئی ہے اور اس سلسلہ میں کئی معیار ذکر کئے گئے ہیں۔
لیکن ہمارے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ ان معیاروں میں سے بعض اصلی اور بعض فرعی معیار ہیں۔
یہاں پر ہم دونوں قسم کے معیاروں میں سے بعض کی تشریح و تحقیق پیش کرتے ہیں:
شریک حیات کے انتخاب میں اصلی معیار:
الف: صحیح دینی اعتقادات (ایمان)
اسلامی تعلیمات کی بنا پر، ایمان اور صحیح دینی و مذہبی اعتقادات، شریک حیات کے لئے اہم اور ضروری شرط شمار ہوتی ہے۔ یہ شرط، تمام زمان و مکان کے حالات میں، ایک شریک حیات کے لئے ضروری ہے۔
اس بناپر اگر کوئی شخص، ایمان، دینی اعتقادات اور اعتقادی مشترکات کے لحاظ سے ایک مناسب حد میں نہ ہو، تو وہ شرائط سے عاری شمار ہوتا ہے، اگر چہ دوسری خصوصیات کا مالک بھی ہو، اور انسان کو دنیوی اور اخروی سعادت سے محروم کر دیتا ہے۔
قرآن مجید کی آیات اور روایتوں میں ازدواج میں ایمان کی شرط کی تصریح کی گئی ہے: جیسے ارشاد باری تعالی ہے:" خبردارمشرک عورتوں سے اس وقت تک نکاح نہ کرنا جب تک ایمان نہ لےآئیں کہ ایک مومن کنیز مشرک آزاد عورت سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتنی ہی بھلی معلوم ہو اور مشرکین کو بھی لڑکیاں نہ دینا جب تک نہ مسلمان ہو جائیں کہ مسلمان غلام آزاد مشرک سے بہتر ہے چاہے وہ تمھیں کتناہی اچھا کیوں نہ معلوم ہو۔ یہ مشرکین تمھیں جہنم کی دعوت دیتے ہیں اور خدا اپنے حکم سے جنّت اور مغفرت کی دعوت دیتا ہے اور اپنی آیتوں کو واضح کرکے بیان کرتا ہے کہ شاید یہ لوگ سمجھ سکیں۔[6]
اس سلسلہ میں پیغمبر اکرم(ص)فرماتے ہیں:" جس نے اپنی بیٹی کو کسی فاسق مرد کی ازدواج میں قرار دیا۔ اس نے اس عمل سے اس کے ساتھ قطع رحم انجام دیا ہے"۔[7]
امام صادق(ع) فرماتے ہیں: اگر کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ اس کی خوبصورتی یا دولت کی لالچ میں ازدواج کرے تو وہ دونوں ( خوبصورتی اور مال) سے محروم ہوگا اور اگر دین اورتقوی کے لئے اس سے ازدواج کرے تو خداوند متعال مال اور خوبصورتی بھی اسے عطا کرے گا۔"[8]
اس کے علاوہ، اعتقادی اور اخلاقی خصوصیات، دوسرے ہر عامل سے زیادہ اعتماد پیدا کرنے والی ہیں، کیونکہ اخلاقی خصوصیات اور دینی اعتقادات نہ صرف انسان کو تبدیل کرتے ہیں، بلکہ مد مقابل کے لئے اطمینان حاصل ہونے کا سبب بھی ہیں اور یہی امر زوجین کے لئے ابتدائی تفاہم حاصل ہونے کا باعث بھی بن جاتا ہے اور پوری زندگی میں اس کا تداوم، فیصلہ کن ہوتا ہے۔
ب: حسن اخلاق کا مالک ہونا۔
اسلام میں اخلاقی خصوصیات، جیسے حسن اخلاق، ایک مناسب شریک حیات کے لئے ضروری خصوصیات اور شرائط میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں پر حسن اخلاق سے مراد زندگی میں مناسب رفتار اور معاملہ ہے، افراد کے ساتھ سازگاری اور مہربانی سے پیش آنا ہے۔ حسن اخلاق، خوش اخلاقی اور نیک خصلت، کلام کو زینت بخشنا، شکر و سپاس گزاری، خوش بیانی، حقیقت گوئی، محبت و تشویق اور صداقت وغیرہ ہے۔ ازدواجی زندگی کی بنیاد، سازگاری، تفاہم اور ہم کاری ہے کہ یہ امور صرف حسن اخلاق کی روشنی میں فراہم ہوتے ہیں۔
