Please Wait
8216
قیام عاشورا اور واقعھ کربلا کے دو رخ ھیں۔ ایک نورانی رخ جو جانثاری اور فخر کا رخ ھے۔ دوسرا سیاھی اور ظلم کا رخ جس میں ایسا ظلم ، اور جرم شامل ھے جس کی تاریخ میں نظیرنھیں ملتی ھے ۔ اس لئے کربلا کے واقعھ میں پیش آئے مصائب کے حوادث کو ناممکن اور غیر مقبول نھیں جاننا چاھئے۔
جو مراثی میں ذاکرین اپنی جانب سے اضافھ کرتے ھیں اس کی بھی دو قسمیں ھیں۔ ۱۔ ایک قسم ایسی ھے جس کو ھم ذاکرین کی اصطلاح میں " زبان حال" سے تعبیر کرتے ھیں۔ یعنی مناسب تشبیھات اور مثالوں کے ساتھه ان وقائع کے بارے میں کھنا جن کی اسناد معتبر ھیں اس طرح کے اضافات اگر ائمھ طاھرین اور بزرگان دین کی شان کے خلاف نھ ھوں تو اس میں کوئی اشکال نھیں ھے۔
دوسری قسم وه جعلی مرثیھ ھے جس کی نھ کوئی معتبر سند ھوتی ھے اور نھ وه ائمھ علیھم السلام کی شان کے موافق ھوتے ھیں۔ اس طرح کی منقبت یا ایسے مرثیے مورد اشکال ھیں اور انھیں روکنا چاھئے۔
اس سوال کا جواب واضح کرنے کیلئے کچھه نکات کی جانب اشاره کرنا ضروری ھے:
۱۔ انقلاب اور قیام عاشورا کے دو رخ ھیں۔ پھلا رخ نورانی اور روشن رخ ھے جو فداکاری، جاں نثاری اور فخر سے بھرا ھوا رخ ھے۔ یھ رخ حقیقت اور انسانیت کی تجلی ھے۔ دوسرا رخ سیاه اور اندھیرے کا رخ ھے جس میں مصائب، آلام اور ایسے جرم شامل ھیں جن کی تاریخ میں نظیرنھیں ملتی ھے۔ اس لحاظ سے کربلا کی نھضت، مصیبت ، مشکلات اور آلام ھیں۔ جب اس رخ پر نظر کرتے ھیں تو اس میں بے گناه انسانوں کا قتل عام ، جوانوں اور شیرخواروں کا شھید کرنا اور شھداء کے بدن پر گھوڑوں کا دوڑوانا ، ایک انسان کو پانی نھ دینا ، بچوں اور عورتوں کو کوڑوں سے مارنا ، اسیروں کو بے محمل اونٹوں پر بٹھانا وغیره شامل ھے۔[1] اس لئے کربلا کے مصائب اور آلام کو غیر ممکن اور غیر مقبول نھیں جاننا چاھئے۔
۲۔ جو ذاکرین اپنے مرثیھ میں اپنی طرف سے اضافھ کرتے ھیں اس کی بھی دو قسمیں ھیں پھلی قسم وه ھے جس کو ذاکروں کی اصطلاح میں " زبان حال" کھتے ھیں۔ یعنی مناسب تشبیھات اور تمثیلات سے ان وقائع کو بیان کرنا جو اھلبیت علیھم السلام پر گزرے ھیں ۔ اس قسم کے اضافات اگر کربلا کے اصلی واقعھ کے بارے میں معتبر اسناد سے بیان کئے جائیں اور ایسی تشبیھات اور تمثیلات ھوں جو ائمھ طاھرین علیھم السلام کی شان سے متناقض نھ ھوں تو اس میں کوئی بھی اشکال نھیں ھے۔
لیکن دوسری قسم : وه جعلی مرثیھ ھے جس کی نھ سند معتبرھے اور نھ ھی وه اماموں کی شان کے مطابق ھے اس طرح کی مدح خوانی میں اشکال ھے اور اسے روکنا چاھئے۔
۳۔ جو لوگ اپنی طرف سے مرثیھ میں اضافھ کرتے ھیں ، ان کے اھداف اور مقاصد:
اس طرح کے اضافات میں افراد کے اھداف مختلف ھیں:
بعض لوگ خیر خواھی اور دلسوزی کی بنا پر کهتے ھیں : روایات کے مطابق امام حسین علیھ السلام پر گریھ کرنا اور دوسروں کو رلانا ، نیک کام ھے اور جو ایک قطره آنسوؤں کا نکلتا ھے اس پر بھت زیاده ثواب لکھے جاتے ھیں۔ پس جھان تک ھم امام حسیں علیھ السلام پر گریھ کرسکتے ھیں ھمیں گریھ کرنا چاھئے اور دوسروں کو بھی رلانا چاھئے ، اور منابع و مآخذ میں غور و خوض کی ضرورت نھیں ۔
اس نقطه نگاه کے ساتھه بعض بزرگ حضرات غلطی کا شکار ھوئے اور اپنی کتابوں میں غوروغوض نھیں کیا۔[2] اور بھت سارے مذھبی اور متدین افراد نے ان کی پیروی کرتے ھوئے جعلی تعزیت کی مجالس برپا کرکے یھ گمان کیا ھے کھ وه اس مقدس مقصد کو وسعت اور گھرائی بخشنے میں مدد کرتے ھیں۔
دوسرے لوگ، اساطیر اور قصے گڑھنے کی عادت کی وجھ سے مبالغھ گوئی اور غیر معقول غلو کرنے لگے اور اس بات سے غافل رھے کھ اس کام ( کا مقصد جو بھی ھو) لیکن یھ کام دین ، حضرت امام حسیں علیھ السلام اور عاشورا کے اصلی پیغام ، میں انحراف ایجاد کرکے مذھب کی توھین کا سبب بنتا ھے۔[3]
