Please Wait
9586
اس سوال کے جواب میں مندرجھ ذیل نکات کی طرف اشاره کیا جا سکتا ھے :
۱۔ انسان میں یھ طاقت اور استعداد موجود ھے کھ خدا کے اوامر کو انجام دے کر کمالات کو حاصل کرسکے اور اس مقام تک پھنچے، جھاں سب کمالات اسے عطا ھوں اور وه انسان کامل بنے۔
۲۔ انسان کامل کے مقام تک پھنچنے کا مطلب یھ نھیں، کھ جو اس مقام تک پھنچے، اس میں مختلف حالات موجود نھ ھوں۔
ھمارے اور دیگر مسلمانوں کے نظریھ کے مطابق ، حضرت علی علیھ السلام مسلمانوں کے لئے نمونھ عمل اور اسوه حسنھ ھیں۔ وه انسان کامل کے مقام پر فائزھیں۔ لیکن ان کے حالات مختلف ھیں۔ یعنی کبھی پاؤں سے تیر کھینچنے کے درد کو محسوس نھیں کرتے ھیں، اور کبھی نماز کے دوران سائل کی آواز کو سنتے ھی اسے اپنی انگوٹھی عنایت کردیتے ھیں۔
۳۔ جو کچھه دوسرے نکتھ میں بیان ھوا۔ وه اس مطلب کو ظاھر کرتا ھے کھ امام علی علیھ السلام کے معنوی حالات پھلی صورت میں دوسری صورت کی بھ نسبت زیاده ھیں۔ لیکن اس سلسے میں اور بھی عمیق بیان موجود ھے۔ عرفاء کا نظریھ یھ ھے کھ انسان ایک ایسا مقام حاصل کرسکتا ھے جو ملک (دنیا ) اور ملکوت (عرش) کے درمیان جامع ھے۔ یعنی ملکوت اور خدا کی جانب توجھ کرنے کے دوران بھی ملکی اور دنیاوی مسائل کی جانب توجھ کرسکتا ھے۔ اس لحاظ سے وه حضرت علی علیھ السلام کی دوسری حالت کو پھلی حالت سے زیاده بلند مرتبھ جانتے ھیں۔
کیونکھ حضرت علی علیھ السلام بلند انسانی مقام کے حامل ھونے کے ساتھه ساتھه معرفتِ کامل سے بھی مشرف تھے۔ جسے عرفاء جمع سالم کے مقام سے تعبیر کرتے ھیں۔ اور حضرت علی علیھ السلام کی نظر خداپر بھی اور ما سوی اللھ پر بھی تھی۔ یعنی اس کے باوجود که وه خدا کے ساتھه رابطھ میں تھے ، غیر خدا سے بھی رابطھ میں تھے البتھ اس کا مطلب یھ نھیں کھ وه خدا سے غافل تھے اور انھوں نے سائل کی طرف توجھ کی ۔ بلکھ خدا کی جانب ان کی توجھ اتنی کامل تھی کھ وه اس حال میں بھی پورے عالم کو دیکھه رھے تھے ۔ اور اسی لئے یھ حالت اس حالت سے بلند تھی جس حالت میں حضرت امام علی علیھ السلام صرف خدا اور معنویت میں غرق تھے اور پاؤں سے تیر نکالنے کو محسوس نھیں کیا ۔
یھاں پر پھلے ایک مقدمھ کا ذکر کرنا ضروری ھے:
۱۔ انسان کے اندر یھ صلاحیت موجود ھے کھ خدا کے بیان کرده احکام کو انجام دیکر،مختلف کمالات کو حاصل کرسکے۔ اور ایک ایسے مقام تک پھنچ سکے، جھاں وه پورے کمالات حاصل کرکے انسان کامل بن سکتا ھے۔
۲۔ دوسرانکتھ یھ کھ ائمھ اطھار علیھم السلام کا جامع کمالات اور انسان کامل ھونا اس بات کا متقاضی ھے کھ انکی زندگی ایک طرح سے دوسرے لوگوں کے مانند ھو، یعنی وه بھی دوسرے لوگوں کے مانند عام اور سماجی شرائط میں زندگی گزاریں ، اور چونکھ دنیا میں رھنے کے شرائط ایک جیسے نھیں ھیں ، کبھی امن برقرار ھے اور کبھی بے امنی ۔۔۔۔ طبیعی طور پر ان کا طرز زندگی بھی ان شرائط کی نسبت سے ھی ھوتا ھے۔ جیسے کھ ایک مسافر کو قصر نماز پڑھنی چاھئے یا جنگ کے دوران نماز خوف پڑھنی چاھئے۔ پس انسان کامل کے مقام تک پھنچنے کا یھ مطلب نھیں کھ اس کمال تک پھنچنے والے انسانوں کے مختلف حالات نھیں ھیں اور انکا مادی اور دنیاوی امور سے کوئی لین دین نھیں ھے۔