انسان کو پسندیدہ صفات، عادات اور خصلتوں کا مالک ہونا چاہئے اور نیک فضائل، کمالات، اعمال و رفتار کا مالک ہونا چاہئے اور برے صفات اور اخلاقی بیماریوں وغیرہ سے دور رہنا چاہئے، لیکن جو چیز انسان کو سرکش نفس اور طغیان گر و عصیان گر نفسانی خواہشات سے بچاکر عمومی آرام و آسائش اور پر امن زندگی فراہم کرسکے، وہ صرف حقیقی حسن اخلاق ہے کہ جس کا سرچشمہ خداوند متعال کا حقیقی ایمان ہے۔ زندگی میں نیک اخلاق کا مالک ہونا طرفین اور خاندان کے تمام افراد کے لئے نشاط و شادمانی کا سبب بن سکتا ہے۔ روایتوں میں آیا ہے کہ بد اخلاق شریک حیات کی وجہ سے انسان زودرس بوڑھاپے سے دوچار ہوسکتا ہے۔
اسی لئے روایتوں میں صراحت کے ساتھ بد اخلاق افراد سے ازدواج کرنے کی ممانعت کی گئی ہے، اس روایت کے مانند:
رسول اکرم (ص) نے فرمایا ہے:" ایک مرد کے لئے اسلام قبول کرنے کے بعد ایک نیکوکار مسلمان عورت کی ہمسری کے علاوہ کوئی برتر اور فائدہ بخش چیز نہیں ہے، وہ عورت جو مرد کو دیکھنے کے بعد شاد کرے، اس کے دستورات کی اطاعت کرے اور شوہرکی عدم موجودگی میں اپنی عصمت اور اس کے مال کی محافظ ہو"۔
ایک شخص نے امام رضا (ع) سے کسی کے بارے میں پوچھا: میرے ایک رشتہ دار نے میری بیٹی کے بارے میں خواستگاری کی ہے اور بعض لحاظ سے ہمسری کی شائستگی رکھتا ہے، لیکن بد اخلاق ہے، میں کیا کروں؟ آنحضرت (ص) نے جواب میں فرمایا: اگر وہ بد اخلاق ہے تو اسے بیٹی نہ دینا۔
اسلام کی نظر میں اصلی شمار ہونے والے معیاروں کے علاوہ کہ ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کیا گیا، کچھ اور معیار بھی قابل توجہ ہیں لیکن وہ درجہ بندی میں اصلی معیاروں کے درجہ میں نہیں آتے ہیں، لیکن اسلام میں ان کی طرف بھی خاص توجہ کی گئی ہے، یہ معیار، فرعی معیار ہیں۔
ج: گناہوں سے اجتناب۔
صاحب تقوی ہونا، اس حد میں کہ زنا کے مانند گناہوں کا علی الاعلان مرتکب نہ ہونا۔ روایتوں میں شریک حیات کے انتخاب میں اس معیار اور شرط کے بارے میں تاکید کی گئی ہے، جیسے:
امام صادق (ع) فرماتے ہیں:" مسلمان مرد ان عورتوں سے ازدواج نہ کریں جو آشکار صورت میں لاپروائی کے ساتھ زنا کی مرتکب ہوتی ہوں اور اسی طرح پاک دامن اور مسلمان عورتیں ان مردوں سے ازدواج نہ کریں جو آشکار صورت میں لاپروائی کے ساتھ زنا کے مرتکب ہوتے ہوں مگر یہ کہ معلوم ہو جائے کہ اس نے توبہ کی ہے ( یعنی حقیقی معنوں میں برے اور منافی عفت اعمال سے پرہیز کی ہو)"۔[9]
ایک گناہ جس سے ازدواج میں پاک ہونا ضروی ہے، وہ شراب نوشی ہے۔ متعدد روایتوں میں تاکید کی گئی ہے کہ شراب خوار سے ازدواج کرنے سے پرہیز کرنی چاہئے:
امام صادق (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے نقل کرکے فرمایا ہے:" اگر خواستگار شرابخوار ہو، تو اسے ہمسر نہیں دینی چاہئے"۔[10]
