Please Wait
6717
- سیکنڈ اور
اگر کوئی یہ اعتقاد رکھتا ھو کہ بعض افراد براہ راست اور خدا کی اجازت کے بغیر مخلوقات کے حساب و کتاب کی جانچ پڑتال کرسکتے ہیں اور ان کے لئے جزا یا سزا معین کرسکتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ یہ اعتقاد دینی ثقافت اور تعلیمات کے مطابق نہیں ہے- اس کے علاوہ یہ اعتقاد خداوند متعال کی توحید فاعلی کے بھی منافی ہے، لیکن اگر کسی کا یہ اعتقاد ھو کہ بعض خواص، بزرگ اور مخلص افراد، نہ کہ براہ راست، بلکہ اذن الہی سے مخلوقات کے حساب کی جانچ کرسکتے ہیں اور ان کے لئے جزا و سزا معین کرسکتے ہیں، تو یہ امر ممکن ہے اور شرعی اور عقلی طور پر بعید نہیں ہے-
مثال کے طور پر امام حسین {ع} جیسے افراد، جنھوں نے اپنی تمام توانائیاں خدا کے دین کے لئے صرف کی ہیں، اور اس راہ میں ہر قسم کی جانی و مالی قربانی دینے سے گریز نہیں کیا ہے ، اس میں کیا حرج ہے کہ، خداوند متعال اپنے بندوں کا حساب ان کو سونپے تاکہ عدل الہی کے مطابق فیصلہ سنائیں-
سوال کا جواب دینے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم سوال میں موجود ابہام پر بحث کریں- سوال میں پیش کیا گیا عدم امکان معلوم نہیں ہے کہ مقام ثبوت سے متعلق ہے یا مقام اثبات سے؟
بہ الفاظ دیگر، سوال میں یہ مشخص نہیں ہے کہ حقیقت میں خدا کے علاوہ کسی کے بندوں کے حساب کو اپنے ذمہ لینے پر اعتراض ھوا ہے یا یہ کہ اصل میں یہ کام ممنوع نہیں ہے، لیکن سوال شیعوں کے اماموں کی حیثیت اور مقام و منزلت کے بارے میں ہے؟ اس لحاظ سے ہم دونوں حصوں پر بحث کرکے اس کی تحقیق کریں گے:
ثبوت و امکان کی بحث میں ، دو احتمال قابل تصور ہیں:
الف- یہ کہ بعض افراد آزادانہ طور پر خدا کی اجازت کے بغیر { خداوند متعال کے ارادہ کے عرض میں} خدا کی مخلوقات کے حساب کی جانچ کرسکتے ہیں تاکہ ان کے لئے سزا یا جزا معین کر سکیں-
ظاہر ہے کہ جو شخص دینی تعلیمات اور ثقافت سے معمولی آشنائی رکھتا ھو، وہ اس قسم کے نظریہ کو قبول نہیں کرے گا، اس کے علاوہ، یہ امر خداوند متعال کی توحید فاعلی کے منافی ہے، اس لحاظ سے کوئی مومن اس بات پر یقین نہیں رکھ سکتا ہے-
ب- یہ کہ خواص اور بزرگوں اور مخلصین کی ایک تعداد، نہ کہ آزادانہ اور بلا واسطہ بلکہ اذن الہی سے {خداوند متعال کے ارادہ کے طول میں} خدا کی مخلوقات کے حساب کی جانچ کرے اور ان کے لئے جزا وسزا معین کرے- یہ ایک ممکن اور قابل قبول امر ہے اور اس کے لئے کسی قسم کا عقلی یا شرعی عدم امکان نہیں ہے-
لیکن اثبات و تحقق خارجی کی بحث میں ، ایک جامع اور کافی جواب حاصل کرنے کے لئے پہلے ضروری ہے کہ مندرجہ ذیل چند نکات پر غور کریں-