۴۔ ان انحرافات سے مقابلھ کرنے میں ھماری ذمھ داریاں:
تحریف سے مقابلھ کرنا ھمارا شرعی اورعام فریضھ ھے۔ ھر صنف اور طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو اس بات پر توجھ کرنی چاھئے۔ مخصوصا پڑھے لکھے لوگوں کو ۔ حضرت رسول اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم ایک حدیث میں فرماتے ھیں:
جو عالم اور دانشور حقائق کو چھپائیں گے ان کے اوپر خدا کی لعنت اور نفرین ھوتی ھے۔[4]
لیکن اس کا یھ مطلب نھیں کھ عام لوگوں کی اس سلسلے میں کوئی ذمھ داری نھیں ھے کیوں کھ بھت سارے مسائل کے صحیح ھونے یا باطل ھونے کی تشخیص کیلئے پڑھا لکھا ھونے کی ضرورت نھیں بلکھ ھر کوئی شخص اپنی پاک فطرت اور عقل سلیم سے اس کے درست یا غلط ھونے کو سمجھه سکتا ھے کبھی ایسی روئداد بیان کی جاتی ھے کھ ھر کوئی شخص اس کے غلط ھونے کو سمجھه سکتا ھے۔
اس سوال کے جواب میں کھ اگر ھدف مقدس ھو تو وه وسیلے کی توجیھ کرتا ھے اس سلسلے میں یھ کھنا ضروری ھے کھ اس طرح کا استدلال لوگوں کو دھوکھ دینے کیلئے ھے اور عقل اور دینی تعلیمات میں اس کی کوئی اھمیت نھیں ھے [5]
کس طرح یھ ممکن ھے کھ حضرت امام حسین علیھ السلام جو دین کے مقدسات اور دینی اقدار کی حفاظت کیلئے شھید ھوئے ھیں ان کی یاد میں ایسی مجالس منعقد کی جائیں لیکن ان مجالس میں دینی اقدار کا خیال نھ رکھا جائے اور جھوٹے مرثیے پڑھے جائیں یا عزاداری کو بھانھ بناکر واجب نمازیں ترک کی جائیں[6] یا ایسے ماتمی جلوس نکالے جائیں جن میں اخلاق اور عفت کا خیال نھ رھے۔ [7]
[1] مطھری ، مرتضی ، مجموعھ آثار ، ج ۱۷ بخش اول ، سخنرانیھا ، فصل اول حماسھ حسینی ۔
[2] روضۃ الشھداء ، محمد حیسن کاشفی ، اسرار الشھادۃ ، ملا آقا دربندی ، جیسی کتب اس نقطھ نظر کے واضح نمونے ھیں۔
[3] مجموعھ آثار ، ج ۱۷ عوامل تحریف۔
حضرت آیۃ اللھ العظمی فاضل لنکرانی (رح) کربلا میں حضرت قاسم کی شادی کے مرثیھ کے بارے میں فرماتے ھیں: جو کچھه حضرت قاسم کی شادی کے بارے میں بیان ھوتا ھے وه صحیح نھیں ھے اور معتبر کتابوں میں اس کا کوئی ذکر موجود نھیں ھے اس کے علاوه حضرت قاسم شادی کے عمر کو نھیں پھنچے تھے ۔ ھاں طریحی ، کی کتاب " منتخب " میں بعض مطالب ان کی شادی کی بارے میں منقول ھیں لیکن یھ مطالب ان کی وفات کے بعد ان کی کتاب میں بعض غرض طلب افراد کی طرف سے اضافھ کئے گئے ھیں اور مرحوم طریحی کا مقام اس سے بڑھ کر ھے کھ ایسے مطالب کو اپنی کتاب میں لائیں جس کا کربلا سے دور کا بھی تعلق نھیں، اور جو کچھه طریحی کی کتاب میں آیا ھے اور بعض افراد سے تعزیھ میں خرافات کے بیان ھوتے ھیں ایسا بالکل صحیح نھیں ھے۔
[4] قال رسول اللھ صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم : " اذا ظھرت البدع فی امتی فلیظھر العالم علمھ و الا فعلیھ لعنۃ اللھ" جھاں پر بدعتیں اور جھوٹ ظاھر ھوجائے ، عالموں کی ذمھ داری یھ ھے کھ حقایق کو بیان کریں ۔ جو حقائق کو چھپاتا ھے اس پر خد اکی لعنت ھے۔
[5] مزید آگاھی کیلئے رجوع کریں حماسھ حسینی ، ج ۱ ۔ شھید مطھری ، : لؤ لؤ و مرجان ، محدث قمی۔
[6] حضرت امام حسیں علیھ السلام نے ظھر عاشور کو دشمن کے مقابلے میں نماز جماعت اقامھ کی۔ جبکھ نماز، جماعت کے ساتھه پڑھنا مستحب ھے نھ کھ واجب۔
[7] جبکھ حضرت امام حسین علیھ السلام کی چھوٹی بیٹی جس کا نام فاطمھ تھا شام غریباں میں بیھوش ھونے کے بعد، سب سے پھلے اپنی پھوپھی جان حضرت زینت علیھا السلام سے جس چیز کا تقاضا کرتی ھے ،وه ایک چادر ھے جس کے ذریعے وه اپنے بالوں کو چھپانا چاھتی تھی ، بحار الانوار ج ۴۵۔ ص ۶۰ اور ۶۱