اس طرح ارشاد فرمایا ہے:" اس کے بعد کہ خداوند متعال نے شراب کو حرام قرار دیا، اگر کوئی شراب نوشی کرے، تو وہ یہ شائستگی نہیں رکھتا ہے کہ خواستگاری کی صورت میں اس کے عقد میں اپنی بیٹی دی جائے۔"[11]
امام صادق (ع) سے نقل کی گئی ایک اور روایت میں امام (ع) ایک لڑکی کے باپ سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں:" ایسا نہ ہو کہ شرابخوار کو بیٹی دوگے، اگر ایسا کیا تو اس کے مانند ہے کہ اسےزنا کرانے کے لئے لے گئے ہو"۔[12]
اس گناہ کے اثرات صرف شرابخوار شخص پر مترتب نہیں ہوتے ہیں، بلکہ یہ گناہ پورے خاندان، خاص کر اولاد کو اپنے منفی اثرات کے تحت قرار دیتا ہے۔ لہذا ایسے افراد سے ازدواج نہ کرنے کی تاکید کی گئی ہے۔
د: کفو۔
شریک حیات کے انتخاب میں، بے شک " کفو" اسلام کے اصلی معیاروں میں سے ہے۔
لغت میں " کفو" اور" کفؤ" کے معنی منزلت اور قدر وقیمت میں ہم پلہ، ہم سطح اور ہم سنگ ہونا ہے۔[13]
فقہ کی کتابوں میں زن و مرد کے درمیان ازدواج کے سلسلہ میں " کفو" کے لئے دو مصداق ذکر کئے گئے ہیں:
کفو شرعی: یعنی، عقد و ازدواج کے صحیح ہونے میں کفوشرعی، جیسے: مسلمان ہونا قابل اعتبار اور ضروری ہے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ زن و مرد، اسلام[14] کے لحاظ سے اور یا ایمان[15] کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ہونے چاہئے اور اس سلسلہ میں آپس میں زیادہ تفاوت نہ رکھتے ہوں، اگر چہ یہ دعوی نہیں کیا جاسکا ہے کہ یہ ہم پلہ اور ہم سطح ہونا دونوں کی طرف سے مساوی اور ایک ہی رتبہ پر ہوں، کیونکہ انسانوں میں ایمان و اسلام قوی اور ضعیف مراتب میں ہوتا ہے، اسی وجہ سے، ازدواج میں کفو کا مفہوم ایک امر نسبتی ہے اور مناسب نہیں ہے کہ، اصل ازدواج، جو انبیائے الہی کی ایک اہم سنت ہے، ایک مکمل ہم سطح نہ ملنے کی وجہ سے ترک کی جائے۔
اس بنا پر، کفو شرعی کے اعتبار کے مطابق ایک مسلمان مرد کی ازدواج ایک غیر کتابی کافر سے اور ایک مسلمان عورت کی ازدواج حتی کہ اہل کتاب کافر سے بھی صحیح نہیں ہے۔[16] اور اسی پر تمام فقہا کا اتفاق ہے۔ لیکن مسلمان مرد کی اہل کتاب عورت سے ازدواج کے سلسلہ میں فقہا کے درمیان اختلاف نظر ہے اور فقہائے متاخر میں مشہور یہ ہے کہ اہل کتاب عورتوں سے ازدواج دائمی حرام ہے۔[17]
البتہ یہ کفو شرعی کے بارے میں ابتدائی نظر تھی جو عقد کے صحیح ہونے کے لئے شرط اور ضروری ہے۔
2۔ کفو عرفی: یعنی عورت اور مرد اجتماعی حیثیت سے آپس میں متناسب ہوں۔[18] زن و مرد کے درمیان فکری توافق اور روحی و اخلاقی تناسب ہونا چاہئے اور دوشریک حیات خاندان، ثقافت اور جذبات کے لحاظ سے ایک دوسرے کے ہم پلہ ہونے چاہئے تاکہ ایک دوسرے کو بخوبی ادراک کرکے ازدواجی زندگی کو گرم اور پر رونق بنا سکیں۔
فقہ کی کتابوں میں، کفو شرعی کے ساتھ کفو عرفی کا بھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن کفو عرفی کی رعایت کرنا ضروری نہیں ہے، مگر جہاں پر لڑکی فکری رشد و بالیدگی کافی نہ رکھتی ہو اور اس کا ولی اس کے لئے شوہر کا انتخاب کرے۔[19]