اس مقدمھ کو مد نطر رکھه کر ، مذکوره سوال کے جواب میں یوں بیان کیا جاسکتا ھے، کھ یھ دو واقعے ، ، حضرت امیر المؤمنین جیسے انسان کامل کے دو مختلف حالات کو بیان کرتے ھیں۔
آیۃ اللھ شھید مطھری نے اس اشکال کے بارے میں کھا ھے اس اشکال کو بعض قدماء جیسے فخر الدین رازی سے لیا گیا ھے۔ وه کھتے ھیں کھ علی علیھ السلام نمازکے دوران اتنا غرق ھوتے تھے کھ اپنے گردو پیش پر ان کی توجھ نھیں رھتی تھی آپ کس طرح کھتے ھیں کھ انھوں نے نماز کے دوران اپنی انگوٹھی سائل کو دی؟ اس کا جواب یھ ھے کھ :
اولاً: امام علی علیھ السلام نمازمیں غرق ھوئے تھے اس میں کوئی شک نھیں لیکن ایسا بالکل نھیں کھ اولیاء اللھ کے سب حالات ھمیشھ ایک جیسی ھوتے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم کے بارے میں بھی دو طرح کے حالات نقل ھوے ھیں۔ کبھی وه نماز کی حالت میں ایسی مجذوبیت رکھتے تھے کھ آنحضرت (ص) حتی کھ اذان کو مکمل کرنے کی طاقت نھیں پاتے تھے۔ اسی لئے فرماتے تھے کھ " ارحنا یا بلال" جلدی کرو اے بلال ! ھم نماز شروع کرنا چاھتے ھیں۔ کبھی ایسا بھی ھوتا تھا کھ وه نماز کی حالت میں سجده میں سر رکھتے تھے اور حضرات حسنین علیھما السلام ان کے دوش پاک پر سوار ھوتے تھے اور آنحضرت صبر کرکے اپنا سجده طولانی کرتے تھے تاکھ بچے ان کے شانوں سے اتر جائیں ۔ ایک مرتبھ آنحضرت صلی اللھ علیھ و آلھ وسلم نماز کیلئے کھڑے تھے کھ کسی نے تھوک پھینکا۔ آنحضرت (ص) ایک قدم آگے بڑھے اور اپنے پاؤں سے اسے ڈھانپا پھر لوٹ آئے ، فقھاء نے اس واقعھ سے نماز کے دوران بھت سارے مسائل کا انکشاف کیا ھے ، علامھ سید بحر العلوم اس سلسلے میں فرماتے ھیں:
و مشی خیر الخلق فی المحراب یفتح منھ اکثر ابواب
( خدا کے بھترین مخلوق محراب میں گئے،جس سے بھت سارے فقھی ابواب کھل گئے)
یعنی پیغمبر اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم کا نماز کی حالت میں دو قدم آگے تشریف لے جانا یھ مسئلھ بھت سارے مسائل کو حل کرتا ھے کھ نماز کی حالت میں غیر نماز عمل کی کونسی مقدار جائز ھے؟ اس کے مختلف حالات ھیں۔ [1]
شیخ صدوق ( رح) نے " علل الشرایع " میں اور " علامھ مجلسی" نے بحار الانوار میں لکھا ھے ایک دن آنحضرت (ص) نماز پڑھ رھے تھے اور اصحاب ان کی اقتدا کررھے تھے ، کسی بچے نے رونا شروع کیا آنحضرت (ص) نے جلدی ھی اپنی نماز مکمل کی ، نماز کے بعد اسکی وجھ پوچھی گئی ، آنحضرت (ص) نے فرمایا: " او ما سمعتم طرخ الصبی " کیا تم لوگوں نے بچے کی فریاد نھیں سنی ، میں نے نما زکو جلدی مکمل کیا تا کھ بچے کی ماں جلدی سے بچے کو چپ کرائے۔ [2]
