Please Wait
6585
- سیکنڈ اور
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ثواب و عقاب یا جزا و سزا کا محور اور بہ الفاظ دیگر شادیوں اور خوشیوں اور رنج و درد کا مرکز روح و جان ہے پس اگر کوئی بدن عذاب محسوس کرتا ہے تو یہ اس کی روح کی وجہ سے ہے جو اس کے بدن سے متعلق ہوتی ہے، اوراگر ہم بدن سے روح کو جدا کریں تو وہ بدن گوشت اور ھڈیوں کا ایک ٹکڑا ہوگا کہ اگر اس کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کئے جائیں ، تو اسے کوئی درد و رنج محسوس نہیں ہوگا، کیوں؟
اس لئے کہ اس میں روح و جان نہیں ہے اس بنا پر عدل و وانصاف کی رعایت کے لحاظ سے انسان کو ہر بدن کے ساتھ عذاب کرنا اگر وہ بدن گناہ کا مرتکب نہ ہوا ہو عدل و انصاف کے خلاف نہیں ہوگا۔ کیونکہ بدن اس لباس کے مانند ہے جو کسی مجرم کو پہنایا جاتا ہے تا کہ اس پر کوڑے ماریں۔
یہ شک و شبہہ ، معاد کے منکروں کی طرف سے پیش کیا گیا ہے ، وہ کہتے ہیں : سائنس کے لحاظ سے ثابت ہوا ہے کہ انسان کے خلیے جنین کے زمانے سے بوڑھاپے تک مسلسل تغیر و تبدل کی حالت میں ہوتے ہیں اور ہر آٹھ سال کے بعد انسان کے بدن کے تمام خلیات تبدیل ہوتے ہیں اور اس طرح ہر آٹھ سال کے بعد ایک نیا بدن وجود میں آتا ہے چونکہ اس مسئلہ کے پیش نظر کہ انسان کا بدن اس کی چند سالہ عمر کے دوران کئی بار تبدیل ہوتا ہے قیامت کے دن ان بدنوں میں سے کون سا بدن محشور ہوگا کہ اسے جزا یا سزا ملے اور خداوند متعال کی عدالت کے منافی بھی نہ ہو ؟
اس سوال کا جواب یہ ہے کہ ثواب و عقاب یا جزا و سزا کا محور اور بہ الفاظ دیگر مسرتوں اور خوشیوں اور رنج و درد کا مرکز روح و جان ہے پس اگر کوئی بدن عذاب محسوس کرتا ہے تو یہ اس کی روح کی وجہ سے ہے جو اس کے بدن سے متعلق ہوتی ہے اور اگر ہم بدن سے روح کو جدا کریں تو وہ بدن گوشت اور ھڈیوں کا ایک ٹکڑا ہوگا کہ اگر اس کے ٹکڑے ٹکڑے بھی کئے جائیں، تو اسے کوئی درد و رنج محسوس نہیں ہوگا، کیوں؟
اس لئے کہ اس میں روح و جان نہیں ہے
اس طرح اذیتیں اور خوشیاں بھی روح سے متعلق ہیں اگر آنکھ کسی منظر کو دیکھتی ہے یا کان کسی نغمہ کو سنتا ہے اور زبان کسی لذیذ غذا کو کھا کر لذت محسوس کرتی ہے اور انسان میں فرحت و خوشی پیدا ہوتی ہے تو وہ سب اس روح کی وجہ سے ہے جو اس سے متعلق ہوتی ہے اور اگر روح کو انسان کے بدن سے جدا کیا جائے تو انسان کا مردہ جسم ایک لوہے کے ٹکڑے کے مانند ہوگا اس بنا پر عدالت کی رعایت کرنے کے لحاظ سے ۔ انسان کو ان بدنوں میں کسی ایک کے ساتھ عذاب سے دوچار کرنا، اگرچہ وہ بدن اس کا مرتکب نہ ہوا ہو عدالت الہی کے برخلاف نہیں ہوگا ۔ کیونکہ بدن اس لباس کے مانند ہے جو مجرم کو پہنا کر اس پر کوڑے مارے جاتے ہیں کیونکہ نئے بدن پر کوڑے مارنے کے برے نتائج نکلتے ہیں اس لئے کبھی مجرم کے بدن پر ایک لباس زیب تن کرتے ہیں تا کہ اسے کوڑے مارین اور لباس پر کوڑے مارنا عدالت و انصاف کے خلاف شمار نہیں ہوتا ہے ، لیکن اس بیان سے ہرگز یہ تصور نہیں کرنا چاھیئے کہ انسان کا معاد روحانی معاد ہے اور بدن کو پھر سے نہیں اٹھایا جائے گا بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن بدن اور روح دونوں ایک ساتھ محشور کئے جائیں گے لیکن جزا و سزا روح سے متعلق ہیں، اور چونکہ جزاء سزا کا ایک حصہ روح کو بدن میں ڈالے بغیر ممکن نہیں ہے اس لئے ضروری ہے کہ روح کو عنصری و مادی بدن کے ساتھ محشور کیا جائے مثال کے طور پر ایک مرد جوانی کے دوران ایک قتل عمد کا مرتکب ہوتا ہے جس کی قانوناً سزا موت ہے ، لیکن مجرم قانون کے قبضہ سے فرار کرتا ہے اور پچاس سال کی عمر میں اسے پکڑا جاتا ہے اگر اس شخص کو قتل عمد کے جرم میں سزائے موت دی جائے تو یہ کام خلاف عدل و انصاف نہیں ہے کیوںکہ انسان کی شخصیت اور حقیقت اس کی وہی روح و جان ہوتی ہے اور تمام حالات میں روح ایک ہی ہوتی ہے اور انسان کی زندگی کے آخری لمحہ تک محفوظ رہتی ہے اگرچہ اس کی زندگی کے دوران متعدد بدن بدلتے رہتے ہیں اور اس کے بدن کے خلیات کئی بار تبدیل ہوتے ہیں بہ الفاظ دیگر انسان کی شناخت، حقیقت اور شخصیت کو اس کی روح تشکیل دیتی ہے دنیا بھی اس کے لیے پیدا کی گئی ہے اور آخرت بھی اس کے لیے برپا ہوگی جو چیز کمال تک پہنچتی ہے وہ روح ہے جو بدن کی راہ سے کمال کو پہونچتی ہے اور اس سے علم و آگاھی حاصل کرتی ہے اور اگر بدن نہ ہوتا تو انسان کی روح کمال تک نہیں پہنچ سکتی اسی طرح دوسری دنیا میں انسان اس بدن کے ذریعے بعض خوشیاں اور لذتیں حاصل کرتا ہے اور کچھ سزاوں کو چکھتا ہے اس بنا پر بدن ایک وسیلہ ہے اس لئے ہر بدن سے وسیلہ کے طور پر استفادہ کیا جاتا ہے اور یہ عین عدالت ہے ۔ [1][2]
[1] ملاصدرا، مبدأ و معاد، احمدبن محمد الحسینی اردکانی، عبد الله نورانی، ص 433- 436، مرکز نشر دانشگاهی، تهران، 1362 ھ ش؛ سبحانی، جعفر، الهیات و معارف اسلامی، ص 290- 297، انتشارات شفق، قم، طبع دوم، 1379 ھ ش.
[2] اس سلسلہ میں سوال : ۴۱۰۱ )سایٹ : ۴۳۶۲( کامطالعہ کرنا مفید ہوگا۔