بہرحال، ازدواج میں کفو کے معنی کے بارے میں، کفو شرعی اور کفو عرفی میں جو چیز مشترک ہے وہ یہ ہے: دینی لحاظ سے مرد اور عورت کا ہم پلہ اور ہم پایہ ہونا،[20] مذہبی اور اخلاقی شرائط کا ہونا نہ یہ کہ مادی اور مال مسائل میں ہم پلہ ہوں۔[21]
امام صادق (ع) ازدواج میں کفو کے بارے میں فرماتے ہیں:" کفو اور ہم پلہ ہونا اس معنی میں ہے کہ مرد صاحب عفت اور پاک دامن ہو اور خاندان کے اخراجات کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو۔"[22]" بعض مومنین ایک دوسرےکے ہم کفو، ہم پلہ اور ہم سان ہیں۔"[23] ( یعنی جس ہم پلہ ہونے کی ازدواج میں رعایت ہونی چاہئے وہ ہم مذہب ہونا ہے)
ہمسر کے انتخاب میں فرعی معیار:
بعض معیار اور شرائط جو دوافراد کی ازدواج میں قابل توجہ اور قابل رعایت ہیں، وہ حسب ذیل ہیں:
شریک حیات کے انتخاب میں فرعی معیار
ازدواج میں بعض معیار اور شرائط، جن کی رعایت کرنا بہتر ہے، حسب ذیل میں:
الف: خاندان کی اصالت اور شرافت:
دو نوجوانوں کی مشترک زندگی میں، خاندان اور ذہنی اور تربیتی مسائل اورمذہبی نظریہ اہم رول رکھتے ہیں۔ جس قدر خاندان ساخت، ترکیب اور اعتقاد کے لحاظ سے نزدیک تر ہوں، میاں بیوی کے درمیان صحیح اور مستحکم روابط قائم ہونے کے ممکنات زیادہ تر ہیں۔ اصالت و شرافت سے مراد خاندانی شہرت، دولت اور اجتماعی حیثیت نہیں ہے، بلکہ اس سے مراد نجابت، دینداری اور پاک دامنی ہے۔ جب کوئی ازدواج میں ایک گھرانہ سے رشتہ جوڑتا ہے، مسلّم ہے کہ اس خاندان کے بہت سے اخلاقی، ذہنی، نفسیاتی، عقلی اور جسمانی صفات وراثت، ماحول، عادت اور تربیت کی راہ سے اس شخص میں منتقل ہوتی ہیں اور وہ بھی ان خصوصیات کو ازدواج کی راہ سے اپنے خاندان اور اولاد میں منتقل کرتا ہے۔ اس بنا پر، اسلام کی نظر میں ایک شریف، اصیل، صحیح ماحول والے خاندان سے ازدواج کرنا کافی اہمیت رکھتا ہے۔ معصوم (ع) کےکلام میں بھی اس موضوع کی حساسیت معلوم ہوتی ہے۔
جیسا کہ ہم ایک روایت میں پڑھتے ہیں کہ: ایک دن رسول خدا (ص) نے کھڑے ہوکر فرمایا:" گوبر پر اُگے ہوئے سبز اور تازہ گھاس سے پرہیز کرنا" عرض کی گئی: یا رسول اللہ! اس کلام سے مراد کیا ہے؟ فرمایا: ( اس کا مراد) ایک خوبصورت عورت ہے جو بُرے خاندان اور فاسد ماحول میں پرورش پا چکی ہو"۔[24]
امام صادق (ع) نے فرمایا ہے:" شائستہ اور با فضیلت خاندان سے ہمسر کا انتخاب کرنا چاہئے، کیونکہ نطفہ( پنہانی)اثر رکھتا ہے"۔[25] یعنی والدین کی صفات اور حالات نطفہ کے ذریعہ اولاد میں منتقل ہوتے ہیں۔ اس بنا پر ازدواج، صرف دو جوانوں کے درمیان پیوند نہیں ہے، بلکہ خاندانوں کے درمیان پیوند ہے اور اس پیوند میں دینی اور اعتقادی تحفظ کو پورا کرنے کے لئے صالح اور سالم افراد سے یہ پیوند انجام پانا چاہئے۔ اگر چہ ہمسر کے انتخاب میں خاندان کی اصالت فرعی معیاروں میں سے شمار ہوتی ہے، لیکن اسلام کے لحاظ سے اس کی طرف کافی توجہ کی گئی ہے۔ اس بناپر، یہ معیار دوسرے فرعی معیاروں کی بہ نسبت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