امام سجاد علیھ السلام کی عبادت کے وصف میں منقول ھے کھ ایک رات ، امام سجاد کا ایک فرزند اوپر سے گرا اور اس کا ھاتھه ٹوٹ گیا بچے نے رونا شروع کیا ، سب ھمسایھ جمع ھوئے لیکن امام سجاد عبادت میں ھی مشغول رھے، اور اس حادثھ کے باعث لوگوں کے شور کی طرف متوجھ نھیں ھوئے صبح کے وقت حضرت امام سجاد علیھ السلام نے دیکھا کھ ان کے بچے کا بازور بندھا ھوا ھے ، اس کی وجھ دریافت کی گئی ، تو کھا گیا، کل رات ایسا حادثھ ھوا ھے۔ [3]
ایک مرتبھ حضرت امام زین العابدین علیھ السلام گھر میں نماز پڑھ رھے تھے ، اتنے میں گھر کے کونے سے آگ نمودار ھوئی ، لوگ چلانے لگے " یابن رسول اللھ النار النار " یعنی اے فرزند رسول اکرم صلی اللھ علیھ وآلھ وسلم ، آگ ، آگ۔ لیکن حضرت امام علیھ السلام اسی طرح نماز میں مصروف رھے اور لوگوں کے شورکی جانب متوجھ نھیں ھوئے ، جب آگ بجھادی گئی امام سجاد نے اپنا سر سجده سے اٹھایا اور اطمینان سے شورکی طرف توجھ کئے بغیر اپنی نماز مکمل کی ۔ [4]
پس اولیای الھی کے مختلف حالات ھیں، کبھی درمیانی[5] حالات میں ھوتے ھیں اور کبھی وه عالم ملکوت اور خدا کی ذات میں محو ھوتے ھیں کھ خدا کی ذاتِ کبریا کے علاوه کچھه اور مشاھده نھیں کرتے ، اور جو کچھه ان کے گرد وپیش میں واقع ھوجاتا ھے۔ اس کی طرف توجھ نھیں کرتے ھیں، حتی کھ اپنے بدن سے بھی غافل ھوتے ھیں۔ جیسا کھ ان کے ظاھری احوال ، خدائی عشق اور عرفان کے جذبے سے اپنی کارکردگی محو کر بیٹھتے ھیں، اور جو کچھه انکے بدن سے متعلق ھے اس کا احساس نھیں کرتے ، اور حضرت علی کے پاؤں سے تیر کا باھر نکالنا بھی ان ھی موارد میں سے ھے۔ [6]
البتھ اس اشکال کا ایک اور جواب دیا گیا ھے وه یھ کھ:
ائمھ طاھرین علیھم السلام کے اھم امتیازات میں سے ایک یھ ھے کھ وه اپنی زندگی کے سب شرائط میں خداوند متعال کی ذات میں فنا ھوتے ھیں ، اور خدا کی ذات کے علاوه کسی چیز کو نھیں چاھتے ، سماجی اور زمانی و مکانی شرائط کی جانب توجھ کرنا بھی خداوند متعال کی ذات کےلئے ھی ھے اور اس کے تقرب کیلئے ایک وسیلھ ھے وه مُلک (دنیا ) اور مَلَکُوت ( آخرت ) کے بھ یک وقت جامع ھیں ، اگر آخرت کی جانب ان کی توجھ رھے تو وه دنیا سے پیچھے نھیں رھتے ھیں اور اگر وه دنیاوی کاموں میں مصروف رھیں تو آخرت سے ھرگز غافل نھیں ھیں۔
اسی لئے عرفاء کی نظر میں جس حالت میں حضرت امیر المومنین علیھ السلام اپنی انگوٹھی سائل کو دیتے ھیں ان کی یھ حالت نماز میں اس حالت سے بلند تر تھی جس میں ان کے پاؤں سے تیر نکالا گیا اور وه متوجھ ھی نھیں ھوئے۔ اسکی وضاحت کیلئے یھ بات کھنا ضروری ھے کھ عرفا انسان کے سیر وسلوک کیلئے چار سفر کا ذکر کرتے ھیں:
ا۔ مخلوقات سے حق تعالی کی جانب سفر۔
۲۔ حق تعالی سے حق تعالی کی جانب سفر ( حق تعالی کے ساتھه)
