Please Wait
کا
5794
5794
ظاہر کرنے کی تاریخ:
2011/09/22
سوال کا خلاصہ
کیا، غررالحکم جیسے قابل اعتبار منابع سے حدیث کو مراجع کا ذکر کئے بغیر نقل کرنے میں کوئی حرج ھے؟
سوال
ایک مدت سے میرے ذهن میں ایک سوال پیدا ھوگیا ھے:
فرض کریں ھم علمائے متاخرین کی کس کتاب سے کسی مطلب یا روایت کی طرف رجوع کرتے ھیں، مثال کے طور پر مذکوره مولف نے اس روایت کو کتاب "غررالحکم" یا دوسری کسی اصلی کتاب سے نقل کیا ھو۔ میں خود اصلی کتاب کی طرف رجوع کرتا ھوں، مذکوره باب کو دیکھ کرمربوط حدیث کو نقل کرتا ھوں۔ بالآخر اس حدیث اور روایت کو پهلے منبع کا ذکر کئے بغیر بلا واسطه اپنے مقاله یا کتاب میں درج کرتا ھوں۔ تو مولفین کے لئے معنوی حقوق کے محفوظ ھونے کے پیش نظر کیا کوئی حرج ھے که میں اس حدیث یا روایت کو نقل کرتے ھوئے واسطوں کو حذف کردوں اور اشاره کے بغیر اس کے اصلی منبع کو بیان کروں؟ اس کے پیش نظر که میں کبھی یه خیال نھیں کرتا تھا که مذکوره روایت اس اصلی منبع میں موجود ھوگی۔ مثال کے طور پر مندرجه ذیل حدیث: قال أمیر المؤمنین علی علیه السلام: اَلْمُؤمِنُ مَنْ وَقى دینَهُ بدُنیاهُ وَ الْفاجِرُ مَنْ وَقى دُنیاهُ بِدینِهِ. غررالحکم، ح 1546.
فرض کریں ھم علمائے متاخرین کی کس کتاب سے کسی مطلب یا روایت کی طرف رجوع کرتے ھیں، مثال کے طور پر مذکوره مولف نے اس روایت کو کتاب "غررالحکم" یا دوسری کسی اصلی کتاب سے نقل کیا ھو۔ میں خود اصلی کتاب کی طرف رجوع کرتا ھوں، مذکوره باب کو دیکھ کرمربوط حدیث کو نقل کرتا ھوں۔ بالآخر اس حدیث اور روایت کو پهلے منبع کا ذکر کئے بغیر بلا واسطه اپنے مقاله یا کتاب میں درج کرتا ھوں۔ تو مولفین کے لئے معنوی حقوق کے محفوظ ھونے کے پیش نظر کیا کوئی حرج ھے که میں اس حدیث یا روایت کو نقل کرتے ھوئے واسطوں کو حذف کردوں اور اشاره کے بغیر اس کے اصلی منبع کو بیان کروں؟ اس کے پیش نظر که میں کبھی یه خیال نھیں کرتا تھا که مذکوره روایت اس اصلی منبع میں موجود ھوگی۔ مثال کے طور پر مندرجه ذیل حدیث: قال أمیر المؤمنین علی علیه السلام: اَلْمُؤمِنُ مَنْ وَقى دینَهُ بدُنیاهُ وَ الْفاجِرُ مَنْ وَقى دُنیاهُ بِدینِهِ. غررالحکم، ح 1546.
دیگر زبانوں میں (ق) ترجمہ
تبصرے