ب: ظاہری خوبصورتی اور دل کشی
بعض لوگوں کی نظر میں زیبائی اور دل کشی جیسی خصوصیات، زوجین، خاص کر عورت میں ازدواج کے سلسلہ میں اہم عامل شمار ہوتی ہیں، اگرچہ متقابل کا میل و دلچسپی حاصل کرنا اور جنسی ضرورتوں کو پورا کرنا، زن و مرد کی ایک دوسرے کی بہ نسبت احساس دلچسپی و دوستی پر مبنی ہے کہ اگر ازدواج میں یہ میل و دلچسپی موجود نہ ہو، تو ابتداء سے ہی خاندانی عدم رضایت پیدا ہوتی ہے۔
اس فطری خصوصیت پر بھی اسلام نے توجہ کی ہے، لیکن دیکھنا چاہئے کس قدر اس کی اہمیت کا قائل ہونا چاہئے؟ بعض لوگ ظاہری خوبصورتی کے لئے، اصالت کے قائل ہیں اور دوسرے عوامل کو اہمیت کے لحاظ سے دوسرے درجہ پر جانتے ہیں، جبکہ صرف خوبصورتی اور دل کشی زندگی تشکیل دینے کے لئے کافی نہیں ہوسکتی ہے، کیونکہ مشترک زندگی کے اپنے فرائض، ذمہ داریاں اور مشکلات ہیں کہ خوبصورتی پر تاکید کرکےان سے چشم پوشی نہیں کی جاسکتی ہے، لہذا خوبصورتی اور جاذبیت ایک زن و مرد کے درمیان پیوند قائم ہونے کے لئے ایک مناسب نقطہ آغاز ہے، لیکن کافی شرط اور معیار شمار نہیں ہوتا ہے۔
اسلام کی نظر میں، خوبصورتی کی اس وقت قدر و قیمت ہے کہ اس کے ساتھ دینداری اور دوسرے معنوی کمالات اور فضائل بھی ہوں، ورنہ، صرف ظاہری خوبصورتی و دلکشی اسلام کے مد نظر شائستہ صفات کے بغیر ممکن ہے ہمسر کے لئے مشکلات اور گرفتاریاں پیدا کرنے کا سبب بنیں۔ جیسا کہ معیاروں کے بارے میں ذکر کی گئی احادیث میں اشارہ کیا گیا۔
قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ خوبصورتی ایک نسبتی امر ہے اور مرد و زن کی خوبصورتی اور دل کشی کو مد مقابل اور دونوں طرف کے خاندان کے افراد کی بہ نسبت مد نظر رکھنا چاہئے۔ اس بنا پر ممکن ہے دو افراد ظاہری جاذبیت کے لحاظ سے آپس میں متناسب ہوں، لیکن کسی دوسرے شخص کی نظر میں ان دونوں میں سے ایک خوبصورت نہ ہو۔
ج: عمر اور تعلیم کے لحاظ سے کفو
ہمسر کے انتخاب میں عمر کے لحاظ سے کفو اور متناسب ہونا ضروری ہے۔ لڑکے اور لڑکی کے درمیان سن بلوغ میں تفاوت ایک فطری امر ہے اور لڑکا، لڑکی کے بلوغ جنسی کی عمرتک پہنچنے کے چار سال بعد بلوغ جنسی تک پہنچتا ہے۔ اس لحاظ سے ازدواج میں بھی اس تفاوت کو مد نظر رکھنا چاہئے، یعنی لڑکا لڑکی سے بڑا ہو، لیکن ضروری نہیں ہے۔[26]
اس سلسلہ میں مزید معلومات حاصل کرنے کے لئے مندرجہ ذیل عناوین ملا حظہ ہوں۔
1۔ " انتخاب ہمسر"، سوال 2102( سائٹ: 2167)۔
2۔ " فلسفہ ازدواج در اسلام"، سوال:1300(سائٹ: 1283)۔
3۔" عشق بہ خدا و ازدواج" ، سوال 5036( سائٹ: 5342)۔
[1]۔ روم، 21: «وَ مِنْ آياتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْواجاً لِتَسْكُنُوا إِلَيْها وَ جَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَ رَحْمَةً إِنَّ في ذلِكَ لَآياتٍ لِقَوْمٍ يَتَفَكَّرُون».