۳۔ حق تعالی سے مخلوقات کی جانب سفر (حق تعالی کے ساتھه)
۴۔ مخلوقات سے مخلوقات کی جانب سفر ( حق تعالی کے ساتھه)
پھلے سفر میں سالک اپنی ذات کو خداوند متعال میں فنا کردیتا ھے لھذا اس کا وجود حقانی ھوتا ھے اور اس پر " محو" کی حالت عارض ھوتی ھے۔
دوسرے سفر میں سالک خداوند متعال کے افعال اور صفات میں فنا ھوتا ھےا ور تیسرے سفر میں " محو" کی حالت ختم ھوتی ھے اور " صحو تام" (کامل بیداری)کی حالت حاصل ھوتی ھے ، وه بقاء اللھ سے باقی ھوتا ھے اور جبروت ، ملکوت اور ناسوت کے عالَموں کا سفر کرتا ھے ان سب عالَموں کو ان کے اعیان (حقائق) کے ساتھه مشاھده کرتا ھے ، اور خداوند متعال کی ذات ، صفات اور اسکے معارف کی خبر دیتا ھے۔
چوتھے سفر میں وه مخلوقات اور ان کے آثار ، لوازم ، منافع ، نقصانات (دنیاوی اور اخروی) اور ان سب کا رجوع خداکی جانب اور ان کے رجوع کی کیفیت کو بھی دیکھتا ھے اور ان سب مراحل سھ گانھ میں حق کے ساتھه ھے ، کیونکھ اس کا وجود حق کی طرف سے ھے اور کسی چیز کی جانب توجھ اسے حضرت حق کی توجھ سے نھیں روکتی۔[7]
انگوٹھی سائل کو دینا ، نماز کی حالت میں سیر و سلوک کے چوتھے مرحلے سے ھم آھنگ ھے ۔
دوسری جانب عرفا کھتے ھیں انسان کمال تک پھنچنے میں " مقام جمع" کی حالت تک پھنچتا ھے اور اسکی بھی دو قسمیں ھیں:
الف ) جو لوگ عالَم مُلک اور ملکوت کو جمع سالم کی طرح جمع کرتے ھیں۔
ب) جو لوگ ان دو کو جمع مُکَسَّر (ٹوٹے جمع) کی طرح جمع کرتے ھیں ، یعنی اگرما بعد الطبیعیات کے معارف پر ایک نظر کریں تو وه عالم طبیعت اور عالم ناسوت کے احکام سے پیچھے رھیں گے اور اسی حال کے تقاضه کے مطابق جس پر وه نظر کرتے ھیں گفتگو کرتے ھیں اور پورے احوال کو نظر میں نھیں رکھتے ھیں اور اسی لئے وه شطحیات (فضولیات ) کھتے ھیں۔[8]
ائمھ اطھار علیھم السلام چونکھ معصوم ھیں " لا یشغلھ شان عن شان " (یعنی انھیں خدا کی شان کے علاوه کوئی چیز بھی اپنے ساتھه مشغول نھیں رکھتی ) کے مطابق وه اسی عالم میں جب طبیعی حالت میں ھوتے ھیں مابعد طبیعیات پر انکی نظریں جمی رھتی ھیں اور جب ما بعد طبیعیات میں ھوتے ھیں، طبیعت پر بھی اپنی نظریں جمائے رکھتے ھیں۔ اوروه " عال فی دنوه و دان فی علوه" ( وه اپنی بلندی میں بھی زمین پرھی ھیں اور زمین پر ھونے کے باوجود وه بلندیوںپر ھوتے ھیں) کا مظھر ھیں ۔ خلاصھ ، یھ لوگ جمع سالم کرتے ھیں، اسی لے ان سے کوئی ایسا کلام صادر نھیں ھوتا جو محکمات اولیھ کے ساتھه ساز گار نھ ھو، یعنی وه شطحیات (مست بیانی ) نھیں کھتے ھیں۔ [9]
جس رکوع کی حالت میں حضرت علی علیھ السلام نے اپنی انگوٹھی سائل کو دیدی[10] وه حالت اس جمع سالم کی حالت کو بیان کرتی ھے ، یعنی جس حال میںوه خدا کے ساتھه مشغول ھیں ان کی نظر عالم طبعیات پر بھی ھے۔ ایسا نھیں کھ وه خدا سے غافل ھیں اور فقیر کی طرف توجھ کی ھے بلکھ ان کی کامل توجھ خداکی جانب ھے لیکن اس حال میں بھی پورے عالم کو دیکھتے ھیں۔