اولا: اس میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ پہلی نظر میں ، براہ راست تمام امور خداوند متعال کے ہاتھ میں ہیں اور کوئی مخلوق اس کام میں خدا کی شریک نہیں ہے-[1]
ثانیا: اگر چہ خداوند متعال اکیلے ہی تمام ممکن کام انجام دینے کی طاقت رکھتا ہے اور اس کے ارادہ سے ہر چیز متحقق ھوتی ہے،[2] لیکن خداوند متعال کی سنت اور طریقہ کار یہ ہے کہ امور ایک خاص راہ سے عبور کرتے ہیں، اس لحاظ سے کچھ کام اس کی مخلوقات کو سونپے جاتے ہیں ، اس بنا پر ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال کے لئے دنیا و آخرت میں کچھ رسول اور مامور ہیں کہ بہت سے امور انھیں سونپے گئے ہیں- مثال کے طور پر باوجودیکہ ہم بخوبی جانتے ہیں کہ موت و حیات خداوند متعال کے ہاتھ میں ہے، لیکن قرآن مجید میں خداوند متعال نے انسانوں کی جان لینے کے لئے ملک الموت[3] یا ایک دوسری جگہ پر فرشتوں[4] کی نسبت دی ہے-
حضرت زکریا کو یحیی کی بشارت دینے کے سلسلہ میں، باوجودیکہ خداوند بلاواسطہ یہ کام انجام دے سکتا تھا، لیکن ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ خداوند متعال اس کام کے لئے ایک فرشتہ کو مامور کرتا ہے اور فرماتا ہے:" تو ملائکہ نے انھیں اس وقت آواز دی جب وہ محراب میں کھڑے مصروف عبادت تھے کہ خدا تمھیں یحیی کی بشارت دے رہا ہے-"[5] اس قسم کے اور بھی موارد قرآن مجید میں موجود ہیں-
مذکورہ مطلب کے پیش نظر، اس عمل کا کچھ خاص افراد کے ذریعہ انجام پانا کوئی مشکل اور سخت کام نہیں ہے- اس میں کیا حرج ہے کہ خداوند متعال ان افراد کی قدر دانی کے لئے، کہ جنھوں نے اپنی پوری طاقت دین خدا کے لئے صرف کی ہے اور اس راہ میں امام حسین {ع} کے مانند اپنا سب کچھ لٹا دیا ہے ، اپنے بندوں کا حساب [6]ان کے ذمہ ڈال دے تاکہ وہ عدل الہی کے مطابق فیصلہ سنا دیں-
برادران اہل سنت کی کتابوں میں آیہ شریفہ:" یوم ندعو کل اناس بامامھم " کی تفسیر میں، پیغمبر اکرم {ص} اور علی {ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ پیغمبر اسلام {ص} نے فرمایا ہے:" قال یدعو کل قوم با مام زمانھم و کتاب ربھم و سنۃ نبیھم" ہر ایک کو اس کے امام زمانہ اور خدا کی کتاب اور اس کے پیغمبر کی سنت کے ساتھ بلایا جائے گا-[7]
اور حضرت علی{ع} سے نقل کیا گیا ہے کہ حضرت {ع} نے فرمایا:" ہر ایک کو اپنے امام زمانہ کے ساتھ بلایا جائے گا"-[8] اس لحاظ سے شیعوں کے اس اعتقاد میں کیا حرج اور مشکل ہے؟
قابل ذکر ہے کہ قرآن مجید میں خداوند متعال نے پیغمبر {ص} اور دوسرے مومنین کو دوسروں کے اعمال پر ناظر کے عنوان سے یاد کیا ہے-[9] اور ہماری روایتوں میں مومنین کی تفسیر ائمہ کی گئی ہے-[10]
اس آیہ شریفہ اور اس کے مشابہ آیات اور ان آیات کے ذیل میں بیان کی گئی روایات کے پیش نظر واضح ہے کہ جو شخص بندوں کے اعمال پر ناظر ھوگا اس سے شاہد یا حساب کرنے والے یا حاکم کے عنوان سے استفادہ کیا جانا چاہئے-
بعض روایتوں میں اس مسئلہ کی بعض حکمتیں بھی بیان کی گئی ہیں-
امام صادق {ع} سے ایک روایت میں آیہ شریفہ:" وعلی الا عراف رجال یعرفون" کی تفسیر کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ: ہر امت کا امام زمانہ، ان کا محاسبہ کرتا ہے اور ائمہ {ع} اپنے د[11]وستوں اور دشمنوں کو ان کے چہروں سے پہچانتے ہیں اور یہی اس قول خدا کے معنی ہیں کہ ارشاد فرماتا ہے:" وعلی الاعراف رجال یعرفون"[12]
قمی کی روایت کے مطابق حضرت امام صادق{ع} فرماتے ہیں:" ہر امت کا حساب و کتاب اس امت کے امام زمانہ کے ہاتھ میں ہے، اور ائمہ {ع} اپنے دوستوں اور دشمنوں کو پہچانتے ہیں، پس اس دن اپنے دوستوں کے اعمال ناموں کو ان کے دائیں ہاتھ میں دیں گے اور اپنے دشمنوں کے اعمال ناموں کو ان کے بائیں ہاتھ میں دیں گے، وہ گروہ { ان کے دوست} بہشت میں جائیں گے اور یہ گروہ { ان کے دشمن} جہنم میں داخل ھوں گے-"[13]
[1] کهف، 26.
[2] یس ۸۲،"اس کا امر صرف یہ ہےکہ کسی شے کے بارے میں یہ کہنے کا ارادہ کرلے کہ ھوجا اور وہ شے ھوتی ہے-"
[3] سجده، 11؛ اپ کہدیجئے کہ تم کو ملک الموت زندگی کی آخری منزل تک پہنچا دے گا جو تم پر تعینات کیا گیا ہے-
[4] انفال، 50، کاش تم دیکھتے کہ جب فرشتے ان کی جان نکال رہے تھے اور ان کے منھ اور پیٹھ پر مارتے جاتے تھے کہ اب جہنم کا مزہ چکھو-"
[5] آل عمران، 39.
[6] دينورى، ابو حنيفه احمد بن داود، اخبارالطوال، مهدوى دامغانى، محمود، ص 298 – 308، تهران، نشر نى، طبع چهارم، 1371ھ ش.ُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُُّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّّ
[7] سيوطى، جلال الدين، الدر المنثور في تفسير المأثور، ج4، ص 194، ناشر كتابخانه آيت الله مرعشى نجفى، قم، 1404 ھ.
[8] قرطبى، محمد بن احمد، الجامع لأحكام القرآن، ج11، ص 297، انتشارات ناصر خسرو، تهران، طبع اول، 1364 ش.
[9] توبه، 105، کہدیجئے: اپنے اعمال انجام دو ، خداوند متعال اور اس کا رسول اور مومنین، تمھارےاعمال کو دیکھ رہے ہیں ، اور عنقریب نہانی و آشکار کا علم رکھنے والے کی طرف پلٹا دئے جاو گے اور تم جو اعمال انجام دیتے ھو اس کی خبر دیتے ہیں"-
[10] کلینی، كافي، ج 1، ص 219، چاپ چهارم دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 هـ ش. کلینی، كافي، ج 1، ص 219، طبع چهارم دار الكتب الإسلامية، تهران، 1365 هـ ش.
[11] مجلسی، محمد باقر، بحارالأنوار، ج 27، ص 315، موسسه الوفاء، بیروت، 1404 هـ .
[12] قمی، علی بن ابراہیم، تفسیر القمی،ج۱ ،ص۲۳۱ ، دارالکتاب، قم ،طبع چہارم۱۳۶۷ھش