[2]۔ نساء، 21:«وَ كَيْفَ تَأْخُذُونَهُ وَ قَدْ أَفْضى بَعْضُكُمْ إِلى بَعْضٍ وَ أَخَذْنَ مِنْكُمْ ميثاقاً غَليظاً» اور آخر کس طرح تم مال کو واپس لوگے جبکہ ایک دوسرے سے متصل ہوچکا ہے اور ان عورتوں نے تم سے بہت سخت قسم کا عہد لیا ہے۔
[3]۔ مكارم شيرازى، ناصر، تفسیر نمونه، ج 3، ص 323، دار الكتب الإسلامية، تهران، طبع اول، 1374ش.
[4] ۔ مزید آگاہی کے لئے ملاحظ ہو:«وسواس در انتخاب همسر»، سؤال 9804 (سائٹ: 9774)۔
[5]۔اس حدیث کے مانند کہ امام علی(ع) نے فرمایا ہے: جس نے تم میں سے ازدواج کا فیصلہ کیا، دو رکعت نماز پڑھے حمد کے بعد یاسین کی قرآت کرے اور اس کے بعد حمد و ثنائے باری تعالی کو بجا لائے اور کہے: خداوندا! ایک صالح، محبت والی پُراولاد ، شکر گزار، قانع، تسلیم اور باغیرت عورت کو میرے نصیب کرنا کہ اگر اچھائی کروں تو شکر گزار ہو اور اگر میں خدا کو بھول گیا تو مجھے یاد دہانی کرے، جب میں گھر سے نکل جاؤں میری زندگی و آبرو کی محافظ ہو اور جب گھر لوٹوں مجھے خوشحال و مسرور کرے، اگر اسے حکم دوں تو اطاعت کرے اور اگر میں نے اس کے لئے قسم کھائی تو اسے قبول کرے، اگر اس پر غضبناک ہوا تو مجھے راضی اور خوشحال کرے۔ اے خداوند متعال ! مجھے ایسی بیوی عطا کر کیونکہ میں تیری عظمت سے مدد چاہتا ہوں اور جوتم مجھے عطا کروگے اس کے علاوہ مجھے کچھ نہیں ملے گا۔ اگر کوئی اس نماز اور دعا کو بجالائے خداوند متعال اس کی دعا کو قبول کرے گا۔ اور اس کے بعد جب شب زفاف میں وہ عورت اس کے پاس آئے، تو پھر دو رکعت نماز پڑھے اور اس کے بعد اپنے ہاتھ کو اپنی بیوی کی پیشانی پر رکھ کر یہ دعا پڑھے : اللّهم بارك لي و في أهلي و بارك لها فيّ، و ما جمعت بيننا، فاجمع بيننا في خير و يمن» (مجلسی، محمد باقر، بحارالانوار، ج 100، ص 268، مؤسسة الوفاء، بیروت، 1404ق).
[6]۔ بقره، 221، «وَ لا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكاتِ حَتَّى يُؤْمِنَّ وَ لَأَمَةٌ مُؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكَةٍ وَ لَوْ أَعْجَبَتْكُمْ وَ لا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكينَ حَتَّى يُؤْمِنُوا وَ لَعَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَيْرٌ مِنْ مُشْرِكٍ وَ لَوْ أَعْجَبَكُمْ أُولئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَ اللَّهُ يَدْعُوا إِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ وَ يُبَيِّنُ آياتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ».
[7] ۔ طبرسی، رضى الدين حسن بن فضل، مکارم الاخلاق، ص 204، انتشارات شريف رضى، قم، 1412ق.