تیسری تعبیر کے مطابق: خدا میں جاذبیت کبھی کامل ھے، اور کبھی ناقص اور ناقص جاذبیت اس وقت ھے کھ انسان خدا میں محو اور غرق ھوتا ھے اور اس کےلئے صحو اور بیداری نھیں۔
آیۃ اللھ شھید مرتضی مطھری ( رح) اس سلسلے میں فرماتے ھیں: اگر یھ جاذبیت کامل ھوتواس حالت میں باز گشت ھے۔ یعنی کوئی شخص جس وقت خدا کی طرف مشغول ھے تو طبیعیات پر بھی اس کی نظریں ھیں ، اس کی مثال خلع بدن[11] یعنی روح کو اپنے بدن سے الگ کرنے، کی مانند ھے کھ جو لوگ اس مرحلھ تک پھنچتے ھین ، کچھه لمحات کیلئے خلع بدن کرسکتے ھیں۔ لیکن ایسے بھی افراد موجود ھیں جو ھر حال میں خلع بدن کی حالت میں ھیں اگر چھ ھمارے درمیان ھی بیٹھے ھوں، وه خلع بدن کے حال میں ھیں۔ اور حضرت علی علیھ السلام اس کے کامل مصداق ھیں ، جب انھوں نے اپنی انگوٹھی سائل کو دی اس وقت جاذبیت کامل کی حالت میں تھے۔
دوسرے بیان کے مطابق ، انسان کامل ایک ایسے درجے پر پھنچتا ھے کھ پورا عالم اس کے اعضا و جوارح کے مانند بن جاتا ھے ، [12] اور اس حالت میں اس کے وجودی مرتبے اور جو فرض خدا کی جانب سے ھے، اس بات کامتقاضی ھے کھ پورے عالم کی طرف توجھ کرے، اور ان سب درجات کو خدا کی ذات میں فنا ھونے کے ذریعے حاصل کرلے۔ پس نماز میں یھ مختلف حالات نھ صرف آپس میں متناقض نھیں ھیں بلکھ آپس میں ھم آھنگ ھیں اور ایک دوسرے کی تائید کرتے ھیں۔ عرفاء کے اس بیان کا راز ، کھ جس حالت میں حضرت امیر المؤمنین علیھ السلام کے بدن سے نماز کی حالت میں تیر نکالا گیا اور وه متوجھ نھیں ھوئے یھ حالت کم ھے اُس حالت سے جب انھوں نے اپنی انگوٹھی سائل کو عطا کی۔
[1] مطھری ، مرتضی ، امامت و رھبری ، س ۱۸۰ اور ۱۸۱۔
[2] بحار الانوار ، ج ۸۸ ص ۹۳۔
[3] منتھی الامال ج ۲ ص ۱۰۔
[4] ایضا
[5] جیسے کھ حضرت یعقوب علیھ السلام اور حضرت یوسف علیھ السلام کا واقعھ ھے ۔ حضرت یوسف اپنے بھائیوں کے ظلم سے کنعان کے کنویں میں گرا دئے گئے۔ لیکن حضرت یعقوب پیغمبر اس حادثھ کی جانب متوجھ نھیں ھوئے ، اور بھت سالوں کے گزرنے کے بعد حضرت یوسف علیھ السلام مصر کے بادشاه بنے اور ان کے بھائی ان کے پاس چلے آئے اور مصر سے ان کا کرتا باپ کے لئے سوغات لے گئے ، قرآن مجید کا ارشاد ھے: "و لما فصلت العیر قال ابوھم انی لاجد ریح یوسف لو لا ان تفندون" اب جو قافلھ مصر سے روانھ ھوا تو ان کے پدر پزرگوار نے کھا کھ میں یوسف کی خوشبو محسوس کررھا ھوں اگر لوگ مجھے سٹھیایا ھو نھ کھیں۔ (سوره یوسف / ۹۴)
مشھور شاعر سعدی ان دو واقعات کو آپس میں قیاس کرتا ھے اور کھتا ھے یعقوب کس طرح متوجھ نھیں ھوئے کھ حضرت یوسف کو چاه کنعان میں ڈالا گیا ھے لیکن یوسف کی بو کو مصر کو محسوس کیا۔
یکی پرسید از آن گمگشتھ فرزند کھ ای روشن روان پیر خرد مند!
زمصرش بوی پیراھن شنیدی ولیکن چاهِ کنعانش ندیدی
بگفتا حال ما برق جھان است گھی پیدا و دیگر گھ نھان است
گھی بر طارم اعلی نشینیم گھی ھم پست پای خود نبینیم ( کلیات سعدی ص ۵۳)
http:// www. Imamali net.net / peer? Ertebat/ e14/ertebat 1. htm[6]
[7] ۔ حکیم الھی قمشھ ای اصفھانی ، محمد رضا ، حاشیھ اسفار ج ۱ ص ۱۳،تا ۱۶ با تلخیص۔
[8] شطح لغت میں اس چیز کو کھتے ھیں ' جو کسی برتن سے ابلتے وقت چھلک جائے " اور اس کے دوسری معنی اس لفظ کے ھیں جس کے ذریعے بکری کو ھانکتے ھیں۔ اس کے ایک اور معنی احکام اور قوانین سے خارج ھونا ھیں۔ لیکن تصوف کی اصطلاح میں ان جملوں کو کھتے جس کا ظاھر کفر آمیز اور دین کے مبنی کے خلاف ھو۔ اور اھل عرفان کی زبان پر وجد ، ذوق اور مستی کی حالت میں ،اور جب وه حال میں ھوتے ھیں اور اپنے آپ سے بے خود ھوتے ھیں کھتے ھیں انھیں شطحیات کھتے ھیں ، وه اس کے الفاظ کو کھتے وقت اپنی حالات سے غافل ھوتے ھیں اور کامل طور پر خداکی ذات میں محو اور فانی ھوتے ھیں۔ اس طرح ان الفاظ کا ظاھر کفر آمیز ھونا سبب بنا ھے کھ مذھبی اور دیندار افراد اس طرح کے الفاظ کو تصور کرنے سے بھی دوری کرتے ھیں لیکن عرفا ان جملوں کی قبولی کیلئے تاویلات بیان کرتے ھیں۔
[9] ترجمھ رسالۃ الولایۃ ، گفتار آیۃ اللھ جوادی آملی۔
[10] سوره مائده ، / ۵۵۔
[11] مطھری ، مرتضی ، امامت و رھبیر ، ص ۱۸۱
[12] استاد حسن زاده آملی نھج الولایۃ میں فرماتے ھیں ؛ نفس رحمانی کو حقیقت محمدی بھی کھتے ھیں کیونکھ مزاجوں کا متعادل ، نفس مکتفیھ (کفایت شعار نفس) ھے ۔ درجات اور مقامات کے ارتقاء اور بلندی کے لحاظ سے ، وه صادر اول کا عدیل (ھمراه ) ھے اور اگرچھ خلقت اور حدوث کے لحاظ سے باقی جسمانی عناصر کے مانند ھے لیکن عدیل مذکور سے بلند تر وجود منبسط سے وحدت وجودی پاتا ھے۔ اور اس مقام پر وجودی کلمات اس کے حقیقت کی شان بنتے ھیں۔