[8] ۔ عاملی، شیخ حر، وسائل الشیعة، ج 20، ص 49 و 50، مؤسسه آل البیت (ع)، قم، 1409ق.
[9] ۔ مکارم الاخلاق، ص 204.
[10] ۔«شَارِبُ الْخَمْرِ لَا يُزَوَّجُ إِذَا خَطَب»؛ کلینی، محمد بن یعقوب، الکافی، محقق و مصحح: غفاری، علی اکبر، آخوندی، محمد، ج 5، ص 348، تهران، دار الکتب الإسلامیة، چاپ چهارم، 1407ق
[11]«مَنْ شَرِبَ الْخَمْرَ بَعْدَ مَا حَرَّمَهَا اللَّهُ عَلَى لِسَانِي فَلَيْسَ بِأَهْلٍ أَنْ يُزَوَّجَ إِذَا خَطَب»؛
[12] ۔ وَ إِيَّاكَ أَنْ تُزَوِّجَ شَارِبَ الْخَمْرِ فَإِنْ زَوَّجْتَهُ فَكَأَنَّمَا قُدْتَ إِلَى الزِّنَا»؛ الفقه المنسوب للإمام الرضا(علیه السلام)، ص 280، مشهد، مؤسسة آل البیت(علیهم السلام)، طبع اول، 1406ق.
[13]راغب اصفهانى، حسين بن محمد، المفردات فی غریب القرآن، ص 718، تحقيق، صفوان عدنان داودی، دارالعلم الدار الشامية، دمشق بیروت، طبع اول، 1412ق؛ مهيار، رضا، فرهنگ ابجدی عربی – فارسی، ص 731، انتشارات اسلامی.
[14]۔ بعض فقہا نے ازدواج کا اصلی معیار " اسلام" قرار دیا ہے، جیسے: آیت اللہ العظمی بہجت (رہ): مسلمان، مسلمان کا کفو ہے اور ان کی ازدواج میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (بهجت، محمد تقی، استفتائات، ج 4، ص 15، نشر دفتر آیة الله بهجت، قم، طبع اول، 1428ق)
[15] ۔ بعض فقہا ازدواج کا اصلی اور شرعی کفو کا معیار" ایمان" جانتے ہیں، جیسے : حضرت آیت اللہ العظمی تبریزی (رہ): مومن، مومن کا کفو ہے اور دوسرے جہات اس میں دخالت نہیں رکھتے ہیں۔ بعض فقہا ازدواج کا اصلی اور شرعی کفو کا معیار" ایمان" جانتے ہیں، جیسے : حضرت آیت اللہ العظمی تبریزی (رہ): مومن، مومن کا کفو ہے اور دوسرے جہات اس میں دخالت نہیں رکھتے ہیں۔ (تبریزی، جواد بن علی، استفتائات جدید، ج 1، ص 350، قم، طبع اول).
[16] ۔ نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام، ج 30، ص 92، محقق/ مصحح: عباس قوچانى و على آخوندى، دار احیاء التراث العربی، طبع هفتم، بیروت.
[17]۔ شاہرودی کے تحت نظر محققین کا ایک گروہ سيد محمود هاشمى، فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج 1، ص 484، محقق/ مصحح: محققان مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامى، مؤسسه دائرة المعارف فقه اسلامى بر مذهب اهل بيت (ع)، قم، طبع اول، 1426ق.
[18] ۔ مکارم شیرازی، ناصر، احکام بانوان، ص 142، محقق/ مصحح: ابو القاسم علياننژادى، ، انتشارات مدرسه امام على بن ابى طالب (ع)، قم، طبع یازدهم، 1428ق.
[19] ۔ ایضاً، ص 142۔
[20] ۔ فرهنگ فقه مطابق مذهب اهل بیت، ج 1، ص 367. ۔
[21] محقق داماد يزدى، سيد مصطفى، بررسی فقهی حقوق خانواده، ص 366، قم، طبع اول.
[22]۔ شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، ج 3، ص 394، انتشارات جامعه مدرسين، قم، طبع دوم، 1404ق.
[23] ۔ من لا یحضره الفقیه، ج 3، ص 393.
[24] ۔ الکافی، ج 5، ص 332.
[25] ۔ مکارم الاخلاق، ص 197.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے